زیارت نامہ حضرت معصومہ(س)
ضریح حضرت فاطمہ پر عبارِتِ «یَا فاطِمَۃ اشْفَعِی لِی فِی الْجَنَّۃِ» کا نقش | |
| کوائف | |
|---|---|
| موضوع: | زیارت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا |
| صادرہ از: | حضرت امام رضاؑ |
| راوی: | علی بن ابراہیم نے ابراہیم بن ہاشم سے انہوں نے سعد اشعری سے |
| شیعہ منابع: | بحار الانوار |
| مونوگرافی: | رواق عصمت؛ شرحی بر زیارت نامہ حضرت فاطمہ معصومہ(س) // شرح زیارت بزرگ بانوی کرامت(بزبان فارسی) |
| مشہور دعائیں اور زیارات | |
| دعائے توسل • دعائے کمیل • دعائے ندبہ • دعائے سمات • دعائے فرج • دعائے عہد • دعائے ابوحمزہ ثمالی • زیارت عاشورا • زیارت جامعہ کبیرہ • زیارت وارث • زیارت امیناللہ • زیارت اربعین | |
زیارت نامہ حضرت معصومہ(س) سے مراد شیعوں کے ساتویں امام حضرت موسی کاظمؑ کی بیٹی حضرت معصومہ(س) سے مخصوص ایک زیارت نامہ ہے۔ شیعہ علماء حضرت فاطمہ معصومہ(س) کو اعلیٰ مرتبہ و مقام کی حامل خاتون سمجھتے ہیں اور ان کی زیارت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ امام علی رضاؑ کی روایت کے مطابق، جو بھی حضرت فاطمہ معصومہ(س) کی زیارت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حضرت فاطمہ معصومہ(س) کا زیارت نامہ علامہ محمد باقر مجلسی نے امام رضا(ع) سے منسوب کیا ہے۔ یہ زیارت نامہ علامہ مجلسی کی کتابوں بحار الانوار اور تحفة الزائر میں نقل ہوا ہے۔ زیارت نامے کے ایک جملے میں آیا ہے: «یَا فاطِمَۃُ اشْفَعِی لِی فِی الْجَنَّۃِ» جو حضرت معصومہ(س) کے مقام شفاعت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بعض محققین زیارت نامے کی سند اور متن پر اعتراضات کرتے ہیں؛ تاہم، شیعہ علماء اسے ادلّہ سنن میں تسامح کی بنیاد پر قبول کرتے ہیں۔
حضرت معصومہ(س) کا مرتبہ اور ان کی زیارت کی اہمیت

شیعہ علماء حضرت فاطمہ معصومہ(س) کے لیے بلند مقام کے قائل ہیں اور ان کی منزلت اور زیارت کی اہمیت کے بارے میں روایات نقل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، علامہ مجلسی نے کتاب بحارالانوار میں امام جعفر صادقؑ کی حدیث بیان کی ہے جس کے مطابق، شیعہ حضرات حضرت معصومہ(س) کی شفاعت کے ذریعہ جنت میں داخل ہوں گے۔[1]
ابن قولویہ قمی نے کتاب کامل الزیارات میں فاطمہ معصومہ(س) کی زیارت کے فضائل کے سلسلے میں دو روایات نقل کی ہیں:
- امام علی رضاؑ: «مَن زارها فلَہ الجنَّة»؛ یعنی جو بھی حضرت فاطمہ معصومہ(س) کی زیارت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا۔»
- امام محمدتقیؑ: «مَنْ زَارَ قَبْرَ عَمَّتِی بِقُمَّ فَلَہُ الْجَنَّةُ»؛ یعنی جو شخص قم میں میری پھوپھی حضرت معصومہ(س) کے مزار کی زیارت کرے گا اس کے لیے جنت نصیب ہوگی۔»[2]
