سلیمان مروزی سے امام رضا کا مناظرہ
عمومی معلومات | |
---|---|
فریق اول | امام رضاؑ |
فریق دوم | سلیمان مروزی |
موضوع | بداء اور ارادہ خدا |
شیعہ منابع | توحید صدوق، عیون اخبار الرضا، الاحتجاج و بحارالانوار |
نتیجہ | سلیمان مروزی کا بدا کے نظرے کو قبول کرنا |
مشہور مناظرے | |
عیسائی اسقف سے امام محمد باقر کا مناظرہ • حسن بصری کے ساتھ امام باقر کا مناظرہ • ابوقرۃ کے ساتھ امام رضا کا مناظرہ • امام رضا کا جاثلیق سے مناظرہ • امام رضا کا رأس الجالوت سے مناظرہ • سلیمان مروزی سے امام رضا کا مناظرہ • امام رضا کا عمران صابی سے مناظره • توحید پر امام رضا کا مناظرہ |
سلیمان مَرْوزی کے ساتھ امام رضاؑ کا مناظرہ اس علمی گفتگو کو کہا جاتا ہے جو امام رضاؑ اور سلیمان مَرْوزی کے ساتھ بِدا اور ارادہ خدا کے بارے میں ہوئی۔ سلیمان مروزی خراسان کے متکلمین میں سے تھا۔ شیعہ حدیثی منابع کے مطابق یہ مناظرہ عباسی خلیفہ مأمون کی درخواست پر امام رضاؑ کو شکست دینے کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔
اس مناظرے کا متن شیخ صدوق کی کتاب توحید صدوق اور عیون اخبار الرضا اور احمد طَبْرسی کی کتاب الاحتجاج میں آیا ہے۔ اس حدیث کے مطابق اس مناظرے میں سلیمان مروزی کو شکست ہوئی۔ اس مناظرے میں سلیمان نے نظریہ بِدا کو قبول کیا اور ارادہ خداوند کے بارے میں بھی امام رضاؑ کے اشکالات اور اعتراضات کا جواب نہ دے سکا۔
مناظرے کا پس منظر
ایک دن خراسان کے متکلم سلیمان مَرْوْزی عباسی خلیفہ مأمون کے پاس پہنچتا ہے۔ مأمون اس سے کہتا ہے کہ علی بن موسی الرضا حجاز سے میرے پاس آیا ہے اور وہ علم کلام اور متکلمین کو پسند کرتا ہے۔ روز تَرویہ یہاں آجاؤ اور ان کے ساتھ مناظرہ کرو۔ سلیمان کہتا ہے کہ وہ میرے سوالات کا جواب نہیں دے سکے گا اور میں بنی ہاشم کے سامنے اپنی تحقیر کرنا نہیں چاہتا۔ مأمون کہتا ہے کہ میں بھی اسی لئے چاہتا ہوں تم ان سے مناظرہ کرو۔ اس کے بعد مأمون نے امام رضاؑ سے اس مناظرے میں شرکت کر نے کی درخواست کرتا ہے جسے آپؑ قبول کرتے ہیں۔[1]
مناظرے کا موضوع
مناظرہ کا آغاز بِدا کی بحث سے ہوتا ہے۔ امام رضاؑ نے قرآن کی مختلف آیات جیسے وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ؛ (ترجمہ: اور وہ وہی ہے جو تخلیق کی ابتداء کرتا ہے پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا۔)[؟–؟]،[2] بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ؛ (ترجمہ: (وہی) آسمانوں اور زمین کا موجد ہے۔)[؟–؟][3] اور وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّـهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ؛ (ترجمہ: اور کچھ اور لوگ ایسے بھی ہیں جن کا معاملہ خدا کے حکم پر موقوف ہے وہ انہیں سزا دے یا ان کی توبہ قبول کرے۔)[؟–؟][4] کی تلاوت فرمائی اور سلیمان سے کہا ان آیات کے ہوتے ہوئے کس طرح بدا کا انکار کرتے ہو؟۔ سلیمان اس سلسلے میں مزید وضاحت کی درخواست کرتا ہے اور امام کی وضاحت کی بعد اس سلسلے میں سلیمان آپ کی بات مان لیتا ہے۔[5]
اس کے بعد سلیمان خدا کے ارادے کے بارے میں سوال کرتا ہے اور خدا کے دیگر صفات جیسے سمیع، بصیر اور قدیر وغیرہ کے ساتھ خدا کے ارادے کا موازنہ کرتے ہوئے اسے بھی دوسرے صفات کی طرح صفت ذاتی قرار دیتا ہے؛ لیکن امام رضاؑ فرماتے ہیں کہ ان کے درمیان فرق ہے؛ کیونکہ خدا کا سمیع، بصیر اور قدیر ہونا کسی چیز کو پیدا کرنے یا ان میں کسی تبدیلی لانے سے پہلے بھی خدا کے اندر موجود ہے؛ لیکن جب خدا کسی چیز کو خلق کرنا چاہتا ہے تو ارادہ کرتا ہے۔ ہم کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا نے فلان چیز کو پیدا کیا یا اس میں فلان تبدیلی لائی کیونکہ خدا سمیع، بصیر و قدیر ہے؛ بلکہ کہیں گے کہ چونکہ خدا نے اراده کیا لہذا ان چیزوں کو ایجاد کیا یا اس میں کوئی تبدیلی لائی۔[6]
اس بحث کے دوران امام رضاؑ سلیمان سے مختلف سوالات کرتے ہیں اور آخر کار سلیمان کی خاموشی اور امام رضاؑ کے سوالوں کا جواب نہ دینے کے ذریعے یہ بحث ختم ہوتی ہے۔[7]
نتیجہ
اس حدیث کے مطابق اس مناظرے کے دوران سلیمان کئی دفعہ امام رضاؑ کے استدلالات کے سامنے لاجواب ہوتا ہے۔ اور آخر کار اس بحث کے آخر میں وہ نظریہ بِداء کو مان لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کے بعد اس کا انکار نہیں کرونگا۔[8] اسی طرح خدا کے صفات کی بحث میں سلیمان بعض اوقات ایسے جوابات دیتے کہ خود بھی اس پر اعتراض کرنے لگ جاتا اور شرکاء بھی اس پر ہنسنے لگ جاتے۔[9] بعض مواقع امام رضاؑ اس سے کچھ سوالات پوچھتے تو وہ ضد و نقیض جوابات دے دیتا[10] اور اخر میں امام رضاؑ کے آخری سوال کا جواب ہی نہیں دیا۔[11]
منابع
اس مناظرے کے متن کو شیخ صدوق (۳۰۵-۳۸۱ھ) نے اپنی دو کتابوں توحید صدوق[12] اور عیون اخبار الرضا[13] میں ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد چھٹی صدی ہجری میں احمد بن علی طَبرسی کی کتاب احتجاج میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔[14]
اس مناظرے کے بارے میں طبرسی کی رپورٹ اس چیز سے بہت کم ہے جسے علامہ مجلسی نے نقل کی ہیں، طبرسی کی روایت میں اس حدیث کا ایک حصہ اختصار کی خاطر حذف ہوا ہی۔[15] یہ حدیث بحارالانوار میں شیخ صدوق کی دونوں کتابوں سے نقل کی ہیں۔[16]
متن اور ترجمہ
متن | ترجمه |
---|---|
قَدِمَ سُلَيْمَانُ الْمَرْوَزِيُّ مُتَكَلِّمُ خُرَاسَانَ عَلَى الْمَأْمُونِ فَأَكْرَمَهُ وَ وَصَلَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ إِنَّ ابْنَ عَمِّي عَلِيَّ بْنَ مُوسَى الرِّضَا ع قَدِمَ عَلَيَّ مِنَ الْحِجَازِ وَ هُوَ يُحِبُّ الْكَلَامَ وَ أَصْحَابَهُ فَلَا عَلَيْكَ أَنْ تَصِيرَ إِلَيْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ لِمُنَاظَرَتِهِ فَقَالَ سُلَيْمَانُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَسْأَلَ مِثْلَهُ فِي مَجْلِسِكَ فِي جَمَاعَةٍ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ فَيَنْتَقِضَ عِنْدَ الْقَوْمِ إِذَا كَلَّمَنِي وَ لَا يَجُوزُ الِاسْتِقْصَاءُ عَلَيْهِ قَالَ الْمَأْمُونُ إِنَّمَا وَجَّهْتُ إليه [إِلَيْكَ] لِمَعْرِفَتِي بِقُوَّتِكَ وَ لَيْسَ مُرَادِي إِلَّا أَنْ تَقْطَعَهُ عَنْ حُجَّةٍ وَاحِدَةٍ فَقَطْ فَقَالَ سُلَيْمَانُ حَسْبُكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اجْمَعْ بَيْنِي وَ بَيْنَهُ وَ خَلِّنِي وَ الذَّمَّ فَوَجَّهَ الْمَأْمُونُ إِلَى الرِّضَا ع فَقَالَ إِنَّهُ قَدِمَ إِلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مَرْوَزَ وَ هُوَ وَاحِدُ خُرَاسَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْكَلَامِ فَإِنْ خَفَّ عَلَيْكَ أَنْ تَتَجَشَّمَ الْمَصِيرَ إِلَيْنَا فَعَلْتَ فَنَهَضَ ع لِلْوُضُوءِ وَ قَالَ لَنَا تَقَدَّمُونِي وَ عِمْرَانُ الصَّابِي مَعَنَا فَصِرْنَا إِلَى الْبَابِ فَأَخَذَ يَاسِرٌ وَ خَالِدٌ بِيَدِي فَأَدْخَلَانِي عَلَى الْمَأْمُونِ فَلَمَّا سَلَّمْتُ قَالَ أَيْنَ أَخِي أَبُو الْحَسَنِ أَبْقَاهُ اللَّهُ تَعَالَى قُلْتُ خَلَّفْتُهُ يَلْبَسُ ثِيَابَهُ وَ أَمَرَنَا أَنْ نَتَقَدَّمَ ثُمَّ قُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ عِمْرَانَ مَوْلَاكَ مَعِي وَ هُوَ عَلَى الْبَابِ فَقَالَ وَ مَنْ عِمْرَانُ قُلْتُ الصَّابِي الَّذِي أَسْلَمَ عَلَى يَدِكَ قَالَ فَلْيَدْخُلْ فَدَخَلَ فَرَحَّبَ بِهِ الْمَأْمُونُ ثُمَّ قَالَ لَهُ يَا عِمْرَانُ لَمْ تَمُتْ حَتَّى صِرْتَ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي شَرَّفَنِي بِكُمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَقَالَ لَهُ الْمَأْمُونُ يَا عِمْرَانُ هَذَا سُلَيْمَانُ الْمَرْوَزِيُّ مُتَكَلِّمُ خُرَاسَانَ قَالَ عِمْرَانُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّهُ يَزْعُمُ [أَنَّهُ] وَاحِدُ خُرَاسَانَ فِي النَّظَرِ وَ يُنْكِرُ الْبَدَاءَ قَالَ فَلِمَ لَا تُنَاظِرُونَهُ قَالَ عِمْرَانُ ذَلِكَ إِلَيْهِ فَدَخَلَ الرِّضَا ع فَقَالَ فِي أَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ قَالَ عِمْرَانُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ هَذَا سُلَيْمَانُ الْمَرْوَزِيُّ فَقَالَ لَهُ سُلَيْمَانُ أَ تَرْضَى بِأَبِي الْحَسَنِ وَ بِقَوْلِهِ فِيهِ فَقَالَ عِمْرَانُ قَدْ رَضِيتُ بِقَوْلِ أَبِي الْحَسَنِ فِي الْبَدَاءِ عَلَى أَنْ يَأْتِيَنِي فِيهِ بِحُجَّةٍ أَحْتَجُّ بِهَا عَلَى نُظَرَائِي مِنْ أَهْلِ النَّظَرِ قَالَ الْمَأْمُونُ يَا أَبَا الْحَسَنِ مَا تَقُولُ فِيمَا تَشَاجَرَا فِيهِ قَالَ وَ مَا أَنْكَرْتَ مِنَ الْبَدَاءِ يَا سُلَيْمَانُ وَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ أَ وَ لَمْ يَرَ الْإِنْسانُ أَنَّا خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ يَكُ شَيْئاً وَ يَقُولُ عَزَّ وَ جَلَ وَ هُوَ الَّذِي يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَ يَقُولُ بَدِيعُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ يَقُولُ عَزَّ وَ جَلَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ ما يَشاءُ وَ يَقُولُ وَ بَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ وَ يَقُولُ عَزَّ وَ جَلَ وَ آخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَ إِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَ يَقُولُ عَزَّ وَ جَلَ وَ ما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَ لا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتابٍ قَالَ سُلَيْمَانُ هَلْ رُوِّيتَ فِيهِ مِنْ آبَائِكَ شَيْئاً قَالَ نَعَمْ رُوِّيتُ عَنْ أَبِي عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عِلْمَيْنِ عِلْماً مَخْزُوناً مَكْنُوناً لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا هُوَ مِنْ ذَلِكَ يَكُونُ الْبَدَاءُ وَ عِلْماً عَلَّمَهُ مَلَائِكَتَهُ وَ رُسُلَهُ فَالْعُلَمَاءُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ نَبِيِّنَا يَعْلَمُونَهُ قَالَ سُلَيْمَانُ أُحِبُّ أَنْ تَنْزِعَهُ لِي مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ لِنَبِيِّهِ ص فَتَوَلَّ عَنْهُمْ فَما أَنْتَ بِمَلُومٍ أَرَادَ هَلَاكَهُمْ ثُمَّ بَدَا لِلَّهِ تَعَالَى فَقَالَ وَ ذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ سُلَيْمَانُ زِدْنِي جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ الرِّضَا لَقَدْ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ آبَائِهِ ع عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ص قَالَ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ أَوْحَى إِلَى نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِهِ أَنْ أَخْبِرْ فُلَاناً الْمَلِكَ أَنِّي مُتَوَفِّيهِ إِلَى كَذَا وَ كَذَا فَأَتَاهُ ذَلِكَ النَّبِيُّ فَأَخْبَرَهُ فَدَعَا اللَّهَ الْمَلِكُ وَ هُوَ عَلَى سَرِيرِهِ حَتَّى سَقَطَ مِنَ السَّرِيرِ وَ قَالَ يَا رَبِّ أَجِّلْنِي حَتَّى يَشِبَّ طِفْلِي وَ قضي [يَقْضِيَ] أَمْرِي فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى ذَلِكَ النَّبِيِّ أَنِ ائْتِ فُلَاناً الْمَلِكَ فَأَعْلِمْ أَنِّي قَدْ أَنْسَيْتُ فِي أَجَلِهِ وَ زِدْتُ فِي عُمُرِهِ إِلَى خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً فَقَالَ ذَلِكَ النَّبِيُّ ع يَا رَبِّ إِنَّكَ لَتَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَكْذِبْ قَطُّ فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَيْهِ إِنَّمَا أَنْتَ عَبْدٌ مَأْمُورٌ فَأَبْلِغْهُ ذَلِكَ وَ اللَّهُ لا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى سُلَيْمَانَ فَقَالَ أَحْسَبُكَ ضَاهَيْتَ الْيَهُودَ فِي هَذَا الْبَابِ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ وَ مَا قَالَتِ الْيَهُودُ قَالَ قالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ يَعْنُونَ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ فَرَغَ مِنَ الْأَمْرِ فَلَيْسَ يُحْدِثُ شَيْئاً فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَ لُعِنُوا بِما قالُوا وَ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْماً سَأَلُوا أَبِي مُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ ع عَنِ الْبَدَاءِ فَقَالَ وَ مَا يُنْكِرُ النَّاسُ مِنَ الْبَدَاءِ وَ أَنْ يَقِفَ اللَّهُ قَوْماً يُرْجِيهِمْ لِأَمْرِهِ قَالَ سُلَيْمَانُ أَ لَا تُخْبِرُنِي عَنْ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ فِي أَيِّ شَيْءٍ أُنْزِلَتْ قَالَ يَا سُلَيْمَانُ لَيْلَةُ الْقَدْرِ يُقَدِّرُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِيهَا مَا يَكُونُ مِنَ السَّنَةِ إِلَى السَّنَةِ مِنْ حَيَاةٍ أَوْ مَوْتٍ أَوْ خَيْرٍ أَوْ شَرٍّ أَوْ رِزْقٍ فَمَا قَدَّرَهُ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ فَهُوَ مِنَ الْمَحْتُومِ قَالَ سُلَيْمَانُ أَلْآنَ قَدْ فَهِمْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَزِدْنِي قَالَ يَا سُلَيْمَانُ إنَّ مِنَ الْأُمُورِ أُمُوراً مَوْقُوفَةً عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ يُقَدِّمُ مِنْهَا مَا يَشَاءُ وَ يُؤَخِّرُ مَا يَشَاءُ وَ يَمْحُو مَا يَشَاءُ يَا سُلَيْمَانُ إِنَّ عَلِيّاً ع كَانَ يَقُولُ الْعِلْمُ عِلْمَانِ فَعِلْمٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ و مَلَائِكَتَهُ وَ رُسُلَهُ فَمَا عَلَّمَهُ مَلَائِكَتَهُ وَ رُسُلَهُ فَإِنَّهُ يَكُونُ وَ لَا يُكَذِّبُ نَفْسَهُ وَ لَا مَلَائِكَتَهُ وَ لَا رُسُلَهُ وَ عِلْمٌ عِنْدَهُ مَخْزُونٌ لَمْ يُطْلِعْ عَلَيْهِ أَحَداً مِنْ خَلْقِهِ يُقَدِّمُ مِنْهُ مَا يَشَاءُ وَ يُؤَخِّرُ مِنْهُ مَا يَشَاءُ وَ يَمْحُو ما يَشاءُ وَ يُثْبِتُ مَا يَشَاءُ قَالَ سُلَيْمَانُ لِلْمَأْمُونِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا أُنْكِرُ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا الْبَدَاءَ وَ لَا أُكَذِّبُ بِهِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ فَقَالَ الْمَأْمُونُ يَا سُلَيْمَانُ سَلْ أَبَا الْحَسَنِ عَمَّا بَدَا لَكَ وَ عَلَيْكَ بِحُسْنِ الِاسْتِمَاعِ وَ الْإِنْصَافِ قَالَ سُلَيْمَانُ يَا سَيِّدِي أَسْأَلُكَ قَالَ الرِّضَا ع سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ قَالَ مَا تَقُولُ فِيمَنْ جَعَلَ الْإِرَادَةَ اسْماً وَ صِفَةً مِثْلَ حَيٍّ وَ سَمِيعٍ وَ بَصِيرٍ وَ قَدِيرٍ قَالَ الرِّضَا ع إِنَّمَا قُلْتُمْ حَدَثَتِ الْأَشْيَاءُ وَ اخْتَلَفَتْ لِأَنَّهُ شَاءَ وَ أَرَادَ وَ لَمْ تَقُولُوا حَدَثَتِ الْأَشْيَاءُ وَ اخْتَلَفَتْ لِأَنَّهُ سَمِيعٌ بَصِيرٌ فَهَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّهُمَا لَيْسَتَا مِثْلَ سَمِيعٍ وَ لَا بَصِيرٍ وَ لَا قَدِيرٍ قَالَ سُلَيْمَانُ فَإِنَّهُ لَمْ يَزَلْ مُرِيداً قَالَ ع يَا سُلَيْمَانُ فَإِرَادَتُهُ غَيْرُهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَقَدْ أَثْبَتَّ مَعَهُ شَيْئاً غَيْرَهُ لَمْ يَزَلْ قَالَ سُلَيْمَانُ مَا أَثْبَتُّ قَالَ الرِّضَا ع أَ هِيَ مُحْدَثَةٌ قَالَ سُلَيْمَانُ لَا مَا هِيَ مُحْدَثَةٌ فَصَاحَ بِهِ الْمَأْمُونُ وَ قَالَ يَا سُلَيْمَانُ مِثْلُهُ يُعَايَا أَوْ يُكَابَرُ عَلَيْكَ بِالْإِنْصَافِ أَ مَا تَرَى مَنْ حَوْلَكَ مِنْ أَهْلِ النَّظَرِ ثُمَّ قَالَ كَلِّمْهُ يَا أَبَا الْحَسَنِ فَإِنَّهُ مُتَكَلِّمُ خُرَاسَانَ فَأَعَادَ عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ فَقَالَ هِيَ مُحْدَثَةٌ يَا سُلَيْمَانُ فَإِنَّ الشَّيْءَ إِذَا لَمْ يَكُنْ أَزَلِيّاً كَانَ مُحْدَثاً وَ إِذَا لَمْ يَكُنْ مُحْدَثاً كَانَ أَزَلِيّاً قَالَ سُلَيْمَانُ إِرَادَتُهُ مِنْهُ كَمَا أَنَّ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ عِلْمَهُ مِنْهُ قَالَ الرِّضَا ع فَأَرَادَ نَفْسُهُ قَالَ لَا قَالَ فَلَيْسَ الْمُرِيدُ مِثْلَ السَّمِيعِ وَ الْبَصِيرِ قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّمَا أَرَادَ نَفْسُهُ كَمَا سَمِعَ نَفْسُهُ وَ أَبْصَرَ نَفْسُهُ وَ عَلِمَ نَفْسُهُ قَالَ الرِّضَا ع مَا مَعْنَى أَرَادَ نَفْسُهُ أَرَادَ أَنْ يَكُونَ شَيْئاً وَ أَرَادَ أَنْ يَكُونَ حَيّاً أَوْ سَمِيعاً أَوْ بَصِيراً أَوْ قَدِيراً قَالَ نَعَمْ قَالَ الرِّضَا ع أَ فَبِإِرَادَتِهِ كَانَ ذَلِكَ قَالَ سُلَيْمَانُ نَعَمْ قَالَ الرِّضَا ع فَلَيْسَ لِقَوْلِكَ أَرَادَ أَنْ يَكُونَ حَيّاً سَمِيعاً بَصِيراً مَعْنًى إِذَا لَمْ يَكُنْ ذَلِكَ بِإِرَادَتِهِ قَالَ سُلَيْمَانُ بَلَى قَدْ كَانَ ذَلِكَ بِإِرَادَتِهِ فَضَحِكَ الْمَأْمُونُ وَ مَنْ حَوْلَهُ وَ ضَحِكَ الرِّضَا ع ثُمَّ قَالَ لَهُمْ ارْفُقُوا بِمُتَكَلِّمِ خُرَاسَانَ يَا سُلَيْمَانُ فَقَدْ حَالَ عِنْدَكُمْ عَنْ حَالِهِ وَ تَغَيَّرَ عَنْهَا وَ هَذَا مَا لَا يُوصَفُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ بِهِ فَانْقَطَعَ ثُمَّ قَالَ الرِّضَا ع يَا سُلَيْمَانُ أَسْأَلُكَ عَنْ مَسْأَلَةٍ قَالَ سَلْ جُعِلْتُ فِدَاكَ قَالَ أَخْبِرْنِي عَنْكَ وَ عَنْ أَصْحَابِكَ تُكَلِّمُونَ النَّاسَ بِمَا تَفْقَهُونَ وَ تَعْرِفُونَ أَوْ بِمَا لَا تَفْقَهُونَ وَ لَا تَعْرِفُونَ قَالَ بَلْ بِمَا نَفْقَهُ وَ نَعْلَمُ قَالَ الرِّضَا ع فَالَّذِي يَعْلَمُ النَّاسُ أَنَّ الْمُرِيدَ غَيْرُ الْإِرَادَةِ وَ أَنَّ الْمُرِيدَ قَبْلَ الْإِرَادَةِ وَ أَنَّ الْفَاعِلَ قَبْلَ الْمَفْعُولِ وَ هَذَا يُبْطِلُ قَوْلَكُمْ أَنَّ الْإِرَادَةَ وَ الْمُرِيدَ شَيْءٌ وَاحِدٌ قَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ لَيْسَ ذَلِكَ مِنْهُ عَلَى مَا يَعْرِفُ النَّاسُ وَ لَا عَلَى مَا يَفْقَهُونَ قَالَ الرِّضَا ع فَأَرَاكُمْ ادَّعَيْتُمْ عِلْمَ ذَلِكَ بِلَا مَعْرِفَةٍ وَ قُلْتُمُ الْإِرَادَةُ كَالسَّمْعِ وَ الْبَصَرِ إِذَا كَانَ ذَلِكَ عِنْدَكُمْ عَلَى مَا لَا يُعْرَفُ وَ لَا يُعْقَلُ فَلَمْ يُحِرْ جَوَاباً ثُمَّ قَالَ الرِّضَا ع يَا سُلَيْمَانُ هَلْ يَعْلَمُ اللَّهُ جَمِيعَ مَا فِي الْجَنَّةِ وَ النَّارِ قَالَ سُلَيْمَانُ نَعَمْ قَالَ أَ فَيَكُونُ مَا عَلِمَ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يَكُونُ مِنْ ذَلِكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَإِذَا كَانَ حَتَّى لَا يَبْقَى مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا كَانَ أَ يَزِيدُهُمْ أَوْ يَطْوِيهِ عَنْهُمْ قَالَ سُلَيْمَانُ بَلْ يَزِيدُهُمْ قَالَ فَأَرَاهُ فِي قَوْلِكَ قَدْ زَادَهُمْ مَا لَمْ يَكُنْ فِي عِلْمِهِ أَنَّهُ يَكُونُ قَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَالْمُرِيدُ لَا غَايَةَ لَهُ قَالَ فَلَيْسَ يُحِيطُ عِلْمُهُ عِنْدَكُمْ بِمَا يَكُونُ فِيهِمَا إِذَا لَمْ يَعْرِفْ غَايَةَ ذَلِكَ وَ إِذَا لَمْ يُحِطْ عِلْمُهُ بِمَا يَكُونُ فِيهِمَا لَمْ يَعْلَمْ مَا يَكُونُ فِيهِمَا قَبْلَ أَنْ يَكُونَ تَعَالَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَنْ ذَلِكَ عُلُوّاً كَبِيراً قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّمَا قُلْتُ لَا يَعْلَمُهُ لِأَنَّهُ لَا غَايَةَ لِهَذَا لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ وَصَفَهُمَا بِالْخُلُودِ وَ كَرِهْنَا أَنْ نَجْعَلَ لَهُمَا انْقِطَاعاً قَالَ الرِّضَا ع لَيْسَ عِلْمُهُ بِذَلِكَ بِمُوجِبٍ لِانْقِطَاعِهِ عَنْهُمْ لِأَنَّهُ قَدْ يَعْلَمُ ذَلِكَ ثُمَّ يَزِيدُهُمْ ثُمَّ لَا يَقْطَعُهُ عَنْهُمْ وَ كَذَلِكَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي كِتَابِهِ كُلَّما نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْناهُمْ جُلُوداً غَيْرَها لِيَذُوقُوا الْعَذابَ وَ قَالَ لِأَهْلِ الْجَنَّةِ عَطاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ وَ قَالَ عَزَّ وَ جَلَ وَ فاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ لا مَقْطُوعَةٍ وَ لا مَمْنُوعَةٍ فَهُوَ عَزَّ وَ جَلَّ يَعْلَمُ ذَلِكَ وَ لَا يَقْطَعُ عَنْهُمُ الزِّيَادَةَ أَ رَأَيْتَ مَا أَكَلَ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَ مَا شَرِبُوا لَيْسَ يُخْلِفُ مَكَانَهُ قَالَ بَلَى قَالَ أَ فَيَكُونُ يَقْطَعُ ذَلِكَ عَنْهُمْ وَ قَدْ أَخْلَفَ مَكَانَهُ قَالَ سُلَيْمَانُ لَا قَالَ فَكَذَلِكَ كُلَّمَا يَكُونُ فِيهَا إِذَا أَخْلَفَ مَكَانَهُ فَلَيْسَ بِمَقْطُوعٍ عَنْهُمْ قَالَ سُلَيْمَانُ بَلَى يَقْطَعُهُ عَنْهُمْ وَ لَا يَزِيدُهُمْ قَالَ الرِّضَا ع إِذاً يَبِيدُ فِيهَا وَ هَذَا يَا سُلَيْمَانُ إِبْطَالُ الْخُلُودِ وَ خِلَافُ الْكِتَابِ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقُولُ لَهُمْ ما يَشاؤُنَ فِيها وَ لَدَيْنا مَزِيدٌ وَ يَقُولُ عَزَّ وَ جَلَ عَطاءً غَيْرَ مَجْذُوذٍ وَ يَقُولُ عَزَّ وَ جَلَ وَ ما هُمْ مِنْها بِمُخْرَجِينَ وَ يَقُولُ عَزَّ وَ جَلَ خالِدِينَ فِيها أَبَداً وَ يَقُولُ عَزَّ وَ جَلَ وَ فاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ لا مَقْطُوعَةٍ وَ لا مَمْنُوعَةٍ فَلَمْ يُحِرْ جَوَاباً ثُمَّ قَالَ الرِّضَا ع يَا سُلَيْمَانُ أَ لَا تُخْبِرُنِي عَنِ الْإِرَادَةِ فِعْلٌ هِيَ أَمْ غَيْرُ فِعْلٍ قَالَ بَلَى هِيَ فِعْلٌ قَالَ ع فَهِيَ مُحْدَثَةٌ لِأَنَّ الْفِعْلَ كُلَّهُ مُحْدَثٌ قَالَ لَيْسَتْ بِفِعْلٍ قَالَ فَمَعَهُ غَيْرُهُ لَمْ يَزَلْ قَالَ سُلَيْمَانُ الْإِرَادَةُ هِيَ الْإِنْشَاءُ قَالَ يَا سُلَيْمَانُ هَذَا الَّذِي عِبْتُمُوهُ عَلَى ضِرَارٍ وَ أَصْحَابِهِ مِنْ قَوْلِهِمْ إِنَّ كُلَّ مَا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ فِي سَمَاءٍ أَوْ أَرْضٍ أَوْ بَحْرٍ أَوْ بَرٍّ مِنْ كَلْبٍ أَوْ خِنْزِيرٍ أَوْ قِرْدٍ أَوْ إِنْسَانٍ أَوْ دَابَّةٍ إِرَادَةُ اللَّهِ وَ إِنَّ إِرَادَةَ اللَّهِ تَحْيَا وَ تَمُوتُ وَ تَذْهَبُ وَ تَأْكُلُ وَ تَشْرَبُ وَ تَنْكِحُ وَ تَلَذُّ وَ تَظْلِمُ وَ تَفْعَلُ الْفَوَاحِشَ وَ تَكْفُرُ وَ تُشْرِكُ فَيَبْرَأُ مِنْهَا وَ يُعَادُ بِهَا وَ هَذَا حَدُّهَا قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّهَا كَالسَّمْعِ وَ الْبَصَرِ وَ الْعِلْمِ قَالَ الرِّضَا ع قَدْ رَجَعْتَ إِلَى هَذَا ثَانِيَةً فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّمْعِ وَ الْبَصَرِ وَ الْعِلْمِ أَ مَصْنُوعٌ قَالَ سُلَيْمَانُ لَا قَالَ الرِّضَا ع فَكَيْفَ نَفَيْتُمُوهُ قُلْتُمْ لَمْ يُرِدْ وَ مَرَّةً قُلْتُمْ أَرَادَ وَ لَيْسَتْ بِمَفْعُولٍ لَهُ قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّمَا ذَلِكَ كِقَوْلِنَا مَرَّةً عَلِمَ وَ مَرَّةً لَمْ يَعْلَمْ قَالَ الرِّضَا ع لَيْسَ ذَلِكَ سَوَاءً لِأَنَّ نَفْيَ الْمَعْلُومِ لَيْسَ بِنَفْيِ الْعِلْمِ وَ نَفْيُ الْمُرَادِ نَفْيُ الْإِرَادَةِ أَنْ تَكُونَ إِنَّ الشَّيْءَ إِذَا لَمْ يُرَدْ لَمْ تَكُنْ إِرَادَةً فَقَدْ يَكُونُ الْعِلْمُ ثَابِتاً وَ إِنْ لَمْ يَكُنِ الْمَعْلُومُ بِمَنْزِلَةِ الْبَصَرِ فَقَدْ يَكُونُ الْإِنْسَانُ بَصِيراً وَ إِنْ لَمْ يَكُنِ الْمُبْصَرُ وَ قَدْ يَكُونُ الْعِلْمُ ثَابِتاً وَ إِنْ لَمْ يَكُنِ الْمَعْلُومُ قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّهَا مَصْنُوعَةٌ قَالَ فَهِيَ مُحْدَثَةٌ لَيْسَتْ كَالسَّمْعِ وَ الْبَصَرِ لِأَنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ لَيْسَا بِمَصْنُوعَيْنِ وَ هَذِهِ مَصْنُوعَةٌ قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّهَا صِفَةٌ مِنْ صِفَاتِهِ لَمْ تَزَلْ قَالَ فَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ الْإِنْسَانُ لَمْ يَزَلْ لِأَنَّ صِفَتَهُ لَمْ تَزَلْ قَالَ سُلَيْمَانُ لَا لِأَنَّهُ لَمْ يَفْعَلْهَا قَالَ الرِّضَا ع يَا خُرَاسَانِيُّ مَا أَكْثَرَ غَلَطَكَ أَ فَلَيْسَ بِإِرَادَتِهِ وَ قَوْلِهِ تَكُونُ الْأَشْيَاءُ قَالَ سُلَيْمَانُ لَا قَالَ فَإِذَا لَمْ تَكُنْ بِإِرَادَتِهِ وَ لَا مَشِيَّتِهِ وَ لَا أَمْرِهِ وَ لَا بِالْمُبَاشَرَةِ فَكَيْفَ يَكُونُ ذَلِكَ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ فَلَمْ يُحِرْ جَوَاباً ثُمَّ قَالَ الرِّضَا ع أَ لَا تُخْبِرُنِي عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَ وَ إِذا أَرَدْنا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنا مُتْرَفِيها فَفَسَقُوا فِيها يَعْنِي بِذَلِكَ أَنَّهُ يُحْدِثُ إِرَادَةً قَالَ لَهُ نَعَمْ قَالَ ع فَإِذَا حَدَثَ إِرَادَةٌ كَانَ قَوْلُكَ إِنَّ الْإِرَادَةَ هِيَ هُوَ أَوْ شَيْءٌ مِنْهُ بَاطِلًا لِأَنَّهُ لَا يَكُونُ أَنْ يُحْدِثَ نَفْسَهُ وَ لَا يَتَغَيَّرُ عَنْ حَالِهِ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ عَنَى بِذَلِكَ أَنَّهُ يُحْدِثُ إِرَادَةً قَالَ فَمَا عَنَى بِهِ قَالَ عَنَى فِعْلَ الشَّيْءِ قَالَ الرِّضَا ع وَيْلَكَ كَمْ تَرَدَّدُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ وَ قَدْ أَخْبَرْتُكَ أَنَّ الْإِرَادَةَ مُحْدَثَةٌ لِأَنَّ فِعْلَ الشَّيْءِ مُحْدَثٌ قَالَ فَلَيْسَ لَهَا مَعْنًى قَالَ الرِّضَا ع قَدْ وَصَفَ نَفْسَهُ عِنْدَكُمْ حَتَّى وَصَفَهَا بِالْإِرَادَةِ بِمَا لَا مَعْنَى لَهُ فَإِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا مَعْنًى قَدِيمٌ وَ لَا حَدِيثٌ بَطَلَ قَوْلُكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ يَزَلْ مُرِيداً قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّمَا عَنَيْتُ أَنَّهَا فِعْلٌ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى لَمْ يَزَلْ قَالَ أَ لَمْ تَعْلَمْ أَنَّ مَا لَمْ يَزَلْ لَا يَكُونُ مَفْعُولًا وَ قَدِيماً وَ حَدِيثاً فِي حَالَةٍ وَاحِدَةٍ فَلَمْ يُحِرْ جَوَاباً قَالَ الرِّضَا ع لَا بَأْسَ أَتْمِمْ مَسْأَلَتَكَ قَالَ سُلَيْمَانُ قُلْتُ إِنَّ الْإِرَادَةَ صِفَةٌ مِنْ صِفَاتِهِ قَالَ كَمْ تُرَدِّدُ عَلَيَّ أَنَّهَا صِفَةٌ مِنْ صِفَاتِهِ فَصِفَتُهُ مُحْدَثَةٌ أَوْ لَمْ تَزَلْ قَالَ سُلَيْمَانُ مُحْدَثَةٌ قَالَ الرِّضَا ع اللَّهُ أَكْبَرُ فَالْإِرَادَةُ مُحْدَثَةٌ وَ إِنْ كَانَتْ صِفَةً مِنْ صِفَاتِهِ لَمْ تَزَلْ فَلَمْ يُرِد شَيْئاً قَالَ الرِّضَا ع إِنَّ مَا لَمْ يَزَلْ لَا يَكُونُ مَفْعُولًا قَالَ سُلَيْمَانُ لَيْسَ الْأَشْيَاءُ إِرَادَةً وَ لَمْ يُرِدْ شَيْئاً قَالَ الرِّضَا ع وُسْوِسْتَ يَا سُلَيْمَانُ فَقَدْ فَعَلَ وَ خَلَقَ مَا لَمْ يَزَلْ خَلَقَهُ وَ فَعَلَهُ وَ هَذِهِ صِفَةُ مَنْ لَا يَدْرِي مَا فَعَلَ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ قَالَ سُلَيْمَانُ يَا سَيِّدِي فَقَدْ أَخْبَرْتُكَ أَنَّهَا كَالسَّمْعِ وَ الْبَصَرِ وَ الْعِلْمِ قَالَ الْمَأْمُونُ وَيْلَكَ يَا سُلَيْمَانُ كَمْ هَذَا الْغَلَطُ وَ التَّرْدَادُ اقْطَعْ هَذَا وَ خُذْ فِي غَيْرِهِ إِذْ لَسْتَ تَقْوَى عَلَى غَيْرِ هَذَا الرَّدِّ قَالَ الرِّضَا ع دَعْهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَا تَقْطَعْ عَلَيْهِ مَسْأَلَتَهُ فَيَجْعَلَهَا حُجَّةً تَكَلَّمْ يَا سُلَيْمَانُ قَالَ قَدْ أَخْبَرْتُكَ أَنَّهَا كَالسَّمْعِ وَ الْبَصَرِ وَ الْعِلْمِ قَالَ الرِّضَا ع لَا بَأْسَ أَخْبِرْنِي عَنْ مَعْنَى هَذِهِ أَ مَعْنًى وَاحِدٌ أَمْ مَعَانٍ مُخْتَلِفَةٌ قَالَ سُلَيْمَانُ مَعْنًى وَاحِدٌ قَالَ الرِّضَا ع فَمَعْنَى الْإِرَادَاتِ كُلِّهَا مَعْنًى وَاحِدٌ قَالَ سُلَيْمَانُ نَعَمْ قَالَ الرِّضَا ع فَإِنْ كَانَ مَعْنَاهَا مَعْنًى وَاحِداً كَانَتْ إِرَادَةُ الْقِيَامِ إِرَادَةَ الْقُعُودِ وَ إِرَادَةُ الْحَيَاةِ إِرَادَةَ الْمَوْتِ إِذَا كَانَتْ إِرَادَتُهُ وَاحِدَةً لَمْ تَتَقَدَّمْ بَعْضُهَا بَعْضاً وَ لَمْ يُخَالِفْ بَعْضُهَا بَعْضاً وَ كَانَتْ شَيْئاً وَاحِداً قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّ مَعْنَاهَا مُخْتَلِفٌ قَالَ ع فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْمُرِيدِ أَ هُوَ الْإِرَادَةُ أَوْ غَيْرُهَا قَالَ سُلَيْمَانُ بَلْ هُوَ الْإِرَادَةُ قَالَ الرِّضَا ع فَالْمُرِيدُ عِنْدَكُمْ مُخْتَلِفٌ إِذْ كَانَ هُوَ الْإِرَادَةَ قَالَ يَا سَيِّدِي لَيْسَ الْإِرَادَةُ الْمُرِيدَ قَالَ فَالْإِرَادَةُ مُحْدَثَةٌ وَ إِلَّا فَمَعَهُ غَيْرُهُ افْهَمْ وَ زِدْ فِي مَسْأَلَتِكَ قَالَ سُلَيْمَانُ فَإِنَّهَا اسْمٌ مِنْ أَسْمَائِهِ قَالَ الرِّضَا ع هَلْ سَمَّى نَفْسَهُ بِذَلِكَ قَالَ سُلَيْمَانُ لَا لَمْ يُسَمِّ بِهِ نَفْسَهُ بِذَلِكَ قَالَ الرِّضَا ع فَلَيْسَ لَكَ أَنْ تُسَمِّيَهُ بِمَا لَمْ يُسَمِّ بِهِ نَفْسَهُ قَالَ قَدْ وَصَفَ نَفْسَهُ بِأَنَّهُ مُرِيدٌ قَالَ الرِّضَا ع لَيْسَ صِفَتُهُ نَفْسَهُ أَنَّهُ مُرِيدٌ إِخْبَاراً عَنْ أَنَّهُ إِرَادَةٌ وَ لَا إِخْبَاراً عَنْ أَنَّ الْإِرَادَةَ اسْمٌ مِنْ أَسْمَائِهِ قَالَ سُلَيْمَانُ لِأَنَّ إِرَادَتَهُ عِلْمُهُ قَالَ الرِّضَا ع يَا جَاهِلُ فَإِذَا عَلِمَ الشَّيْءَ فَقَدْ أَرَادَهُ قَالَ سُلَيْمَانُ أَجَلْ فَقَالَ فَإِذَا لَمْ يُرِدْهُ لَمْ يَعْلَمْهُ قَالَ سُلَيْمَانُ أَجَلْ قَالَ مِنْ أَيْنَ قُلْتَ ذَاكَ وَ مَا الدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ إِرَادَتَهُ عِلْمُهُ وَ قَدْ يَعْلَمُ مَا لَا يُرِيدُهُ أَبَداً وَ ذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَ جَلَ وَ لَئِنْ شِئْنا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ فَهُوَ يَعْلَمُ كَيْفَ يَذْهَبُ بِهِ وَ هُوَ لَا يَذْهَبُ بِهِ أَبَداً قَالَ سُلَيْمَانُ لِأَنَّهُ قَدْ فَرَغَ مِنَ الْأَمْرِ فَلَيْسَ يَزِيدُ فِيهِ شَيْئاً قَالَ الرِّضَا ع هَذَا قَوْلُ الْيَهُودِ فَكَيْفَ قَالَ تَعَالَى ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ قَالَ سُلَيْمَانُ إِنَّمَا عَنَى بِذَلِكَ أَنَّهُ قَادِرٌ عَلَيْهِ قَالَ أَ فَيَعِدُ مَا لَا يَفِي بِهِ فَكَيْفَ قَالَ يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ ما يَشاءُ وَ قَالَ عَزَّ وَ جَلَ يَمْحُوا اللَّهُ ما يَشاءُ وَ يُثْبِتُ وَ عِنْدَهُ أُمُّ الْكِتابِ وَ قَدْ فَرَغَ مِنَ الْأَمْرِ فَلَمْ يُحِرْ جَوَاباً قَالَ الرِّضَا ع يَا سُلَيْمَانُ هَلْ يَعْلَمُ أَنَّ إِنْسَاناً يَكُونُ وَ لَا يُرِيدُ أَنْ يَخْلُقَ إِنْسَاناً أَبَداً وَ أَنَّ إِنْسَاناً يَمُوتُ الْيَوْمَ وَ لَا يُرِيدُ أَنْ يَمُوتَ الْيَوْمَ قَالَ سُلَيْمَانُ نَعَمْ قَالَ الرِّضَا ع فَيَعْلَمُ أَنَّهُ يَكُونُ مَا يُرِيدُ أَنْ يَكُونَ أَوْ يَعْلَمُ أَنَّهُ يَكُونُ مَا لَا يُرِيدُ أَنْ يَكُونَ قَالَ يَعْلَمُ أَنَّهُمَا يَكُونَانِ جَمِيعاً قَالَ الرِّضَا ع إِذًا يَعْلَمُ أَنَّ إِنْسَاناً حَيٌّ مَيِّتٌ قَائِمٌ قَاعِدٌ أَعْمَى بَصِيرٌ فِي حَالَةٍ وَاحِدَةٍ وَ هَذَا هُوَ الْمُحَالُ قَالَ جُعِلْتُ فِدَاكَ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ أَنَّهُ يَكُونُ أَحَدُهُمَا دُونَ الْآخَرِ قَالَ لَا بَأْسَ فَأَيُّهُمَا يَكُونُ الَّذِي أَرَادَ أَنْ يَكُونَ أَوِ الَّذِي لَمْ يُرِدْ أَنْ يَكُونَ قَالَ سُلَيْمَانُ الَّذِي أَرَادَ أَنْ يَكُونَ فَضَحِكَ الرِّضَا ع وَ الْمَأْمُونُ وَ أَصْحَابُ الْمَقَالاتِ قَالَ الرِّضَا ع غَلِطْتَ وَ تَرَكْتَ قَوْلَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ أَنَّ إِنْسَاناً يَمُوتُ الْيَوْمَ وَ هُوَ لَا يُرِيدُ أَنْ يَمُوتَ الْيَوْمَ وَ أَنَّهُ يَخْلُقُ خَلْقاً وَ أَنَّهُ لَا يُرِيدُ أَنْ يَخْلُقَهُمْ وَ إِذًا لَمْ يَجُزِ الْعِلْمُ عِنْدَكُمْ بِمَا لَمْ يُرِدْ أَنْ يَكُونَ فَإِنَّمَا يَعْلَمُ أَنْ يَكُونَ مَا أَرَادَ أَنْ يَكُونَ قَالَ سُلَيْمَانُ فَإِنَّمَا قَوْلِي إِنَّ الْإِرَادَةَ لَيْسَتْ هُوَ وَ لَا غَيْرَهُ قَالَ الرِّضَا ع يَا جَاهِلُ إِذَا قُلْتَ لَيْسَتْ هُوَ فَقَدْ جَعَلْتَهَا غَيْرَهُ وَ إِذَا قُلْتَ لَيْسَتْ هِيَ غَيْرَهُ فَقَدْ جَعَلْتَهَا هُوَ قَالَ سُلَيْمَانُ فَهُوَ يَعْلَمُ كَيْفَ يَصْنَعُ الشَّيْءَ قَالَ نَعَمْ قَالَ سُلَيْمَانُ فَإِنَّ ذَلِكَ إِثْبَاتٌ لِلشَّيْءِ قَالَ الرِّضَا ع أَحَلْتَ لِأَنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحْسِنُ الْبِنَاءَ وَ إِنْ لَمْ يَبْنِ وَ يُحْسِنُ الْخِيَاطَةَ وَ إِنْ لَمْ يَخِطْ وَ يُحْسِنُ صَنْعَةَ الشَّيْءِ وَ إِنْ لَمْ يَصْنَعْهُ أَبَداً ثُمَّ قَالَ ع لَهُ يَا سُلَيْمَانُ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّهُ وَاحِدٌ لَا شَيْءَ مَعَهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ الرِّضَا ع فَيَكُونُ ذَلِكَ إِثْبَاتاً لِلشَّيْءِ قَالَ سُلَيْمَانُ لَيْسَ يَعْلَمُ أَنَّهُ وَاحِدٌ لَا شَيْءَ مَعَهُ قَالَ الرِّضَا ع أَ فَتَعْلَمُ أَنْتَ ذَاكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَنْتَ يَا سُلَيْمَانُ إِذًا أَعْلَمُ مِنْهُ قَالَ سُلَيْمَانُ الْمَسْأَلَةُ مُحَالٌ قَالَ مُحَالٌ عِنْدَكَ أَنَّهُ وَاحِدٌ لَا شَيْءَ مَعَهُ وَ أَنَّهُ سَمِيعٌ بَصِيرٌ حَكِيمٌ قَادِرٌ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَكَيْفَ أَخْبَرَ عَزَّ وَ جَلَّ أَنَّهُ وَاحِدٌ حَيٌّ سَمِيعٌ بَصِيرٌ حَكِيمٌ قَادِرٌ عَلِيمٌ خَبِيرٌ وَ هُوَ لَا يَعْلَمُ ذَلِكَ وَ هَذَا رَدُّ مَا قَالَ وَ تَكْذِيبُهُ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ لَهُ الرِّضَا ع فَكَيْفَ يُرِيدُ صُنْعَ مَا لَا يَدْرِي صُنْعَهُ وَ لَا مَا هُوَ وَ إِذَا كَانَ الصَّانِعُ لَا يَدْرِي كَيْفَ يَصْنَعُ الشَّيْءَ قَبْلَ أَنْ يَصْنَعَهُ فَإِنَّمَا هُوَ مُتَحَيِّرٌ تَعَالَى اللَّهُ عَنْ ذَلِكَ عُلُوّاً كَبِيراً قَالَ سُلَيْمَانُ فَإِنَّ الْإِرَادَةَ الْقُدْرَةُ قَالَ الرِّضَا ع وَ هُوَ عَزَّ وَ جَلَّ يَقْدِرُ عَلَى مَا لَا يُرِيدُهُ أَبَداً وَ لَا بُدَّ مِنْ ذَلِكَ لِأَنَّهُ قَالَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى وَ لَئِنْ شِئْنا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ فَلَوْ كَانَتِ الْإِرَادَةُ هِيَ الْقُدْرَةَ كَانَ قَدْ أَرَادَ أَنْ يَذْهَبَ بِهِ لِقُدْرَتِهِ فَانْقَطَعَ سُلَيْمَانُ فَقَالَ الْمَأْمُونُ عِنْدَ ذَلِكَ يَا سُلَيْمَانُ هَذَا أَعْلَمُ هَاشِمِيٍ ثُمَّ تَفَرَّقَ الْقَوْمُ۔[17]
|
