مندرجات کا رخ کریں

احمد یاسین

ویکی شیعہ سے
(شیخ احمد یاسین سے رجوع مکرر)
احمد یاسین
حماس کے بانی
کوائف
لقبشیخ مجاہدان • مقاومت کی علامت
تاریخ پیدائش28 جون 1936ء
آبائی شہرالجورۃ
ملکفلسطین
تاریخ/مقام شہادت22 مارچ 2004ء، غزہ پٹی
مدفنآرامگاہ شیخ رضوان شہر غزہ
شریک حیاتحلیمہ حسن یاسین
دیناسلام
مذہباہل‌ سنت
پیشہعالم دین• سیاستدان
سیاسی کوائف
مناصبحماس کے بانی اور قائد
پیشروعبد العزیز رنتیسی
علمی و دینی معلومات


احمد یاسین یا شیخ احمد یاسین(1936ء-2004ء) حماس کے بانی، روحانی رہنما اور فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے نمایاں ترین چہروں میں سے تھے۔ انہوں نے 1987ء میں چند اسلامی کارکنوں کے ساتھ مل کر حماس کی بنیاد رکھی اور جسمانی معذوری کے باوجود فلسطین میں مزاحمتی تحریک کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 2004ء میں اسرائیل کے ہاتھوں شیخ احمد یاسین کی شہادت نے دنیا بھر میں شدید ردعمل پیدا کیا اور انہیں مزاحمت اور استقامت کی علامت بنا دیا۔

مزاحمت کی علامت اور قائد

شیخ احمد یاسین، جنہیں "شیخ المجاہدین"[1] بھی کہا جاتا ہے، فلسطین کی جدوجہدِ آزادی کے بڑے رہنماؤں اور مزاحمت کی علامتوں میں شمار ہوتے ہیں۔[2] کہا جاتا ہے کہ فلسطینیوں پر سیاسی و سماجی دباؤ، اسرائیل کے قیام اور عرب ممالک کی جنگی شکستوں نے ان کے افکار پر گہرا اثر ڈالا۔[3]

احمد یاسین نے اپنی دینی تعلیم مصر کی جامعہ الازہر میں حاصل کی، جہاں وہ اخوان المسلمین کے نظریات سے آشنا ہوئے۔ اخوان المسلیمن کے نظریات سے متاثر ہو کر انہوں نے اس بات کو درک کر لیا تھا کہ فلسطین ایک اسلامی سرزمین ہے جسے اسرائیل نے ناجائز طور پر غصب کیا ہے، اور وہ ہمیشہ پورے فلسطین پر اسلامی حکومت کے قیام پر زور دیتے رہے۔[4] اسی سوچ کے تحت، اسرائیلی قبضے کی مخالفت میں وہ فلسطینی مزاحمت کی ایک بڑی آواز بن گئے۔[5]

اسرائیل کے بارے میں شیخ احمد یاسین کا انٹرویو۔ انہوں نے اس انٹرویو میں یہ پیشن گوئی کی تھی کہ اسرائیل 21ویں صدی عیسوی کے پہلے چوتھائی حصے تک (یعنی 2025ء) نابود ہوگا اور سنہ 2027ء تک اسرائیل باقی نہیں رہےگا۔

ان کی شہادت کے بعد، ان کا گھر ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ ان کی جدوجہد اور قربانی کو یاد رکھا جا سکے۔[6] ان کی شہادت کے موقع پر ہزاروں فلسطینی سڑکوں پر نکل آئے اور شدید غم و غصے کا اظہار کیا، جبکہ مختلف مزاحمتی گروہوں نے انتقام کا عزم کیا۔[7]

شیخ یاسین کے بعد ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی کو حماس کا نیا رہنما مقرر کیا گیا۔[8]

زندگی کا پس منظر

شیخ احمد یاسین 28 جون 1936ء کو فلسطین کے جنوبی علاقے عسقلان کے قریب واقع گاؤں الجورہ میں پیدا ہوئے۔[9] والد کی وفات کے بعد، خاندان میں "احمد" نام کے کئی افراد ہونے کے باعث انہیں والدہ کے نام(السیدۃ سعدۃ عبد اللہ الہبیل) کی نسبت سے "احمد سعدۃ" کہا جانے لگا۔[10]

