امام محمد باقر علیہ السلام نے سفر شام کے دوران وہاں عیسائیوں کے بڑے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لئے آنے والے عیسائی بشپ کے ساتھ جنتیوں کی غذا، میوہ جات اور فضلات، زمان خاص اور عزیرہ اور عزیر کے بارے میں مناظرہ کیا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

مناظرے کا متن

اسقف نے حاضرین کے اجتماع کی طرف نظر دوڑائی اور چونکہ امام محمد باقر علیہ السلام کے چہرے نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی، چنانچہ آپ(ع) سے مخاطب ہوا اور پوچھا: "کیا آپ ہم عیسائیوں میں سے ہیں یا مسلمانوں میں سے ہیں؟

امام(ع) نے فرمایا:

میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

اسقف: مسلمانوں کے علماء میں سے ہیں یا نادان افراد میں سے؟

امام(ع):

میں نادانوں (جاہلوں) میں سے نہیں ہوں۔

اسقف: پہلے میں پوچھوں یا آپ پوچھنا چاہیں گے؟

امام(ع):

اگر پوچھنا چاہتے ہو تو پوچھو؟

جنتیوں کا فضلہ نہیں ہوتا

اسقف: تم مسلمین کیوں دعوی کرتے ہو کہ جنتی لوگ کھاتے بھی ہیں اور پیتے بھی ہیں لیکن ان کا کوئی فضلہ نہیں ہوتا؟ کیا اس امر کے لئے اس دنیا میں کوئی واضح نمونہ پایا جاتا ہے؟

امام(ع):

ہاں! اس دنیا میں اس کا واضح اور آشکار نمونہ "جنین" (=ماں کے رحم میں بچہ) ہے جو کھاتا ہے لیکن اس کا کوئی فضلہ نہیں ہے۔

اسقف: عجبا! پس آپ نے کہا کہ آپ علماء میں سے نہیں ہیں؟!

امام(ع):

میں نے یہ نہیں کہا، میں نے کہا کہ جاہلوں میں سے نہیں ہوں!

جنت کی نعمتیں کم نہیں ہوتیں

اسقف نے دوسرا سوال جنت کے پھلوں اور نعمتوں کے بارے میں سوال کیا جس کا مضمون کچھ یوں ہے:

آپ کے پاس اپنے اس عقیدے کا کیا ثبوت ہے کہ جنت کے پھلوں اور نعمتوں میں قلت واقع نہیں ہوتی اور جس قدر بھی انہیں استعمال کیا جاتا ہے ان کی مقدار پہلے کی طرح باقی رہتی ہے؟ کیا اس دنیا کے موجودات میں اس کے لئے کوئی مثال تلاش کی جاسکتی ہے؟

امام(ع):

ہاں! عالم محسوسات میں اس کی روش مثال آگ ہے، اگر ایک چراغ کے شعلے سے سینکڑوں چراغ بھی روشن کرو، پہلے چراغ کا شعلہ اپنے حال پر باقی رہتا ہے اور اس میں کوئی کوئی نہیں آتی۔

زمان خاص کے بارے میں

اسقف: میں ایک سوال اور پوچھتا ہوں؛ مجھے بتائیں اس وقت کے بارے میں جو نہ تو رات کی گھڑیوں میں سے ہے اور نہ ہی دن کی گھڑیوں میں سے۔

امام(ع):

وہ طلوع فجر اور طلوع فجر کے درمیان کا وقت ہے جس میں فکرمند لوگ سکون پاتے ہیں۔

یہ جواب سننے کے بعد نصرانی نے چیخ ماری اور کہا: ایک سوال اور ہے، خدا کی قسم اس کا جواب نہیں دے سکیں گے؟

امام نے فرمایا:

یقینا تم نے جھوٹی قسم اٹھائی ہے۔

عزیر اور عزیرہ کے بارے میں

نصرانی عالم نے کہا: مجھے ایسے دو مولودوں کے بارے میں بتاؤ جو ایک ہی دن پیدا ہوئے اور ایک ہی دن دنیا سے رخصت ہوئے لیکن وفات کے وقت ایک کی عمر 50 سال تھی اور دوسرے کی 150 سال۔

امام باقر(ع):