کتاب موسوعة زیارات المعصومین علیہم السلام میں بھی امام جعفر صادقؑ سے نقل ہے کہ حضرت معصومہ(س) کی زیارت جنت کے مترادف ہے۔[3] کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ الزہراء(س) اور حضرت معصومہ(س) وہ واحد خواتین ہیں جن کا زیارت نامہ مأثور(یعنی ایسا زیارت نامہ جس کی سند معصومؑ تک پہنچتی ہے) موجود ہے۔[4]
زیارت نامہ کا متن اور ترجمہ
حضرت معصومہ(س) کا زیارت نامہ علامہ مجلسی نے اپنی کتابوں زاد المعاد، بحارالانوار اور تحفۃ الزائر میں امام علی رضاؑ سے نقل کیا ہے۔[5] تاہم، تحفۃ الزائر میں انہوں نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ متن حدیث امام علی رضاؑ کا مکمل حصہ نہیں ہے بلکہ علماء نے اسے اضافہ کیا ہے۔[6] علامہ مجلسی کی روایت بحارالانوار میں کچھ یوں ہے: میں نے زیارات کی کچھ کتابوں میں دیکھا ہے کہ علی بن ابراہیم نے اپنے والد سے، انہوں نے سَعد سے اور سعد نے امام علی رضاؑ سے یوں روایت کی ہے: اے سعد! تمہارے نزدیک ہماری ایک قبر ہے۔ سعد نے کہا: آپؑ پر فدا ہوجاؤں!، کیا آپؑ کی مراد امام موسی کاظمؑ کی بیٹی حضرت فاطمہ(س) کا مزار ہے؟ جواب ملا: ہاں ایسا ہی ہے۔ جو شخص ان کےمقام و مرتبے کی معرفت کے ساتھ ان کی زیارت کرے گا اس کے لیے جنت ہے۔ جب آپ ان کی قبر کے پاس پہنچیں تو سر کی طرف سے قبلہ رخ کھڑے ہو جائیں اور 34 مرتبہ 'الله اکبر'، 33 مرتبہ 'سبحان الله' اور 33 مرتبہ 'الحمد للہ' کہیں۔ پھر پڑھیں:[7]
زیارت کا متن اور ترجمہ
|
متن
|
ترجمہ
|
|---|---|
|
اَلـسَّلامُ عَـلی آدَمَ صَـفْوَة اللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلی نوُح نَبِی اللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلی ا ِبْرهيمَ خَليل ِ اللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلی موُسی كَليم ِاللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلی عيسی روُح ِ اللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا خَيْرَ خَلْقَ اللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا صَفِی اللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمّدَ بْنَ عَبْد ِاللّه ِ، خاتَمَ النَّبِيّينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا اَميرَالْمُؤْمِنينَ عَلی بْنَ اَبی طالِب، وَصِی رَسوُل ِ اللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ يا فاطِمَة سَيِّدَة نِساءِ الْعالَمينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكُما يا سِبْطَی نَبِی الرَّحْمَة ِ، وَ سَيِّدَی شَباب ِ هل ِ الْجَنَّة ِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ الْحُسَيْن ِ، سَيِّدَ الْعابِدينَ وَ قُرَّة عَيْن ِ النّاظِرينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی، باقِرَ الْعِلْم ِ بَعْدَ النَّبِی، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّد الصّاد ِقَ الْبارَّ الْامينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا موُسَی بْنَ جَعْفَر الطّهرَ الطُّهرَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ موُ سَی الرِّضَا الْمُرْتَضی، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی التَّقِی، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا عَلِی بْنَ مُحَمَّد النَّقِی النّاصِحَ الْأَمينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ يا حَسَنَ بْنَ عَلِی، اَلسَّلامُ عَلَی الْوَصِی مِنْ بَعْدِه ِ. اَللّهمَّ صَلِّ عَلی نُورِكَ وَ سِراجِكَ، وَ وَلِی وَلِيِّكَ، وَ وَصِيِّكَ، وَ حُجَّتِكَ عَلی خَلْقِكَ. اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ يابِنْتَ رَسوُل ِاللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ يابِنْتَ فاطِمَة وَ خَديجَة، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ يابِنْتَ اَمير ِ الْمُؤْمِنينَ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ يابِنْتَ الْحَسَن ِ وَ الْحُسَيْن ِ اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ يابِنْتَ وَلِی اللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ يا اُخْتَ وَلِی اللّه ِ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ يا عَمَّة وَلِی اللّه ِ ، اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ يابِنْتَ موُسَی بْن ِ جَعْفَر ، وَ رَحْمَة اللّه ِ وَ بَرَكاتُه. اَلسَّلامُ عَلَيْك ِ، عَرَّفَ اللّه بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ فِی الْجَنَّة ِ، وَ حَشَرَنا فی زُمْرَتِكُمْ، وَ أَوَرَدْنا حَوْضَ نَبِيِّكُمْ، وَ سَقانا بِكَأْس ِ جَدِّ كُمْ مِنْ يَد ِ عَلِی ِّ بْن ِ اَبی طالِب، صَلَواتُ اللّه عَلَيْكُمْ، أَسْئَلُ اللّه أَنْ يُريَنا فيكُمُ السُّروُرَ وَ الْفَرَجَ، وَ أَنْ يَجْمَعَنا وَ إِيّاكُمْ فی زُمْرَة ِ جَدِّكُمْ مُحَمَّد، صَلَّی اللّه عَلَيْه ِ وَ آلِه ِ، وَ أَنْ لا يَسْلُبَنا مَعْر فَتَكُمْ، إِنَّه وَلِی قَديرٌ. أَتَقَرَّبُ إِلَی اللّه ِ بِحُبِّكُمْ وَ الْبَرة ِ مِنْ أَعْدائِكُمْ، وَ التَّسْليم ِ إِلَی اللّه ِ، راضِياً بِه ِ غَيْرَ مُنْكِر وَ لا مُسْتَكْبِر وَ عَلی يَقين ِ ما أَتی بِه ِ مَحَمَّدٌ وَ بِه راض، نَطْلُبُ بِذلِكَ وَجْهكَ يا سَيِّدی، اَللّهمَّ وَ رِضاكَ وَ الدّارَ الْآخِرَة. يا فاطِمَة ِاشْفَعی لی فِی الْجَنَّة ِ، فَانَّ لَكَ عِنْدَاللّْه ِشَأْناً مِنَ الشَّأْن ِ. اَللّْهمّ انی اَسْئَلُكَ أَنْ تَخْتِمَ لی بِالسَّعادَة ِ، فَلاتَسْلُبْ مِنّی ما أَنَا فيه، وَ لاحُولَ وَ لا قُوَة إِلا بالّله الْعَلِی الْعَظيم ِ. اَللّهمَ اسْتَجِبْ لَنا، وَ تَقَبَّلْه بِكَرَمِكَ وَ عِزَّتِكَ، وَ بِرَحْمَتِكَ وَ عافِيَتَكَ، وَ صَلَّی الّله عَلی مُحَمَّد وَ آلِه ِ أَجْمَعينَ، وَ سَلَّمَ تَسْليما يا أَرْحَمَ الرّاحِمينَ |
