مندرجات کا رخ کریں

"شیخ مفید" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 44: سطر 44:


== تعلیم==
== تعلیم==
انہوں نے [[قرآن]] اور ابتدائی علوم کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اپنے والد کے ہمراہ بغداد گئے جہاں انہیں بڑے بڑے برجستہ [[شیعہ]] و [[اہل سنت]] محدثین، متکلمین اور فقہاء سے استفادہ کیا۔<ref> گرجی، تاریخ فقخ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳.</ref>  
انہوں نے [[قرآن]] اور ابتدائی علوم کی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اپنے والد کے ہمراہ بغداد گئے جہاں انہیں بڑے بڑے برجستہ [[شیعہ]] و [[اہل سنت]] محدثین، متکلمین اور فقہاء سے استفادہ کیا۔<ref> گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳.</ref>  


[[شیخ صدوق]] (متوفی ۳۸۱ ھ)، ابن جنید اسکافی (متوفی ۳۸۱ ھ)، [[ابن قولویہ]] (متوفی ۳۶۹ ھ)، ابو غالب زراری (متوفی ۳۶۸ ھ) و ابوبکر محمّد بن عمر جعابی (متوفی ۳۵۵ ھ) ان کے مشہور ترین شیعہ اساتذہ میں سے ہیں۔<ref> گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳.</ref>
[[شیخ صدوق]] (متوفی ۳۸۱ ھ)، ابن جنید اسکافی (متوفی ۳۸۱ ھ)، [[ابن قولویہ]] (متوفی ۳۶۹ ھ)، ابو غالب زراری (متوفی ۳۶۸ ھ) و ابوبکر محمّد بن عمر جعابی (متوفی ۳۵۵ ھ) ان کے مشہور ترین شیعہ اساتذہ میں سے ہیں۔<ref> گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳.</ref>
سطر 71: سطر 71:


==جدید فقہی روش==
==جدید فقہی روش==
شیخ مفید نے [[فقہ]] [[شیعہ]] میں سابق عہد سے متفاوت روش پیش کی۔ سبحانی و گرجی کے مطابق، شیخ سے قبل دو فقہی روش کا رواج تھا: پہلی روش روایات پر افراطی صورت پر عمل پر مبتنی تھی، جس میں [[روایت]] کی سند و متن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ <ref> گرجی، تاریخ فقه و فقها، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳تا۱۴۴.</ref>دوسری روش میں روایات کے اوپر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی اور حد سے زیادہ عقلی قواعد پر تاکید کی جاتی تھی چاہے وہ [[قیاس]] کی مانند نصوص دینی کے ساتھ تعارض ہی کیوں نہ رکھتی ہوں۔<ref> سبحانی، موسوعة طبقات الفقهاء، ۱۴۱۸ق، ص ۲۴۵-۲۴۶؛ گرجی، تاریخ فقه و فقها، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.</ref> شیخ نے درمیانی راہ کا انتخاب کیا اور ایک جدید روش کی بنیاد رکھی کہ جس میں ابتدائی طور پر عقل کی مدد سے اسنباط و استخراج [[احکام]] کے لئے اصول و قواعد تدوین ہوتے تھے، اس کے بعد ان اصولوں کے ذریعہ متون دینی سے احکام استنباط کئے جاتے تھے۔<ref> سبحانی، موسوعة طبقات الفقهاء، ۱۴۱۸ق، ص ۲۴۶؛ گرجی، تاریخ فقه و فقها، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.</ref> اسی سبب سے انہیں علم اصول فقہ کا مدون کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔<ref> سبحانی، موسوعة طبقات الفقهاء، ۱۴۱۸ق، ص ۲۴۵؛ گرجی، تاریخ فقه و فقها، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.</ref>
شیخ مفید نے [[فقہ]] [[شیعہ]] میں سابق عہد سے متفاوت روش پیش کی۔ سبحانی و گرجی کے مطابق، شیخ سے قبل دو فقہی روش کا رواج تھا: پہلی روش روایات پر افراطی صورت پر عمل پر مبتنی تھی، جس میں [[روایت]] کی سند و متن پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ <ref> گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۳تا۱۴۴.</ref>دوسری روش میں روایات کے اوپر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی تھی اور حد سے زیادہ عقلی قواعد پر تاکید کی جاتی تھی چاہے وہ [[قیاس]] کی مانند نصوص دینی کے ساتھ تعارض ہی کیوں نہ رکھتی ہوں۔<ref> سبحانی، موسوعہ طبقات الفقہاء، ۱۴۱۸ق، ص ۲۴۵-۲۴۶؛ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.</ref> شیخ نے درمیانی راہ کا انتخاب کیا اور ایک جدید روش کی بنیاد رکھی کہ جس میں ابتدائی طور پر عقل کی مدد سے اسنباط و استخراج [[احکام]] کے لئے اصول و قواعد تدوین ہوتے تھے، اس کے بعد ان اصولوں کے ذریعہ متون دینی سے احکام استنباط کئے جاتے تھے۔<ref> سبحانی، موسوعہ طبقات الفقہاء، ۱۴۱۸ق، ص ۲۴۶؛ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.</ref> اسی سبب سے انہیں علم اصول فقہ کا مدون کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔<ref> سبحانی، موسوعہ طبقات الفقہاء، ۱۴۱۸ق، ص ۲۴۵؛ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.</ref>


