مامون عباسی

ویکی شیعہ سے
(عبداللہ مامون سے رجوع مکرر)
مامون عباسی
کوائف
نامعبد اللہ بن ہارون الرشید
لقبمأمون عباسی
محل زندگیایران
حکومت
سمتساتواں عباسی خلیفہ
سلسلہعباسیان
محدودہجہان اسلام
آغاز198ھ
انجام218ھ
معاصرامام رضاؑ ، امام جوادؑ
اہم اقداماتامام رضاؑ کی ولایت عہدی
قبل ازمعتصم عباسی
بعد ازابوعبدالله محمد امین


مَأمُون عباسی، ابو العباس عبد اللہ (170-218 ھ) ہارون رشید کے بیٹے اور سلسلہ عباسی کے ساتویں خلیفہ تھے۔ جو اپنے بھائی محمد امین کو شکست اور قتل کے بعد سنہ 198 ہجری میں سلطنت پر پہنچا اور اپنے ایرانی وزیر فضل بن سہل کے مشورے سے "مرو" کو اپنی حکومت کا دارالخلافہ بنایا۔ اس کی حکومت کا ابتدائی دور اپنے بھائی امین کے ساتھ نزاع اور علویوں کے پے در پے قیام کی وجہ سے متزلزل رہا۔ اسی لئے اس نے اپنی حکومت کے استحکام کے لیے امام رضا (ع) کو مدینہ سے مرو بلایا اور علویوں سے اظہار محبت کے بہانے شروع میں خلافت کو ہی امام رضا (ع) کو دینے کی پیشکش لیکن جب امام نے اس کی تجویز کو قبول نہیں کیا تو اس نے ولایت عہدی کے منصب کو قبول کرنے پر مجبور کیا۔

یوں علویوں کی مزاحمتی تحریکوں کو ٹھنڈا کرنے کے بعد اس نے اپنی سلطنت کو توسیع دینے کی خاطر دار الخلافہ کو "مرو" سے بغداد منتقل کیا اس دوران لوگوں میں امام رضا (ع) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ہو کر اس نے امام کو شہید کر دیا۔

مأمون کو پیغمبر اکرم (ص) کے بعد امام علی (ع) کی برتری کے قائل ہونے، متعہ کو جائز سمجھنے، امام رضا (ع) کو ولایتعہدی دینے اور فدک کو اولاد فاطمہ (س) کی طرف منتقل کرنے کی وجہ سے شیعوں کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سے مأمون کو معتزلہ کی طرف داری بطور خاص قرآن کے مخلوق ہونے کے مسئلے میں ان کی حمایت اور شیعہ قاضیوں اور اعلی حکومتی عہدیداروں سے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار لینے کی وجہ سے اسے معتزلی سمجھا جاتا ہے۔

حسب و نسب

عبداللہ ملقب بہ مأمون، ہارون رشید کا بیٹا اور بنی عباس کا پانچواں خلیفہ تھا ان کا تعلق خاندان قریش اور بنی‌ ہاشم سے تھا۔ شب جمعہ ربیع الاول کی 15 تاریخ سنہ 170 ہجری قمری کو بغداد میں پیدا ہوا۔[1] ان کی والدہ ایک ایرانی خاتون (دوسری نقل کے مطابق کنیز) مراجل بادغیس (شمال مغربی افغانستان) کی رہنے والی تھی۔[2] استاذیس جس نے منصور عباسی کے دور میں قیام کیا مراجل کا والد تھا۔[3] مأمون کا ماموں جس کا نام غالب تھا، نے مأمون کے کہنے پر اس کے وزیر اور لشکر کے سپہ سالار فضل بہ سہل کو قتل کیا۔[4]

خلافت

مأمون بنی عباس کا ساتواں خلیفہ تھا جس نے اپنے بہائی امین عباسی کو ایک نزاع کے بعد شکست دے کر خلافت کو حاصل کیا۔

مأمون کی خلافت پر پہنچنے کی کیفیت

مأمون اپنے بھائی امین کے ساتھ نزاع اور اسے قتل کرنے کے بعد خلافت تک پہنچتا ہے۔ اس سلسلے میں مأمون نے اپنے وزیر فضل بن سہل کے مشورہ سے طاہر بن حسین ملقب بہ "ذوالیمینین" کی سرکردگی میں ایک لشکر "علی بن عیسی" کے مقابلے میں بھیجا جو "امین" کی فوج کا سپہ سالار تھا۔ امین کی فوج نے شہر ری میں علی بن عیسی کے قتل ہونے کے بعد سنہ ۱۹۵ ہجری قمری کو شکست کھائی۔ مأمون کی فوج نے آخر کار سنہ ۱۹۸ ہجری قمری کو شدید جنگ کے بعد بغداد پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد امین کو قید پھر قتل کیا گیا۔ امین کی خلافت کے اختتام پر مأمون نے سنہ ۱۹۸ ہجری قمری کو مرو میں باقاعدہ اپنی خلافت کا اعلان کیا اور فضل بن سہل کو اپنا وزیر منتخب کیا۔[5]

بعض محققین ان دو بھائیوں کے جھگڑے کی دو علتیں بیان کرتے ہیں: 1 - ولایت عہدی کا چیلنج، 2 - عربوں اور ایرانیوں کی پارٹی بازی[6]

مأمون کے سپاہیوں نے کئی مرحلوں میں بالترتیب شہر ری، ہمدان اور کئی دوسرے شہروں میں امین کی فوج کو شکست دیا۔ آخر کار بغداد پر قبضے اور امین کے مارے جانے کے بعد مأمون، بنی عباس کے ساتویں خلیفہ بن گیا۔
  • الف: مأمون کی ولایتعہدی کا چیلنج

امین اور مأمون کے درمیان جھگڑے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ولایت‌ عہدی کا مسئلہ تھا۔ جب ہارون رشید نے اپنے چھوٹے بیٹے امین کے ہاتھوں ولایت عہدی کی بیعت کی اور مأمون کو امین کا نائب بنا کر صوبہ خراسان کا گورنر مقرر کیا تو اسی وقت سے ہی ان دو بھائیوں کے درمیان اختلاف کی بیج بوئی گئی جس کی وجہ سے خلافت کی مستقبل کو لاحق مسائل اور داخلی جنگ چھڑنے کے امکانات نے ہارون کو سخت پریشان کر دیا۔ ان وجوہات کی بنا پر ہارون نے ان دونوں بھائیوں کو خانہ کعبہ میں ایک عہد و پیمان پر دستخط کروایا جس میں مأمون کی ولایت عہدی اور ایک دوسرے کے دائرہ اختیارات میں دخالت نہ کرنے پر تاکید کی گئی تھی اور اس عہد و پیمان کو تقدس بخشنے کیلئے اس کے ایک نسخے کو خانہ کعبہ میں ہی آویزاں کیا گیا۔[7]

