بنت الہدی صدر

ویکی شیعہ سے
(بنت‌الہدی صدر سے رجوع مکرر)
بنت الہدی صدر
کوائف
لقببنت الہدی، شہیدہ صدر
نسبوالد: سید حیدر صدر، والدہ: شیخ آل یاسین کی بیٹی
تاریخ پیدائش1937ء کاظمین
سکونتنجف، کاظمین
ملکعراق
تاریخ/مقام شہادت8 اپریل 1980ء
علت وفات/شہادتعراق کی بعثی حکومت کے ذریعہ پھانسی
مدفنقبرستان وادی السلام، نجف
مذہبشیعہ اثنا عشری
سیاسی کوائف
علمی و دینی معلومات
اساتذہسید محمد باقر صدر، شیخ زہیر الحسون و ام‌ علی الحسون
تالیفاتالفضیلہ تنتصر، لیتنی کنت أعلم، امرأتان و رجل، صراع مع واقع الحیاة، لقاء فی المستشفی، الخالہ الضائعہ، الباحثہ عن الحقیقہ، کلمہ و دعوہ، ذکریات علی تلال مکہ، بطولہ المرأة المسلمہ، المرأة مع النبی(ص)، المجموعہ القصصیہ الکاملہ


آمنہ صدر (1937۔1980)، بنت الہدی اور شہیدہ صدر کے نام معروف، عراق کی صاحب تصنیف، ثقافتی و سیاسی فعال خواتین میں سے تھیں۔ ان کی ثقافتی و دینی سرگرمیوں میں نجف و کاظمین کے الزہرا مدارس کی سرپرستی، گھروں میں دینی جلسوں کی تشکیل، مجلہ الاضواء میں مقالہ نویسی، مذہبی کہانیاں اور شاعری شامل ہیں۔

بنت الہدی کو اپنے بھائی سید محمد باقر الصدر کی گرفتاری پر اعتراض اور حرم امام علی ؑ میں تقریر کرنے کی وجہ سے بعثی حکومت نے گرفتار کیا جس کا نتیجہ مختلف شہروں اور ملکوں میں مظاہروں کی شکل میں ظاہر ہوا۔ آپ کو قید میں طویل صعوبتوں کے بعد پھانسی دی گئی۔

سوانح حیات

سیدہ آمنہ صدر (ولادت: کاظمین 1357 ھ/1937 ء) آیت اللہ سید حیدر صدر کی بیٹی ہیں۔ ان کی والدہ آیت اللہ محمد رضا آل یاسین کی بہن تھیں۔ سید اسماعیل صدر اور شہید سید محمد باقر صدر ان کے بھائی ہیں۔[1] دو سال کی عمر میں وہ والد کے سایہ سے محروم ہو گئیں۔ انہوں نے لکھنا پڑھنا گھر ہی میں سیکھا اور اس کے بعد نحو، منطق، فقہ و اصول جیسے علوم حاصل کئے۔ انہوں نے سید محمد باقر صدر، شیخ زہیر الحسون اور ام علی الحسون سے تعلیم حاصل کی۔[2] 8 اپریل 1980 ء میں انہیں عراق کی بعثی حکومت کے ذریعہ پھانسی دی گئی۔[3]

تبلیغی سرگرمیاں

گھریلو جلسات اور مجلہ الاضواء

بنت الہدی دینی معاملات میں خواتین کے کردار کی اہمیت سے واقف تھیں۔ لہذا انہوں نے اپنے گھر میں اور اسی طرح سے دوسرے گھروں میں امور دینی کی تبلیغ کے لئے جلسوں کو تشکیل دیا۔[4] وہ مجلہ الاضواء میں عراقی اور عرب لڑکیوں کے لئے مضامین تحریر کیا کرتی تھیں۔ اس مجلہ میں ان کی تحریر کا موضوع مسلمان خواتین کے لئے دینی امور کی پابندی اور مغربی آئیڈیل اور نعروں سے دوری ہوا کرتا تھا۔[5]