بچپن میں ایک حادثے کے باعث وہ ہاتھ اور پاؤں سے معذور ہوگئے، لیکن اس معذوری کے باوجود تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1964ء میں انہوں نے مصر کی جامعہ عین شمس میں انگریزی زبان کی تعلیم کا آغاز کیا،[11] مگر 1967ء کی عرب-اسرائیل جنگ میں عرب ممالک کی شکست اور غزہ پر اسرائیلی قبضے کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ کر واپس غزہ آ گئے۔ یہاں انہوں نے عوام کو مزاحمت اور آزادی کی جدوجہد کے لیے منظم کرنا شروع کیا۔[12]

1961ء میں ان کی شادی حلیمہ حسن یاسین سے ہوئی، جن سے ان کے 11 بچے ہوئے (3 بیٹے اور 8 بیٹیاں)۔[13]

ایران کا سفر اور رہبر اعلی آیت‌ اللہ خامنہ ای سے ملاقات

ایران کا سفر

اپریل 1998ء میں شیخ احمد یاسین نے ایران کا دورہ کیا اور رہبرِ انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای سمیت اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی۔ اسی سفر کے دوران وہ قم بھی گئے، جہاں اہل بیتؑ عالمی اسمبلی کے زیرِ اہتمام مختلف مذہبی اجتماعات میں شرکت کی۔[14]

شہادت

22 مارچ 2004ء کو نماز فجر کی ادائیگی کے بعد، غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں شیخ احمد یاسین شہید ہوگئے۔[15] یہ کارروائی اسرائیلی وزیرِاعظم ایریل شیرون کے براہِ راست حکم پر کی گئی۔[16] انہیں غزہ کے وسطی علاقے میں واقع شیخ رضوان قبرستان میں دفن کیا گیا۔[17]

شیخ احمد یاسین کی شہادت پر آیت اللہ خامنہ ای کا پیغام

"شیخ احمد یاسین کا خون اسلامی مزاحمت کے تناور درخت کو مزید سرسبز کرے گا اور فلسطینی عوام کے عزم کو مزید مضبوط بنائے گا۔ دشمن صرف ایک نحیف و معذور جسم چھین سکا ہے، لیکن اس کا فکر، راستہ اور جدوجہد کو فلسطینی عوام سے نہیں چھین سکتا۔ شیخ کی روح زندہ ہے، اور ان کی شہادت آنے والی نسلوں کے لیے حیاتِ جاویداں کا پیغام ہے۔"[18]

شیخ احمد یاسین کی شہادت پر آیت اللہ خامنہ ای،[19] آیت اللہ سیستانی[20] نے تعزیتی پیغامات دیے اور حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے ان کے ایصال ثواب کی مجلس سے خطاب کیا۔[21]

سیاسی سرگرمیاں

ابتدا میں شیخ احمد یاسین اخوان المسلمین کے فلسطینی شاخ سے وابستہ ہوئے، تاہم 1987ء تک وہ زیادہ معروف نہیں تھے۔[22] دسمبر 1987ء میں پہلی انتفاضہ (فلسطین کی آزادی کی تحریک) کے دوران انہوں نے دیگر اسلامی کارکنوں کے ساتھ مل کر "حرکت المقاومۃ الاسلامیہ" یعنی حماس کی بنیاد رکھی اور اس کی قیادت سنبھالی، جس کا نعرہ تھا: "پورے فلسطین کی آزادی!"[23]

ابتدا میں اسرائیل نے حماس کو معمولی تحریک سمجھا، مگر جلد ہی یہ فلسطین کی ایک مضبوط مزاحمتی قوت بن گئی۔ 1989ء میں اسرائیل نے انہیں "اسرائیل کے ساتھ تعاون کرنے والے فلسطینیوں کے قتل" کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی، لیکن 1997ء میں قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد وہ فلسطینی مزاحمت کی ایک زندہ علامت بن گئے۔[24]

افکار و اقدامات

  • اسرائیل کے ساتھ مفاہمت کی مخالفت: شیخ احمد یاسین نے کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ امن کو تسلیم نہیں کیا اور پورے فلسطین کو مسلمانوں کی امانت قرار دیا۔ انہوں نے سنہ 2003ء میں اسرائیل کے ساتھ صلح کے لئے منعقدہ اجلاس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔[25]
  • شہادت طلبانہ کارروائیوں کی تائید: شیخ احمد یاسین اگرچہ اسرائیل کے خلاف براہِ راست عسکری منصوبہ بندی میں اعلانیہ طور پر شامل نہیں ہوتے تھے، مگر انہوں نے "شہادت" کے تصور کو عام کیا اور شہادت طلبانہ کارویوں کے رضاکاروں کو "مجاہدین" کے نام سے یاد کرتے تھے۔[26]
  • سماجی خدمات: ان کی قیادت میں حماس نے اسکول، مفت علاج معالجے کے مراکز اور فلاحی ادارے قائم کیے، جس سے تحریک کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔[27]