ہارون کی وفات اور امین کے خلیفہ بننے کی بعد امین نے بعض ایسے اقدامات اٹھائے جس سے مذکورہ عہد و پیمان کو نقض کرنے کا شائبہ پیدا ہو سکتا تھا۔ امین کی طرف سے اپنے دو بھائی مأمون اور مؤتمن کے قلمرو حکومت میں اپنا نفوذ پیدا کرنے کی کوشش کرنا، اپنے بیٹے موسی کو اپنا نائب منتخب کرنا اور خانہ کعبہ میں آویزاں عہد و پیمان کو آگ لگانا اس عہد و پیمان کی واضح مخالفت اور مأمون کے ساتھ اعلان جنگ تھا۔[8]

  • ب: عربوں اور ایرانیوں کا آپس میں جھگڑا

فضل بن سہل جو ایرانی برمکیوں کے نفوذ کے دور میں بنی عباس کی حکومت میں میں شامل ہو گیا تھا اور ایک طرح سے مأمون کا مربی اور بعد میں اس کا وزیر بن گیا تھا، نے اپنی سب سے بڑی آرزو یعنی دار الخلافہ کو مرو سے بغداد منتقل کرنا اور اور خراسان کی عظمت کو بڑھانے کیلئے خلافت پر مأمون کے حق کو محفوظ رکھنے کیلئے جد و جہد شروع کیا۔[9] دوسری طرف سے فضل بن ربیع جو ہاروں اور بعد میں امین کا وزیر تھا اور ایرانی برمکیوں کی وجہ سے ہاروں کی نسبت اس کے دل میں کدورت پیدا ہو گئی تھی اور ایرانیوں کو امین کے دربار سے باہر کرنے میں کامیاب بھی ہو گئے تھے، نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا اور بنی عباس کی حکومت میں عربوں کا نفوذ بڑھانے اور ایرانیوں کا نفوذ کم کرنے کی کوشش کی۔ یوں اس جھگڑے نے عوامی شکل اختیار کی اور جتنا عربوں نے امین کی حمایت کی اتنا ہی ایرانیوں نے مأمون کی حمایت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی کیوںکہ آخر مأمون ماں اور بیوی دونوں حوالے سے ایرانی شمار ہوتا تھا۔[10]

بھائی کا قتل

آخر کار امین اور مأمون کی سپاہیوں کے درمیان شہر ری اور ہمدان میں پے در پے جھنگ چھڑ گئی جس میں ہر وقت امین کے سپاہیوں کو شکست ہوئی جس کے نتیجے میں بغداد پر قبضہ ہوا اور امین بھی مارا گیا۔[11]

مأمون کا علویوں کے ساتھ رابطہ

عباسی خلفاء کو در پیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ پورے عالم اسلام میں ان کے خلاف علویوں کی تحریک تھی۔ اہل تشیع جو منصور عباسی کے دور حکومت میں ہمیشہ حکمرانوں کی ظلم و بربریت کا شکار ہوئے تھے[12]، نے موقع پاتے ہی حکومت وقت کے خلاف تحریک چلانا شروع کی لیکن اکثر مواقع میں ان کی تحریک شکست سے روبرو ہوئی۔ سنہ 193-197 ہجری قمری کے درمیان امین اور مأمون کے درمیان شروع ہونے والا جھگڑا عباسی حکومت کی تضعیف اور حجاز، یمن اور عراق وغیرہ میں علویوں کی تحریکوں میں اضافہ کا سبب بنا۔[13]

مأمون کے دور میں علویوں کی تحریکوں کا جال۔ پہلی اور اہم ترین تحریک قیام‌ ابن‌ طباطبا تھا جو زیدی مذہب سے تعلق رکھتا تھا اس تحریک کی کمانڈ کوفہ کے باشندے ابو السرایا کر رہے تھے۔ یہ قیام تدریجا اسلامی خلافت کے دوسرے مناطق؛ حجاز، مکہ اور یمن میں بھی سرایت کر گئی جس نے ایک مدت تک عباسی حکومت کو متزلزل کیا۔

مأمون کے دور میں علویوں کی تحریکیں

علویوں نے مأمون کے دور خلافت میں کئی تحریکیں چلائیں۔ ان میں سے اکثر تحریکیں زیدی علویوں کی سرکردگی میں چلائی گئیں۔ ان تحریکوں میں سب سے اہم تحریک جو ایک مستقل حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی وہ تحریک ہے جسے ابن‌ طباطبا نے کوفہ میں چلائی۔ بعض مورخین کے مطابق اس تحریک نے جسے سنہ ۱۹۹ ہجری قمری میں چلائی گئی، بنی عباس کے حکومت کو سخت نقصان پہنچائی اور بنی عباس کی حکومت کے خلاف دوسرے مختلف جگہوں پر بھی تحریکیں چلانے جانے اور اپنی استقلالیت کے اعلان کرنے کا سبب بنی۔ اس طرح کوفہ کے علاوہ زید بن موسی ملقب بہ زیدالنار نے بصره میں، ابراہیم بن موسی بن جعفر نے یمن میں [14]، حسین بن حسن بن علی معروف بہ ابن‌افطس نے مکہ میں[15] اور محمد بن جعفر الصادق معروف بہ محمد دیباج نے حجاز میں تحریکیں چلائی ۔[16] ان میں سے اکثر تحریکیں ابن‌ طباطبا کی تحریک کے بعد شروع ہوئیں [17]

مأمون کے خلاف شیعہ تحریکوں کا نتیجہ

اگرچہ یہ تحریکیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی تھیں لیکن یہ تحریکیں مختلف فوائد اور نتائج کا حامل تھیں منجملہ یہ کہ عراق اور ایران کے لوگوں کی اہل بیت(ع) کے ساتھ رکھنے والی محبت علویوں کو مأمون کے خلاف قیام کرنے کا موقع دیتی اور ان ملکوں میں موجود اہل بیت کے ماننے ان تحریکوں کی حمایت کرتے تھے۔ یہ چیز مقتدر عباسی حکومت کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دیتی اور ہمیشہ ملک کے کسی بھی علاقے میں تحریکیں شروع ہونے کے بارے میں خوفزدہ رہتی تھی۔ [18] ان تحریکوں کے دیگر فوائد اور نتائج میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ان تحریکوں نے بعد میں طبرستان اور یمن میں زیدیوں کی حکومت کی تشکیل کیلئے زمینہ فراہم کیا۔ [19]

امام رضا (ع) کی ولی عہدی، علویوں کی تحریکوں کو روکنے کا حربہ

مأمون اپنے خلاف علویوں کی تحریکوں کو ہمیشہ کیلئے روکنے اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کی خاطر خراسانیوں(ایرانیوں) کے سامنے اپنے آپ کو اہل بیت (ع) کا ماننے والا ظاہر کرنے کی فکر میں پڑ گیا۔ اسی مقصد کی خاطر اس نے امام رضا (ع) کو مدینہ سے مرو بلا لیا اور یہ ظاہر کرنے لگا کہ مأمون نے خلافت اور حکومت سے ہاتھ اٹھا اور اسے علویوں میں سے سب سے افضل و برتر شخص یعنی امام رضا (ع) کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ جب امام رضا (ع) کی طرف سے خلافت اور حکومت کو ٹھکرا دیا گیا تو اس نے امام کو ولایتعہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔[20]