سلام ہو آدم خدا کے برگزیدہ پر۔ سلام ہو نوح نبی خدا پر۔سلام ہو ابراہیم خلیل خدا پر۔ سلام ہو موسیٰ کلیمِ خدا پر۔سلام ہو عیسیٰ روح خدا پر۔ اے رسول خدا آپ پر سلام ہو، اے بہترین مخلوق خدا آپ پر سلام ہو۔ اے صفی خدا آپ پرسلام ہو۔ اے محمد بن عبد اللہ آخری نبی آپؐ پر سلام ہو۔ اے امیر المومنین علی ابن ابی طالب وصی رسول خدا آپ پر سلام ہو۔ اے فاطمہ دو جہاں کی عورتوں کی سردار آپ پر سلام ہو۔ اے نبی رحمت کے دو نواسے اور بہشت کے جوانوں کے سردار آپ دونوں پر سلام ہو۔ اے علی بن حسین عبادت گزاروں کے سید و سردار اور دیکھنے والوں کی خنکی چشم آپ پر سلام ہو۔ اے محمد بن علی علم بعد از نبی آپ پر سلام ہو۔ اے جعفر بن محمد صادق نیک کردار، امین آپ پر سلام ہو۔ اے موسی بن جعفر پاک وپاکیزہ آپ پر سلام ہو۔ اے علی بن موسی رضا، مرتضی آپ پر سلام ہو۔ اے محمد بن علی پرہیزگار آپ پر سلام ہو۔ اے علی بن محمد نقی خیر خواہ، امین آپ پر سلام ہو۔ اے حسن بن علی آپ پر سلام ہو۔ اے ان کے بعد جو وصی ہیں ان پر سلام ہو۔ خدایا تو اپنے نور اور تابناک چراغ ، اپنے ولی کے نمائندے، اپنے جانشین اور بندوں پر اپنی حجت کے اوپر سلام نازل فرما۔ اے بنت رسول خدا آپ پر سلام ہو۔ اے دختر فاطمہ و خدیجہ آپ پر سلام ہو۔ اے دختر امیر المومنین آپ پر سلام ہو۔ اے دختر حسین و حسین آپ پر سلام ہو۔ اے دختر ولی خدا آپ پر سلام ہو۔ اے ولی خدا کی خواہر آپ پر سلام ہو۔ اے ولی خدا کی پھوپھی آپ پر سلام ہو۔ اے دختر موسی بن جعفر آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکت ہو۔ سلام ہو آپ پر۔خدا جنت میں ہمارے اور آپ کے در میان شناخت قائم فرمائے اور ہم کو آپ لوگوں کے گروہ میں محشور فرمائے۔ آپ کے نبی کے حوض پر وارد فرمائے نیز آپ لوگوں پر خدا کا درود ہو۔ میں خدا سے درخواست کرتاہوں کہ وہ ہمیں آپ کے بارے میں خوشحال کرے اور فرج دکھائے۔ نیز ہمیں اور آپ کو آپ کے جد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ میں شمار فرمائے اور ہم سے آپ کی معرفت کو سلب نہ کرے۔ کیونکہ وہی سرپرست اور قدرت والا ہے۔ میں آپ کی محبت اور آپ کے دشمنوں سے برائت کے وسیلے سے خدا کی بارگاہ میں تقرب چاہتاہوں اور اس کی بارگاہ میں سر نیاز خم کرتاہوں۔ نیز اس سے راضی ہوں۔ نہ ہی منکر ہوں نہ ہی مستکبر۔ یہ تمام باتیں جو چیزیں محمد لائے ہیں اس پر یقین کے ساتھ کہہ رہاہوں نیز اس سے راضی ہوں۔ اے مرے آقا اسی وسیلے سے تری توجہ کا طلبگار ہوں۔ خدایا تری خوشنودی اور خانہٴ آخرت چاہتاہوں۔ اے فاطمہ جنت میں میری شفاعت فرمائیے کیونکہ آپ خدا کے نزدیک ایک خاص شان ومقام کی حامل ہیں۔ خدایا میں تجھ سے درخواست کرتاہوں کہ ہمارا خاتمہ سعادت پر ہو۔ پس اس ایمان کو ہم سے نہ چھین جو ہم میں موجود ہے۔ تمام حرکت و جنبش خدا ہی کے وسیلے سے ہے جو بزرگ و برتر ہے۔ خدایا ہماری حاجت کو مستجاب فرما اور اپنے کرم و عزت و رحمت و عافیت سے اسے قبول فرما نیز محمد اور ان کی آل پر درود و سلام نازل فرما۔ اے سب سے زیادہ مہربان۔ |
