مندرجات کا رخ کریں

حوزہ علمیہ قم

ویکی شیعہ سے
(حوزۂ علمیہ قم سے رجوع مکرر)
مدرسہ فیضیہ قم

حوزہ علمیہ قم عالم تشیع کے دو بڑے علمی مراکز میں سے ایک ہے جو ابتدائی اسلامی صدیوں میں وجود میں آیا۔ سنہ 1922ء میں عبد الکریم حائری یزدی نے اس علمی مرکز کا از سر نو قیام اور احیاء کیا۔ دینی علوم کا یہ مرکز بیسویں صدی ہجری کے دوران، سید حسین طباطبائی بروجردی کی قیادت میں تشیع کے دو مرکزی دینی درسگاہ میں سے ایک کی حیثیت کا حامل ٹھہرا یہاں تک کہ یہ مرکز حوزہ علمیہ نجف کا ہم‌ پایہ قرار پایا۔ جب حوزہ علمیہ نجف میں علما اور طلاب کو مختلف مسائل اور مشکلات کا سامنا ہوا تو بعض اساتذہ اور طلاب قم منتقل ہوئے، اس طرح رفتہ‌ رفتہ حوزہ علمیہ قم شیعہ دینی علوم کا سب سے بڑا علمی مرکز بن گیا۔

حوزہ علمیہ قم میں کثیر تعداد میں مراجع تقلید نے درس و تدریس کا سلسلہ برقرار رکھا؛ جن میں عبدالکریم حائری یزدی، سید محمد رضا گلپائگانی، سید شہاب‌ الدین مرعشی نجفی، سید احمد خوانساری، سید کاظم شریعت مداری، سید روح اللہ خمینی، محمد علی اراکی، حسین وحید خراسانی، ناصر مکارم شیرازی، سید علی خامنہ‌ ای، محمد تقی بہجت، حسین علی منتظری اور لطف‌ اللہ صافی گلپائگانی شامل ہیں۔ نیز اور ایرانی و غیرایرانی بہت سے علما نے یہاں تعلیم حاصل کی یا یہاں مقیم رہے ہیں۔ ان میں سید موسی صدر، مرتضیٰ مطہری، سید محمد حسین طباطبائی، سید رضا بہاء الدینی، علی مشکینی، محمد تقی مصباح یزدی، حسن حسن‌ زادہ آملی، عبد اللہ جوادی آملی، غلام حسین ابراہیمی دینانی، عیسی احمد قاسم، سید ساجد علی نقوی، حسین انصاریان، محسن قرائتی اور ابراہیم زکزاکی شامل ہیں۔

تشیع کے اہم تفسیری، فقہی، تاریخی، فلسفی اور دائرۃ المعارفی آثار کی تحقیق و تحریر کا کام حوزہ علمیہ قم میں انجام پایا ہے؛ جیسے تفسیر المیزان، نمونہ، تسنیم، تحریر الوسیلہ، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، اصول فلسفہ و روش رئالیسم نیز جامع احادیث الشیعہ۔ سنہ 2023ء تک "کتاب سال حوزہ" کی جمع کردہ اطلاعات کے مطابق 23 ہزار سے زائد علمی و تحقیقی کتابیں حوزہ علمیہ سے منسلک علما نے مختلف موضوعات پر منعقدہ کانفرنسز میں پیش کی ہیں۔

جمہوری اسلامی ایران میں حوزہ علمیہ قم کا انتظام و انصرام، یہاں کے مدارس دینیہ کے انتظامی مرکز(مرکز مدیریت حوزہ ہای علمیہ) کے ماتحت چلتا ہے اور انہی مدارس دینیہ کی شورائے عالی اس کی پالیسی سازی کرتی ہے۔ اسی کے ماتحت ایران کے رہبر اعلیٰ، مراجع تقلید اور حوزہ علمیہ کے دیگر علما کی جانب سے مختلف علمی و تحقیقی ادارے قائم کیے گئے ہیں، جن میں مؤسسہ اسراء، مرکز فقہی ائمہ اطہار، مؤسسہ علمی و تحقیقی امام خمینی، مفید یونیورسٹی، باقر العلوم یونیورسٹی اور علوم و فرہنگ اسلامی تحقیقاتی ادارہ قابل ذکر ہیں۔

پہلوی دورِ میں حوزہ علمیہ قم کا سیاسی کردار زیادہ تر دینی و تعلیمی امور تک محدود رہا۔ سید حسین بروجردی نے حکومت کو دینی تعلیم کو ملک میں رائج نظامِ تعلیم میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی۔ ان کے بعد بعض حوزہ علمیہ قم کے بعض علما؛ جیسے سید محمد رضا گلپایگانی اور سید کاظم شریعت مداری نے حکومت سے اختلاف کے باوجود ان کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنےسے گریز کیا، جبکہ حوزہ ہی کے بعض دیگر شخصیات؛ جیسے امام خمینی اور سید محمد محقق داماد نے پہلوی حکومت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ کہتے ہیں کہ سنہ 1979ء میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، حوزہ علمیہ قم کے علما نے اسلامی جمہوریہ نظام رائج کرنے میں موخر الذکر علما کے ساتھ بھرپور تعاون کیا یہاں تک کہ مختلف حکومتی و دینی مناصب پر فائز بھی ہوئے۔

حوزہ علمیہ قم نے شیعہ تعلیمات کی تبلیغ کے لیے بیرونِ ملک بھی ادارے قائم کیے اور قم میں غیرایرانی طلبہ کے لیے تعلیمی مراکز بھی قائم کیے۔ اگرچہ حوزہ علمیہ قم کا بنیادی مقصد فقہ کی تعلیم اور مجتہدین کی تربیت ہے، تاہم یہاں کلام، فلسفہ، تفسیر، اخلاق اور علمِ رجال جیسے علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم میں مختلف فکری رجحانات بھی پائے جاتے ہیں اور وقتاً فوقتاً ان کے مابین فکری تنازعات بھی سامنے آتے رہے ہیں؛ بطور مثال فدائیانِ اسلام نامی تنظیم نے علی شریعتی کے افکار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اسی طرح اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سید کاظم شریعتم داری کی مرجعیت پر اختلاف رہا اور سنہ 1997ء میں حسین علی منتظری کی تقریر سیاسی اختلافات کا سبب بنی۔

حوزہ علمیہ قم کے علما اور دانشوروں نے فکری اور عقیدتی مختلف چیلنجوں کے مقابلے میں اپنی فعالیتیں جاری رکھیں۔ منجملہ سنہ 1950ء میں احمد کسروی اور "اسرار ہزار سالہ" نامی کتاب کی تردید کی، سنہ 1950 سے لے کر 1980ء کی تین دہائیوں میں بہائیت، الحادی افکار اور مارکسی نظریات کا مقابلہ کیا، اہل سنت اور وہابیت کے اعتراضات کا جواب دیا گیا اور مہدی بازرگانی، عبد الکریم سروش اور محمد مجتہد شبستری جیسے مذہبی روشن‌ فکر افراد کے نظریات کے مقابلے میں علمی نقد پیش کی۔

تاریخی پس منظر

حوزہ علمیہ قم ایران میں چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری کے سب سے بڑے اور اہم شیعہ دینی تعلیمی مراکز میں شمار ہوتا ہے۔ اسے تاریخِ تشیع میں ایک بے نظیر علمی و فکری علمی مرکز[1] اور ایران کی تاریخ میں واحد اور پائیدار سماجی اور تعلیمی ادارے[2] کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جب چودھویں صدی ہجری میں حوزہ علمیہ نجف کو مشکلات اور مختلف قسم کی محدودیتوں کا سامنا ہوا تو اس کے کئی اساتذہ اور طلبہ قم منتقل ہوگئے، جس کے نتیجے میں حوزہ علمیہ قم تدریجاً شیعہ دینی علوم کا اصلی مرکزِ بن گیا۔ حوزہ علمیہ قم مراجع تقلید، مجتہدین، اساتذہ، طلبہ، محققین، مصنفین اور سیکڑوں مدارس، کتب خانوں، تحقیقی مراکز اور علمی و ثقافتی اداروں پر مشتمل ایک فعال عظیم دینی مرکز ہے جو ایران میں دینی فکر کی تعلیم، تحقیق اور ترویج کا بنیادی مرکز ہے۔[3]