فائل:مأمون در سریال ولایت عشھ۔jpg
ولایت عشق (ٹی وی سیریل) میں سبز کپڑوں میں ملبوس مأمون کی تصویر، یہاں مأمون علویوں کو اپنی طرف جلب کرنے کیلئے بنی عباس کی نشانی کالے کپڑوں کی بجائے سبز کپڑے استعمال کر رہا ہے جو علویوں کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔

بعض محققین کے مطابق خلافت کو امام رضا (ع) کے حوالے کرنا مأمون کا اصل ہدف نہیں تھا بلکہ وہ ظاہرا حکومت امام کے حوالے کرکے اسے اپنی مرضی سے چلانا چاہتا تھا۔[21] سنہ 201 ہجری قمری میں ولایتعہدی کو زبردستی امام رضا (ع) کے سپرد کرنے کے بعد اس نے لوگوں سے امام کی بیعت لی۔ مأمون کے حکم سے امام کو "الرضا" کا لقب دیا گیا، امام کے نام پر سکے جاری کئے گئے، حکومتی کارندوں اور سپاہیوں کی تنخواہیں انہیں سکوں کے ذریعے دینے لگا[22] اور کالے لباس جو بنی عباس کی علامت سمجھی جاتی تھی کی جگہ علویوں کی علامت، سبز کپڑوں کو سرکاری لباس قرار دیا۔[23] مأمون ان کاموں کے ذریعے علویوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ الرضا من آل محمد کے نعرے کے ذریعے وہ لوگوں اپنی طرف دعوت دیتے تھے اب امام رضا(ع) جو "الرضا" کا مصداق ہے کے ذریعے وجود میں آگئی ہے اب انہیں تحریک چلانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مأمون کے ان اقدامات کی وجہ سے علویوں کی مخالفتیں کسی حد تک کم ہوگئیں۔[24]

بعض مناطق کو تحریک چلانے والے علویوں کے سپرد کرنا

مأمون اپنی خلافت کی تثبیت اور علویوں کی تحریکوں کو روکنے کی خاطر انجام دینے والے اقدامات میں امام رضا(ع) کی ولایت‌عہدی کے بعد بعض مناطق کی گورنری بھی ان علویوں کے سپرد کیا جنہوں نے ان مناطق پر قبضہ کیا تھا۔ یمن اور حجاز انہی مناطق میں سے تھے۔ [25]

سادات کا ایران میں داخلہ

امام رضا(ع) کی ولایتعہدی کے نتائج میں سے ایک سادات کی ایران کی طرف مہاجرت ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق شیعہ اور سادات کی ایک کثیر تعداد امام رضا(ع) سے ملاقات کی خاطر مدینہ سے مرو کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بھی لوگوں کی کثیر تعداد ان قافلوں میں شامل ہوئے۔ مأمون کی ظاہری طور پر علویوں اور شیعوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے کسی حد تک سادات کی ایران بطور خاص خراسان کی طرف مہاجرت کیلئے زمینہ ہموار کیا۔[26]

خلافت کی تثبیت کے بعد مأمون کے اقدامات

علویوں کی تحریکوں کو مہار کرنے اور اپنی خلافت کو کسی حد تک طاقتور بنانے کے بعد مأمون نے اپنی سیاست کا رخ تبدیل کیا۔ اس کی سیاسی رویے میں تبدیلی کئی موارد میں آشکار ہو گئی: حکومت سے ایرانیوں اور ایرانی طور و طریقوں کو باہر کرنا، عربی رسم و رواج کی پرچار اور اپنے آبائی دارالخلافہ بغداد پر توجہ دینا، امام رضا(ع) کو شہید کرنا، علویوں کے گرد دوبارہ گیرا تنگ کرنا اور بنی عباس کی علامت یعنی کالے کپڑوں کو نمایاں کرنا اور علویوں کی علامت یعنی سبز کپڑوں پر پابندی لگانا۔[27]

اپنے ایرانی وزیر کو قتل کرنا

فضل بن سہل مأمون کا ایرانی وزیر تھا جس نے مأمون کو خلافت پر پہنچانے اور اس کی خلافت کو طاقتور بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ فضل بن سہل یہ ان کوششوں کے صلے میں مأمون نے خلافت پر پہنچنے کے بعد فضل کو "ذوالریاستین" کا لقب دیا۔ اس اہم لقب کا مطلب یہ تھا کہ فضل بیک وقت وزیر اعظم اور چیف آف آرمی سٹاف دونوں عہدوں پر فائز تھا۔[28]

بعض مورخین کے مطابق ابن‌ سہل کی مأمون کی خلافت کیلئے کوششیں کرنا اور اسے طاقتور بنانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ چاہتا تھا کہ بغداد کی جگہ مرو دار الخلافہ بنے، خراسان (ایران) عراق اور دیگر مناطق کے مقابلے میں زیادہ مقام پیدا کرے اور بنی عباس کی حکومت سے برمکیوں کو نکال باہر کرنے کی وجہ سے جو ایرانیوں کی تذلیل ہوئی ہے اسے دوبارہ بحال کیا جائے۔[29] اسی وجہ سے فضل بن سہل کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ ہر وہ مسئلہ اور چیلنجز جو مرو، خراسان اور ایرانیوں کی عظمت کیلئے خطرہ بن سکتا تھا وہ خلیفہ کی نگاہوں سے دور رہے۔ منجملہ ان مسائل میں بغداد میں ناامنی پھیلانا جس کی اصل جڑیں بعداد کے عربی گورنر طاہر بن حسین کو عزل کرکے ان کی جگہ حسن بن سہل ایرانی کو بیٹھانا اور بطور کلی ایرانی نژاد کو عربی نژاد پر فوقیت اور برتری دینا تھا جو مأمون کی خلافت کا سرلوحہ قرار پایا تھا۔ ایرانی نے نہایت کوشش کیا تا کہ بغداد کی خبریں خلیفہ کے کانوں تک نہ پہنچنے پائے۔[30]

امام رضا(ع) کی ولایتعہدی کا سکہ جو مأمون کے حکم سے جاری کیا گیا تھا۔ اس سکے کے اوپر خط کوفی میں: «للہ، محمدرسول اللہ، المأمون خلیفة اللہ، مما أمر بہ الأمیر الرضا ولی عہد المسلمین علی بن موسی بن علی بن ابی طالب، ذوالریاستین کی عبارت درج تھی۔

جب مأمون امام رضا (ع) کے توسط سے بغداد کی ناامنی سے مطلع ہوا تو اس نے مرو کو ترک کرکے اپنے آبائی دار الخلافہ بغداد جانے کا ارادہ کیا۔ خلیفہ اس بات سے بھی آگاہ ہوا کہ اس کا بغداد جانا اس کے ایرانی وزیر کی مخالفت کا سبب بنے گا اور اس سے پہلے بھی بغداد میں رونما ہونے والے واقعات کو خلیفہ سے مخفی کرنے کی وجہ سے خلیفہ کی فضل بن سہل کی نسبت بدبینی میں اضافہ ہوا تھا۔ یوں مأمون نے بغداد کی طرف سفر کرنے سے پہلے اپنے ایرانی وزیر کو شہر سرخس میں اپنے کارندوں کے ذریعے قتل کیا۔[31]

