فہرست اسماء مصنفی الشیعہ (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(فہرست نجاشی سے رجوع مکرر)
فہرست اسماء مصنفی الشیعہ
مشخصات
مصنفابو العباس احمد بن علی نجاشی (372-450 یا 463 ھ)
موضوعرجال، فہرست نویسی
زبانعربی


فہرست اسماء مصنفی الشیعہ یا رجال نجاشی، شیعہ علم رجال کی چار اہم ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کے مؤلف کا نام ابو الحسین احمد بن علی بن احمد نجاشی (متوفی 450 ھ) ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو شیعہ تالیفات کی فہرست کے عنوان سے تالیف کیا تھا اور اس میں صرف ان افراد کے نام ذکر کئے ہیں کہ جن کی اپنی کوئی تالیف تھی۔ اس کتاب کا قدیمی ترین ہونا اور اس کے مؤلف کی اس موضوع میں مہارت اس کی اہمیت کی بیان گر ہے۔

مؤلف

احمد بن علی بن احمد بن عباس بن محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم بن محمد بن عبد اللہ نجاشی 372 ہجری کو کوفہ میں پیدا ہوئے۔ [1] ان کے والد بھی شیعہ محدثین اور بزرگ شخصیات میں سے تھے۔ ان کی کنیت ابو الحسین، ابو العباس اور لقب نجاشی ہے۔ نجاشی سنہ 450 ہجری میں (سامرا کے نزدیک) مطیر آباد میں فوت ہوئے.[2] لیکن یہ درست معلوم نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ نجاشی نے خود اپنی رجال کی کتاب میں محمد بن حسن بن حمزہ جعفری کا سن وفات 463 ھ ذکر کیا ہے۔[3]

سبب تالیف

نجاشی نے کتاب کے مقدمے میں اس تالیف کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا:

سید مرتضی نے اپنے مخالفین (اہل سنت) سے نقل کیا کہ نہ آپ کے پاس اسلاف ہیں اور نہ آپ کی تالیفات ہیں۔ اگرچہ یہ ایک غیر عالمانہ دعوی ہے لیکن اس کے باوجود میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس کا جواب دیا جائے لہذا میں اپنی استطاعت و قدرت کے مطابق شیعہ مصنفین کی تصنیفات کی جمع آوری کی ہے۔[4]

تاریخ تصنیف

اس کتاب کی تاریخ تألیف 419 تا 436 ہجری کے درمیان لوٹتی ہے کیونکہ اس میں محمد بن عبد الملک تبان کی تاریخ وفات (م 419 ھ) کی طرف اشارہ موجود ہے نیز سید مرتضی (متوفا 436 ھ) کا ذکر کرتے ہوئے نجاشی نے أطال اللہ بقاءه (اللہ انہیں طول عمر عطا کرے) کا جملہ استعمال کیا ہے۔[5]

روش تصنیف

کتاب کی ابتدا میں مولف نے عصر پیامبر(ص) اور اس سے نزدیک کے زمانے کے افراد کے اسماء ذکر کئے ہیں، اس کے بعد صاحبان آثار حروف تہجی کی ترتیب کے مطابق، ترتیب میں صرف پہلے حرف کا لحاظ کیا گیا ہے۔ دیگر باپ کے نام ... وغیرہ میں کسی ترتیب کا لحاظ نہیں ہوا ہے۔ گیارھویں صدی ہجری کے عالم عنایت الله قہپائی نے کتاب کو آسان دسترسی کی خاطر حروف تہجی کے مطابق ترتیب دیا نیز آخر میں فوائد کا اضافہ کیا تھا، لیکن افسوس وہ نسخہ اب موجود نہیں ہے بلکہ اس وقت مؤلف کی ترتیب دی ہوئی کتاب ہی موجود ہے۔

