مشرکین سے برائت کی رسم

ویکی شیعہ سے
مشرکین سے برائت کی رسم
مشرکین سے برائت
عرفات کے مقام پر ادارہ حج بعثہ رہبری کی جانب سے ایرانی حجاج مشرکین سے برائت کا اظہار کرتے ہوئے(سنہ2022ء)
عرفات کے مقام پر ادارہ حج بعثہ رہبری کی جانب سے ایرانی حجاج مشرکین سے برائت کا اظہار کرتے ہوئے(سنہ2022ء)
زمان‌ایام حج
مکانعرفات، سرزمین منیٰ یا مکہ
جغرافیائی حدودمکہ
منشاء تاریخیپیغمبرخداؐ اور امام علیؑ کی طرف سے مشرکین سے برائت کا اعلان
اشعاراستکبار مخالف اور وحدت و یگانگت پر مبنی نعرے بازی
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات


رسم برائت از مشرکین (عربی: البراءة من المشرکین فی الحج) ایرانی حجاج کی طرف سے مکہ میں مناسک حج ادا کرنے کے دوران امریکہ اور اسرائیل مخالف نعرہ بازی کے ساتھ تمام مسلمانوں کو اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے مظاہرے کی شکل میں منائی جانے والی رسم کا نام ہے۔

مشرکین سے برائت کرنا ایک قرآنی حکم ہونے کے ساتھ ساتھ فقہی لحاظ سے بھی اس کا حکم ثابت ہے۔ فتح مکہ کے بعد پہلی بار رسول خداؐ کے حکم سے امام علیؑ نے مکہ میں آیات برائت کی تلاوت کر کے اس رسم کی بنیاد ڈالی۔ اس کے بعد پہلی بار امام خمینیؒ کے ایک پیغام کے ساتھ سنہ 1978ء کو یہ رسم منائی گئی۔ سعودی عرب حکومت کی طرف سے اس رسم کے انعقاد کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ سنہ1987ء کو اس رسم میں شرکت کرنے والے حجاج پر سعودی عرب کی سرکاری پولیس کی جانب سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں متعدد حاجی جان بحق اور بہت سے زخمی ہوئے۔

اہمیت اور مبانی

تفصیلی مضمون: ابلاغ آیات برائت

مشرکین سے برائت کی رسم ایک دینی و سیاسی رسم ہے جو ہر سال ایام حج میں منائی جاتی ہے۔[1] جمہوری اسلامی ایران کے قائدین ہمیشہ سے اس رسم کو بھرپور طریقے سے منانے کی تاکید کرتے آئے ہیں تاکہ حج کا سیاسی پہلو محفوظ رہ سکے۔[2]

اس رسم کو منانے کا واحد ہدف یہ ہے کہ اس کے ذریعے مشرکین و کفار کی استکباری اور طاغوتی سیاست سے برائت کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مابین اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کر کے استکباری سیاست کا مقابلہ کیا جائے۔[3] قرآن مجید میں کئی مقامات پر «نفی مشرکین» کی طرف اشارہ ہوا ہے؛ ان میں سے بعض آیات یہ ہیں: سورہ بقرہ کی آیت3، سورہ ممتحنہ کی آیت4،[4] سورہ توبہ کی آیت1 سے 3 تک اور سورہ انعام کی آیت 19 میں مشرکین سے برائت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[5]

مشرکین سے برائت کی رسم پہلی بار فتح مکہ کے بعد منعقد ہوئی[6] اور اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ پر سورہ برائت کی پہلی دس آیات نازل کر کے آپؐ کو مشرکین سے برائت کرنے کا حکم دیا۔ امام علیؑ نے ان آیات کو سنہ 9 ہجری میں ابلاغ کیا۔[7] ان آیات کی شان نزول کے بارے میں کہتے ہیں کہ جن مشرکین نے پیغمبر خداؐ سے عہد و پیمان باندھے تھے وہ بار بار اس کی خلاف ورزی کرتے تھے؛ اس لیے ان سے برائت کرنے کا حکم دیا گیا۔[8]

انعقاد کا طریقہ

سنہ 1978ء سے سنہ1987ء کے دوران مناسک حج شروع ہونے کے بعد ایرانی اور غیر ایرانی حجاج مکہ میں ایک خاص مقام پر جمع ہوتے تھے اور عالم اسلام کے موجودہ حالات سے متعلق خطاب سننے کے بعد احتجاجی جلوس کی شکل میں سڑک پر پیدل چلتے تھے۔[9]

سنہ 2001ء کی دہائی سے یہ رسم روز عرفہ کی صبح عرفات میں جمہوری اسلامی ایران کے ادارہ حج سے متعلق بعثہ رہبری کے دفتر میں منعقد ہوتی ہے،[10] جس میں قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت کے بعد ایرانی اور غیر ایرانی حجاج «مردہ باد اسرائیل»، «مردہ باد امریکہ» اور «یا ایها المسلمون اِتّحدوا اِتّحدوا»، «تفرقہ اور اختلاف شیطان کی پیروی ہے» جیسے نعرے لگاتے ہیں۔[11] پھر ایرانی حجاج کے رہنما، رہبر معظم انقلاب اسلامی کا پیغام فارسی اور عربی زبان میں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اس رسم کے آخر میں ایک قرارداد پیش کی جاتی ہے اور حجاج قرار داد کی ہر شق کے بعد تکبیر کا نعرہ لگا کر اس کی تائید کرتے ہیں۔[12]