امام رضا (ع) کی شہادت

امام رضا (ع) کو ولی عہد بنانے اور اس کے ذریعے اپنے اہداف کی تکمیل کے بعد مأمون نے یہ محسوس کیا اب امام رضا (ع) کی موجودگی اس کے اور اس کی حکومت کی مصلحت میں نہیں ہے۔ امام رضا (ع) کی ولی عہدی کے استمرار سے مأمون کو جو پریشانی لاحق تھی اس کی کئی وجوہات تھیں: مختلف مذاہب کے علماء کے ساتھ مناظرے میں امام رضا (ع) کی برتری، لوگوں میں امام رضا (ع) کی مقبولیت میں اضافہ[32] اور مأمون کے بعض اقدامات پر امام رضا (ع) کی صریح تنقید۔[33] اس بنا پر مأمون نے بنی عباس کے گذشتہ خلفاء کی طرح اپنی خلافت کو بچانے کیلئے سنہ 203 ہجری قمری کے اوائل میں بغداد کی جانب اپنے سفر سے پہلے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت امام رضا (ع) کو شہید کیا۔ [34]

دارالخلافہ کی بغداد منتقلی

مأمون کی ایرانی طرز حکومت اور بظاہر بنی عباس کی مخالفت کی وجہ سے بنی عباس کے سرکردگان اور بغداد کے باسی ہمیشہ مأمون کے مخالف رہے ہیں۔ ان مخالفتوں کی وجہ سے بنی عباس کے بعض بزرگوں نے مأمون کی خلافت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے ابراہیم بن مہدی کی بیعت کی۔ اس کے علاوہ ان مخالفتوں کی وجہ سے بغداد میں آہستہ آہستہ بدامنی پیدا ہونے لگی اور آخر کار خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گئی۔[35] دوسری طرف سے مصر اور الجزائر میں بھی بدامنی پھیلنے لگی اور خانہ جنگی کا خطرہ بڑھنے لگا۔ ایسے میں خلیفہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان بدامنیوں کی روک تھام طرز حکومت میں تبدیلی اور دار الخلافہ کی منتقلی کی بغیر امکان پذیر نہیں، یوں انہوں نے اپنے آبائی دار الخلافہ، بغداد جانے کا ارادہ کیا۔[36]

علویوں کے خلاف ظالمانہ کاروائیاں

مأمون کی سیاسیت میں تبدیلی اور ایرانی طور طریقوں سے عربی رسم و رواج میں تبدیلی کے ساتھ مامون کا علویوں کے ساتھ رابطہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ امام رضا(ع) کی شہادت کے بعد اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ آپ کی شہادت میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا اسی بنا پر بغداد جانے کے بعد اس نے علویوں کی دلجوئی کی اور امام جواد (ع) کیلئے تحفہ تحائف ارسال کیے اور فدک علویوں کو لوٹا دیا۔[37] لیکن کچھ مدت کے بعد اس نے علویوں کی مخالفت شروع کر دی اور اپنے دربار میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی اور انہیں بنی عباس کی علامت یعنی کالے کپڑے پہننے پر مجبور کرنا شروع کیا۔ علویوں کے خلاف مامون کی ظالمانہ کاروائیاں صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس نے زیاد بن ابیہ کے نواسوں میں سے ایک کو علویوں کے مرکز یمن کا گورنر مقرر کیا جو علویوں کے ساتھ دشمنی رکھنے میں مشہور تھا۔[38]

مأمون کا معتزلہ کی طرف رجحان

تاریخی مستندات کی روی سے مأمون معتزلہ مذہب کے بعض علماء جیسے اَبُوہذِیل عَلّاف اور نَظَّام کے ساتھ لین دین رکھتا تھا[39] اور مذہب معتزلہ کے بعض بزرگان کو حکومتی مناصب پر منصوب کیا ہوا تھا۔[40] اسی طرح مامون قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھتا تھا۔ ان تاریخی قرائن و شواہد کی بنا پر بعض مورخین نے مامون کی مذہب معتزلہ کی طرف رجحان رکھنے کا نظریہ مطرح کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں بعض کا خیال ہے کہ مامون معتزلہ کے مخالفین کے ساتھ بھی ارتباط رکھتا تھا۔ یحیی بن اکثم جو مأمون کا مشاور اعظم تھا معتزلہ کے دشمنوں میں سے تھا۔ [41] ان متضاد نظریات کی وجہ سے بعض نے مامون کے اعتقادات کو کلامی اعتبار سے مختلف فرقوں کے اعتقادات کا مجموعہ قرار دیا ہے۔[42]

اعتقادات کی چھان بین

مأمون نے اپنی حکومت کے آخری سالوں میں اپنے فقہا، محدثین اور قضات کو آزمانے کیلئے اعتقادات کی چھان بین کیلئے ایک محکمہ تشکیل دیا۔ سنہ 218 ہجری قمری کو مأمون کے حکم سے مذہب معتزلہ کے علماء پر ذمہ داری ڈال دی کہ وہ قرآن کے مخلوق ہونے سے متعلق لوگوں کے اعتقادات کی چھان بین کریں اور جو اشخاص اس بات کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے انہیں حکومتی عہدوں سے برطرف اور انہیں زندان میں ڈال دیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض فقہاء نے حکومتی عہدوں سے معزول ہونے اور زندان میں ڈالنے کے خوف سے قرآن کے مخلوق ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ مأمون کی اس اقدام کو محنت سے یاد کیا جاتا ہے۔[43]

مأمون کا شیعہ ہونا

مأمون کا مذہب مورخین کے درمیان مورد اختلاف رہا ہے۔ شیعوں نے بنی عباس کے حکمرانوں کے حوالے سے ہمیشہ منفی رویہ اختیار کیا ہے۔ مأمون اگرچہ دوسرے خلفاء کی بنسبت زیادہ پڑھا لکھا شخص تھا اور خود کو شیعہ مذہب کی طرف رجحان رکھنے والا ظاہر کرتا تھا لیکن وہ بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں اس بنا پر اس کا شیعہ ہونا اس معنی میں کہ جس شیعہ مذہب کا شیعہ ائمہ معصومین قائل تھے وہ بھی قائل تھا، سرے سے قابل قبول نہیں ہے۔[44] دوسری طرف سے بعض سنی معتبر منابع میں مأمون کے شیعہ ہونے پر تاکید کی گئی ہے، مثلا ذہبی، ابن‌کثیر اور ابن‌خلدون اس کے شیعہ ہونے کی تصریح کرتے ہیں اور بعض اوقات عباسی حکومت کو شیعہ حکومت سے تعبیر کرتے ہیں؛[45] سیوطی کے مطابق بھی مأمون کا شیعہ ہونا مشہور تھا۔[46]