نجاشی نے اس کتاب میں ایک ہزار کے قریب شیعہ مؤلین کا ذکر کیا ہے۔ اگر کسی جگہ اہل سنت، واقفی، زیدی اور فطحی) کا ذکر آیا ہے تو ان کے مذہب کی یاد آوری کی ہے۔[6] اس نے اپنے رجال میں 141 مقامات پر راویوں کے ضعف، فساد مذہب اور ان کے غلط عقیدے کی بنا پران سے نقل احادیث میں تضعیف بیان کی ہے۔[7]

منابع کتاب

نجاشی نے اپنے مطالب کے مستندات ذکر کرتے ہوئے اپنے پاس موجود اس کتاب کا نام ذکر کیا ہے جس سے ان مطالب کو نقل کیا ہے۔ نیز حسین بن عبید الله غضائری، ابن نوح سیرافی، شیخ مفید و ... جیسے اپنے بزرگ اساتید اور علم رجال و حدیث کے ماہرین سے بھی استفادہ کیا ہے۔ نیز اس کتاب کی تدوین میں ابو عمرو کشی، محمد بن حسن بن ولید اور ابن عقده جیسے بے نظیر شخصیات کے آثار سے بھی نقل کیا ہے۔[8]

اہمیت و خصوصیات

  • کتاب نجاشی رجال کے موضوع میں قدیمی ترین ہونے اور نجاشی کی علم رجال میں خصوصی مہارت کی بنا پر دیگر رجالی کتابوں پر برتری رکھتی ہے۔
  • اس کی اہم تریں خصوصیت یہ ہے کہ نجاشی نے اقوال نقل کرنے میں موثق افراد پر اعتماد کیا ہے۔
  • اگر کسی جگہ غیر موثق شخص سے نقل کرنا چاہا تو اسے قال فلان یا ذکر فلان سے نقل کیا ہے یا شیخ مفید جیسی ثقہ شخصیت کے واسطے سے نقل کیا ہے۔
  • راویوں پر جرح و تعدیل بھی بیان کی ہے۔
  • ائمہ معصومین علیہم السلام کی حیات طیبہ کے سلسلہ میں منحصر بہ فرد گزارش پیش کی ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کے سامنے پیش کی جانے والی تالیفات کا ذکر بھی کیا ہے۔[9]

نسخۂ کتاب

  • فضل بن محمد عباسی کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ کہ جو سنہ 1021 ہجری سے متعلق ہے اور یہ ابن ادریس حلی کے اصل نسخہ سے لیا گیا ہے نیز سید عبد الکریم بن طاووس اور سید محمد بن سید موسوی کے ہاتھ کے نسخے بھی موجود ہیں۔
  • کتب خانۂ آستان قدس رضوی کا نسخہ سنہ 967 ھ سے متعلق ہے۔
  • تبریز کے کتب خانے میں سنہ 981 ھ سے متعلق نسخہ موجود ہے نیز 551 ھ کا بھی لکھا ہوا نسخہ موجود ہے۔[10]

حوالہ جات

  1. حلی،، خلاصۃ الاقوال، ۱۴۱۷ ق، ص۲۱.
  2. علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال72/53
  3. علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال ص73 تعلیقہ ش1
  4. نجاشی، رجال النجاشی، ۱۴۱۶ق، ص۳.
  5. کتاب‌ شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور.
  6. رحیمہ شمشیری- مہدی جلالی، روش نجاشی در نقد رجال، ۱۳۸۵ش.
  7. محمد تقی دیاری بیدگلی، جریان شناسی غلو و غالیان در رجال نجاشی
  8. رحیمہ شمشیری- مہدی جلالی، روش نجاشی در نقد رجال، ۱۳۸۵ش.
  9. دائرة المعارف تشیع، ج ۸، ص۱۷۳.
  10. تہرانی، الذریعہ، ج ۱۰، ص۱۵۵.

منابع

  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دار الاضواء.
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۶ق.
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال، مؤسسہ نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ ق.
  • دائرة المعارف تشیع.
  • شمشیری، رحیمہ؛ جلالی، مہدی، روش نجاشی در نقد رجال، علوم حدیث، تابستان ۱۳۸۵ - شماره ۴۰.
  • کتاب شناخت سیره معصومان، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور.

بیرونی رابط