حضرت فاطمہ معصومہ(س) کی شفاعت
حضرت معصومہ(س) کے زیارت نامہ میں، جسے علامہ مجلسی نے کتاب بحارالانوار میں نقل کیا ہے، یہ عبارت موجود ہے: «یَا فاطِمَۃُ اشْفَعِی لِی فِی الْجَنَّۃِ فَإِنَّ لَکِ عِنْدَ اللہِ شَأْناً مِنَ الشَّأْنِ» ترجمہ: "اے فاطمہ! میرے لیے جنت میں شفاعت کیجیے، بے شک آپ کا خدا کے نزدیک بلند مقام ہے۔" حضرت معصومہ(س) کے مقام وشفاعت کے بارے میں امام جعفر صادقؑ سے نقل ہے:"خدا کا حرَم مکہ ہے۔ اس کے پیغمبر خداؐ کا حرَم مدینہ ہے۔ امیرالمؤمنین کا حرَم کوفہ ہے۔ قم کوفہ کا چھوٹا نمونہ ہے۔ جان لو کہ جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے تین دروازے قم کی طرف کھلیں گے اور وہاں میری ایک بیٹی دفن ہوگی جس کا نام فاطمہ بنت موسی(ع) ہے اور اس کی شفاعت سے تمام شیعیان جنت میں داخل ہوں گے۔[8]
ناصر مکارم شیرازی کے مطابق، شفاعت کا دائرہ صاحب شفاعت کے مقام اور ان کی شخصیت کے دائرے سے متعلق ہے۔ جتنا مقام بلند ہوگا، اتنی ہی شفاعت وسیع ہوگی۔ جب امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ معصومہ(س) کی شفاعت سے تمام شیعیان جنت میں داخل ہوں گے، تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت معصومہ(س) کا مقام بہت عصمت جیسا عظیم ہے، جو اعلیٰ معارف اور تقویٰ کی وجہ سے انہیں حاصل ہوا ہے۔[9]
زیارت نامہ کا معتبر ہونا
زیارت نامہ حضرت معصومہ(س) کی سند و متن پر کچھ اشکالات کیے گئے ہیں:
سند کا جائزہ
علامہ مجلسی نے زیارت نامہ حضرت معصومہ(س) کو علی بن ابراہیم قمی سے، انہوں نے اپنے والد ابراہیم بن ہاشم قمی سے، انہوں نے سعد بن سعد اشعری سے اور انہوں نے امام رضاؑ سے نقل کیا ہے۔[10] علامہ مجلسی نے کتاب بحار الانوار[11] اور تحفۃ الزائر[12] میں اس زیارت نامہ کو نقل کیا، مگر اس کتاب کا نام ذکر نہیں کیا[13] اور صرف کہا ہے کہ میں نے یہ زیارت نامہ کچھ ایسی کتابوں میں دیکھا ہے جو زیارات پر مشتمل ہیں۔[14] تحفۃ الزائر میں سند کو حسن قرار دیا گیا ہے۔[15] شیخ عباس قمی نے بھی اس زیارت نامے کو مفاتیح الجنان میں علامہ مجلسی سے یہ زیارتنامہ نقل کیا ہے۔[16]

علوم حدیث کے محققین کے مطابق، اصل ماخذ کا ذکر نہ کرنا ایک کمزوری ہے، جو اس روایت پر وارد کی جا سکتی ہے۔[17] تاہم، صاحب کتاب تفسیر قمی یعنی علی بن ابراہیم علمائے رجال خصوصاً نجاشی کے نزدیک معتبر ہیں[18] اور کلینی نے بھی ان سے روایت نقل کی ہے۔[19] سید بن طاووس اور ابو القاسم خوئی جیسے علماء نے بھی ابراہیم بن ہاشم کی وثاقت پر زور دیا ہے اور انہیں قابل اعتماد مانا ہے۔[20] تاہم سعد کے امام رضا(ع) سے روایت نقل کرنے کے سلسلے میں علمائے رجال نے کچھ اشکالات اور شبہات بھی بیان کیے ہیں۔[21]
متن کا جائزہ