مأمون کی طرف شیعہ ہونے کی نسبت دینا اس کی موت کے بعد سے مربوط نہیں ہے بلکہ اس کے دور خلافت میں بھی اس کے شیعہ رجحانات کی وجہ سے اسے شیعہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے دور خلافت میں علویوں کے ساتھ اس کی دوستی اور شیعوں کی حمایت میں انجام دینے والے بعض اقدامات کی وجہ سے بغداد میں مقیم بنی عباس میں سے اس کے مخالفین کی طرف اس پر بھی رافضی ہونے کا الزام لگاتا رہا ہے۔[47]

حامیوں کی دلیل

تاریخی منابع کے مطابق مأمون کا اپنے دور خلافت میں انجام دینے والے اقدامات اور اس کا طرز حکومت اس کے شیعہ مذہب کی طرف مائل ہونے کی کی خبر دیتی ہے۔ مأمون کے اس طرح کے اقدامات کو چند مسائل کے ذیل میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

  • آل علی کو خلافت اور ولایتعہدی کی پیشکش: مأمون کے شیعہ ہونے مدعی حضرات معتقد ہیں کہ مأمون کی طرف سے امام رضا (ع) کو خلافت کی پیشکش کرنا اصل میں اس کے شیعہ اور معتزلہ مذہب خاص کر خلافت پر حضرت علی (ع) کی برتری جیسے عقائد کے سایے میں تربیت ہونے کی طرف لوٹتی ہے۔ اس کے علاوہ مامون کی ماں کا ایرانی ہونا اور حضرت علی (ع) اور آپ کی اولاد کی حقانیت پر ایمان رکھنا اور مامون کا ایرانیوں کے ہاں تربیت پانا اس کی تشیع کی طرف مائل ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس نظریے کے مطابق مأمون نے خدا سے یہ عہد کیا تھا کہ اگر وہ اپنے بھائی امین پر غالب آئے تو وہ خلافت کو آل علی میں سے سب سے افضل شخص کے حوالے کر دونگا اسی بنا پر امین کی شکست کے بعد جب مأمون خلافت پر فائز ہوا تو اس نے اپنا وعدہ وفا کرتے ہوئے امام رضا (ع) کو ولی عہد بنایا۔[48] مامون کا یہ اقدام سبب بنا کہ سیوطی جیسے مورخین مامون کو افراطی شیعہ قرار دینے لگا۔[49]
  • فدک کو اولاد فاطمہ(س) کی ملکیت میں دینا: بغداد واپسی اور حکومت کے مستقر ہونے کے بعد جب مأمون نے فدک کو حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو واپس دینے کا ارادہ کیا تو بہت زیادہ مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بنا پر اس نے اس زمانے کے 200 علماء کو دعوت دی اور ان سے فدک کی ملکیت کے بارے میں اپنی رائ سے بیان کرنے کو کہا۔ مختلف نظریات مطرح ہونے کے بعد اس جلسے کا نتیجہ یہ ہوا کہ "فدک" حضرت زہرا(س) کی ملکیت ہے اور اسے ان کے حقیقی وارثوں کو لوٹا دینا چاہئے۔ مخالفین کی مخالفت موجب بنی کہ مأمون نے ایک اور مجلس کا اہتمام کیا جس میں پورے اسلامی مملکت سے تمام علماء کو مدعو کیا گیا۔ اس جلسہ کا نتیجہ بھی پہلے جلسے کی مانند ہی نکلا۔ یوں سنہ۲۱۰ ہجری قمری کو مأمون نے "قثم بن جعفر" والی مدینہ کو "فدک" حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو واپس دینے کا حکم صادر کیا۔[50] فدک کو اس کے مالک حقیقی کو واپس دے دینے کی خبر شاعروں کے شعروں میں بھی نمایاں ہونے لگیں مثلا دعبل خزاعی نے فدک کو حضرت فاطمہ (س) کی اولاد کو واپس دینے کے بعد ایک شعر میں یوں کہا
اَصْبَحَ وَجْہ الزَّمانِ قَدْ ضَحِکاًبِرَدَّ مَأْموُنُ ہاشِمُ فَدَکاً
ترجمہ= زمانے کے چہرے پر خوشی ظاہر ہونے لگی، جب مأمون نے فدک بنی ہاشم کو واپس کیا۔[51]
  • متعہ کو حلال قرار دینا: نکاح متعہ (عربی= متعہ) شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مورد اختلاف مسائل میں سے ہے جسے عمر نے حرام قرار دیا جس کے بعد آنے والے خلفاء اور اہل سنت علماء نے عمر کی پیروی کرتے ہوئے اس کی حرمت کو باقی رکھا لیکن مامون نے بہت زیادہ مخالفتوں کے باوجود اس کی حرمت کو اٹھایا اور اسے جائز شمار کیا۔ لیکن جب مأمون کے چیف جسٹس یحیی بن اکثم اور بعض دیگر اہل سنت علماء نے کہا کہ امام علی بھی متعہ کو حرام سمجھتے تھے تو اس وقت مأمون نے حصرت علی (ع) کے احترام میں اس حکم سے صرف نظر کیا۔[52]
  • خلفاء ثلاثہ پر امام علی (ع) کی برتری کو ثابت اور اس کا باقاعدہ اعلان: معتبر شیعہ اور اہل سنت منابع میں آیا ہے کہ مأمون نے اہل سنت کے 40 برجستہ علماء کو ایک مجلس میں مدعو کیا اور خلفاء ثلاثہ پر امام علی (ع) کی برتری کے حوالے سے مناظرہ کیا اور اس مناظرے میں مأمون، اہل‌ سنت علماء پر غالب آیا یوں انہوں نے پیامبر اکرم (ص) کے بعد حضرت علی (ع) کی برتری اور افضلیت کا اعتراف کیا۔[53] اس کے علاوہ مأمون نے سنہ 212 ہجری قمری کو ابوبکر اور عمر پر امام علی (ع) کی برتری کا اعلان کیا۔[54]
  • معاویہ کی تعریف سے بے زاری اور امام علی (ع) پر سب و شتم کرنے کی ممانعت اور سزا: مأمون کی شیعیت کی طرف تمائل کے دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے سنہ 211 ہجری قمری کو معاویہ کی مدح اور تعریف کرنے والوں سے برائت کا اعلان کیا اور اس کی تعریف و تمجید کرنے والوں پر سزا تجویز کیا۔ [55]
  • خود مأمون کی طرف سے اپنی اور اپنے والد کے شیعہ ہونے پر تصریح: بعض مورخین کے مطابق خود مأمون نے اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔[56] بعض منابع میں آیا ہے کہ مأمون نے اپنے حامیوں سے کہا کہ اس نے شیعہ مذہب کی تعلیمات کو اپنے والد ہارون سے سیکھا ہے۔ اس سے پوچھا گیا: اگر ہارون عباسی شیعہ تھا تو اہل بیت (ع) کو کیوں قتل کیا؟ مأمون نے جواب میں کہا: المُلکُ عَقیم۔[57] (یعنی جب حکومت کی بات آتی ہے تو باپ بیٹے کو نہیں پہچانتا دوسروں کی تو بات ہی نہیں)