سلیمان مروزىّ خراسان کا مشہور متکلم مأمون کے دربار میں حاضر ہوا۔ مأمون نے نہایت احترام کے ساتھ اسے تحفے تحائف سے نوازا اور کہا: میرے چچا زاد بھائی علىّ بن موسى الرّضا حجاز سے میرے پاس آئے ہوئے ہیں اور وہ علم کلام اور متکلیمن سے بہت زیادہ محبت رکھتے ہیں۔ لہذا ترویہ کے دن ان کے ساتھ مناظرہ کے لئے ہمارے پاس آنے میں کوئی مانع تو نہیں ہے؟ سلیمان نے کہا: اے امیرالمؤمنین میں نہیں چاہتا آپ کے دربار میں بنى ہاشم کے سامنے ان جیسوں سے سوالات کروں؛ کیونکہ سب کے سامنے میرے ساتھ مناظرے میں شکست کھائے گا؛ اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ ان کے ساتھ زیادہ بحث و مباحثہ کروں۔ مأمون نے کہا: میں چونکہ مناظرے میں تمہاری قدرت اور توانائی سے واقف تھا اسی لئے تمہیں یہاں بلا لایا ہوں اور میری درخواست صرف یہ ہے کہ صرف ایک دفعہ انہیں شکست دیں اور ان کے دلائل کو رد کریں، سلیمان نے کہا: بہت خوب ہمیں آمنے سامنے ہونے دیں اور آپ خود گواہ رہیں۔ مأمون نے کسى کو امام رضاؑ کے پاس بھیجا اور کہا: مرو کا ایک شخص جو علم کلام میں پورے خراسان میں ثانی نہیں رکھتا میرے پاس آیا ہے۔ اگر آپ کے لئے کوئی مانع نہیں ہے تو ہمارے پاس آجائیں۔ امامؑ وضو کے لئے اٹھے اور قاصد سے فرمایا: آپ پہلے جائیں میں آتا ہوں۔ عمران صابى بھی ہمارے ساتھ تھا۔ ہم نے حرکت کی اور مأمون کے کمرے تک پہنچے۔ یاسر اور خالد نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اندر داخل ہونے دیا۔ جب میں نے سلام کیا تو مأمون نے کہا: میرے بھائی ابوالحسن کہاں ہیں؟ خداوند متعال انہیں سلامت رکھے۔ میں نے کہا: جب ہم آرہے تھے تو وہ کپڑے پہننے میں مشغول تھے۔ ہمیں جلدی آنے کا حکم دیا۔ پھر میں نے کہا: اے امیرالمؤمنین، آپ کا تابعدار عمران بھی باہر کھڑا ہے۔ مأمون نے کہا: عمران کون ہے؟ میں نے کہا: وہ صابى جو آپ کے توسّط سے مسلمان ہوا تھا۔ مأمون نے کہا: اسے بھی اندر آنے دیں۔ عمران اندر داخل ہوا اور مأمون نے ان کو خوش آمدید کہا اور مناسب جگہے پر بٹھا دیا۔ پھر کہا: اے عمران آخر کار موت سے پہلے بنی ہاشم میں سے ہو گئے ہو! عمران نے کہا: اے امیر اس خدا کا لاک لاکھ شکر جس نے مجھے آپ کے ذریعے مشرف فرمایا۔ مأمون نے کہا: اے عمران یہ سلیمان مروزى خراسان کا متکلّم ہے۔ عمران نے کہا: اے امیرالمؤمنین یہ شخص خیال کرتا ہے کہ خراسان میں بحث اور مناظرے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے اور وہ "بِداء" کا منکر ہے۔ مأمون نے کہا: تم کیوں اس سے مناظرہ نہیں کرتے ہو؟ عمران نے کہا: یہ کام خود ان پر منحصر ہے۔ اسی دوران امام رضا علیہالسّلام اندر داخل ہوئے اور فرمایا: کس چیز کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے؟ عمران نے کہا: یا ابنرسولاللَّہ، یہ شخص سلیمان مروزى ہے۔ سلیمان نے عمران سے کہا: آیا بداء کے بارے میں ابوالحسن کی بات سے تم متفق ہو؟ عمران نے کہا: ہاں لیکن ایک شرط ہے کوئی ایسی دلیل پیش کریں جس کے ذریعے اپنے جیسوں پر مناظرے میں جیت سکو۔ مأمون نے کہا: اے اباالحسن جس چیز کے بارے میں یہ لوگ بحث مباحثہ کر رہیں اس بارے میں آپ کی کیا رائ ہے؟ امامؑ نے فرمایا: اے سلیمان تم کیسے "بِداء" کا انکار کرتے ہو حالانکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے: "أَ وَ لا یذْکرُ الْإِنْسانُ أَنَّا خَلَقْناہُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ یکُ شَیئاً (ترجمہ: کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے اس سے پہلے خلق کیا ہے جبکہ وه کچھ بھی نہیں تھا)۔ [قرآن میں سورہ مریم کی آیت ۶۷ میں یوں آیا ہے: أَ وَ لا یذْکرُ الْإِنْسانُ أَنَّا خَلَقْناہُ][؟–؟]۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: وَ ہُوَ الَّذِی یبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یعِیدُہُ (ترجمہ: اور یہ وہی ذات ہے جس نے خلقت کا آغاز کیا پھر ان کو دوبارہ پلٹا دیتا ہے(روم، ۲۷))[؟–؟] اسی طرح مزید فرماتا ہے: بَدِیعُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ (ترجمہ: آسمانوں اور زمین کو بنانے والا (بقرہ، ۱۱۷))[؟–؟] ایک ور مقام پر یوں آیا ہے: یزِیدُ فِی الْخَلْقِ ما یشاءُ (ترجمہ: جس چیز کو بھی چاہتا ہے اس کی خلقت میں اضافہ فرماتا ہے (فاطر، ۱))[؟–؟] اسی طرح مزید فرماتا ہے: بَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِینٍ (ترجمہ: انسان کو مٹی سے خلق فرمایا(سجدہ، ۷))[؟–؟] ایک اور جگہ فرماتا ہے: وَ آخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّہِ إِمَّا یعَذِّبُہُمْ وَ إِمَّا یتُوبُ عَلَیہِمْ (ترجمہ: دوسروں کو خدا کے حکم کا متنظر رکھا گیا ہے؛ یا ان کو عذاب میں مبتلا کرتے گا یا ان پر لطف و کرم کر کے ان کی توبہ قبول کرے گا(توبہ، ۱۰۶))[؟–؟] اسی طرح مزید فرماتا ہے: وَ ما یعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَ لا ینْقَصُ مِنْ عُمُرِہِ إِلَّا فِی کتابٍ (ترجمہ: کوئی شخص بوڑھا نہیں ہوتا اور کسی کی عمر کم نہیں ہوتی مگر یہ کہ ایک کتاب میں یہ تمام چیزیں ثبت ہیں (فاطر، ۱۱))[؟–؟]۔ سلیمان نے کہا: کیا اس سلسلے میں آپ کے آباء و اجداد سے کوئی حدیث آپ تک پہنچی ہے؟ امامؑ نے فرمایا: جی ہاں امام صادقؑ سے یہ حدیث مجھ تک پہنچی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں: "خداوند عالم کا علم دو طرح کے ہیں: ایک کو علم مخزون اور دوسری کو علم مکنون کہا جاتا ہے جس کے بارے میں سوائی خود خدا کے کوئی اور نہیں جانتا اور بداء اس دوسرے علم کے اقسام میں سے ہے، جسے خدا نے ملائکہ اور انبیاء کو تعلیم دی ہے اور ہمارے اہل بیت کے علماء بھی اس سے آگاہ ہیں"۔ سلیمان نے کہا: میں چاہتا ہوں اس مطلب کو قرآن سے میرے لئے بیان کریں۔ امامؑ نے فرمایا: خداوند عالم نے اپنے پیغمبر سے فرمایا: فَتَوَلَّ عَنْہُمْ فَما أَنْتَ بِمَلُومٍ (ترجمہ: ان سے اعراض کرو تو آپ مورد ملامت نہیں ٹہریں گے (ذاریات، ۵۴))[؟–؟]۔ خدا نے شروع میں ان کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ لیکن بعد میں خدا کا ارادہ تبدیل ہوا اور فرمایا: وَ ذَکِّرْ فَإِنَّ الذِّکرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِینَ (ترجمہ: ان کو تذکر دے دو؛ کیونکہ تذکر دینا مؤمنین کے فائدے میں ہے (ذاریات، ۵۵))[؟–؟]۔ سلیمان نے کہا: مزید بیان کریں میں آپ پر قربان ہو جاؤں۔ امام نے فرمایا: میرے والد گرامی نے اپنے آباء و اجداد علیہمالسّلام کے توسط سے رسول خدا صلىاللَّہعلیہوآلہ سے نقل کی ہیں کہ: خداوند عزّوجلّ نے اپنے ایک نبی کو پر وحى فرمائی فلان بادشاہ کو خبر دے دیں کہ فلان موقع پر ان کی روح قبض کی جائے گی۔ وہ نبی اس بادشاہ کے پاس گیا اور اسے اس موضوع سے مطلع کیا۔ بادشاہ نے اس خبر کے سننے کے بعد دعا اور تضرّع کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ اپنی تخت سے زمین پر گر گیا۔ اس نے خدا سے درخواست کیا: خدایا! مجھے مہلت دیں تاکہ میرا بیٹا جوان ہو اور وہ میرے امور کو انجام دے سکے۔ خدا نے اس پیغمبر پر دوبارہ وحی بھیجی اور فرمایا: دوبارہ اس بادشاہ کے پاس جاؤ اور اس کو اطلاع دو کہ خدا نے ان کی موت کو مؤخر کیا ہے اور مزید 15 سال ان کی عمر میں اضافہ ہوا ہے۔ اس پیغمبر نے عرض کیا: خدایا، تو بہتر جاتا ہے کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ خداوند عزّوجلّ نے ان پر دوبارہ وحى بھیجی اور فرمایا: تو میرا بندہ ہو اور میرے حکم کے تابع ہو۔ اس بات کو ان تک پہنچا دو خدا اپنے کاموں سے متعلق مورد سوال واقع نہیں ہوگا۔
اس کے بعد امامؑ نے سلیمان سے مخاطب ہو کر فرمایا: میرا گمان ہے کہ اس مسئلے میں تمہاری سوچ یہودیوں کی طرح ہے؟! سلیمان نے کہا: اس چیز سے خدا کا پناہ مانگتا ہوں، مگر یہودی کیا کہتے ہیں؟ امامؑ نے فرمایا: یہودی کہتے ہیں کہ: "یدُ اللَّہِ مَغْلُولَۃٌ (ترجمہ: خدا کا ہاتھ باندھا ہوا ہے)[؟–؟]۔ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ خدا اپنے کاموں سے فارغ ہو کر ہاتھ اٹھا لیا ہے اور اب کوئی چیز خلق نہیں کرتا۔ خدا نے بھی ان کے جواب میں فرمایا ہے کہ: غُلَّتْ أَیدِیہِمْ وَ لُعِنُوا بِما قالُوا (ترجمہ: خود ان کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں، اور یہ مورد لعنت قرار پائے ہیں ان کی باتوں کی وجہ سے (مائدہ، ۶۴))[؟–؟]۔ میرے والد امام موسی کاظمؑ سے بعض نے بداء کے بارے میں سوال کیا تو میرے والد ماجد نے فرمایا: لوگ کیسے بداء کے منکر ہیں کیا لوگ اس بات کے منکر ہیں کہ خدا نے ان کے کاموں کو ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے مؤخر کرتے ہیں؟ سلیمان نے کہا: سورہ قدر کی آیت إِنَّا أَنْزَلْناہُ فِی لَیلَۃِ الْقَدْرِ (ترجمہ: اور ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا (قدر، ۱))[؟–؟] جس چیز کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ امامؑ نے فرمایا: اے سلیمان شب قدر میں خدا تمام لوگوں کی موت و حیات، خیر و شر اور رزق و روزى کے حوالے سے تمام لوگوں کے مقدرات کو ایک سال کے لئے مقرر کرتے ہیں۔ جس چیز کو اس رات مقرر کرے وہ حتمی اور یقینی ہے۔ سلیمان نے کہا: اب سمجھ آگیا میں آپ پر قربان ہو جاؤں مزید بیان فرمائیں۔ امام نے فرمایا: اے سلیمان، بعض امور خدا کے یہاں موجود ہیں جو خدا کے ارادے پر منحصر ہیں۔ جس چیز کو خدا چاہے مقدم کر دیتا ہے اور جس چیز کو خدا چاہے مؤخر کر دیتا ہے ارو جس چیز کو خدا جاہے محو اور ختم کر دیتا ہے، اے سلیمان! علىّ علیہالسّلام فرمایا کرتے تھے: خدا کا علم دو طرح کے ہیں: ایک وہ علم جسے خدا نے ملائکہ اور انبیاء کو تعلیم دی ہے، اور جو چیز ملائکہ اور انبیاء کو تعلیم دی ہے وہ ہو کر رہے گا اور اس میں خدا خدا، ملائکہ اور انبیاء کے علم کے بر خلاف نہیں ہوگا، دوسرا وہ علم ہے جو خدا کے نزدیک مخزون اور مخفی ہے اور مخلوقات میں سے کسی ایک کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا ہے۔ اس علم کے مطابق خدا جس چیز کو چاہے مقدم کر دیتا ہے اور جس چیز کو چاہے مؤخر کر دیتا ہے اور جس چیز کو جاہے محو و باطل اور جس چیز کو چاہے ثابت قرار دیتا ہے۔ سلیمان نے مأمون سے کہا: اے امیرالمؤمنین آچ کے بعد اگر خدا نے چاہا تو بداء کا انکار نہیں کرونگا اور اسے جھوٹ تصور نہیں کرونگا۔ مأمون نے کہا: جتنا چاہے ابوالحسن سے سوال کرو لیکن شرط یہ ہے کہ اچھی طرح سنو اور انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ سلیمان نے امامؑ سے مخاطب ہو کر کہا: اے مولا اجازت دیتے ہیں کچھ پوچھنے کی؟ امام نے فرمایا: جو کچھ پوچھنا ہے پوچھو۔ اس نے کہا: آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو "ارادہ الہی" کو "حىّ"، "سمیع"، "بصیر" اور "قدیر" کی طرح خدا کے اسماء و صفات میں سے قرار دیتا ہے؟ امام نے فرمایا: آپ کہتے ہیں کہ: اشیاء وجود میں آئے ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں کیونکہ خدا نے ایسا چاہا اور ارادہ کیا ہے، لیکن یہ نہیں کہتے ہو کہ: اشیاء وجود میں آئے ہیں اور ایک دوسرے سے مختلف ہیں چونکہ خدا سمیع اور بصیر ہے۔ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ "ارادہ الہی" سمیع، بصیر اور قدیر کی طرح نہیں ہے۔ سلیمان نے کہا: خدا ازل سے مرید یعنی صفت ارادہ سے متصف تھا۔ امام نے فرمایا: اے سلیمان آیا خدا کا ارادہ خود خدا کے علاوہ کوئی اور چیز ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ امام نے فرمایا: پس اس صورت میں تم نے خدا کے علاوہ ایک اور چیز کو بھی خدا کے ساتھ ازلی فرض کیا! سلیمان نے کہا: نہیں کسی چیز کو خدا کے ساتھ ازلی نہیں جانتا، امام نے فرمایا: آیا ارادہ حادث ہے؟ سلیمان نے کہا: نہیں، ارادہ حادث بھی نہیں ہے۔ اس مقام پر مأمون نے سلیمان پر چیخنا شروع کیا اور کہا: آیا ایسی شخصیت سے مناظرہ کرتے ہوئے اور بچوں کی طرح جواب دیتے ہو؟ انصاف کو ہاتھ سے جانے مت دو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ تمہارے اطراف میں اہل علم و دانش بیٹھے ہیں؟ اس کے بعد کہا: اے اباالحسن! کلام کی بحث کو جاری رکھیں۔ یہ شخص خراسان کا عام ہے! امام نے دوبارہ سوال کرتے ہوئے فرمایا: ارادہ حادث ہے اے سلیمان؛ کیونکہ جو چیز ازلى نہیں ہوگی یقینا وہ حادیث ہی ہوگی اور اگر حادث نہیں ہے تو ازلى ہوگی۔ سلیمان نے کہا: خدا کا ارادہ خود خدا سے ہے جیسا کہ سمع، بصر اور علم خود خدا سے ہے۔ امام نے فرمایا: آیا خدا نے اپنے آپ کا ارادہ کیا ہے یا نہیں؟ سلیمان نے کہا: نہیں۔ امام نے فرمایا: پس "مرید" (ارادہ کرنے والا) سمیع اور بصیر کی طرح نہیں ہے۔ سلیمان نے کہا: خدا نے اپنے آپ کا ارادہ کیا ہے، جیسا کہ خدا اپنی آواز کو سنتا ہے اور اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور اپنے آپ سے آگاہ ہے۔ امام نے فرمایا: "خدا نے اپنے آپ کو ارادہ کیا ہے"! اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی خدا نے اپنے آپ کو کوئی چیز ہونے کا ارادہ کیا ہے؟ یا زندہ یا سمیع یا بصیر یا قدیر ہونے کا ارادہ کیا ہے؟ سلیمان نے کہا: جی ہاں۔ امام نے رمایا: آیا خدا اپنے ارادہ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے؟ سلیمان نے کہا: نہیں۔ امام نے فرمایا: پس یہ جو کہتے ہو کہ: خدا نے اپنے آپ کو حىّ، سمیع اور بصیر ہونے کا ارادہ کیا ہے، بے معنی ہے؛ چ کیونکہ خدا کا زندہ ہونا، سمیع ہونا اور بصیر ہونا اس کے ارادے کی وجہ سے نہیں ہے۔ سلیمان نے کہا: کیوں ایسا نہیں ہے بلکہ خدا کا زندہ ہونلا وغیرہ خدا اس کے ارادے سے ہے۔ اس مقام پر مأمون اور اس کے درباری ہنسنے لگے اور امام علیہ السلام نے بھی تبسم فرمایا: خراسان کے متکلّم پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں اور اسے تکلیف نہ پہنچائیں اور فرمایا: اے سلیمان تمہارے اعتقاد کے مطابق خدا ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوا ہے اور یہ ان چیزوں میں سے ہے جس کے ذریعے خدا کی تصیف نہیں کی جا سکتی۔ سلیمان اپنی جگہ خاموش ہو گیا۔ اس کی بعد امام رضا علیہالسّلام نے اس سے فرمایا: اے سلیمان تجھ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں، سلیمان نے کہا: پوچھ لیں میں آپ پر قربان ہو جاؤں۔ امام نے فرمایا: بتاؤ تم اور تمہارے چاہنے والے اپنے علم اور فہم کے مطابق لوگوں سے کلامی بحث کرتے ہو یا جو چیز تمہارے علم میں نہیں ہے اور جس چیز کو تم لوگ نہیں سمجھتے اس کے مطابق لوگوں سے بحث کرتے ہو؟ اس نے کہا: ضرور اس چیز کے مطابق جو ہم جانتے اور سمجھتے ہیں۔ امام نے فرمایا: جو کچھ لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ ارادہ کرنے والا خود ارادہ کا غیر ہے اور ارادہ کرنے والا خود ارادہ سے پہلے موجود ہوتا ہے اور فاعل مفعول کا غیر ہوتا ہے، اور یہ بات تمہارے قول کو جو کہ کہتے ہیں کہ ارادہ اور ارادہ کرنے والا ایک ہے، باطل کرتی ہے۔ سلیمان نے کہا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں، یہ چیز لوگوں کے علم اور فہم کے مطابق نہیں ہے۔ امام نے فرمایا: پس بغیر کسی علم و معرفت کے یہ دعوا کرتے ہو کہ اور کہتے ہو کہ: ارادہ نیز سمع اور بصر کی طرح ہے لہذا تمہارا یہ اعتقاد عقل اور علم کے مطابق نہیں ہے۔ سلیمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد امام نے فرمایا: اے سلیمان آیا خدا جو کچھ بہشت اور دوزخ میں ہے، سے آگاہ ہے؟ سلیمان نے کہا: جی ہاں، امام نے فرمایا: آیا خدا جو کچھ جانتا ہے وہ مستقبل میں ہو کر رہے گا؟ کہا: ہاں۔ امام نے فرمایا: اب اگر سب کچھ اسی طرح ہو جائے جس طرح خدا کے علم میں تھا اور کوئی چیز باقی نہ رہے تو آیا خدا اس کے بعد بھی کوئی چیز ان پر اضافہ کرے گا یا نہیں؟ سلیمان نے کہا: اضافہ کرے گا۔ امام نے فرمایا: پس تمہارے کہنے کے مطابق خدا نے ایک ایسی چیز کا اضافہ کیا ہے جسے خود نہیں جانتا تھا (کیونکہ فرض یہ تھا کہ جو کچھ جانتا تھا وہ پورا ہو چکا تھا اور کوئی چیز باقی نہیں بچی تھی)۔ سلیمان نے کہا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں، اضافہ کرنے کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ امام نے فرمایا: پس تمہارے نظریے کے مطابق جو کچھ بہشت اور دوزخ میں موجود ہونگے ان پر خدا کا علم احاطہ نہیں رکھتا؛ کیونکہ ان چیزوں کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے اور اگر بہشت اور دوزخ میں موجود اشیاء پر خدا کے علم کا احاطہ نہ ہو تو جب تک ان چیزوں کے وجود میں آئے بغیر خدا کو ان کا علم نہیں ہو گا جبکہ خدا اس طرح کی چیزوں سے پاک و منزہ ہے۔ سلیمان نے کہا: میں نے کہا تھا کہ خدا نے انہیں علم نہیں دیا ہے، اس بنا پر ان کا کوئی حد نہیں ہے اور خود خدا نے انہیں ہمیشہ رہنے والے کی صفت سے متصف فرمایا ہے اس بنا پر ہم نہیں چاہتے ان کے لئے کوئی انتہاء تصور کریں۔ امام نے فرمایا: خدا کا ان کے اوپر علم پیدا کرنا ان کے منتاہی ہونے کا سبب نہیں بنتا؛ کیونکہ خدا ان پر علم رکھتا ہے پھر ان میں اضافہ فرماتا ہے اور اس اضافے کو ان سے منقطع نہیں فرماتا اور خود خدا نے یہی فرمایا ہے: "کلَّما نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْناہُمْ جُلُوداً غَیرَہا لِیذُوقُوا الْعَذابَ (ترجمہ: جب بھی ان کا کھال اتر جاتا ہے تو نیا کھال ان کی جگہ لے لیتا ہے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھے (نساء، ۵۶))[؟–؟]؛ اسی طرح بہشتیوں کے بارے میں بھی فرماتا ہے: عَطاءً غَیرَ مَجْذُوذٍ (ترجمہ: بے پایان عطا(ہود، ۱۰۸))[؟–؟]؛ ایک اور جگہے پر فرماتا ہے: وَ فاکہَۃٍ کثِیرَۃٍ لا مَقْطُوعَۃٍ وَ لا مَمْنُوعَۃٍ (ترجمہ: اور فراوان میوہ جات ہمیشہ رہنے والے بغیر اس کے کہ کسی کو ان کے کھانے سے منع کی گئی ہو(واقعہ، ۳۳))[؟–؟]۔ پس خداوند عزّوجلّ اس اضافے سے آگاہ ہے اور اسے ان سے دریغ نہیں فرماتا ہے۔ آیا جو چیز اہل بہشت کھاتے اور پیتے ہیں خدا ان کی جگہ اور چیزوں کو قرار نہیں دیتا؟ سلیمان نے کہا: کیوں نہیں۔ امام نے فرمایا: اب جبکہ خدا نے ان کھانے پینے والی اشیاء کے بدلے دوسری چیزوں کو قرار دیا ہے تو کیا خدا نے اپنی بخشش کو ان سے قطع کیا ہے؟ سلیمان نے کہا: نہیں۔ امام نے فرمایا: پس اسی طرح ہے کہ جو چیزیں بہشت میں تھی اور اہل بہشت نے ان کو استعمال کیا ہے اور ان کے بدلے نئی چیزوں کو قرار دیا گیا ہے اور اہل بہشت سے ان کو قطع نہیں کیا ہے اور نہ کریں گے۔ سلیمان نے کہا: خدا ان اضافی چیزوں کو ان سے دریغ کرتا ہے اور انہیں نہیں دیتا۔ امام نے فرمایا: اس صورت میں جو کچھ بہشت اور جہنم میں ہے ختم ہو جائے گا اور اے سلیمان یہ چیز کتاب خدا اور خلود و جاودانگی کے مخالف ہے؛ کیونکہ خدا فرماتا ہے: لَہُمْ ما یشاؤُونَ فِیہا وَ لَدَینا مَزِیدٌ (ترجمہ: ان کے لئے بہشت میں جو کچھ خواہش کرے موجود ہے اور ہمارے پاس اضافی بھی ہے(ق، ۳۵))[؟–؟]؛ مزید فرماتا ہے: عَطاءً غَیرَ مَجْذُوذٍ[؟–؟] نیز فرماتا ہے: وَ ما ہُمْ مِنْہا بِمُخْرَجِینَ (ترجمہ: ان کو وہاں سے نکالا نہیں جائے گا (حجر، ۴۸))[؟–؟]؛ اور فرماتا ہے: خالِدِینَ فِیہا أَبَداً (ترجمہ: ہمیشہ وہیں پر رہیں گے(بینہ، ۸))[؟–؟]؛ نیز فرماتا ہے: وَ فاکہَۃٍ کثِیرَۃٍ لا مَقْطُوعَۃٍ وَ لا مَمْنُوعَۃٍ[؟–؟] سلیمان نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد امام نے فرمایا: اے سلیمان بتاؤ ارادہ فعل ہے یا غیر فعل؟ اس نے کہا: جی فعل ہے، امام نے فرمایا: پس مُحدَث (حادث) ہے؛ کیونکہ افعال مُحدَث ہوتے ہیں۔ سلیمان نے کہا: فعل نہیں ہے۔ امام نے فرمایا: پس ازل سے خدا کے ساتھ ایک اور چیز بھی موجود تھی۔ سلیمان نے کہا: ارادہ وہی خلق اور ایجاد ہے۔ امام نے فرمایا: اے سلیمان یہ وہ بات ہے جسے تم نے ضرار اور اس کے ماننے والوں پر اعتراض کیا تھا جو کہتے تھے کہ: جس چیز کو بھی خدا نے آسمان اور زمین یا دریا اور خشکى میں خلق کیا ہے، کتا، خنزیر، بندر، انسان اور حیوانات وغیرہ سب کے سب ارادہ الہی ہیں اور خدا کا ارادہ زندہ ہوتا ہے اور اسے موت آتی ہے، چلتا پھرتا ہے، کھاتا پیتا ہے، شادی کرتا ہے اور تلید مثل کرتا ہے، ظلم کرتا ہے اور غلط کام انجام دیتا ہے، کافر اور مشرک ہوتا ہے اور ہم ان چیزوں سے بریء ہیں اور ان چیزوں سے دشمنی رکھتے ہیں اور یہ ان کی حد ہے۔ سلیمان نے کہا: "ارادہ" بھی سمع و بصر و علم کی طرح ہے، امام نے فرمایا: دوبارہ اپنی پہلی بات پر واپس آگئے ہو! بتاؤ آیا سمع، بصر اور علم مخلوق ہیں؟ سلیمان نے کہا: نہیں۔ امام نے فرمایا: پس کیسے ارادے کا نفی کرتے ہو اور کہتے ہو کہ ارادہ نہیں کیا ہے اور کبھی کہتے ہوں ارادہ کیا ہے؟ حالانکہ خود کہتے ہو: "ارادہ" خدا کا مخلوق نہیں ہے؟ سلیمان نے کہا: یہ اس طرح ہے جیسا ہم کہتے ہیں کہ: کبھی جانتا ہے اور کبھی نہیں جانتا۔ امام نے فرمایا: یہ دونوں یکساں نہیں ہیں؛ کیونکہ معلوم کی نفی کرنا علم کی نفی کرنے کے مترادف نہیں ہے حالانکہ مراد کا نفی کرنا وجود کے نفی کے برابر ہے؛ کیونکہ اگر کسی چیز کا ارادہ نہ کیا ہو تو حقیقت میں کوئی ارادہ ہے ہی نہیں ہے؛ جبکہ کبھی ایسا ہو جاتا ہے کہ علم موجود ہوتا ہے لیکن معلوم موجود نہیں ہوتا؛ مثلا بصر (بینایى) ہے لیکن کوئی دیکھنے والی چیز نہیں ہے یا علم موجود ہے لیکن معلوم موجود نہیں ہے۔ سلیمان نےکہا: اچھا، ارادہ مخلوق ہے۔ امام نے فرمایا: پس مُحدَث یعنی حادیث ہے اور سمع اور بصر کی طرح نہیں ہے؛ کیونکہ سمع اور بصر مخلوق نہیں ہے جبکہ ارادہ مخلوق ہے۔ سلیمان نےکہا: ارادہ خدا کے صفات میں سے ایک صفت ہے جو ازل سے تھی۔ امام نے فرمایا: پس انسان بھی ازلى ہونا چاہئے؛ کیونکہ اس کی صفت ازلى ہے۔ سلیمان نے کہا: نہیں، کیونکہ اس نے اس صفت کو خلق نہیں کیا ہے۔ امام نے فرمایا: اے خراسانى تم کتنے غلطی پے غلطی کرتے جا رہے ہو! کیا خدا کے ارادہ اور کہنے سے اشیاء ایجاد نہیں ہوتا؟ سلیمان نے کہا: نہیں۔ امام نے فرمایا: پس اگر نہ خدا کے ارادے اور حکم سے خلق ہوتا ہے اور نہ براہ راست، تو یہ موجودات کس طرح ایجاد ہوئے ہیں؟ خدا ان چیزوں سے پاک و منزہ ہے۔ سلیمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ امام نے فرمایا: اس آیہ شریفہ: وَ إِذا أَرَدْنا أَنْ نُہْلِک قَرْیۃً أَمَرْنا مُتْرَفِیہا فَفَسَقُوا فِیہا (ترجمہ: جب بھی کسی شہر اور سرزمین کو نابود کرنے کا ارادہ کریں تو یہاں کے مترفین کو حکم دیتے ہیں اور وہ وہاں فسق و فجور انجام دیتے ہیں (اسراء، ۱۶))[؟–؟]، کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اس آیت میں خدا کا ارادہ کرنے سے کیا مراد ہے؟ آیا خدا نے ارادے کو خلق فرمایا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ امام نے فرمایا: پس اگر خدا نے ارادے کو ایجاد کیا ہے تو تمہارا یہ کہنا کہ: ارادہ وہی خدا ہے یا خدا کا ایک جزء ہے، باطل ہوگا؛ کیونکہ خدا خود کو ایجاد نہیں کرتا اور اپنی موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں لاتا۔ خدا ان چیزوں سے منزہ ہے۔ سلیمان نے کہا: یہاں مراد یہ نہیں ہے کہ خدا ارادے کو خلق کرتا ہے۔ امام نے فرمایا: پس اس سے کیا مراد ہے؟ کہا، مطلب یہ کہ خدا کوئی کام انجام دیتا ہے۔ امام نے فرمایا: ہلاکت ہو تم پر! اس بات کو کتنا تکرار کرتے ہو؟ میں نے کہا تھا کہ ارادہ حادث ہے، کیونکہ فعل اور کسی شئ کا ایجاد کرنا حادث ہے۔ سلیمان نے کہا: پس اصلاً اس کا کوئی معنا ہے ہی نہیں۔ امام نے فرمایا: پس تہمارے مطابق خدا نے خود اپنی توصیف کی ہے اور ارادے کو اپنی صفت قرار دی ہے؛ وہ ارادہ جس کا کوئی معنی ہے ہی نہیں۔ پس اگر ارادہ نہ ازلى ہو او نہ حادث، تمہارا یہ کہنا کہ: "خدا ازل سے تھا اور ارادہ کرتا تھا"، باطل ہوگا۔ سلیمان نےکہا: میری مراد یہ ہے کہ ارادہ خدا کے ازلی کاموں میں سے ہے۔ امام نے فرمایا: آیا نہیں جانتے ہو کہ جو چیز ازلى ہے ایک ہی وقت میں مخلوق بھی ہو اور حادث بھی ہو ایسا نہیں ہو سکتا؟ سلیمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد امام رضا علیہالسّلام نے فرمایا: کوئی مسئلہ نہیں اپنا سوال پورا کرو۔ سلیمان نے کہا: آیا ارادہ خدا کے صفات میں سے ایک صفت ہے؟ امام نے فرمایا: اس بات کو کتنی دفعہ تکرار کرتے ہو؟ خدا کی صفت محدَث ہے یا ازلى؟ سلیمان نے کہا: محدَث ہے۔ امام نے فرمایا: پس ارادہ محدث ہے، اگر چہ خدا کے ازلی اور ذاتی صفات میں سے ہی کیوں نہ ہو؟ پس خدا نے کسی چیز کا ارادہ نہیں کیا ہے۔ امام علیہالسّلام نے فرمایا: جو چیز ازلى ہو وہ مفعول اور مخلوق نہیں بن سکتی۔ سلیمان نے کہا: اشیاء عین ارادہ نہیں ہیں اور خدا نے کسی چیز کا ارادہ نہیں کیا ہے۔ امام نے فرمایا: وسوسہ کرتے ہو۔ آیا کسی چیز کی خلقت اور ساخت کا ارادہ نہ کر کے اسے خلق کیا ہے؟ یہ اس شخص کی حالت ہے جسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہوتا ہے۔ خدا ان چیزوں سے منزہ ہے۔ سلیمان نے کہا: میرے مولا! میں نے عرض کیا تھا کہ ارادہ سمع، بصر اور علم کی طرح ہے۔ مأمون نے کہا: ہلاکت ہو تم پر اے سلیمان! اس غلط بات کو کتنی دفعہ تکرار کرتے ہو؟! اس بات کو یہیں پر ختم کرو اور کسی اور مطلب کی طرف جاؤ؛ چونکہ تم کوئی اور جواب نہیں دے سکتے ہو۔ امام نے فرمایا: اے امیر مؤمنین انہیں اپنی حالت پر چھوڑ دیں۔ ان کی بات کو قطع نہ کریں؛ کیونکہ ایسا کرنے سے یہ اسے اپنی حقانیت پر دلیل قرار دیتا ہے۔ سلیمان جاری رکھ۔ اس نے کہا: عرض کیا کہ ارادہ سمع، بصر اور علم کی طرح ہے۔ امام نے فرمایا: کوئی مسئلہ نہیں، یہ بتاؤ آیا ارادہ کے ایک معنى ہے یا کئی مختلف معانی؟ سلیمان کہا: ایک معنى ہے۔ امام نے فرمایا: پس آیا ارادوں کا معنا ایک ہی ہے؟ سلیمان نے کہا: جی ہاں۔ امام نے فرمایا: پس اگر تمام ارادوں کا معنا ایک ہی ہے تو کھڑا ہونے کا ارادہ وہی بیٹھنے کا ارادہ ہونا چاہئے اور زندگی کا ارادہ موت کا ارادہ ہونا چاہئے۔ اگر خدا کا ارادہ ایک ہی ہے تو خدا کا کوئی ارادہ کسی دوسرے ارادے پر مقدم نہیں ہوگا اور کوئی ارادہ دوسرے سے مختلف نہیں ہوگا اور سب ایک چیز ہوگی۔ سلیمان نےکہا: معنانی آپس میں مختلف ہیں، امام نے فرمایا: اچھا، اب بتاؤ مرید(ارادہ کرنے والا) وہی ارادہ ہے یا کوئی اور چیز؟ سلیمان نے کہا: وہی ارادہ ہے۔ امام نے فرمایا: پس تمہارے مطابق مرید حتما مختلف ہوناچاہئے، کیونکہ یہ وہی ارادہ ہے۔ سلیمان نے کہا: میرے سردار! ارادہ وہی مرید نہیں ہے۔ امام نے فرمایا: پس ارادہ حادث ہے وگرنہ خدا کے ساتھ ہمیشہ کوئی چیز ساتھ ہونا لازم آتا ہے۔ اس مطلب کو اچھی طرح سمجھ لو پھر سوال کو جاری رکھو۔ سلیمان نے کہا: نہیں، بلکہ ارادہ خدا کے اسماءمیں سے ایک اسم ہے، امام نے فرمایا: آیا خود خدا نے یہ نام اپنے لئے انتخاب کیا ہے؟ سلیمان تے کہا: نہیں خدا نے اپنے لئے ایسا نام انتخاب نہیں کیا۔ امام نے فرمایا: پس تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تم خدا کے لئے کوئی ایسا نام انتخاب کرؤ جسے خود خدا نے اپنے لئے انتخاب نہیں کیا ہے۔ سلیمان نے کہا: لیکن خدا نے اپنے آپ کو مرید کہا ہے۔ امام نے فرمایا: خدا کا اپنے آپ کو مرید کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود خدا ارادہ ہو یا ارادہ خدا کے اسامی میں سے کوئی نام ہو۔ سلیمان نے کہا: چونکہ خدا کا ارادہ عین علم خداوندی ہے۔ امام نے فرمایا: اے نادان، اگر خدا چیز کے بارے میں علم رکھتا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے اس چیز کا ارادہ کیا ہے؟! سلیمان نے کہا: جی ہاں یقینا ایسا ہے۔ امام نے فرمایا: اب اگر خدا نے اس چیز کا ارادہ نہیں کیا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اس چیز سے آگاہ نہیں ہے؟ سلیمان نے کہا: جی ایسا ہی ہے۔ امام نے فرمایا: ایسی باتیں کہاں سے کرتے ہو؟ اور یہ کہ خدا بعینہ علم خدا ہونے پر کیا دلیل ہے؟ حالانکہ چہ بسا خدا کسی چیز کے بارے میں علم رکھتا ہے لیکن کبھی بھی اس کا ارادہ نہیں کرتا؛ من جملہ یہ آیہ شریفہ: وَ لَئِنْ شِئْنا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِی أَوْحَینا إِلَیک (ترجمہ: اگر ہم چاہے تو جو چیز آپ پر وحی کی گئی ہے اسے لے جائیں گے (اسراء، ۸۶))[؟–؟]؛ اور خدا جانتا ہے کہ کس طرح لے جائے گا؛ لیکن ہرگز اس کام کو نہیں کرے گا۔ سلیمان نے کہا: کیونکہ خدا کام سے فارغ ہو چکا ہے اور کام کرنے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اور جو کچھ مقدّر کیا ہے اس پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کرے گا۔ امام نے فرمایا: یہ یہودیوں کا نظریہ ہے۔ اگر تمہاری بات صحیح ہو تو کس طرح خدا خود قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکمْ (ترجمہ: مجھے پکاروں میں تمہاری دعا قبول کرتا ہوں (مؤمن، ۶۰))[؟–؟] سلیمان نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ خدا اس کام پر قادر ہے۔ امام نے فرمایا: آیا خدا کوئی ایسا وعدہ دیتا ہے جس پر عمل پیرا نہیں ہو گا؟! پس خدا نے کیوں فرمایا: یزِیدُ فِی الْخَلْقِ ما یشاءُ (ترجمہ: جس کو بھی چاہے خدا اس کی خلقت میں اضافہ فرماتا ہے (فاطر، ۱))[؟–؟] نیز یہ بھی فرمایا: یمْحُوا اللَّہُ ما یشاءُ وَ یثْبِتُ وَ عِنْدَہُ أُمُّ الْکتابِ (ترجمہ: خدا جسے چاہے محو اور باطل کرتا ہے اور جسے چاہے ثابت رکھتا ہے، و امّالکتاب ہمارے پاس ہے (رعد، ۳۹))[؟–؟] آیا اب بھی کہتے ہوں کہ خدا کام سے فارغ ہو گیا ہے؟! سلیمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ امام نے فرمایا: آیا خدا جانتا ہے کہ کوئی انسان موجود ہو گا جب کہ اس نے اسے خلق کرنے کا ارادہ کیا ہی نہیں؟ اور آیا کیا خدا جانتا ہے کہ کوئی انسان آج مر جائے گا حالانکہ اس کی موت کا ارادہ کیا ہی نہیں؟ سلیمان نے کہا: جی ہاں ایسا ہی ہے۔ امام نے فرمایا: پس یہ بتاؤ جس چیز کو خدا نے ارادہ کیا ہے اس کے موجود ہونے کا علم رکھتا ہے یا اس چیز کے موجود ہونے کا علم رکھتا ہے جس کا ارادہ ہی نہیں کیا؟ سلیمان نے کہا: خدا جانتا ہے کہ دونوں موجود ہونگے۔ امام نے فرمایا: اس صورت میں خدا جانتا ہے کہ ایک انسان ایک ہی وقت میں زندہ بھی ہے اور مردہ بھی، جانتا ہے کہ ایک انسان ایک ہی وقت میں کھڑا بھی ہے اور بیٹھا ہوا بھی، نابینا بھی ہے اور بینا بھی، حالانکہ یہ محال ہے۔ سلیمان نے کہا: میں آپ پر قرآن ہو جاؤں، خدا جانتا ہے کہ اس میں سے ایک موجود ہوگا، امام نے فرمایا: کوئی مسئلہ نہیں، اب بتاؤ کونسا موجود ہوگا؟: جس چیز کو ارادہ کیا ہے وہ یا جس چیز کا ارادہ نہیں کیا ہے وہ؟ سلیمان نے کہا: جس کا ارادہ کیا ہے وہ موجود ہوگا۔ امام رضا علیہالسّلام اور مأمون اور وہاں موجود تمام علما ہنسنے لگے۔ امام نے فرمایا: تم نے غلطی سے اپنی پہلی بات کو چھوڑ دیا۔ تم نے شروع میں کہا تھا کہ "خدا جانتا ہے کہ ایک انسان آج مر جائے گا جبکہ خدا نے آج اس کی موت کا ارادہ نہیں کیا ہے، اسی طرح تم نے کہا تھا کہ خدا ایسے مخلوقات کو خلق کرے کا جس کو خلق کرنے کا خدا نے ارادہ ہی نہیں کیا ہے۔" پس جب تمہاری نظر میں جس چیز کا ارادہ نہیں کیا اس پر علم تعلق نہیں پکڑ سکتا تو صرف اسی چیز کے بارے میں آگاہ ہو گا جس کا اس نے ارادہ کیا ہے۔ سلیمان نے کہا: میری مراد یہ ہے کہ ارادہ نہ خدا ہے اور نہ غیر خدا۔ امام نے فرمایا: اے جاہل، جب کہتے ہو کہ: خدا نہیں ہے تو حقیقت میں تم نے قبول کیا ہے کہ وہ غیر خدا ہے۔ سلیمان نے پوچھا: آیا خدا جانتا ہے کہ کس طرح کسی چیز کو خلق کرے گا؟ امام نے فرمایا: جی ہاں۔ سلیمان نے کہا: اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیز ازل سے موجود تھی۔ امام نے فرمایا: ایک محالى بات کرتے ہو؛ کیونکہ چہ بسا کوئی شخص مستری کا کام جانتا ہے، لیکن وہ کوئی عمارت نہیں بناتا یا درسی کا کام جانتا ہے لیکن کپڑا نہیں سیتا یا کسی چیز کو بنانا جانتا ہے، لیکن کبھی بھی اس چیز کو نہیں بناتا۔ اس کے بعد امام نے فرمایا: آیا خدا خود جانتا ہے کہ خدا ایک ہے اور کوئی اور چیز اس کے ساتھ نہیں ہے؟ کہا: حی ہاں جانتا ہے۔ امام نے فرمایا: آیا کیا اس سے خدا کے ساتھ کوئی اور چیز ثابت ہو جاتی ہے؟ سلیمان نے کہا: خدا نہیں جانتا ہے کہ واحد ہے اور اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہیں ہے۔ امام نے فرمایا: آیا تم اسے جانتے ہو؟ کہا: جی ہاں۔ امام نے فرمایا: پس تم خدا سے زیادہ جاننے والا ہے! سلیمان نے کہا: بالکل ایسا نہیں ہے، یہ محال ہے۔ امام نے فرمایا: تمہاری نظر میں خدا کا ایک ہونا اور اس کے ساتھ کسی اور چیز کا نہ ہونا محال ہے اور سمیع، بصیر، حکیم، علیم اور قادر ہو؟ کہا جی ہآں۔ امام نے فرمایا: پس خدا نے کیسے خود خبر دی ہے کہ خدا واحد ہے، زندہ ہے، سمیع و بصیر ہے، حکیم، قادر، علیم اور خبیر ہے، حالانکہ تمہارے کہنے کے مطابق خدا خود ان چیزوں کو نہیں جانتا؟ پس تمہاری بات خود تمہاری بات کو رد اور جھٹلا دیتی ہے۔ خدا اس طرح کی چیزوں سے منزہ ہے۔ اس کے بعد امام نے فرمایا: پس کس طرح کسی چیز کو ایجاد کرتا ہے جسے نہ وہ جانتا ہے اور نہ اس کے طریقہ ساخت سے آگاہ ہے؟ کوئی بنانے والا کسی چیز کو بنانے سے پہلے اگر نہ جانتا ہو کہ اسے کس طرح بنایا جاتا ہے تو حقیقت میں یہ سرگردان اور حیران ہے اور خدا ان چیزوں سے منزہ ہے۔ سلیمان نے کہا: ارادہ وہی قدرت ہے۔ امام نے فرمایا: خداوند عزّوجلّ ان چیزوں پر بھی قادر ہے جن کا ارادہ نہیں کیا ہے اور یہ قطعى اور یقینی ہے؛ چونکہ خدا نے خود فرمایا ہے: وَ لَئِنْ شِئْنا لَنَذْہَبَنَّ بِالَّذِی أَوْحَینا إِلَیک (ترجمہ: اگر ہم چاہیں تو جس چیز کو تمہارے اوپر وحی کی ہیں اسے لے جائیں گے(اِسراء، ۸۶))[؟–؟] اگر ارادہ وہی قدرت ہوتا خدا نے ارادہ کیا تھا کہ ان چیزوں کو لے جانے کا؛ کیونکہ اس کام پر قدرت رکھتا تھا۔ سلیمان جواب دینے سے قاصر رہا۔ مأمون نے کہا: اے سلیمان یہ شخص ہاشمیوں میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ اس کے بعد اس نے حاضرین مجلس کو چھوڑ کر چلا گیا۔[18] |
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۷۹؛ شیخ صدوق، توحید، ۱۳۹۸ق، ۴۴۱-۴۴۲؛ طبرسی، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۰۱۔
- ↑ سورہ روم، آیہ۲۷۔
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ۱۱۷۔
- ↑ سورہ توبہ، آیہ۱۰۶۔
- ↑ شیخ صدوق، توحید، ۱۳۹۸ق، ۴۴۳-۴۴۵؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۸۰-۱۸۲؛ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۰۱۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۸۳؛ شیخ صدوق، توحید، ۱۳۹۸ق، ۴۴۵؛ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۰۲۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۰۲-۴۰۴؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۸۳-۱۹۱؛ شیخ صدوق، توحید، ۱۳۹۸ق، ۴۴۵-۴۵۴۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۸۲؛ شیخ صدوق، توحید، ۱۳۹۸ق، ۴۴۴-۴۴۵؛ طبرسی، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۰۱۔
- ↑ شیخ صدوق، توحید، ۱۳۹۸ق، ص۴۴۵، ۴۵۲؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۸۳، ۱۹۰؛
- ↑ طبرسی، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۰۴۔
- ↑ طبرسی، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۰۴؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۸۳-۱۹۱؛ شیخ صدوق، توحید، ۱۳۹۸ق، ص۴۴۵-۴۵۴۔
- ↑ شیخ صدوق، توحید، ۱۳۹۸ق، ۴۴۱-۴۵۴۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۷۹-۱۹۱۔
- ↑ طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۴۰۱-۴۰۴۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۳۳۸۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۳۲۹-۳۳۸۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۱۷۹-۱۹۱۔
- ↑ شیخ صدوق، ترجمہ عیون اخبار الرضا علیہالسلام، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۳۶۱-۳۸۷۔
مآخذ
- شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، تحقیق و تصحیح ہاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۳۹۸ھ
- شیخ صدوق، محمد بن علی، ترجمہ عیون اخبار الرضا علیہالسلام، ترجمہ علی اکبر غفاری و حمید رضا مستفید، تہران، نشر صدوق، ۱۳۷۲ش۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تحقیق و تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپاول، ۱۳۷۸ش۔
- طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تحقیق و تصحیح محمد باقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، ۱۴۰۳ھ
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