شیخ مفید کے بعد ان کے شاگرد [[سید مرتضی]] نے اپنی کتاب الذریعہ الی اصول الشریعہ اور [[شیخ طوسی]] نے کتاب العدہ فی الاصول کے ذریعہ اس راہ کو جاری رکھا۔<ref> گرجی، تاریخ فقه و فقها، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۶</ref>
شیخ مفید کے بعد ان کے شاگرد [[سید مرتضی]] نے اپنی کتاب الذریعہ الی اصول الشریعہ اور [[شیخ طوسی]] نے کتاب العدہ فی الاصول کے ذریعہ اس راہ کو جاری رکھا۔<ref> گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۶</ref>


==علمی مناظرے==
==علمی مناظرے==
[[فائل:کتاب الارشاد.jpg|تصغیر|کتاب الارشاد]]
[[فائل:کتاب الارشاد.jpg|تصغیر|کتاب الارشاد]]
شیخ مفید کے زمانہ میں مختلف اسلامی مذاہب کے بزرگ علماء کے درمیان بغداد میں علمی مباحثات ہوا کرتے تھے۔ ان میں بہت سے مناظرات عباسی خلفاء کی موجودگی میں ہوا کرتے تھے۔ شیخ ان جلسات میں حاضر ہوتے تھے اور [[شیعہ]] مذہب پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا کرتے تھے۔<ref> سبحانی، موسوعة طبقات الفقهاء، ۱۴۱۸ق، ص ۲۴۵؛ گرجی، تاریخ فقه و فقها، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.</ref>
شیخ مفید کے زمانہ میں مختلف اسلامی مذاہب کے بزرگ علماء کے درمیان بغداد میں علمی مباحثات ہوا کرتے تھے۔ ان میں بہت سے مناظرات عباسی خلفاء کی موجودگی میں ہوا کرتے تھے۔ شیخ ان جلسات میں حاضر ہوتے تھے اور [[شیعہ]] مذہب پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا کرتے تھے۔<ref> سبحانی، موسوعہ طبقات الفقہاء، ۱۴۱۸ق، ص ۲۴۵؛ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۵.</ref>