اس نظریے کے مخالفین کے دلائل

  • مأمون شیعیت کے لباس میں معتزلی تھا: مأمون کے شیعہ ہونے کے مخالفین اس بات کے معتقد ہیں کہ مأمون اصل میں معتزلہ تھا لیکن ظاہرا شیعیت کا اظہار کرتا تھا۔ مأمون کے دور میں بہت معتزلہ کا ایک گروہ علویوں اور شیعوں کے بہت قریب تھے۔ یہ لوگ شیعوں کی طرح خلفاء ثلاثہ پر امام علی(ع) کی برتری کے قائل تھے اور امام رضا(ع) کی ولایتعہدی کی حمایت اور اس پر گواہی دیتے تھے۔ اس نظریہ کے مطابق مأمون کی طرف سے امام رضا(ع) کو خلافت کی پیشکش اس کی شیعیت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ وہ علویوں سے دوستی کا اظہار اور ایرانیوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اور علویوں کی تحریکوں کو روکنے کیلئے تھا۔[58]
  • مأمون کی شیعیت، شیعہ بمنای اعم تھا: بعض تشیع کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: پہلی قسء، تشیع سے مراد خاص ایمان رکھنے والے کے ہیں اور اس اصطلاح کے مطابق شیعہ سے مراد شیعہ اثناعشری ہیں۔ دوسری قسم تشیع عام ہے۔ اس سے مراد یہ کہ امام علی(ع) کی خلافت بلا فصل کا قائل ہونا۔ مأمون، اس کے والد ہارون اور بنی عباس شیعوں کی اس دوسری قسم میں سے تھے۔[59]
  • مأمون امام کو قتل کرنے والا شیعہ: شہید مرتضی مطہری نے مأمون کا اہل‌ سنت علماء کے ساتھ خلافت میں امام علی(ع) کی برتری کے موضوع پر ہونے والے مناظرے کو ایک بے نظیر مناظرہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: علمائے دین میں سے بہت کم علماء نے خلافت کے مسئلے میں مأمون کی طح استدلال کیا ہے۔ اس نے حضرت علی (ع) کی خلافت کی بارے میں مناظرہ کرتے ہوئے سب کو مغلوب کیا ہے۔ شہید مطہری مأمون کی شیعیت کے بارے میں موجود واقعات کو غیر قابل انکار سمجھتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ "امام کو قتل" کرنے والا شیعہ ہے۔ وہ مأمون کی شیعیت کو امام حسین(ع) کے دور امامت میں کوفیوں کی شیعیت کی طرح قرار دیتے ہیں جنہوں نے آخر کار امام حسین (ع) کو شہید کئے۔[60]

مأمون کے دور میں علم کی ترقی

ترکی کے جنوب میں مأمون کی قبر

مأمون، جوانی کے عالم میں ایرانیوں کے ہاں تربیت پانے کی وجہ سے علم و حکمت سے شدید لگاؤ رکھتا تھا اور ہمیشہ یونانی، سریانی، پہلوی اور اردو زبان سے کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے کی سفارش کرتا تھا۔ اس کا دربار مختلف ادیان و مذاہب کے دانشوروں سے بھرا رہتا تھا جس میں مختلف علمی مناظرے اور مباحثے منعقد ہوتے رہتے تھے۔[61]

وفات

مأمون رجب سنہ 218 ہجری قمری کو رومیوں کے ساتھ جنگ کے دوران ایک بیماری کی وجہ سے بَدَندون میں وفات کر گیا اور طَرَسوس میں دفن ہوا۔[62] موجودہ دور میں اس کی قبر ترکی کے جنوبی صوبہ مرسین کے شہر طرسوس کی جامع مسجد میں واقع ہے۔[63]