وہ عزیر اور عزیرہ تھے اور جب ان کی عمر 25 برس تک پہنچی تو عزیر گدھے پر سوا انطاکیہ کی بستی سے گذرے اور دیکھا کہ بستی مکمل طور پر ویران ہوچکی ہے، کہنے لگے: خداوند متعال اس بستی کو نابودی کے بعد کیونکر زندہ کرے گا؟
اس کے باوجود کہ خداوند متعال نے ان کو منتخب کیا تھا اور ان کو ہدایت عطا کی تھی لیکن جب انھوں نے اس لب و لہجے میں بات کی تو خداوند متعال ان پر غضبناک ہوا اور انہیں 100 سال تک موت سے دوچار کیا، اس غیر شائستہ بات کی وجہ سے جو وہ کہہ چکے تھے اور 100 سال کے بعد انہیں ان کے گدھے اور کھانے اور پانی کے ساتھ، اسی حالت میں زندہ کیا۔
پس عزیرہ کے پاس پلٹ گئے لیکن عزیرہ اپنے بھائی کو نہ پہچان سکے، لیکن عزیر ان کے گھر میں مہمان کے طور پر ٹہرے۔ عزیر کے فرزند اور ان کے فرزندوں کے فرزند ان کے پاس آتے تھے جبکہ وہ خود 25 سالہ نوجوان تھے۔ عزیر عزیرہ اور ان کے فرزندوں کو یاد کرتے اور ان کے بعض واقعات بیان کرتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ اس وقت بوڑھے ہوچکے ہیں۔
عزیرہ ـ جو 125 سالہ بزرگ تھے ـ نے کہا: میں نے آج تک کوئی 25 سالہ نوجوان نہیں دیکھا جو میرے اور میرے بھائی عزیر کے درمیان گذرے ہوئے واقعات کی نسبت مجھ سے زيادہ آگاہ ہو؛ اے مرد! بتاؤ تم آسمانی مخلوق ہو یا زمینی مخلوق؟
عزیر نے کہا: اے عزیرہ! میں عزیر ہوں، اور خدا مجھ پر غضب ناک ہوا اور میری ناہموار بات کی وجہ سے مجھے سو سال تک موت سے ہمکنار کیا، تا کہ مجھے سزا بھی دے اور میرے یقین میں اضافہ بھی کرے، اور یہ وہی گدھا اور کھانا اور پانی ہے جنہیں لے کر میں گھر سے نکلا تھا اور اب خدا نے مجھے اسی حالت میں لوٹا دیا ہے۔ عزیرہ نے ان کی باتیں مان لیں۔ پس عزیر 25 سال تک مزید ان کے ساتھ جئے اور اس کے بعد وہ دونوں ایک ہی دن دنیا سے رخصت ہوئے۔

اسقف نے اس کے بعد ہر وہ سوال امام محمد باقر علیہ السلام سے پوچھا جو اس کے نزدیک دشوار تھا اور جب اپنے آپ کو عاجز و بےبس پیا تو سخت خفا اور غضبناک ہوا اور کہا: "اے لوگو! تم ایک ایسے والا مقام عالم کو یہاں لائے ہو جس کی مذہبی معلومات مجھ سے کہیں زیادہ ہیں تا کہ مجھے رسوا اور شرمندہ کرسکو! اور مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ ان کے پیشوا ہم سے برتر و عالم تر ہیں!!؟؟ خدا کی قسم! میں اس کے بعد تمہارے ساتھ ہم کلام نہیں ہونگا اور اگر اگلے سال تک زندہ رہا تو تم مجھے اپنے اجتماع میں نہیں دیکھ پاؤگے"۔ یہ کہہ کر عیسائی اسقف اٹھا اور نکل کر چلا گیا۔

مناظرے کا نتیجہ

اس واقعے کی خبر تیزی سے شہر دمشق میں پھیل گئی اور شام کی حدود میں وجد اور شادمانی کی لہر اٹھی۔ ہشام بن عبدالملک ـ [جو بنو امیہ کی مروانی شاخ کا خلیفہ تھا] ـ بجائے اس کے اجنبیوں پر امام محمد باقر علیہ السلام کی علمی فتح پر خوش ہوجائے؛ پہلے سے بھی زیادہ امام(ع) کے معنوی اثر و رسوخ سے خائف ہوا اور ظاہری طور پر خوشی ظاہر کی اور امام(ع) کے لئے تحفہ بھجوایا اور ساتھ ہی پیغام دیا کہ اسی روز دمشق چھوڑ کے مدینہ واپس چلے جائیں!۔[1]۔[2]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. طبری، دلائل الامامة، صص229و230۔
  2. مجلسی، بحار الانوار، ج46، صص309تا 313۔

مآخذ

  • طبری، محمد بن جریر، دلائل الامامة، قم، موسسة البعثة، الاولی، 1413 هجری قمری۔
  • مجلسی، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403 هجری قمری۔