سرپرستی مدارس الزہراء

مدارس الزہراء، چند مدارس پر مشتمل ایک مجموعہ تھا جو اسلامی فلاحی ادارہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ان مدارس کی تاسیس کا مقصد بصرہ، دیوانیہ، حلہ، نجف، کاظمین اور بغداد کے بچوں کی دینی ثقافت کو تقویت پہچانا تھا۔ ان مدارس کا مرکز بغداد میں تھا۔ شہیدہ بنت الہدی نے ان مدارس میں وہاں کے رائج تعلیمی نصاب میں دو دروس کا اضافہ کیا اور اس کے لئے انہوں نے ایسے اساتید معین کئے جو اسلامی امور کی پابندی کے سلسلہ میں خاص اہتمام کرتے تھے۔[6]

1967 ء میں بنت الہدی کو نجف و کاظمین کے شعبوں کی سرپرست مقرر ہوئیں۔ اس زمانہ میں وہ نجف میں ایک اور دینی مدرسہ کی سرپرست تھیں۔ اس لئے انہوں نے ہفتہ کے ایام کو تقسیم کر رکھا تھا، آدھا ہفتہ وہ نجف میں اور آدھا کاظمین میں بسر کرتی تھیں۔ وہ مدرسہ کی چھٹی کے بعد اساتید کی تربیت میں وقت صرف کرتی تھیں اور بعد از ظہر کا وقت انہوں نے اسٹوڈینس کے سوالوں کے جوابات سے مخصوص کر رکھا تھا۔ 1972 ء میں عراقی حکومت کی طرف سے ان مدارس کے حکومت عراق کی وزارت تعلیم و تربیت سے الحاق کے لازمی ہونے کا دستور صادر ہوا۔ اس حکم کے صادر ہونے کے ساتھ ہی بنت الہدی نے ان مدارس سے استعفی دے دیا اور حکومت کی طرف سے خط ملنے کے باوجود انہوں نے ان کے ساتھ تعاون کو قبول نہیں کیا۔[7] انہوں نے ان کے ساتھ تعاون نہ کرنے کے سوال کا جواب ان الفاظ میں تحریر کیا:

لم یکن الهدف من وجودی فی المدرسہ الا نوال مرضاة الله و لما انتفعت الغایة من المدرسۃ بتأمیمها فما هو جدوی وجودی بعد ذلک؟!

میں خوشنوی خدا حاصل کرنے کی خاطر ان مدارس میں خدمت انجام دے رہی تھی۔ اب ان مدارس کے حکومت سے الحاق ہونے (بعثی حکومت کی نظارت) کے بعد میرے یہاں رہنے کی بھلا کیا توجیہ ہو سکتی ہے؟

— بنت ‌الہدی صدر، الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۸-۷۹ بہ نقل از ملحق صحیفہ الجہاد الصادر بتاریخ ۲۰ جمادی الثانیہ ۱۴۰۳ ھ. نیسان ۱۹۸۳ ء۔

مذہبی کہانیاں اور شاعری

«رجعیہ» إن قیل عنک! فلا تبالی واصمدیقولی: أنا بنت الرسالہ، من ہداہا اہتدی
لم یثننی خجلی عن العلیا و لم یغلل یدیکلا و لا ہذا الحجاب یعیقنی عن مقصدی
فغد لنا اختاه فامضی فی طریقک و اصعدیو الحق یا اختاه یعلو فوق کید المعتدی۔[8]

بنت الہدی نے اپنی گفتگو کے لئے مخاطبین کا دائرہ مزید بڑھانے کے لئے تحریر کو ترجیح دی؛ عربی و اسلامی ممالک کی بہت سی خواتین ان کی کتابوں کے مطالعہ کے ذریعہ اسلامی افکار تک رسائی حاصل کر سکتی تھیں۔[9] گھریلو مسائل، کار و شغل اسلامی، جاب کرنے والی خواتین کی دشواریاں، مزاق اڑانا، خواتین کی حیثیت کو زیر سوال لانا، خوب صورتی، میکپ و آرایش، حجاب ... ان کی تحریر و افسانوں کے کے مرکز ہیں۔[10] انہوں نے اسی مقصد کے تحت شعر بھی کہے۔ ان کے زیادہ تر اشعار دینی و مذہبی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔

ان کی تالیفات مندرجہ ذیل ہیں:

  1. الفضیلہ تنتصر
  2. لیتنی کنت أعلم
  3. امرأتان و رجل
  4. صراع مع واقع الحیاة
  5. لقاء فی المستشفی
  6. الخالة الضائعہ
  7. الباحثہ عن الحقیقہ
  8. کلمہ و دعوہ
  9. ذکریات علی تلال مکہ
  10. بطولہ المرأة المسلمہ
  11. المرأة مع النبی(ص)
  12. ظلال‌ ت‍ح‍ت‌ ال‍ش‍م‍س‌
  13. ال‍ظل‍م
  14. المجموعہ القصصیہ الکاملہ

سیاسی سرگرمیاں اور شہادت

شہیدہ صدر عراق میں خواتین کی اسلامی تحریک میں پیش قدم تھیں۔ وہ اپنے بھائی سید محمد باقر صدر کی اسلامی تحریک کے نقش قدم پر چل رہی تھیں۔ ان کے زمانہ میں پیش آنے والے مہم ترین واقعات یہ ہیں: 1972 ء میں کوفہ کے ہسپتال سے شہید صدر کی گرفتاری، 1974ء میں عراق کی اسلامی تنظیموں کے بہت سے اعضاء کی گرفتاری اور ان میں سے 5 کو پھانسی کی سزا، 1977 ء میں انتفاضہ نجف، جس میں کچھ جوانوں کو اس دلیل کے ساتھ کہ انہوں نے قانون توڑا اور عوام کو حکومت سے بغاوت پر ابھارا ہے، پھانسی دے دی گئی۔ شہید صدر کو اس واقعہ کی وجہ سے بغداد طلب کیا گیا اور ان کے ذریعہ ان کاموں کی مذمت نہ کرنے کے سبب انہیں مورد عتاب قرار دیا گیا۔[11]

19 رجب 1979 ء میں شہید صدر کو ان کی سیاسی فعالیت کی وجہ سے عراق کی بعثی حکومت نے گرفتار کیا۔ ان کی گرفتاری کے ساتھ ہی بنت الہدی حرم امام علیؑ میں گئیں اور وہاں تقریر کی اور عوام کو ان کے مرجع تقلید کی گرفتاری کی خبر سے آگاہ کیا۔ اس تقریر کے نتیجہ میں نجف کی عوام نے مظاہرہ کیا اور شہید صدر کو آزاد کر دیا گیا۔ اس خبر کے دوسرے شہروں اور ملکوں تک پہچنے ہی بغداد، کاظمین، فہود، نعمانیہ، سماوہ، لبنان، بحرین اور ایران میں مظاہرے ہوئے۔ حکومت عراق نے ان مظاہروں کے مد نظر صدر خاندان کو ان کے گھر میں نظربند کر دیا اور 19 جمادی الاول 1400 ھ مطابق 5 اپریل 1980 ء ہفتے کے دن شہید صدر اور ان کی خواہر بنت الہدی کو جیل میں ڈال دیا گیا[12] اور 8 اپریل 1980 ء کو شہید کر دیا۔ 1982ء میں حزب الدعوہ کی طرف سے الدجیل میں صدام کے خلاف کئے گئے سب سے بڑے چریکی حملہ کا رمز بنت الہدی کے نام پر رکھا گیا۔[13]

حوالہ جات

  1. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۴
  2. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۴-۷۵
  3. ان.ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، ۱۳۷۳ش، ص۱۱۲
  4. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۵
  5. برای مثال ن ک: الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۶-۷۷
  6. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۸
  7. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۸
  8. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۸۴
  9. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۷۹ بہ نقل از مقدمہ قصہ «صراع من واقع الحیاة»
  10. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۸۰
  11. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۸۸
  12. الحسون، اعلام النساء المؤمنات، ۱۴۱۱ق، ص۸۸-۸۹
  13. ان. ویلی، نہضت اسلامی شیعیان عراق، ۱۳۷۳ش، ص۱۱۲

مآخذ

  • ان.ویلی، جویس، نہضت اسلامی شیعیان عراق، ترجمہ مہوش غلامی، تہران، اطلاعات، ۱۳۷۳ش
  • الحسون، محمد و مشکور، ام‌ علی، اعلام النساء المؤمنات، تہران، انتشارات اسوه، چاپ اول، ۱۴۱۱ق