حوالہ جات

  1. سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، بتحقیق محمد محیی الدین عبد الحمید، بی‌تا، بی‌جا، ص ۳۰۶.
  2. یعقوبی‌، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۸ہجری شمسی، ص۴۶۰.
  3. لنگرودی، مقالہ استادسیس، دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ج۸، ص۱۴۳و ۱۴۴.
  4. عباس زریاب خویی، از مدینہ تا مرو، اطلاعات، تاریخ درج: ۱۵ /۶ /۱۳۹۳ہجری شمسی، تاریخ مراجعہ: ۱۳۹۵/۰۹/۰۹ہجری شمسی۔
  5. طبری، تاریخ الرسل و الملوک، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیء، ۱۹۶۰ء، ج۸، ص۴۷۲-۴۸۹؛یعقوبی‌، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۸ہجری شمسی، ص۴۶۰.
  6. طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۱۲۴-۱۲۷.
  7. طبری، تاریخ الرسل و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراهیء، ۱۹۶۰ء، ج۸، ص۲۴۰-۲۸۶.
  8. طبری، تاریخ الرسل و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیء، ۱۹۶۰ء، ج۸، ص۳۸۷ و ۳۸۹؛جہشیاری، کتاب الوزارء و الکتاب، تحقیق مصطفی السقا و آخرون، چاپ اول، ۱۹۳۸ء، ص۱۸۹.
  9. محمود / شریف، العالم الاسلامی فی العصر العباسی، دار الفکر العربی، چ۵، ۱۹۶۶ء، ص۱۱۰.
  10. طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۱۲۵-۱۲۷.
  11. طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۱۳۰و ۱۳۱.
  12. الله‌اکبری، عباسیان از بعثت تا خلافت، قء، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۸۱ہجری شمسی، ص۹۵-۹۷.
  13. اصفہانی، مقاتل الطالبین، ترجمہ ہاشم رسولی محلاتی، ۱۳۶۸ہجری شمسی، ص۴۵۵-۴۵۹؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ۱۹۶۰ء، ج۷، ص۱۳۹ و ج۸، ص۵۷۴.
  14. اصفہانی، مقاتل‌الطالبین، ص۳۵۵.
  15. ، مختار لیثی، جہاد الشیعہ فی العصر العباسی الاول، ۱۹۷۸ء، ص۳۲۶.
  16. طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ۱۹۶۰ء، ج۷، ص۱۲۵.
  17. نقوی، تاثیر قیام‎‌های علویان بر ولایتعهدی امام رضا(ع)، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۱۴۱-۱۴۴.
  18. محمد تقی مدرسی، امامان شیعہ و جنبش‌ہای مکتبی، ۱۳۷۲ہجری شمسی، ص۲۴۹-۲۶۱.
  19. نقوی، تاثیر قیام‎‌های علویان بر ولایتعهدی امام رضا(ع)، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۱۴۸-۱۴۹.
  20. مرتضی حسینی عاملی، زندگانی سیاسی ہشتمین اماء، ۱۳۷۳ہجری شمسی، ص۱۴۱.
  21. مرتضی حسینی عاملی، زندگانی سیاسی ہشتمین اماء، ۱۳۷۳ہجری شمسی، ص۱۶۱.
  22. مسعودی، مروج الذهب و معادن الجوهر، ترجمه ابوالقاسم پاینده، ۱۳۷۰ہجری شمسی، ج۲، ص۴۴۱.
  23. یعقوبی‌، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۸ہجری شمسی، ص۴۶۵؛ شیخ مفید، ارشاد، ترجمہ سید هاشم رسولی محلاتی، ج۲، ص۳۶۷.
  24. مختار لیثی، جہاد شیعہ در دورہ اول عباسی، ترجمہ محمد حاجی تقی، ۱۳۸۴ہجری شمسی، ص۴۱۳ و ۴۱۴؛ عباسیان از بعثت تا خلافت، ص۹۳-۱۰۱.
  25. اصغری، نگرشی بر حکومت مأمون با تأکید بر مسائل شرق ایران، ۱۳۸۱ہجری شمسی، ص۲۱۸؛ نقوی، تاثیر قیام‎ہای علویان بر ولایتعہدی امام رضا، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۱۵۳.
  26. اصغری، نگرشی بر حکومت مأمون با تأکید بر مسائل شرق ایران، ۱۳۸۱ہجری شمسی، ص۲۱۸.
  27. طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۱۴۸ و ۱۴۹؛الخضری، محمد، الدولۃ العباسیہ، قاہرہ، مؤسسہ المختار للنشر والتوزیع، ۲۰۰۳ء، ص۱۷۴.
  28. جہشیاری، کتاب الوزارء و الکتاب، تحقیق مصطفی السقا و آخرون، چاپ اول، ۱۹۳۸ء، ص۳۰۵ و ۳۰۶؛طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۱۳۲.
  29. محمود و الشریف،ص۱۱۰.
  30. طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ۱۴۸؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ۱۹۶۰ء، ج۸، ص۵۴۶.
  31. دوری، العصر العباسی الاول، ۱۹۸۸ء، ص۱۶۵.
  32. طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۱۴۴ و ۱۴۵.
  33. عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۲۴۱.
  34. ابن‌ صباغ مالکی، الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمۃ، ۱۴۰۹ق، ص۳۵۰؛ یعقوبی‌، تاریخ یعقوبی، ۱۳۷۸ہجری شمسی، ج۲، ص۴۷۱.
  35. طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ۱۹۶۰ء، ج۸، ص۵۴۶.
  36. طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۱۴۸.
  37. طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ۱۹۶۰ء، ج۷، ص۱۵۶.
  38. مختار لیثی، جہاد الشیعہ فی العصر العباسی الاول، ۱۹۷۸ء، ص۳۷۵-۳۷۶.
  39. ناظمیان فرد، مأمون و محنت، پژوہش‌ہای تاریخی، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۶۹ و ۷۰.
  40. مسعودی، التنبیہ و الاشراف، ترجمہ ابوالقاسم پایندہ، ۱۳۴۹ہجری شمسی، ص۳۳۹.
  41. ابوبکر احمد بن علی، خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ج۴، بی‌تا، ص۱۹۹ و ۲۰۰.
  42. ناظمیان فرد، مأمون و محنت، پژوہش‌ہای تاریخی، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۷۰.
  43. ناظمیان فرد، مأمون و محنت، پژوہش‌ہای تاریخی، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۶۷-۷۸.
  44. اللہ‌اکبری، روابط علویان و عباسیان، تاریخ اسلام در آینہ پژوہہجری شمسی، پاییز ۱۳۸۱ہجری شمسی، ص۲۷.
  45. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، تحقیق: شعیب ارنوؤط، ۱۴۱۴ق، ج۱۱، ص۲۳۶؛ ابن‌کثیر، البدایۃ و النہایۃ، تہیہ و تنظیم: خلیل شحادہ، ۱۹۷۸ء، ج۱۰، ص۲۷۵-۲۷۹؛ ابن‌خلدون، العبر، تاریخ ابن‌خلدون، ترجمہ: عبدالمحمد آیتی، ۱۳۶۳ہجری شمسی، ج۲، ص۲۷۲.
  46. سیوطی، تاریخ الخلفاء، تحقیق: صالح ابراہیء، ۱۹۹۷ء، ص۳۶۳.
  47. نقوی، تأثیر ولایتعہدی امام رضا (ع) بر قیام‌ہای علویان، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۱۴۱.
  48. اصفہانی، ابو الفرج، مقاتل الطالبین، تحقیق احمد صقر، چاپ دوء، ۱۹۸۷ء، ص۴۵۴؛ابن‌ طقطقی، تاریخ فخری، ترجمہ محمد وحید گلپایگانی، ۱۳۶۰ہجری شمسی، ص۲۱۷.
  49. سیوطی، تاریخ الخلفاء، تحقیق ابراہیم صالح، ۱۹۹۷ء، ص۳۶۳.
  50. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء، ج۴، ص۲۴۰؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۹۳۹ء، ج۷، ص۱۵۶؛حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہء، ۱۳۶۷ہجری شمسی، ص۷۷؛ بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۵۶ء، ج۱، ص۳۷ و ۳۸.
  51. یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵ء، ج۴، ص۲۳۹.
  52. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج۴، بی‌تا،ص۱۹۹؛ ناظمیان‌فرد، مأمون و محنت، پژوہش‌ہای تاریخی، ۱۳۸۸ہجری شمسی، ص۷۱؛ موسوی، متعہ در نگاہ فقیہان مسلمان، مقالات و بررسی‌ہا، دفتر۸۹، پاییز ۱۳۸۷ہجری شمسی، ص۱۳۵.
  53. ابن‌ عبد ربہ، عقد الفرید، تحقیق: عبد المجید ترحینی، چاپ سوء، ۱۹۸۷م؛ ج۵، ص۳۴۹-۳۵۹؛ کنتوری، عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار، تحقیق مولانا غلامرضا بروجردی، ۱۳۶۶ہجری شمسی، ج۱۱، ص۹۵۳-۹۵۷.
  54. سیوطی، تاریخ الخلفاء، تحقیق: ابراہیم صالح، ۱۹۹۷ء، ص۳۶۴؛ حکیمی، خاورشناسان و دیدگاہ شیعہ دربارہ جانشینی حضرت علی(ع)، سخن تاریخ، شمارہ ہشتء، بہار ۱۳۸۹ہجری شمسی، ص۴۶؛نیومن اندرجی، دورہ شکل‌گیری تشیع دوازدہ امامی، ترجمہ مہدی ابوطالبی و دیگران، چاپ اول، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ص۹۸.
  55. سیوطی، تاریخ الخلفاء، تحقیق ابراہیم صالح، ۱۹۹۷ء، ص۳۶۴.
  56. مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، بیروت، دار الاندلس، بی‌تا، ج۴، ص۵؛ ابن‌اثیر جزری، چاپ دوء، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۲۳۰.
  57. شوشتری، مجالس المؤمنین،، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ج۲، ص۲۷۰؛ ابن‌ بابویہ، محمد بن علی، عیون اخبار رضا، تصحیح: سید مہدی حسینی لاجوردی‌، تہران، جہان، بی‌تا، ج۱، ص۸۸.
  58. طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ۱۳۹۰ہجری شمسی، ص۱۳۳-۱۳۴.
  59. کنتوری، عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار، تحقیق: مولانا غلامرضا بروجردی، ۱۳۶۶ہجری شمسی، ج۴، ص۱۰۹-۱۱۳.
  60. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۸۷ہجری شمسی، ج۱۸، ص۱۱۸.
  61. دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ دہخدا، ج۱۳، مدخل مأمون، ص ۲۰۰۸۳.
  62. طقوہجری شمسی، دولت عباسیان، ص۱۶۰، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
  63. مأمون، پایگاہ اینترنتی اولیاء نت، تاریخ درج:۱۳۹۳/۰۷/۲۷، تاریخ: مراجعہ: ۱۳۹۵/۰۹/۱۴.