چودھویں صدی ہجری میں حوزہ علمیہ قم کی ترقی نے بعض شیعہ مرجعیتِ تقلیدِ کو نجف سے قم منتقل کرنے کا راستہ ہموار کیا؛[4] یہاں تک کہ سید حسین طباطبائی بروجردی (وفات: 1961ء) جو قم میں مقیم مرجع تقلید تھے، پندرہ برس تک عالم تشیع کے واحد مرجع تقلید کے طور پر معروف رہے۔[5]

کہتے ہیں کہ حوزہ علمیہ قم نے ایران میں پہلوی حکومت کی مخالفت کے ذریعے سنہ 1979ء میں ایران کے سیاسی نظام میں تبدیلی لانے اور اسلامی انقلاب کی کامیابی میں بنیادی کردار ادا کیا۔[6] پہلوی حکومت کے خلاف زیادہ تر مذہبی تحریکوں کی قیادت قم کے علما نے کی، خاص طور پر سید روح اللہ خمینی نے اس جدوجہد کو منظم کیا اور اس سلسلے میں درکار رہنمائی فراہم کی۔[7]

حوزہ علمیہ قم کی مشہور شخصیات

حوزہ علمیہ قم میں مراجع تقلید کے علاوہ متعدد ایسے معروف علما موجود رہے ہیں جنہیوں نے مفکرین، مفسرین، متکلمین اور مصنفین کی حیثیت سے دینی علوم میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں؛ ان میں درج ذیل علما شامل ہیں:

علمی آثار کی تخلیق اور اشاعت

حوزہ علمیہ قم آج کے دور میں دینی فکر و علم کی تخلیق اور اشاعت کا سب سے اہم اور مرکزی ادارہ سمجھا جاتا ہے۔[8] یہاں تحقیقی کاموں کو منظم کرنے کے لیے تھیسز لکھنا لازم قرار دیے جانے کی وجہ سے سنہ 2022ء تک سطح سوم اور سطح چہارم (یعنی اعلیٰ سطوحِ علمی) میں چھ ہزار سے زائد تحقیقی مقالے پیش اور منظور کیے جاچکے ہیں۔[9]

کتب کی اشاعت

حوزہ علمیہ قم میں بے شمار علمی و تحقیقی کتابیں تصنیف ہوئی ہیں، جن میں سے تفسیر کے سلسلے میں المیزان، نمونہ اور تسنیم معروف ہیں، جبکہ فقہ اور حدیث کے موضوع پر جامع احادیث الشیعہ،[10] تحریر الوسیلہ اور اس کی شرحیں، فقہ الصادق نامی 41 جلدوں پر مشتمل کتابیں لکھی گئی ہیں، اسی طرح علوم قرآن کے موضوع پر التمہید[11] نامی کتابیں تحریر کی گئی ہیں جبکہ فلسفہ کے موضوع پر رحیق مختوم نامی کتاب مشہور ہے، اسی طرح دائرۃ المعارف قرآن کریم بھی معروف قرآنی انسائیکلوپیڈیا ہے اور پیغمبر خداؐ کی سوانح حیات سے متعلق 35 جلدوں پر مشتمل مجموعہ الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم جیسی تصنیفات حوزہ علمیہ قم کی علمی تخلیقات میں سے ہیں۔

پہلوی دوم کے دور میں بھی حوزہ علمیہ قم کی علمی سرگرمیوں کو سرکاری سطح پر سراہا گیا۔ سید محمد حسین طباطبائی کی سنہ 1953ء میں لکھی گئی تصنیف "اصول فلسفہ و روش رئالیسم"، سنہ 1954ء میں ناصر مکارم شیرازی کی تحریر کردہ کتاب "فیلسوف‌ نماہا" اور سنہ 1968ء میں مہدی حائری یزدی کی لکھی گئی "کاوش‌ہای عقل نظری" نامی کتاب کو اُس وقت شاہی حکومت کے ’’کتابِ سال‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جمہوری اسلامی کے دور میں بھی حوزہ علمیہ قم سے وابستہ متعدد علمی کتب ’’کتاب سالِ جمہوری اسلامی‘‘ کے اعزازات حاصل کر چکی ہیں۔ حوزہ علمیہ قم کے علمی آثار میں سے ایک بڑی تعداد ہر سال ’’ہمایش کتاب سال حوزہ‘‘ (حوزہ کی سالانہ کتاب کانفرنس) میں پیش کی جاتی ہے۔ کتاب کانفرنس کے منتظمین کے مطابق سنہ 2023ء تک اس ہمایش میں 23 ہزار سے زائد علمی و تحقیقی کتابیں جمع کروائی جاچکی ہیں۔[12]

سنہ 2024ء میں شائع ہونے والے ایک مقالے "شخصیت‌ہای تفسیری حوزہ علمیہ قم در سدہ اخیر" کے مطابق، مشہور پانچ مفسرین (علامہ طباطبائی، جوادی آملی، مصباح یزدی، سبحانی اور مکارم شیرازی) کے علاوہ 42 دیگر محققین بھی ایسے ہیں جنہوں نے تفسیر قرآن پر متعدد آثار تصنیف کیے ہیں۔[13] اسی سال کی ایک اور تحقیق میں 56 قرآنی محققین کے نام اور ان کی تصنیفات درج کی گئی ہیں۔[14] مذکورہ مقالے کے مطابق، قم کے علما نے قرآنِ کریم کے 24 فارسی تراجم بھی انجام دیے ہیں۔[15]

رسالوں اور مجلّات کی اشاعت

حوزہ علمیہ قم کے معاصر دور (خصوصاً سنہ 1996ء کے بعد) کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کے علمی مجلات زیادہ موضوعاتی اور تخصصی ہوگئے ہیں۔[16] سنہ 2023ء کی ایک تحقیق کے مطابق، مجموعی طور پر 102 علمی مجلات 15 کلی اور دینی موضوعات میں شائع ہورہے ہیں اور ان سب کا انتظام براہِ راست حوزوی اداروں کے زیرِ نگرانی ہے۔[17]

ڈیجیٹل کتب کی اشاعت

مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی (نور) نے سنہ 2025ء تک مختلف دینی علوم؛ جیسے حدیث، تفسیر، فقہ اور تاریخ پر 600 سے زائد سافٹ ویئرز تیار کیے ہیں۔[18] ان میں جامع التفاسیر، جامع الفقہ، جامع الاحادیث، درایۃ النور جیسے معروف علمی سافٹ ویئر شامل ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، سنہ2011ء کی دہائی تک حوزہ علمیہ قم میں 4000 سے زیادہ الیکٹرانک جرائد اور ڈیجیٹل نشریات شائع ہوچکی تھیں۔[19]

حوزہ علمیہ قم؛ شیعہ مرجعیت کا مرکز

سنہ 1922ء میں حوزہ علمیہ قم کے احیاء کے بعد شیعہ مرجعیتِ تقلید کا ایک حصہ یہاں منتقل ہوگیا۔[20] اس زمانے میں ایران کے اکثر شیعہ اور عراق میں مقیم کچھ ایرانی، عبد الکریم حائری یزدی کی تقلید کرتے تھے۔[21] بعد ازاں، سنہ 1946ء سے 1961ء کے دور میں سید حسین طباطبائی بروجردی تقریباً پندرہ سال تک پورے عالمِ تشیع کے واحد مرجع تقلید ہوا کرتے تھے۔[22]

