صفوان بن مہران جمال
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | صَفوان بن مہران بن مغیره اسدی کاہلی |
لقب | جمال |
محل زندگی | کوفہ |
اقارب | بھائی:حسین بن مہران اور مسکین بن مہران،پوتا:ابو عبد اللہ صفوانی ، |
دینی معلومات | |
وجہ شہرت | امام جعفر صادق اور امام موسی کاظم کے صحابی |
صَفوان بن مہران بن مغیره اسدی کاہلی کا نام امام صادق ؑ اور امام کاظمؑ سے منقول روایات اور دعاؤں جیسے زیارت اربعین، زیارت وارث اور دعائے علقمہ کی اسناد میں آیا ہے۔ صفوان کے پاس اونٹ تھے اور وہ انہیں کرائے پر دینے کا کام کرتے تھے اس مناسبت سے جمال معروف تھے۔
زندگینامہ
ان کی تاریخ ولادت اور مقام کے متعلق کوئی معلومات نہیں ہے۔انہیں دوسری صدی کے بزرگوں میں سے شمار کیا جاتا ہے اور ان کا شمار امام صادق اور امام کاظم کے اصحاب میں سے ہوتا ہے۔[1] کوفی کہنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ کوفہ میں پیدا ہوئے ہوں۔ صفوان کئی مرتبہ امام صادق ؑ کو مدینے سے کوفے لائے اور امام کے ساتھ زیارت امیرالمؤمنین کیلئے گئے۔ لہذا اس وجہ سے وہ امام علی ؑ کی مخفی قبر سے آگاہ تھے۔[2] ابن قولویہ کے کامل الزیارات میں منقول قول کے مطابق صفوان ۲۰ سال امام علی کی زیارت کیلئے گئے اور اس نے وہاں نماز ادا کی۔[3]
اسی طرح وہ ابوعبدالله صفوانی کے جد ہیں کہ جس نے سیف الدولہ حمدانی کی موجودگی میں موصل کے قاضی کے ساتھ امامت کے متعلق مباہلہ کیا. جیسے ہی قاضی مجلس سے باہر نکلا اسے بخار ہوا اور جو ہاتھ اس نے مباہلہ میں نکالا تھا وہ سیاہ ہو گیا، اس میں ورم پیدا ہوا اور وہ ایک روز بعد مر گیا۔[4]
اقوال علماء
- شیخ مفید: وہ امام صادق علیہ السلام کے نزدیکیوں، بزرگوں اور خواص میں سے تھے۔[5]
- علامہ حلی: وہ کوفی، ثقہ اور ان کی کنیت ابو محمد جمال ہے۔[6]
- نجاشی: نے کوفی اور ثقہ کہا ہے۔ [7]
امام صادق ؑ اور صفوان کے عقائد
صفوان نے درج ذیل اپنے عقائد امام صادق ؑ کی خدمت میں پیش کئے تو امام نے انہیں دعا دی:
- علامہ مجلسی نے صفوان جمال سے روایت کی ہے:
- انہوں نے اپنے عقائد کو امام صادق ؑ کی خدمت میں اس وضاحت کے ساتھ پیش کئے:
- میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے۔ گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ؐ رسول خدا اور خدا کی مخلوق پر حُجّت ہیں۔اس کے بعد علی امیرالمؤمنین مخلوق خدا پر حجت ہیں۔ حضرت نے فرمایا: خدا تجھ پر رحمت نازل کرے۔ پھر میں نے عرض کیا: اس کے بعد امام حسن مجتبیؑ خلق پر حجت خدا ہیں۔ حضرت نے فرمایا: خدا تجھ پر رحمت نازل کرے۔ پھر میں نے عرض کیا: اس کے بعد حسین بن علی خلق پر حجت خدا ہیں۔ حضرت نے فرمایا: خدا تجھ پر رحمت نازل کرے۔ پھر میں نے عرض کیا: اس کے بعد علی بن حسینؑ خلق پر حجت خدا ہیں۔اسکے بعد امام باقر ؑ حجت خدا ہیں۔اسکے بعد آپ خلق خدا پر حجت ہیں۔ حضرت نے فرمایا: خداتم پر رحمت نازل کرے۔[8]
ہارون کو کرائے پر اونٹ دینا
صفوان کے متعلق اہم ترین روایات میں سے وہ روایت ہے جو ان کے ایمان اور ائمہ کی اطاعت سے حکایت کرتی ہے۔ اس روایت میں ہارون عباسی کو اونٹ کرائے پر دینے کا ماجرا بیان ہوا ہے:
صفوان نے بہت سے اونٹ رکھے ہوئے تھے جنہیں کرائے پر دے کر وہ اپنی زندگی کے بسر کرتے تھے، اسی مناسبت سے انہیں جمال کہتے تھے۔ایک دن حضرت امام کاظم کی خدمت میں پہنچے. آپ نے فرمایا: ایک چیز کے علاوہ تمہاری ہر چیز اچھی ہے۔ صفوان نے استفسار کیا: میں آپ پر فدا ہوجاؤں وہ کیا ہے؟ امام فرمایا: یہ کہ تم اپنے اونٹ ہارون کو کرائے پر دیتے ہو۔ صفوان نے جواب دیا میں حرص، لالچ اور لہو کی بنا پر ایسا نہیں کرتا ہوں۔ وہ حج پر جاتا ہے تو میں حج کے راستے کیلئے دیتا ہوں میں خود اس کی کوئی خدمت نہیں کرتا ہوں۔ بلکہ اپنے غلام کو اس کے ساتھ بھیجتا ہوں۔ امام نے فرمایا: کیا تم اس سے کرائے کے طلبگار ہو؟ اس نے کہا: ہاں۔ امام: کیا دوست رکھتے ہو کہ وہ باقی رہے تا کہ تمہارا کرایہ تمہیں مل جائے؟ صفوان: جی ہاں. امام نے جواب میں فرمایا: کوئی کسی کی زندگی کی بقا کا طلبگار ہو تو وہ انہی میں سے ہوگا اور جو کوئی دشمن خدا ہو گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔ صفوان جمال نے امام کاظمؑ سے اس گفتگو کے بعد تمام اونٹوں کو بیچ دیا۔ جب اس کی خبر ہارون کو ملی تو اس نے صفوان کو طلب کیا اور کہا سنا ہے تم نے تمام اونٹ بیچ دیئے ہیں۔ تم نے کیوں ایسا کیا ہے؟ صفوان نے جواب دیا اور کہا: بوڑھا ہو گیا ہوں اب اس ذمہ داری کو پورا نہیں کر سکتا ہوں۔ ہارون نے کہا: ہر گز ایسا نہیں ہے میں جانتا ہوں تم نے موسی بن جعفر کے اشارے پر ایسا کیا ہے۔ اگر میرے ساتھ تمہارا حق مصاحبت نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔[9]
روایت حدیث
وہ دوسری صدی ہجری کے راویوں میں سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا نام تقریبا ۷۱ روایات کی اسناد میں آیا ہے۔ وہ دو اماموں: امام صادقؐ اور امام کاظمؑ سے نقل کرتے ہیں. احمد بن محمد بن ابی نصر و معدان بن مسلم نے ان سے حدیث اخذ کی ہے۔ زیارت وارث[10] ،زیارت اربعین[11] اور دعائے علقمہ[12] صفوان سے منقول روایات میں ہیں۔ حسین اور مسکین اس کے دو بھائی بھی محدثان شیعہ میں سے تھے اسی طرح ابوعبدالله صفوانی اسکے نواسوں میں سے ہے.
صفوان کی معروف روایات میں سے امام صادق ؑ سے امام کاظمؑ کی امامت کی تصریح میں ہے۔[13]
اسی طرح اسکی ایک کتاب میں ائمہ اہل بیت کی روایات احکام، تاریخ ،جنگوں، غزوات جیسے موضوعات کے بارے میں تھیں۔نجاشی تین واسطوں سے اور شیخ طوسی چار واسطوں سے اسکی کتاب سے روایت کرتے ہیں۔[14]
حوالہ جات
- ↑ رجال الطوسی، ص۲۲۰ - رجال نجاشی، ص۱۴۰و رجال کشی، ص۳۷۳
- ↑ حلی، فرحۃ الغری، ص۸۵
- ↑ ابن قولویہ، کامل الزّیارة، ص۳۴، باب ۹، ح۱۲.
- ↑ رجال نجاشی، ص۳۹۳ش1050.
- ↑ مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۱۶
- ↑ خلاصۃ الأقوال: ۱۷۱
- ↑ رجال النجاشی ص۱۹۸ حدیث۵۲۵.
- ↑ بحارالانوار، ج ۴۷، ص۳۳۶.
- ↑ رجال الکشّی، ج۲، ص۷۴۰، ح۸۲۸.
- ↑ بحارالانوار، ج۹۸، ص۱۹۷
- ↑ بحارالانوار، ج۹۸، ص۳۳۱.
- ↑ بحارالانوار، ج۹۸، ص۲۹۶.
- ↑ مفید، الارشاد، ج۲، ص۲۱۶
- ↑ فہرست طوسی، ص۱۷۱ - رجال نجاشی، ص۱۴۰
مآخذ
- ابن قولویہ، کامل الزّیارات، تحقیق عبدالحسین امینی، نجف اشرف: دار المرتضويہ، ۱۳۵۶ش.
- حلی، عبدالکریم بن احمد، فرحۃ الغری، تحقیق آل شبیب الموسوی.