مآخذ

  • ابن‌ خلدون، عبد الرحمن بن محمد، العبر تاریخ ابن‌خلدون، ترجمہ: عبد المحمد آیتی، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی وابستہ بہ وزارت فرہنگ و آموزش عالی، تہران، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
  • ابن‌ صباغ مالکی، علی بن محمد بن احمد، الفصول المہمۃ فی معرفۃ الائمۃ، بیروت، دار الاضواء، چاپ دوء، ۱۴۰۹ھ۔
  • ابن‌ کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، تہیہ و تنظیم: خلیل شحادہ، دار الفکر، بیروت، ۱۹۷۸ء۔
  • احمد محمود، حسن/ابراہیم الشریف، احمد، العالم الاسلامی فی العصر العباسی، قاہرہ، دار الفکر العربی، چ۵، ۱۹۶۶ء۔
  • اصغری، اسد سولا، نگرشی بر حکومت مأمون با تأکید بر مسائل شرق ایران، تہران، راہ دانہجری شمسی، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • اصفہانی، ابو الفرج، مقاتل الطالبین، ترجمہ ہاشم رسولی محلاتی، تہران، صدوق، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • جہشیاری، محمد بن عبدوس، کتاب الوزارء و الکتاب، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، قاہرہ، مطبعۃ المصطفی البابی الحلبی، چاپ اول، ۱۹۳۸ء۔
  • خضری بک، محمد، الدولۃ العباسیۃ، قاہرہ، مؤسسہ المختار للنشر والتوزیع، ۲۰۰۳ء۔
  • خطیب بغدادی، ابوبکر احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ج۴، بی‌تا.
  • دوری، عبد العزیز، العصر العباسی الاول، بیروت، دار الطلیعۃ، چاپ دوء، ۱۹۸۸ء۔
  • دہخدا، علی اکبر، لغت نامہ دہخدا، ج۱۳، مدخل مأمون، ص ۲۰۰۸۳.
  • ذہبی، محمد بن احمد، سیر اعلام النبلاء، تحقیق: شعیب ارنوؤط، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۱۴ھ۔
  • رضا زادہ لنگرودی، رضا، مقالہ «استادسیس»، دائرہ‌المعارف بزرگ اسلامی، زیر نظر: کاظم موسوی بجنوردی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۷۷ہجری شمسی، ج۸، ص۱۴۳و ۱۴۴.
  • زریاب خویی، عباس، از مدینہ تا مرو، اطلاعات، تاریخ درج: ۱۵ /۶ /۱۳۹۳ہجری شمسی، تاریخ مراجعہ: ۱۳۹۵/۰۹/۰۹ہجری شمسی۔
  • سیوطی، جلال الدین عبد الرحمن بن ابی‌بکر، تاریخ الخلفاء، بتحقیق محمد محیی الدین عبد الحمید، بی‌تا، بی‌جا.
  • سیوطی، عبد الرحمن بن ابی‌ بکر، تاریخ الخلفاء، تحقیق: صالح ابراہیء، دار صادر، بیروت، چاپ اول، ۱۹۹۷ء۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، ترجمہ سید ہاشم رسولی محلاتی، تہران، انتشارات اسلامیہ، بی‌تا.
  • طبری، تاریخ الرسل و الملوک، تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیء، قاہرہ، دارالمعارف، ۱۹۶۰ء۔
  • طقوہجری شمسی، محمد سہیل، دولت عباسیان، مترجم: حجت اللہ جودکی با اضافاتی از رسول جعفریان، قء، پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
  • عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۲۴۱.
  • کنتوری، میر حامد حسین، عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار، تحقیق: مولانا غلام رضا بروجردی، قء، مولانا غلام رضا بروجردی، ۱۳۶۶ہجری شمسی۔
  • اللہ‌اکبری، محمد، روابط علویان و عباسیان، تاریخ اسلام در آینہ پژوہہجری شمسی، قء، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی (رہ)، پیش شمارہ۱، پاییز ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • اللہ‌ اکبری، محمد، عباسیان از بعثت تا خلافت، قء، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۸۱ہجری شمسی۔
  • لیثی، سمیرہ مختار، جہاد الشیعۃ فی العصر العباسی الاول، بیروت، دار الجیل للنشر والتوزیع والطباعۃ، چاپ دوء، ۱۹۷۸ء۔
  • لیثی، سمیرہ مختار، جہاد شیعہ در عصر در دورہ اول عباسی، ترجمہ محمد حاجی تقی، تہران، شیعہ شناسی، ۱۳۸۴ہجری شمسی۔
  • مدرسی، محمد تقی، امامان شیعہ و جنبش‌ہای مکتبی، ترجمہ حمید رضا آژبر، مشہد آستان قدس رضوی، ۱۳۷۲ہجری شمسی۔
  • مرتضی حسینی عاملی، جعفر، زندگانی سیاسی ہشتمین اماء، ترجمہ خلیل خلیلیان، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۷۳ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی بن حسین، التنبیہ و الاشراف، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۴۹ہجری شمسی۔
  • مسعودی، علی‌ بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ چہارء، ۱۳۷۰ہجری شمسی۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار، تہران، انتشارات صدرا، چاپ اول، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔
  • ناظمیان فرد، علی، مأمون و محنت، پژوہش‌ہای تاریخی، دانشکدہ ادبیات و علوم انسانی دانشگاہ اصفہان، سال چہل و پنجء، ش۳، پاییز ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • نقوی، سید اذکار، تأثیر قیام‎ہای علویان بر ولایت عہدی امام رضا (ع)، سخن تاریخ، قء، مجتمع آموزش عالی امام خمینی (رہ) وابستہ بہ جامعۃ المصطفی العالمیہ، شمارہ ۶، پاییز ۱۳۸۸ہجری شمسی۔
  • یعقوبی‌، احمد بن ابی یعقوب اسحاق ، تاریخ یعقوبی، تہران‌، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
  • مأمون، پایگاہ اینترنتی اولیاء نت، تاریخ درج:۱۳۹۳/۰۷/۲۷، تاریخ: مراجعہ: ۱۳۹۵/۰۹/۱۴.