سنہ 1961ء میں آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد، حوزہ علمیہ قم کے ممتاز علما جیسے سید محمد رضا گلپائگانی، سید احمد خوانساری، سید کاظم شریعت مداری اور سید روح‌ اللہ خمینی سب سے اہم مراجع تقلید کے طور پر سامنے آئے۔ اس کے بعد بھی قم کے مجتہدین ہمیشہ شیعہ مرجعیت کا بڑا حصہ سنبھالتے رہے۔ سنہ 1991ء سے 1994ء کے دوران شیعہ مرجعیت سید محمد رضا گلپائگانی اور محمد علی اراکی کے ہاں رہی، جنہوں نے حوزہ علمیہ قم میں تعلیم حاصل کی۔

جب حائری یزدی کے آخری شاگرد محمد علی اراکی کا انتقال ہوا تو حوزہ علمیہ قم کے بعض اداروں نے مرجعیت کے لیے ان علما کو متعارف کرایا جو سب کے سب قم میں مقیم یا یہاں سے فارغ التحصیل تھے۔ نجف کے مراجع کے علاوہ، قم سے وابستہ مشہور مراجع تقلید یہ ہیں:

تاریخچہ

حوزہ علمیہ قم کی تاریخ اسلامی تاریخ کی ابتدائی صدیوں سے جاملتی ہے، جب بعض شیعہ علما نے قم کی طرف ہجرت کا آغاز کیا۔[23] یہ حوزہ مختلف ادوار میں عروج و زوال سے گزرتا رہا؛ چوتھی صدی ہجری کے بعد، جب اشعری خاندان کا اثر ختم ہوا، تو ساتویں صدی ہجری اور حملہ مغول تک کو اس حوزے کا زوالِ علمی کا دور کہا جاتا ہے۔[24] سنہ 621ھ کے بعد مغولوں کے حملے سے حوزہ قم تقریباً اضمحلال کا شکار ہوگیا۔[25] صفویہ دورِ اور ایران میں تشیع سرکاری مذہب قرار پانے کے دور سے لے کر تیرہویں صدی ہجری شمسی تک کا زمانہ احیائے حوزہ علمیہ قم کہلاتا ہے۔[26] صفویہ اور قاجاری ادوار میں حوزہ قم محدود انداز میں فعال تھا اور کچھ علما یہاں تدریس و تحقیق میں مصروف رہے۔[27] ان میں سب سے معروف شخصیت مرزائے قمی (1150–1231ھ) ہیں، جو عہدِ قاجار کے علما میں شمار ہوتے تھے۔[28]

قم کے بعض اہم مدارسِ علمیہ ساتویں صدی ہجری میں قائم ہوئے اور آج تک ان درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے، ان میں یہ مدارس شامل ہیں؛ مدرسہ رضویہ،[29] مدرسہ فیضیہ، دارالشفا،[30] اور حجتیہ.[31]

تعمیر نو

تیرہویں صدی شمسی کے آخر تک، اگرچہ شیخ ابو القاسم قمی اور میرزا جواد آقا ملکی تبریزی[32] جیسے علما قم میں موجود تھے، لیکن شہر کے مدارس منظم نہیں تھے۔ قم کے علما کی درخواست پر عبد الکریم حائری یزدی، جو پہلے ایران کے شہر اراک میں تدریسی سرگرمیوں میں مصروف تھے، سنہ 1924ء میں قم آئے اور موجودہ حوزہ علمیہ قم کی بنیاد رکھی۔

حائری یزدی اور ان کے شاگرد قم آنے کے بعد جلد ہی دیگر شہروں کے علما بھی یہاں آگئے۔[33] اس کے ساتھ چند اہم واقعات؛ جیسے نجف کے مراجع تقلید کی جلاوطنی،[34] علمائے اصفہان کی احتجاجی ہجرت،[35] احمد شاہ قاجار کے دو سفرِ قم،[36] اور سنہ 1927ء میں رضا خان کی قم کے علما سے مشاورت وغیرہ نے حوزہ قم کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا۔[37]

سنہ 1936ء میں شیخ عبد الکریم حائری یزدی کی وفات کے بعد تین جلیل القدر اساتذہ؛ جو مراجع ثلاثہ کہلاتے تھے؛ نے حوزہ کا انتظام سنبھالا۔ تاہم اس دور میں حکومتی دباؤ، مرکزیت کے فقدان اور زعامت میں اختلافات کے باعث حوزہ کو مشکلات کا سامنا رہا[38] اور طلاب کی تعداد ایک ہزار سے گھٹ کر تقریباً چار سو رہ گئی۔[39]

سید حسین بروجردی کی مرجعیت عامہ اور حوزے کی سرپرستی

سنہ 1941ء کی دہائی کے اوائل میں جب قم کے بزرگ علما اور اساتذہ کو حوزہ علمیہ قم میں قیادت کے فقدان پر تشویش ہوئی تو انہوں نے سید حسین بروجردی کو بروجرد سے قم ہجرت کر کے اس کی قیادت سنبھالنے کی دعوت دی۔ آیت اللہ بروجردی محرم 1364ھ (دسمبر 1944ء) میں قم آئے۔[40] ان کی آمد کے بعد حوزہ علمیہ قم ایک منظم انتظامی مرکز میں تبدیل ہوگیا۔ اس کے نتیجے میں طلاب کی تعداد، جو سنہ 1947ء میں تقریباً دو ہزار تھی،[41] بڑھ کرسنہ 1960ء کے عشرے میں تقریباً 8700[42] تک جا پہنچی۔

آیت اللہ بروجردی کے آخری دورِ حیات میں حوزہ علمیہ قم میں درسِ خارج فقہ و اصول کے اساتذہ کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ بالاخص آیت اللہ حائری کے ممتاز شاگردان، جیسے محمد علی اراکی، سید محمد رضا گلپایگانی، سید محمد داماد، امام خمینی، سید کاظم شریعت مداری اور شہاب الدین مرعشی نجفی اپنے اپنے دروسِ خارج کی تدریس کرتے تھے۔[43] ان تبدیلیوں نے حوزہ علمیہ قم کو عملی طور پر نجف کے عظیم علمی مرکز کے ہم پلہ بنا دیا۔[44] مارچ 1961ء میں آیت اللہ بروجردی کے انتقال کے بعد، حوزہ علمیہ قم کی انتظامی ذمہ داری چار معروف اساتذہ؛ امام خمینی، گلپایگانی، شریعت مداری اور مرعشی نجفی کے سپرد ہوئی۔ لیکن سنہ 1964ء میں امام خمینی کی جلاوطنی کے بعد حوزہ کی قیادت عملاً باقی تین علما کے ہاتھ میں رہی۔[45]

جمہوری اسلامی کے دور میں تبدیلیاں

ایران میں جمہوری اسلامی نظام کے قیام کے بعد، حوزہ علمیہ قم کے انتظامی امور مراجع تقلید کے زیرِ نظر مختلف ذیلی اداروں سے نکل کر ایک مرکزِی ادارے کے تحت منظم اور مرکزی شکل اختیار کر گیے۔[46] اس مرکزی ادارے کی پہلی شورا امام خمینی کے حکم سے تشکیل پائی، جس میں دیگر مراجع کے ساتھ ہم آہنگی سے اراکین کا انتخاب ہوا۔[47] دس سال بعد، ایران کےموجودہ رہبر اعلیٰ سید علی حسینی خامنہ‌ ای کی قم آمد کے موقع پر شورائے عالی حوزہ علمیہ قم قائم کی گئی اور محمد مومن قمی کو اس ادارے کا سرپرست مقرر کیا گیا۔[48]

