مندرجات کا رخ کریں

عقیل بن ابی طالب کا گھر

ویکی شیعہ سے
(عقیل کا گھر سے رجوع مکرر)

عقیل بن ابی طالب کا گھر یا بنی ہاشم کا مقبرہ مدینہ کی تاریخی یادگاروں میں سے ایک تھا اور بقیع قبرستان میں بنی ہاشم کے بعض بزرگوں کی تدفین کی جگہ تھی جسے وہابیوں نے تباہ کر دیا۔

عقیل بن ابی طالب کا مدینہ میں بقیع کے جنوبی حصے میں ایک بڑا گھر تھا۔[1] یہ گھر ان زمینوں پر بنایا گیا تھا جنہیں رسول اللہؐ نے مہاجرین میں تقسیم کیا تھا۔[2] ایک روایت کے مطابق رسول اللہؐ اس گھر کے ایک کونے میں کھڑے ہو کر اہل بقیع کے لیے استغفار کیا کرتے تھے۔[3] وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گھر بنی ہاشم کے بزرگوں کی تدفین کی جگہ بن گیا اور بعد میں بقیع قبرستان میں شامل ہو گیا۔[4]

اس گھر کو "بنی ہاشم کے مزار" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔[5] ائمہ بقیع (امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ و امام صادقؑ[6] امام علی کی والدہ فاطمہ بنت اسد، عباس بن عبدالمُطَّلِب، ابوسفیان بن حارث،[7] عقیل اور عبداللہ بن جعفر[8] اس گھر میں مدفون ہیں۔ بعض شیعہ علماء نے حضرت فاطمہؑ کو بھی عقیل کے گھر میں دفن کرنے کا احتمال دیا ہے۔[9]

قاجار دور کے شاعر اور مصنف محمد حسین فراہانی کے سنہ 1302 ہجری اور سنہ 1303 ہجری کے درمیان کے سفر نامے کی رپورٹ کے مطابق ائمہ بقیع کے مقبرے میں حضرت فاطمہؑ سے منسوب ایک قبر تھی جہاں شیعہ اور اہل سنت زیارت پڑھتے تھے۔[10]

عقیل کی قبر کا ایک منظر (بائیں طرف)

فاطمہ بنت اسد جن کا انتقال سنہ 4 ہجری[11] یا سنہ 8 ہجری[12] کے بعد ہوا، اس گھر میں سب سے پہلے دفن ہوئیں۔[13] ایک روایت کے مطابق امام سجادؑ نے سنہ 65 ہجری کے قریب اس گھر کو دوبارہ تعمیر کیا۔[14]

اس گھر میں دفن ہونے والوں کی قبروں پر ایک مقبرہ بنایا گیا تھا۔ یہ مقبرہ، بقیع کے ان مقبروں میں سے ایک تھا[15] جو سنہ 1344 ہجری میں بقیع پر وہابیوں کے حملے میں تباہ ہو گئے۔[16]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج4، ص31_33؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ق، ج3، ص 95.
  2. نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع، 1386ش، ص65.
  3. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ق، ج3، ص82.
  4. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج4، ص31_33؛ سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ق، ج3، ص95.
  5. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج4، ص31.
  6. نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، 1386ش، ص81۔
  7. ابن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، 1410ق، ج1، ص127.
  8. سمہودی، وفاء الوفاء، 1419ق، ج3، ص82.
  9. مجلسی، بحار الانوار، 1410ق، ج79، ص27.
  10. فراہانی، سفرنامہ میرزا محمدحسین فراہانی، 1362ش، ص229.
  11. ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، قاہرہ، ص6.
  12. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 1378ق، ج1، ص14.
  13. پژوہشکدہ حج و زیارت، بقیع در آینہ تاریخ، 1394ش، ص236_238.
  14. مجلسی، بحار الانوار، ج45، ص344-345.
  15. ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ق، ج10، ص352.
  16. دوری و مطلبی، أخبار الدولۃ العباسیۃ، 1971م، ص24؛ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع، ص175.

مآخذ

  • ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ، تحقیق: محمد أبو الفضل إبراہیم، بی جا، دار إحیاء الکتب العربیۃ - عیسی البابی الحلبی وشرکائہ، 1378ھ۔
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص، قاہرۃ، مکتبہ الثقافۃ الدینیۃ، بی تا.
  • ابن سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، 1410ھ۔
  • ابن شبہ، عمر بن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورہ، قم، منشورات دار الفکر، 1410ھ۔
  • پژوہشکدہ حج و زیارت، بقیع در آینہ تاریخ، تہران، نشر مشعر، 1394ہجری شمسی۔
  • دوری، عبد العزیز و مطلبی، عبد الجبار، أخبار الدولۃ العباسیۃ، بیروت، دارالطلیعۃ للطباعۃ و النشر، 1971م.
  • سمہودی، علی بن عبد اللہ، وفاء الوفاء، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، الطبعۃ الأولی، 1419ھ۔
  • فراہانی، محمد حسین، سفرنامہ مرزا محمد حسین فراہانی، تہران، فردوس، 1362ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسۃ الطبع و النشر، 1410ھ۔
  • نجمی، محمد صادق، تاریخ حرم ائمہ بقیع، تہران، نشر مشعر، 1386ہجری شمسی۔