شیخ احمد یاسین فاؤنڈیشن

2018ء میں غزہ میں بین الاقوامی شیخ احمد یاسین فاؤنڈیشن قائم کی گئی۔ الجزیرہ کے مطابق، اس فاؤنڈیشن کا مقصد شیخ یاسین کی فکری میراث کو محفوظ رکھنا، انسانی حقوق کے دفاع کے لیے جدوجہد کرنا، انسانی ہمدردی کی سرگرمیوں کو فروغ دینا اور آزادی و خودمختاری کے اصولوں کو آگے بڑھانا ہے، جن کے لیے شیخ احمد یاسین نے اپنی پوری زندگی وقف کی۔[28]


حوالہ جات

  1. ماضی، احمد یاسین امیر الشہداء، 1425ھ، ص11۔
  2. شیخ احمد یاسین؛ بنیان‌گذار حماس و سمبل مقاومت، خبرگزاری دفاع مقدس۔
  3. زندگینامہ شیخ احمد یاسین، بی‌بی‌سی فارسی۔
  4. في الذكرى الـ18 لاغتيالہ.. تعرف على الشيخ أحمد ياسين مؤسس "حماس"، شبکہ الجزیرۃ۔
  5. زندگینامہ شیخ احمد یاسین، بی‌بی‌سی فارسی۔
  6. دوازدہمین سالگرد شہادت شیخ احمد یاسین، مؤسس حماس، خبرگزاری آناتولی۔
  7. اسرائیل رہبر گروہ اسلام‌گرای حماس را ترور کرد، بی‌بی‌سی فارسی۔
  8. رہبر جدید جنبش حماس در غزہ اعلام شد، بی‌بی‌سی فارسی۔
  9. خامنہ‌ای، توہم سلطہ، 1392ش، ص479؛ دوازدہمین سالگرد شہادت شیخ احمد یاسین، مؤسس حماس، خبرگزاری آناتولی۔
  10. ماضی، احمد یاسین امیر الشہداء، 1425ھ، ص9۔
  11. في الذكرى الـ18 لاغتيالہ.. تعرف على الشيخ أحمد ياسين مؤسس "حماس"، شبکہ الجزیرۃ۔
  12. خامنہ‌ای، توہم سلطہ، 1392ش، ص479؛ زندگینامہ شیخ احمد یاسین، بی‌بی‌سی فارسی۔
  13. في الذكرى الـ18 لاغتيالہ.. تعرف على الشيخ أحمد ياسين مؤسس "حماس"، شبکہ الجزیرۃ۔
  14. حضور شیخ احمد یاسین در ایران، سایت فردانیوز۔
  15. خامنہ‌ای، توہم سلطہ، 1392ش، ص479.
  16. ماضی، احمد یاسین امیر الشہداء، 1425ھ، ص15۔
  17. حضور ہنیہ بر سر مزار شیخ احمد یاسین، خبرگزاری قدس۔
  18. صلح‌میرزایی، فلسطین از منظر حضرت آیت‌اللہ خامنہ‌ای، 1391ش، ص373۔
  19. پیام تسلیت در پی شہادت شیخ احمد یاسین رہبر جنبش مقاومت فلسطین حماس، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای۔
  20. بيان مكتب سماحۃ السيد ( دام ظلہ ) حول اغتيال الشيخ احمد ياسين، سایت آیت‌اللہ سیستانی.۔
  21. كلمۃ السيد نصر اللہ في تأبين الشيخ أحمد ياسين، العلاقات الإعلاميۃ في حزب اللہ۔
  22. زندگینامہ شیخ احمد یاسین، بی‌بی‌سی فارسی۔
  23. روحانی، آشنایی با کشورہای اسلامی، ص160؛ حضرتی، خورشید در سایہ، 1397ش، ص281۔
  24. روزشمار تاریخ، 1390ش، ص1781۔
  25. زندگینامہ شیخ احمد یاسین، بی‌بی‌سی فارسی۔
  26. زندگینامہ شیخ احمد یاسین، بی‌بی‌سی فارسی۔
  27. «أحمد یاسین الشیخ المجاہد الشہید»، ص16۔
  28. في الذكرى الـ18 لاغتيالہ.. تعرف على الشيخ أحمد ياسين مؤسس "حماس"، شبکہ الجزیرۃ۔

مآخذ