سنہ 2016ء کے بعد سے اب تک (2025ء)ایران کے حوزات علمیہ کے سرپرست اعلیٰ علی رضا اعرافی کے مطابق، اسلامی انقلاب کے بعد حوزہ نے طلاب اور اساتذہ کی تعداد، مدارس اور دیگر تعلیمی وسائل میں نمایاں اضافہ کیا، تعلیمی نظام کو مرحلہ وار اور تخصصی بنیادوں پر منظم کیا گیا، علومِ اسلامی کی مختلف شاخوں میں تخصصی شعبے قائم ہوئے، حوزہ علمیہ کے تحت مختلف اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں تحقیقی اور تعلیمی کام اب بھی جاری ہیں، بین المذاہب فیکلٹیز وجود میں لائےگئے اور کثیر تعداد میں طلاب غیرملکی زبانوں سے آشنا ہوگئے۔ نیز بین‌ الاقوامی سطح پر مختلف علمی و عوامی تعلقات قائم ہوئے اور علمی و تحقیقی میدان میں کتابوں، مجلوں اور سافٹ ویئر کی صورت میں بڑی مقدار میں علمی مواد تیار کیا گیا۔[49]

اسی دوران خواتین کے حوزاتِ علمیہ میں بھی ترقی ہوئی، ملک بھر میں متعدد کتاب خانے قائم ہوئے۔ سنہ 2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق ایران بھر میں تقریباً 480 فعال مدارسِ علمیہ تھے، 7000 اساتذہ تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے اور 170 نئے مدارس زیرِ تعمیر تھے۔[50]

انتظامی امور کے لحاظ سے حوزہ علمیہ قم مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم کے زیرِ انتظام ہے، جو خود ملک بھر کے مدارس علمیہ کے مرکزی انتظام کا ایک حصہ ہے۔ مدارس علمیہ کی شورائے عالی نامی سات رکنی کونسل مدارس کے نظم و نسق اور دیگر امور کے سلسلے میں پالیسی سازی کی ذمہ دار ہے۔ اس کے اراکین کو جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کی تجویز اور مراجع تقلید کی مشاورت سے منتخب کر کے رہبرِ جمہوری اسلامی ایران کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، بعد ازاں ان کی تقرری کے احکام جاری کرتے ہیں۔[51]

رہبرِ انقلاب، مراجع تقلید، علما، سرکاری اداروں اور حوزوی تنظیموں کے تعاون سے قم میں متعدد علمی و تحقیقی ادارے قائم کیے گئے ہیں جہاں حوزہ علمیہ قم کے فارغ شدہ علما علمی مختلف شعبوں اور مضامین میں تعلیم حاصل کرتے ہیں،[52] جیسے؛ مؤسسہ اسراء، مرکز فقہی ائمہ اطہار، مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی، دانشگاہ مفید، دانشگاہ باقرالعلوم اور پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی وغیرہ۔[53]

حوزہ علمیہ قم اور سیاست

شیخ عبد الکریم حائری اور سیاسی تناؤ

شیخ عبد الکریم حائری (1859ء–1936ء)، نے قم میں اپنے ابتدائی قیام میں سید ابو الحسن اصفہانی اور محمد حسین نائینی کے ساتھ مل کر اُس وقت کے وزیراعظم رضا پہلوی کی جمہوریّت[54] قائم کرنے کی کوششوں کی مخالفت کی۔[55]

قم میں اپنے پندرہ سالہ قیام (1340–1355ھ) کے دوران، عبد الکریم حائری نے حوزہ کے استحکام اور بقا کے لیے سیاسی تنازعات سے دوری اختیار کی؛ چنانچہ جب رضا شاہ نے قم میں عالمِ دین شیخ محمد تقی بافقی کی توہین کی تو انہوں نے کوئی علانیہ ردعمل نہیں دیا۔[56] اسی طرح جب حکومت نے دینی طلبا کے لیے امتحان منعقد کیا تو مخالفت کے بجائے صرف یہ درخواست کی کہ امتحانات قم میں ہوں اور ان کی نگرانی وہ خود کریں۔[57] البتہ کشفِ حجاب اور اتحادِ لباس (جبری یورپی لباس عام کرنے کا لائحہ) کے موقع پر انہوں نے سخت موقف اپنایا اور 3 جولائی سنہ 1935ء کو ایک ٹیلیگرام کے ذریعے اعلان کیا کہ کشفِ حجاب مذہبِ شیعہ کے خلاف ہے۔[58]

آیت اللہ بروجردی کے سیاسی اور سماجی اقدامات

سید حسین طباطبائی بروجردی (1875ء–1961ء)، جو سنہ 1944ء سے حوزہ علمیہ قم کے سرپرست اعلیٰ تھے، نے دینی امور کے فروغ کے لیے حکومت کے ساتھ رابطے کا ایک معتدل نظام قائم کیا۔ ان کے نمائندے حکومتی اہل کاروں اور شاہ (محمدرضا پہلوی) تک ان کے پیغامات، تجاویز اور اعتراضات پہنچاتے تھے؛[59] اسکولوں میں دینی تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے کی تجویز،[60] ٹرینوں کے اسٹیشنوں پر نماز کے وقفے کا اہتمام،[61] اور حکومتی اداروں میں بہائیت کے اثر و نفوذ کی مخالفت ان کے نمایاں اقدامات میں شامل ہیں۔[62] نیز فلسطینی عوام کی حمایت، چنانچہ سنہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام پر انہوں نے احتجاجی اعلامیہ جاری کیا۔[63]

اسلامی سیاست اور نظریۂ ولایتِ فقیہ

سیاسی نظریہ اسلام اور ولایت فقیہ اکیسویں صدی کی شیعہ سیاسی فکر کا سب سے مشہور نظریہ ہے جسے سید روح‌ اللہ خمینی نے پیش کی، جنہوں نے حوزہ علمیہ قم میں تعلیم حاصل کی اور یہیں پر مراجعِ تقلید میں شمار ہونے لگے۔ آپ شیخ عبد الکریم حائری یزدی کے شاگرد تھے۔ اگرچہ انہوں نے ولایتِ فقیہ کے دروس نجف میں بیان کیے، لیکن اس نظریے کی نشر و اشاعت اور اسے عمومی سطح پر رائج کرنے میں حوزہ علمیہ قم کے علما نے بنیادی کردار ادا کیا۔[64]

شدید ترین سیاسی دور: پہلوی حکومت کی مخالفت

سنہ 1961ء سے 1978ء کا زمانہ حوزہ علمیہ قم کی فعالیتوں کی تاریخ کا شدید ترین سیاسی دور کہلاتا ہے۔[65] کچھ مراجع جیسے سید محمد رضا گلپائگانی، سید محمد کاظم شریعت مداری اور سید شہاب الدین مرعشی نجفی وغیرہ پہلوی حکومت کے مخالف تو تھے لیکن براہِ راست اس کے خلاف سیاسی جدوجہد سے گریز کرتے تھے؛ جبکہ امام خمینی، سید حسین بروجردی اور سید محمد محقق داماد وغیرہ کے کچھ شاگردوں نے بھرپور انداز میں حکومتکے خلاف سیاسی مزاحمت کی۔[66]

سنہ 1962ء حوزہ علمیہ قم کے مراجع نے "انجمن‌ہای ایالتی و ولایتی" نامی تنظیم کے بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے باقاعدہ طور سید محمد رضا گلپائگانی کو اس پر عمل درآمد روکنے پر مبنی ٹیلیگرام بھیجا۔[67] اسی سال انہوں نے انقلابِ سفید کے ریفرنڈم کی بھی مخالفت کی۔[68] فروری 1962ء میں محمد رضا شاہ کے قم کے سفر پر علما نے استقبال سے انکار کیا؛[69] شاہ نے ردِعمل میں علما کے خلاف تقریر کی۔[70] 22 مارچ سنہ 1963ء مطابق روز شہادت امام جعفر صادقؑ کو مدرسہ فیضیہ پر شاہ کے سرکاری کارندوں نے حملہ کیا۔ قم کے علما اور مراجع تقلید نے اس کے خلاف شدید الفاظ میں مذمت کی نیز نجف کے مراجع تقلید سید ابو القاسم خوئی، سید عبد اللہ شیرازی اور سید محسن حکیم نے بھی اس کے خلاف بیانات صادر کیے۔[71] اس واقعے کے بعد پہلوی حکومت نے طلاب کے لیے سربازی(دو سال حکومت کی خدمت) لازمی قرار دی۔[72]