کچھ محققین نے زیارت نامہ کے متن اور اس کے کچھ جملوں پر اشکالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ[22] کیوں زیارت نامہ کے اختتامی جملوں میں خطاب بدل جاتا ہے؟ مثال کے طور پر، جب عبارت «نَطْلُبُ بِذٰلِکَ وَجْہَکَ یَا سَیِّدِی» میں خطاب حضرت معصومہ(س) سے پیغمبرخداؐ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ پھر جب عبارت «اللّٰہُمَّ وَ رِضاکَ وَ الدَّارَ الْآخِرَۃ» آتی ہے تو خطاب خداوند کی طرف ہو جاتا ہے اور دوبارہ عبارت «یَا فاطِمَۃُ اشْفَعِی لِی فِی الْجَنَّۃِ فَإِنَّ لَکِ عِنْدَ اللہِ شَأْناً مِنَ الشَّأْنِ» کے ساتھ خطاب حضرت معصومہ(س) کی طرف لوٹ آتا ہے۔[23]
سند اور متن میں موجود اشکالات کے باوجود، بعض علماء نے اس زیارت نامہ کو ادلہ سنن میں تسامح کے قاعدے کے تحت قبول کیا ہے۔[24] قاعدہ تسامح کے مطابق، دعاؤں اور مستحبات کے اسناد کی درستگی پر تحقیق و مناقشہ صرف علمی مقصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ عمل میں، اگر کوئی شخص اس زیارت نامہ کو یہ امید رکھتے ہوئے پڑھے کہ یہ معصومؑ سے صادر ہوا ہے اور اس کے بلند مضامین تک پہنچائے گا، تو یہ ایک قابل قبول اور مطلوبہ عمل سمجھا جائے گا۔[25]
غیر مشہور زیارت نامے
کچھ شیعہ علماء نے حضرت فاطمہ معصومہ(س) کے لیے دیگر زیارت نامے بھی نقل کیے ہیں جن کی نسبت معصومؑ کی طرف نہیں دی گئی ہے۔[26] مزید برآں، علامہ مجلسی نے کتاب بحارالانوار میں شیخ مفید کی کتاب المزار سے نقل کرتے ہوئے حضرت معصومہ(س) کے لیے ایک اور زیارتنامہ بھی ذکر کیا ہے۔[27]
مونوگرافی
حضرت فاطمہ معصومہ(س) کے زیارت نامہ پر شرح کی گئی کتابیں درج ذیل ہیں: رواق عصمت؛ اس کتاب میں حضرت فاطمه معصومه(س) کے زیارتنامه کی شرح کی گئی ہے جسے علی حسینی نے تالیف کی ہے اور زائر آستانه مقدسه پبلشرز قم نے سنہ 2006ء میں شائع کی ہے۔ شرح زیارت بزرگ بانوی کرامت؛ جسے غلام علی صفایی بوشهری نے لکھی ہے۔ اس کتاب کو مذکورہ پبلشرز نے سنہ 2004ء میں شائع کیا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج99، ص267۔
- ↑ ابنقولویہ، کامل الزیارات، 1356شمسی، ج1، ص324۔
- ↑ مؤسسہ امام ہادی(ع)، موسوعۃ زیارات المعصومین علیہم السلام، 1426ھ، ج5، ص225۔
- ↑ مہدیپور، کریمہ اہل بیت(س)، 1380شمسی، ص126۔
- ↑ ملاحظہ کیجیے: مجلسی، زادالمعاد، 1423ھ، ص548–547؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج99، ص266–267؛ مجلسی، تحفۃالزائر، 1386شمسی، ص664۔
- ↑ مجلسی، تحفۃالزائر، 1386شمسی، ص666۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج99، ص266-267۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج57، ص228۔
- ↑ آزاد، «زیارت عارفانہ؛ توصیہہای عالمانہ(با محوریت زیارت حضرت معصومہ(س)).»، ص15۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج99، ص265و266۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج99، ص266۔