فقہی مبانی

کہا جاتا ہے کہ مناسک حج کی جگہ جگہ شرک کی نفی اور مشرکین سے برائت کا دستور ملتا ہے۔ رَمْیِ جَمَرات اور تَلْبیہ اس کی واضح مثالیں ہیں جن میں شرک کی نفی اور اس سے برائت کی گفتگو ملتی ہے۔[13] امام خمینیؒ کی نظر میں مشرکین سے برائت کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں اور تقاضائے حال و زمان کے مطباق اسے منعقد کی جانے چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ حرم خدا یعنی مکہ اور ایام حج مشرکین سے برائت کا بہترین موقع ہے؛ کیونکہ یہ مقام اور وقت تاثیر کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔[14] امام خمینیؒ نے اس دستور العمل کو تَوَلی اور تبری جیسے دین کے اہم ارکان سے استناد کیا ہے.[15]

اہل سنت کے بعض علماء حج کے ایام میں جدال اور اختلاف افکنی کی ممانعت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس رسم کے انعقاد پر اعتراض کرتے ہیں، اس کے برعکس شیعہ فقہاء کہتے ہیں کہ اس رسم کا کلی طریقہ جدال اور اختلاف افکنی کے موارد میں سے نہیں اور یہ رسم مسلمانوں کے درمیان تخاصم و تنازع کا ہرگز سبب نہیں بنتی۔[16]

تاریخچہ

تاریخی نقل کے مطابق انقلاب اسلامی ایران سے پہلے ایام حج میں اس رسم کا انعقاد نہیں ہوتا تھا۔[17] امام خمینیؒ کو اس رسم کے احیاگر کے عنوان سے یاد کرتے ہیں جنہوں نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایام حج میں اس رسم کو منعقد کرنا شروع کیا۔[18] یہی وجہ ہے کہ امام خمینیؒ کو یوم برائت از مشرکین کا بانی سمجھتے ہیں۔[19]

ایک خون آشام حج

سعودی حکومت اپنے مختلف دورہ جات میں رسم برائت از مشرکین کے انعقاد کی مخالف کرتی آرہی ہے۔[20] سنہ1987ء کو جب حجاج نے مشرکین سے برائت کی رسم کو ترک کر کے مسجد الحرام جانے کا ارادہ کیا تو ان پر سعودی پولیس اور سیکورٹی فورسز نے حملہ کیا۔ اس حملے میں 500 سے زائد حاجی شہید اور سات سو حاجی زخمی ہوئے۔[21] اس کے بعد سنہ 1990ء تک یہ سلسلہ روک دیا گیا؛ لیکن سنہ 1991ء سے یہ رسم منیٰ اور عرفات میں منعقد کی جانے لگی۔[22]

مونوگراف

  • فارسی زبان میں تحریر کتاب "مبانی دینی و سیاسی برائت از مشرکان" کا مولف جواد ورعی ہے. یہ کتاب مشعر پبلشرز نے شائع کیا ہے۔[23]

حوالہ جات

  1. «برائت از مشرکین در حج؛ عملِ سیاسی منطبق بر دستور قرآن»، خبرگزاری ایکنا.
  2. «چرا هاشمی و روحانی مخالف اجرای مراسم برائت از مشرکین بودند؟»، خبرگزاری فارس.
  3. جمعی از نویسندگان، ره‌توشه حج، 1386ہجری شمسی، ج2، ص363.
  4. «برائت از مشرکین در حج؛ عملِ سیاسی منطبق بر دستور قرآن»، خبرگزاری ایکنا.
  5. ورعی، مبانی دینی و سیاسی برائت از مشرکین، 1379ہجری شمسی، ص51 و 90.
  6. دشتی، «برائت از مشرکین»، 1377ہجری شمسی، ج2، ص628.
  7. ابن‌کثیر، البدایه و النهایه، 1407ھ، ج5، ص36ـ37.
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1371ہجری شمسی، ج7، ص272.
  9. دشتی، «برائت از مشرکین»، 1377ہجری شمسی، ج2، ص630.
  10. بیات، حج 29، 1388ہجری شمسی، ص163.
  11. بیات، حج 29، 1388ہجری شمسی، ص170–172.
  12. بیات، حج 29، 1388ہجری شمسی، ص163.
  13. ورعی، مبانی دینی و سیاسی برائت از مشرکین، 1379ہجری شمسی، ص91.
  14. امام خمینی، صحیفه امام، 1378ہجری شمسی، ج20، ص98.
  15. دشتی، «برائت از مشرکین»، 1377ہجری شمسی، ج2، ص628 و 630.
  16. جمعی از نویسندگان، ره‌توشه حج، 1386ہجری شمسی، ج2، ص356.
  17. «امام خمینی احیاگر سنت برائت از مشرکین»، خبرگزاری جام‌جم آنلاین.
  18. ورعی، مبانی دینی و سیاسی برائت از مشرکین، 1379ہجری شمسی، ص7.
  19. «منافع حج از منظر قرآن و تبعات بی‌تدبیری‌های آل سعود»، خبرگزاری ایکنا.
  20. «مراسم «برائت از مشرکین» برگزار شد»، خبرگزاری ایسنا.
  21. دشتی، «برائت از مشرکین»، 1377ہجری شمسی، ج2، ص630.
  22. دشتی، «برائت از مشرکین»، 1377ہجری شمسی، ج2، ص632.
  23. ورعی، مبانی دینی و سیاسی برائت از مشرکین، 1379ہجری شمسی، ص8.

مآخذ