اسی سال عاشورا کے دن امام خمینی نے مدرسہ فیضیہ میں حکومت اور اسرائیل کے خلاف شدید الفاظ میں تقریر کی، جس پر انہیں 1963ء کے 6 جون کو گرفتار کیا گیا۔ حکومت وقت نے امام خمینی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت کارووائی کی۔ قم اور دیگر شہروں کے علما کی کوششوں سے امام خمینی کو 4 اپریل سنہ 1964ء کو رہا کیا گیا اور امام خمینی قم واپس آگئے۔ امام خمینی کی رہائی کے بعد اسی سال 26 اکتوبر کوکیپٹلیشن بل پر اعتراضی تقریر[73] کرنے پر 4 نومبر کو انہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ترکی جلاوطن کیا گیا۔[74]

سنہ 1970ء میں نجف میں سید محسن حکیم کی وفات کے بعد قم کے بارہ مدرسین کی امام خمینی کی مرجعیت کی تائید،[75] اسی دہائی میں 25 علما و طلاب کی 3 سال کے لیے گرفتاریاں،[76] مدرسہ فیضیہ کے واقعے میں شہید ہونے والوں کے سوگ میں منعقدہ اجلاسیہ میں شرکت کرنے والوں پر حکومتی کارندوں کا حملہ اور بعض طلاب کی گرفتاری جبکہ دوسرے بعض طلاب کی جلاوطنی[77] اور حوزہ علمیہ قم کی جانب سے خورشیدی کیلنڈر کو شہنشاہی کیلنڈر میں تبدیل کرنے کی کوششوں کی مخالفت وغیرہ[78] قم میں حکومت مخالف سیاسی تحریکوں کی کئی مثالیں ہیں۔

7 جنوری سنہ 1978ء کو روزنامہ اطلاعات نامی اخبار میں امام خمینی کے خلاف ایک توہین آمیز مضمون شائع ہونے پر 9 جنوری کو حوزہ علمیہ قم کے طلاب نے احتجاج کیا، جسے حکومت نے بھرپور انداز میں کچل دیا۔ اس واقعے میں کچھ طلاب کو گرفتار کیا گیا جبکہ بعض طلاب اس میں شہید ہوئے۔ حوزہ کے بعض مدرسین کو شہر بدر کردیا گیا۔[79]اس جیسی نوعیت کے واقعات ایران میں جمہوری نظام کی تشکیل کا مقدمہ ثابت ہوئے۔[80]

جمہوری اسلامی کے ساتھ تعلق

حوزہ علمیہ قم کا نظامِ جمہوری اسلامی ایران کے ساتھ اٹوٹ انگ تعلق قائم ہوا[81] نیز نظام حوزہ قم کے تحت فعال دیگرمدارس بھی ایران میں حاکم جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہیں۔[82] پہلوی حکومت کا تختہ الٹنے میں حوزہ علمیہ قم کے مراجع تقلید اور علما کا بنیادی کردار رہا ہے اور اس وقت کے اکثر مراجع و علما نے نظام کی تائید کی، مثلاً سید محمد رضا گلپائگانی اور سید شہاب الدین مرعشی نجفی نے ایران میں نظام جمہوری اسلامی کی تشکیل کےلیے ریفرنڈم میں کرنے کی حمایت کی۔[83]

سنہ 1979ء میں اسلامی جمہوری ایران کے آئین کی تدوین کے دوران کئی اعلیٰ درجے کے علما قانون اساسی کی مجلسِ خبرگان کے رکن تھے۔[84] اسلامی جمہوری نظام کے قانونی ڈھانچے میں ایسے کئی مناصب مقرر کیے گئے ہیں جنہیں یا تو علما کے ذریعے سنبھالا جانا ضروری ہے، یا ان کے لیے علما کی شمولیت ممکن رکھی گئی ہے؛ ان مناصب میں شورائے نگہبان (نگہبان کونسل) کے فقہا،[85] عدلیہ کے سربراہ، مجلس خبرگان کے اراکین اور ائمہ جمعہ شامل ہیں۔[86] [[لطف‌ اللہ صافی گلپائگانی (جو بعد میں شیعہ مرجع تقلید بنے) طویل عرصے تک شورای نگہبان کے سیکرٹری جنرل رہے اور انہیں شیعہ مرجع تقلید اور حوزہ علمیہ قم کے سربراہ سید محمد رضا گلپائگانی کے نظریات کا ترجمان سمجھا جاتا تھا۔[87]

اسلامی جمہوری ایران کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں بھی ایسے عہدے موجود ہیں جن پر عملاً علما فائز ہیں؛ جیسے جامعات میں ولی فقیہ کے نمائندے، بعض سرکاری اداروں میں مذہبی نمائندگی اور فوجی و سیکیورٹی اداروں کے عقیدتی و سیاسی شعبے۔ اس کے علاوہ علما نے ملک کی صدارِت، وزارتِ تعلیم، وزارتِ ثقافت و ارشاد، وزارتِ داخلہ اور مجلسِ شورای اسلامی (پارلیمنٹ) جیسے مناصب بھی سنبھالے ہیں۔[88] اسلامی مجلسِ شورا (پارلیمنٹ) کے ابتدائی دو میعادوں کے اراکین میں علما کی اکثریت تھی۔[89]

حوزہ علمیہ قم کے طلاب اور علما نے ایران و عراق کی جنگ میں بھرپور شرکت کی[90] اور اس مقصد کے لیے طلاب پر مشتمل امام صادقؑ نامی ایک خصوصی بریگیڈ تشکیل دی گئی۔[91] اس کے علاوہ، وہ انتخابات، ریلیوں اور سماجی تقاریب میں سرگرم رہتے ہیں، اسلامی جمہوری نظام کی حمایت میں تبلیغی و فکری کردار ادا کرتے ہیں، تقاریر کرتے ہیں اور علمی و دینی مواد تیار کرتے ہیں۔ حوزہ علمیہ قم میں فقہِ سیاسی[92] کے موضوع پر بے شمار کتابیں اور مقالات شائع ہوئے ہیں جن میں اسلامی سیاست، نظریۂ ولایتِ فقیہ اور اسلامی حکومت کے فکری اصول کا دفاع کیا گیا ہے۔[93]

دنیائے اسلام کے ساتھ تعامل

حوزہ علمیہ قم کے مراجع اور علما نے، اس کے دوبارہ قیام کے بعد، اسلامی دنیا کے دیگر دینی اداروں کے ساتھ وسیع پیمانے پر روابط اور تعاون قائم کیے۔ انہوں نے مختلف ممالک میں اسلامی ثقافتی مراکز قائم کیے اور اسلامی تعلیمات کی ترویج میں نمایاں کردار ادا کیا۔[94] حوزہ علمیہ قم میں غیر ایرانی طلاب کو تعلیم کی فراہمی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔[95]

ایران سے باہر نمائندگی

سید حسین بروجردی، جو اس زمانے میں حوزہ علمیہ قم کے سربراہ تھے، نے مختلف ممالک میں اپنے نمائندے بھیجے؛ سید محمد تقی طالقانی آل‌احمد (جلال آل‌احمد کے بھائی) کو سنہ 1952ء میں مدینہ کے شیعوں کی سرپرستی کے لیے بھیجا، بعد میں سید احمد لواسانی اور پھر عبد الحسین فقیہی رشتی نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ اسی طرح سید زین‌ العابدین کاشانی کو کویت، محمد حسن ناشرالاسلام شوشتری کو زنگبار، شریعت‌ زادہ اصفہانی کو پاکستان، مہدی حائری یزدی کو امریکہ اور سید صدر الدین بلاغی کو یورپ بطور نمائندہ روانہ کیا۔[96] اسی دور میں بروجردی کی سرپرستی میں مرکز اسلامیِ ہامبرگ (Hamburg Islamic Center) قائم ہوا۔[97] بعد میں سید محمد رضا گلپائگانی نے سنہ 1973ء میں مجمع اسلامی جہانی لندن میں قائم کیا۔[98]

سید حسین بروجردی نے مصر میں دار التقریب بین المذاہب الاسلامیۃ کے قیام کی حمایت کی اور اس سلسلے میں مدد کی۔ انہوں نے محمد تقی قمی کو اس کام کے لیے بھیجا، جن کی کوششوں کے نتیجے میں شیخ محمود شلتوت (شیخ جامعہ الازہر) نے سنہ 1958ء میں مکتبِ تشیع کو اہل سنت کے دیگر فقہی مذاہب کے ساتھ تسلیم کیا۔[99] اسی طرح سید موسی صدر؛ جو حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل تھے؛ بروجردی اور دیگر علما کی سفارش پر سنہ 1959ء میں لبنان گئے[100] اور بین‌ الاقوامی سطح پر اسلامی تبلیغ کے سب سے مؤثر اور درخشاں ناموں میں سے ایک قرار پایے۔[101]

ایران سے باہر دینی تبلیغ

قم سے مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی اور مجمع جہانی اہل‌البیتؑ جیسے ادارے دنیا بھر میں اسلامی تبلیغی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔[102] اسی مقصد کے لیے مؤسسہ بین‌ المللی مطالعات اسلامی اور مؤسسہ بین‌ المللی المرتضی[103] نیز انتشارات انصاریان اور انتشارات آثار سید مجتبی موسوی لاری جیسے ادارے بھی قائم کیے گئے۔[104]

اسی زمرے میں دو عالمی سیٹلائٹ چینلز بھی سرگرم ہیں؛ ولایت چینل، جس کی سرپرستی ناصر مکارم شیرازی کرتے ہیں۔[105] جبکہ مرجعیت چینل، جو فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں اسلامی اور شیعی تعلیمات کی تبلیغ کرتا ہے؛ سید صادق شیرازی کی حمایت سے پروگرام نشر کرتا ہے۔[106]

غیر ایرانی طلاب کےلیے تعلیم کی فراہمی

سید حسین بروجردی کے زمانے (1945ء-1961ء) میں مختلف ممالک سے طلاب قم آکر تعلیم حاصل کرنے لگے۔ 1961ء اور 1971ء کی دہائیوں میں ان کی تعلیم و تربیت کے لیے دار التبلیغ الاسلامی قائم ہوا۔[107] نظام اسلامی جمہوری کے قیام کے بعد یہ کام سازمان مدارس خارج از کشور اور مرکز جہانی علوم اسلامی کے ذریعے جاری رہا۔[108] سنہ 2007ء میں یہ دونوں ادارے ضم ہوکر جامعۃ المصطفی العالمیۃ کے نام سے ایک عالمی تعلیمی مرکز کی شکل اختیار کرگئے۔[109]

حوزہ علمیہ قم میں رائج علوم

حوزہ علمیہ قم کا درسی نظام، دیگر دینی مدارس کی طرح، فقہ کے محور پر قائم ہے اور اس کا بنیادی مقصد فقہی میدان میں مجتہدین کی تربیت ہے۔[110] ابتدائی دروس میں عربی ادب، منطق، فقہ، اصول فقہ، اسلامی عقائد (کلام)، فلسفہ اسلامی اور تفسیرِ قرآن شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، اخلاق، علمِ رجال اور کچھ عملی علوم جیسے ریاضیات اور نجوم بھی محدود پیمانے پر پڑھائے جاتے ہیں۔[111]

مکتب فقہیِ قم

مکتب فقہیِ قم دراصل چودھویں صدی ہجری میں شیخ عبد الکریم حائری یزدی اور سید حسین بروجردی کے علمی افکار سے وجود میں آیا اور ان کے شاگردوں نے اسے وسعت دی۔[112] یہ مکتب، مکتب فقہیِ نجف کے مقابل ایک منفرد طرزِ فکر رکھتا ہے؛ اس کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں: احادیث کے پسِ منظر اور صدور کے حالات پر توجہ، راویوں کے ذہنی رجحانات کا تجزیہ، اہلِ سنت فقہا کے فتاوی اور ائمہ معصومینؑ کی روایات کے تعلق کا مطالعہ، شیعہ اور اہل سنت روایات کے مابین تعلق کا مطالعہ، قرآن کی طرف بکثرت رجوع، اصولِ عملیہ پر کم انحصار اور معتبر ظنون و احتمالات پر تکیہ کرنا وغیرہ۔[113]

فلسفہ

سید محمد حسین طباطبائی کی آمد سے پہلے قم میں فلسفہ کا درس مہجوریت کا شکار تھا۔[114] ان کے تفسیری دروس اور خاص طرز فکر کے نتیجے میں قرآنی علوم اور تفسیر کا احیاء ہوا اور کئی مفسرین کی تربیت انجام پائی۔ حوزہ علمیہ قم میں درس تفسیر رواج پانے کے بعد علی مشکینی، ناصر مکارم شیرازی اور علامہ طباطبائی کے شاگردوں جیسے عبد اللہ جوادی آملی، محمد تقی مصباح یزدی اور جعفر سبحانی نے بھی تفسیر کی تدریس اور تدوین کا کام شروع کیا۔[115]

قم میں فلسفہ کا تدریسی کام زیادہ تر علامہ طباطبائی کے شاگردوں انجام دیا جو سب کے سب مکتب فلسفہ ملا صدرا (حکمت متعالیہ) کے پیروکاروں میں سے تھے[116] جنہیں نوصدرائی فلاسفہ کہا جاتا ہے۔[117] کہتے ہیں کہ علامہ طباطبائی کے ان اقدامات سے مغربی فلسفہ کی جدید مباحث بھی حوزہ قم میں داخل ہوئیں۔[118]

حوزہ علمیہ قم میں رائج مختلف فکری رجحانات

حوزہ علمیہ قم میں مختلف قسم کے فکری رجحانات نمایاں طور نظر آتے ہیں۔[119] مختلف اساتذہ و طلاب کے نظریاتی اختلافات نے بعض اوقات سماجی و سیاسی اثرات بھی پیدا کیے؛ مثلاً؛ سنہ 1941ء-1951ء میں نواب صفوی اور فدائیان اسلام کے طریق کار پر اختلاف،[120] سنہ 1970ء میں کتاب شہید جاوید کی اشاعت پر تنازع،[121] سنہ 1971ء کی دہائی میں ڈاکٹر علی شریعتی کے افکار کی مخالفت اور موافقت،[122] سنہ 1980ء کی دہائی کے آغاز میں سید کاظم شریعت مداری کی مرجعیت پر اختلاف[123] اور سنہ 1997ء میں حسین علی منتظری کی تقریر کے بعد ردِعمل۔[124]

مذکورہ فکری اختلافات کی وجوہات میں درج ذیل عوامل شامل ہیں: اجتہاد کے طریقہ کار میں اختلاف، فقہ میں غیردینی علمی ذرائع سے استفادہ کرنے کے دائرہ کار میں اختلاف،[125] دینی معتبر اصولوں کے تحت جدید دینی نظریات پیش کرنا(Religious Modernism)،[126] جدید میڈیا اور مطبوعات،[127] خواتین کے مسائل،[128] جامعات اور جدید تحقیقی مراکز[129] اور انقلاب اسلامی و نظام جمہوری اسلامی کا اثر۔[130]