- ↑ علامہ مجلسی، تحفۃ الزائر، 1386شمسی، ص664۔
- ↑ مقیسہ، «پژوہشی در زیارتنامہ فاطمہ معصومہ (ع)»، ص55۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج99، ص265و266۔
- ↑ علامہ مجلسی، تحفۃ الزائر، 1386شمسی، ص664۔
- ↑ قمی، کلیات مفاتیح الجنان، بخش «زیارات امامزادگان عظام»۔
- ↑ مقیسہ، «پژوہشی در زیارتنامہ فاطمہ معصومہ (ع)»، ص55۔
- ↑ دانشور، «سفارشات زیارت حضرت معصومہ(س)»، ص30۔
- ↑ دانشور، «سفارشات زیارت حضرت معصومہ(س)»، ص30۔
- ↑ دانشور، «سفارشات زیارت حضرت معصومہ(س)»، ص30۔
- ↑ مقیسہ، «پژوہشی در زیارتنامہ فاطمہ معصومہ (ع)»، ص55-56؛ «نگاہی بہ زیارت نامہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا»، پایگاہ اطلاعرسانی حوزہ۔
- ↑ مقیسہ، «پژوہشی در زیارتنامہ فاطمہ معصومہ (ع)»، ص56۔
- ↑ مقیسہ، «پژوہشی در زیارتنامہ فاطمہ معصومہ (ع)»، ص56۔
- ↑ «نگاہی بہ زیارت نامہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا»، پایگاہ اطلاعرسانی حوزہ۔
- ↑ مقیسہ، «پژوہشی در زیارتنامہ فاطمہ معصومہ (ع)»، ص56۔
- ↑ مہدیپور، زندگانی کریمہ اہلبیت علیہمالسلام، 1392شمسی، ص161۔
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج99، ص273۔
مآخذ
- «نگاہی بہ زیارت نامہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا»، پایگاہ اطلاعرسانی حوزہ، گفتوگو با حسن رمضانی خراسانی، تاریخ انتشار:30 تیر 1399شمسی، تاریخ بازدید 12 تیر 1403ہجری شمسی۔
- آزاد، عباس، «زیارت عارفانہ؛ توصیہ ہای عالمانہ(با محوریت زیارت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا)»، در مجلہ مبلغان، شمارہ 234، آذر و دی 1397ہجری شمسی۔
- ابنقولویہ، جعفر بن محمد، کامل الزیارات، نجف، دار المرتضویۃ، چاپ اول، 1356ہجری شمسی۔
- دانشور، ہادی، «سفارشات زیارت حضرت معصومہ(س)»، در مجلہ فرہنگ کوثر، شمارہ 35، بہمن 1378ہجری شمسی۔
- قمی، عباس، کلیات مفاتیح الجنان، بخش «زیارات امامزادگان عظام»۔
- مؤسسہ امام ہادی(ع)، موسوعۃ زیارات المعصومین علیہمالسلام، قم، پیام امام ہادی(ع)، 1426ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- مجلسی، محمدباقر، تحفۃ الزائر، قم، پیام امام ہادی(ع)، 1386ہجری شمسی۔
- مجلسی، محمدباقر، زاد المعاد، تصحیح: علاءالدین اعلمی، بیروت، مؤسسہ اعلمی للمطبوعات، 1423ھ۔
- مقیسہ، حسین، «پژوہشی در زیارتنامہ فاطمہ معصومہ(ع)»، در مجلہ فرہنگ کوثر، شمارہ 25، فروردین 1378ہجری شمسی۔
- مہدیپور، علیاکبر، زندگانی کریمہ اہلبیت علیہمالسلام، تہران، آرام دل، 1392ہجری شمسی۔
- «نگاہی بہ زیارت نامہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا»، پایگاہ اطلاعرسانی حوزہ، تاریخ انتشار: 30 تیر 1399شمسی، تاریخ بازدید: 19 تیر 1403ہجری شمسی۔