شیخ مفید کے گھر میں بھی ایسی بحثوں اور گفتگو کے لئے جلسے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں مختلف اسلامی مذاہب کے علماء جیسے معتزلی، زیدی، اسماعیلی شرکت کیا کرتے تھے۔<ref> گرجی، تاریخ فقه و فقها، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۶.</ref>
شیخ مفید کے گھر میں بھی ایسی بحثوں اور گفتگو کے لئے جلسے منعقد ہوا کرتے تھے جن میں مختلف اسلامی مذاہب کے علماء جیسے معتزلی، زیدی، اسماعیلی شرکت کیا کرتے تھے۔<ref> گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ۱۳۸۵ش، ص۱۴۶.</ref>


==قلمی آثار==
==قلمی آثار==
{{اصلی|فہرست آثار شیخ مفید}}
{{اصلی|فہرست آثار شیخ مفید}}
[[فہرست نجاشی]] کے مطابق شیخ مفید کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ۱۷۵ ہے۔<ref> منتظم، ج۸، ص۱۱؛ به نقل شبیری، گذری بر حیات شیخ مفید، ص۲۳-۲۴.</ref> ان کی کتابوں کی مختلف علمی موضوعات کے اعتبار سے تقسیم بندی کی جا سکتی ہے۔  
[[فہرست نجاشی]] کے مطابق شیخ مفید کی کتابوں اور رسائل کی تعداد ۱۷۵ ہے۔<ref> منتظم، ج۸، ص۱۱؛ بہ نقل شبیری، گذری بر حیات شیخ مفید، ص۲۳-۲۴.</ref> ان کی کتابوں کی مختلف علمی موضوعات کے اعتبار سے تقسیم بندی کی جا سکتی ہے۔  


ان کی معروف ترین کتب میں علم [[فقہ]] میں المقنعہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور سیرت [[ائمہ (ع)]] کے سلسلہ میں کتاب [[الارشاد]] قابل ذکر ہیں۔<ref> نجاشی، ۱۴۰۷، ص ۳۹۹-۴۰۲.</ref>  
ان کی معروف ترین کتب میں علم [[فقہ]] میں المقنعہ، علم کلام میں اوائل المقالات اور سیرت [[ائمہ (ع)]] کے سلسلہ میں کتاب [[الارشاد]] قابل ذکر ہیں۔<ref> نجاشی، ۱۴۰۷، ص ۳۹۹-۴۰۲.</ref>  


شیخ مفید کا مجموعہ آثار ۱۴ جلدوں میں تصنیفات شیخ مفید کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ یہ مجموعہ ۱۳۷۱ ش میں شیخ مفید عالمی کانگریس کے موقع پر منظر عام پر آ چکا ہے۔   
شیخ مفید کا مجموعہ آثار ۱۴ جلدوں میں تصنیفات شیخ مفید کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ یہ مجموعہ ۱۳۷۱ ش میں شیخ مفید عالمی کانگریس کے موقع پر منظر عام پر آ چکا ہے۔   


عناوین کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے تو ان میں سے 60 فیصد کتابیں علم کلام کے موضوع سے متعلق ہیں۔ان میں سے 35 کتابیں [[امامت]]، 10 کتابیں حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ، 41 کتابیں فقہ، 12 کتابیں علوم قرآن، 5 کتابیں اصول فقہ، 4 کتابیں تاریخ اور 3 کتابیں [[حدیث]] کے موضوع پر لکھی ہیں جبکہ 40 کتابوں کے عنوان کا علم نہیں ہے۔
عناوین کے لحاظ سے درجہ بندی کی جائے تو ان میں سے 60 فیصد کتابیں علم کلام کے موضوع سے متعلق ہیں۔ان میں سے 35 کتابیں [[امامت]]، 10 کتابیں حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ، 41 کتابیں فقہ، 12 کتابیں علوم قرآن، 5 کتابیں اصول فقہ، 4 کتابیں تاریخ اور 3 کتابیں [[حدیث]] کے موضوع پر لکھی ہیں جبکہ 40 کتابوں کے عنوان کا علم نہیں ہے۔
گمنام صارف