حوزہ قم کے بڑے فکری رجحانات

"جریان‌ہای فکری در حوزہ معاصر قم" نامی کتاب کے مصنف محسن طباطبائی‌ فر کے مطابق حوزہ علمیہ قم میں تین بنیادی فکری رجحانات پائے جاتے ہیں: نص‌ پسندی، اجتہادی اور عقلیت پسندی[131] طباطبائی فر ان تین کلی رجحانات کی مزید شاخیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اجتہادی نظریے کے حامل علما میں دو قسم کے اجتہاد کا نظریہ موجود ہے؛ سنتی اجتہاد اور متحرک اور جدید مسائل کے حل کے لیے کیا جانے والا اجتہاد،[132] نص‌ پسندی کے حامل رجحان کی مزید دو شاخیں ہیں؛ غیرعقلیت پسندی اور نسبی عقلانیت پسند والے علما،[133] عقلیت پسندی کی بھی دو شاخیں ہیں کلامی عقلیت پسندی اور فلسفی عقلانیت پر مبنی نظریہ۔[134]

ایک اور تحقیق میں، قم کے متأخر حوزے کے حدیثی رجحانات کو چار گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے؛ معتدل گروہ، اخباری رجحان والے گروہ، قرآن‌ پر اکتفا کرنے والے گروہ اور قرآن کو مرکزِ استدلال بنانے والے گروہ۔[135] اسی ضمن میں ایک اور رجحان نقدِ حدیثِ شیعہ (شیعہ حدیث پر تنقیدی مطالعہ) کے نام سے متعارف کرایا گیا ہے جو روای کی سند، منبع اور متن؛ تینوں پہلوؤں سے حدیث کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے۔[136]

مزید برآں، عبد الوہاب فراتی نے حوزہ علمیہ قم کے فکری رجحانات کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا ہے؛ سنتی اور روایتی فکری رجحان اور تجدد پسند فکری نظریہ۔ پھر انہوں نے سنتی طرز فکر کی تین اقسام بیان کی ہیں؛ خالص سنتی طریقہ، عملیت پسند سنتی طریقہ اور بنیاد پسند سنتی طریقہ۔[137] ان کے مطابق، اس سنتی رجحانات کے حامل نمایاں ادارے اور شخصیات درج ذیل ہیں؛ "فرہنگستانِ علومِ اسلامیِ قم، جس کی سربراہی سید منیر الدین حسینی ہاشمی اور سید مہدی میرباقری کر رہے ہیں؛ "امام خمینی تعلیمی و تحقیقی ادارہ"؛ محمد تقی مصباح یزدی کے افکار وغیرہ۔[138] فراتی کے نزدیک تجدد پسند رجحان دو مختلف زاویہ نگاہ میں منقسم ہوتا ہے؛ رجوع بہ قرآن؛ جس کی نمائندگی محمد صادقی تہرانی کرتے ہیں،[139] روایات پر انتقادی نظر؛ جس کی نمائندگی نعمت‌ اللہ صالحی نجف‌آبادی کرتے ہیں۔[140]

متعلقہ تحقیقات

رسول جعفریان نے اپنی "جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران" (ایران کی مذہبی و سیاسی تحریکیں اور تنظیمیں) نامی کتاب میں، جس میں سنہ 1941ء–1978ء کے عرصے کا مطالعہ شامل ہے، حوزہ علمیہ قم میں پائے جانے والے بعض فکری رجحانات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح، عبد الوہاب فراتی؛ جو فقہِ سیاسی کے میدان کے ایک معروف محقق ہیں؛ نے اپنی کتابوں "روحانیت و تجدد"،[141] "روحانیت و سیاست"،[142] "روحانیت و دولتِ مدرن"[143] اور "گونہ‌ شناسی فکری-سیاسی حوزہ علمیہ قم (حوزہ علمیہ قم کے فکری و سیاسی رجحانات کی درجہ‌بندی) میں قم کے علما کے فکری اختلافات کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔[144]

مزید چند اہم کتابیں جو اسی موضوع پر لکھی گئی ہیں، یہ ہیں: "جریان‌ہای فکری در حوزہ معاصر قم" (قم کے معاصر حوزے میں فکری رجحانات)،[145] "گونہ‌ شناسی جریان‌ہای فکری حوزہ و نسبت آن با اندیشہ انقلاب اسلامی" (حوزے کے فکری رجحانات اور ان کا انقلابِ اسلامی کی فکر سے تعلق)،[146] یہ دونوں کتابیں سید محسن طباطبائی‌فر کی تصنیفات ہیں۔[147] اس کے علاوہ "گونہ‌ شناسی رفتار سیاسی مراجع تقلید شیعہ" (شیعہ مراجعِ تقلید کے سیاسی رویّوں کی درجہ‌بندی) نامی کتاب کو سید حسن ہاشمیان‌فر نے تحریر کیا ہے اور "فقیہان و انقلاب ایران" (فقہا اور انقلابِ ایران) نامی کتاب کو سید ہادی طباطبائی[148] نے تصنیف کیا ہے، مذکورہ تصنیفات ایسی تحقیقی کتب ہیں جن کا بنیادی موضوع حوزہ علمیۂ قم کے علما، ان کے نظریاتی اصول، فکری رویّے اور علمی و عملی طریقوں کے اختلافات کا تجزیہ ہے۔

حوزہ علمیہ قم میں فکری اختلافات پر نقد کا سلسلہ

دیگر دینی مراکز علمیہ کی طرح، حوزہ علمیہ قم میں بھی مذہب مخالف، خود اپنے روشن فکر حضرات اور اختلافی نظریات رکھنے والوں کے خیالات پر نقد اور رد کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری رہا ہے۔[149] حوزہ علمیہ قم میں روشن فکروں کے خلاف سب سے پہلی فکری سرگرمیاں احمد کسروی کی کتاب اور بعد ازاں علی‌ اکبر حَکَمی‌ زادہ کی کتاب "اسرارِ ہزار سالہ" کے رد میں سامنے آئیں۔[150] سید روح‌ اللہ خمینی نے سنہ 1944ء میں مشہور کتاب کشف اسرار تصنیف کی، جو اس فکری جدوجہد کا ایک نمایاں نمونہ ہے۔[151]

سنہ 1950ء–1980ء کے عشروں میں، حوزہ علمیہ قم کی ایک بڑی فکری و تبلیغی توانائی بہائیّت کے خلاف جدوجہد میں صرف ہوئی۔[152] سید حسین بروجردی کی ہدایت پر، معروف خطیب محمد تقی فلسفی نے ایک ماہ تک ریڈیو پر بہاییّت کے خلاف مسلسل تقاریر کیں۔[153] قم کے مراجع تقلید نے بہائیوں سے کے ساتھ تجارتی لین دین کو حرام قرار دیا۔ مزید برآں، انہوں نے وجوہات شرعیہ سے انجمن حجتیہ کو مالی معاونت کی اجازت دی تاکہ وہ بہاییّت کے خلاف جاری سرگرمیوں میں مزید طاقتور ہوسکے۔[154]

مارکسیزم کے خلاف فکری جہاد

سنہ 1951ء کی دہائی میں، قم کے علماء نے ملحدانہ اور غیر دینی نظریات کے خلاف جدوجہد کا آغاز مارکسیزم اور کمیونزم کے رد کے طور پر کیا۔ کہتے ہیں قم کے علماء مارکس ازم کو لبرل ازم اور سیکولرازم سے بھی زیادہ خطرناک سمجھتے تھے،[155] لہٰذا حوزہ علمیہ قم میں فکری و فلسفی نقد کا خاص مرکز مارکسی نظریات کو بنایا گیا۔[156]

سید محمد حسین طباطبائی، مرتضی مطہری اور ان علامہ طباطبائی کے دیگر شاگردوں نے غیر دینی افکار کے رد میں نمایاں فعالیتیں انجام دیں۔ علامہ طباطبائی کی تصنیف "اصولِ فلسفہ و روشِ رئالیسم" مرتضیٰ مطہری کے حواشی کے ساتھ؛[157] اور ناصر مکارم شیرازی کی تحریر کردہ کتاب "فیلسوف‌نماہا" اسی سلسلے کی معروف کتابیں ہیں جن کو حوزہ علمیہ میں تالیف کیا گیا۔[158] "نقدی بر مارکسیسم" نامی کتاب مرتضی مطہری کے مارکس ازم کے خلاف دیے گئے دروس و بیانات کا مجموعہ ہے۔[159] محمد تقی مصباح یزدی[160] نے بھی مارکس ازم کے خلاف سنہ 1970ء میں "پاسداری از سنگرہای ایدئولوژیک" نامی کتاب تحریر کی اور سنہ 1980ء میںاس کی اشاعت ہوئی۔[161]

اہلِ سنت اور وہابی افکار پر سلسلہ نقد

دیگر اسلامی مذاہب کے عقائد پر علمی و تنقیدی نظر ڈالنا ہمیشہ سے علماء کی روایت رہی ہے۔ حوزہ علمیہ قم میں بھی اس مقصد کے لیے کئی تحقیقی و تبلیغی ادارے قائم ہیں جہاں پر غیر شیعی نظریات کے نقد کے سلسلے میں فعالیتیں انجام دی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں بکثرت کتابیں اور مجلات منظر عام پر آچکے ہیں۔ خاص کر اہل سنت، سلفی اور وہابی افکار کے رد میں کام ہوتا ہے۔ کتاب احقاق الحق کی دوبارہ اشاعت بمعہ ملحقات، الغدیر کے تحقیقی نسخے کی اشاعت (مؤسسہ فقہ اہل‌البیت کی جانب سے)؛ مجموعہ الغدیر کی مؤسسہ فقہ اہل‌بیت کی جانب سے جدید تحقیق کے بعد اشاعت اور وہابیت کے رد میں سینکڑوں کتابوں اور مضامین کی تصنیف حوزہ علمیہ قم کی مذہب مخالف کے رد میں کیے گئے کاموں کے چند نمونے ہیں۔ چنانچہ غیرشیعی عقائد کے علمی نقد کو فروغ دینے کے لیے شیعہ مرجع تقلید ناصر مکارم شیرازی کی جانب سے "دارالإعلام لمدرسۃ اہل‌البیت" نامی موسسے کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔[162]

مزید برآں، سنہ 2015ء–2016ء میں قم کے مراجع تقلید کی سرپرستی میں "بین‌ الاقوامی کانفرنس برائے انسدادِ افراط‌ گرائی و تکفیر" منعقد ہوئی۔[163] سنہ 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، 202 علمی مقالے اور تھیسسز صرف وہابیت کے نقد پر لکھے گئے۔[164]

روشن‌ فکر مذہبیوں پر تنقید کا سلسلہ

قم کے علماء نے علی شریعتی کے نظریات پر تنقید کے سلسلے میں کئی مضامین شائع کیے، جن میں مکتب اسلام (1970ء کی دہائی) کے مقالات خاص طور پر معروف ہیں۔[165] اسی طرح، حوزہ علمیہ قم کے علما نے مہدی بازرگان، عبد الکریم سروش اور محمد مجتہد شبستری کے نظریات کے رد میں بھی متعدد کتب، مضامین اور تقاریر پیش کیں۔ مزید یہ کہ، قم کے بعض محققین نے تفسیر کے ان جدید طریقوں پر بھی علمی تنقید کی، جو روایتی حوزوی روش سے مختلف تھے اور انہیں فکری انحراف سے تعبیر کیا۔[166]

حوالہ جات

  1. طباطبایی‌فر، جریان‌ہای فکری حوزہ‌ی معاصر قم، 1394شمسی، ص13۔
  2. طباطبایی‌فر، جریان‌ہای فکری حوزہ‌ی معاصر قم، 1394شمسی، ص7۔
  3. استادیان‌خانی و دیگران، «بررسی چگونگی نقش‌آفرینی علمی حوزہ علمیہ قم در بعد حفظ و تعالی انقلاب اسلامی»، ص135-138۔
  4. صبوریان، تکوین نہاد مرجعیت تقلید شیعہ، 1398شمسی، ص337۔
  5. الگار، «BORŪJERDĪ, ḤOSAYN ṬABĀṬABĀʾĪ»۔
  6. صالحی، دوگانہ حوزہ نجف، حوزہ قم، 1396شمسی، ص67 و 81۔
  7. صالحی، دوگانہ حوزہ نجف، حوزہ قم، 1396شمسی، ص81۔
  8. استادیان‌خانی و دیگران، «بررسی چگونگی نقش آفرینی علمی حوزہ علمیہ قم در بعد حفظ و تعالی انقلاب اسلامی»، ص135-138۔
  9. فرمانیان، «یکصد سال فراز و فرود...»۔
  10. فرحان آل‌قاسم، تاریخ الحوزات العلمیہ، 1393شمسی، ج6، ص178۔
  11. باقری، «حجم آثار علمی اثرگذار حوزہ علمیہ قم در زمینۀ علوم قرآن در سدۀ اخیر»، ص99۔
  12. ویژہ‌نامہ بیست‌وپنجمین ہمایش کتاب سال حوزہ، 1402شمسی، ص104۔
  13. تشکری صالح، «شخصیت‌ہای تفسیری حوزہ علمیہ قم در سدہ اخیر»، ص265-290۔
  14. حسینی علی‌آباد، «دانشوران علوم قرآن سدہ اخیر حوزہ علمیہ قم»، ص316-347۔
  15. حسینی علی‌آباد، «دانشوران علوم قرآن سدہ اخیر حوزہ علمیہ قم»، ص347۔
  16. حسینی ہرندی، «حوزہ علمیہ قم و سیر تطورات نشریات (مطبوعات) دینی در سدہ اخیر (2)»، ص37۔
  17. حسینی ہرندی، «حوزہ علمیہ قم و سیر تطورات نشریات (مطبوعات) دینی در سدہ اخیر (2)»، ص38-49۔
  18. «فہرست نرم‌افزارہای موسسہ نور»، سایت مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی۔
  19. فرمانیان، «یکصد سال فراز و فرود...»۔
  20. صبوریان، تکوین نہاد مرجعیت تقلید شیعہ، 1398شمسی، ص380۔
  21. صبوریان، تکوین نہاد مرجعیت تقلید شیعہ، 1398شمسی، ص384۔
  22. ہاشمیان‌فر، گونہ‌شناسی رفتار سیاسی مراجع تقلید شیعہ، 1390شمسی، ص103۔
  23. اعرافی، حوزہ علمیہ...، 1395شمسی، ص327۔
  24. فرحان آل‌قاسم، تاریخ الحوزات العلمیہ، 1393شمسی، ج6، ص78۔
  25. فرحان آل‌قاسم، تاریخ الحوزات العلمیہ، 1393شمسی، ج6، ص83۔
  26. فرحان آل‌قاسم، تاریخ الحوزات العلمیہ، 1393شمسی، ج6، ص86۔
  27. فرحان آل‌قاسم، تاریخ الحوزات العلمیہ، 1393شمسی، ج6، ص86-108۔
  28. صفری و حاضری، «احیا و تثبیت حوزہ علمیہ قم در ایران معاصر»، ص297۔
  29. زہرہ کاشانی، تاریخ 1200 سالہ حوزہ علمیہ قم...، 1397شمسی، ص68-70۔
  30. زہرہ کاشانی، تاریخ 1200 سالہ حوزہ علمیہ قم...، 1397شمسی، ص81-84۔
  31. زہرہ کاشانی، تاریخ 1200 سالہ حوزہ علمیہ قم...، 1397شمسی، ص156۔
  32. ریحان یزدی، آینہ دانشوران، 1372شمسی، ص144-145؛ شریف رازی، آثار الحجۃ...، 1332شمسی، ج1، ص39۔
  33. آشتیانی، «مقدمہ»، صفحہ صد و سی و نہ؛ رضانژاد، «مقدمہ»، صفحہ بیست و یک؛ استادی، «کتاب‌ہا و آثار علمی امام خمینی، ص143۔
  34. شریف رازی، آثار الحجۃ، 1332شمسی، ج1، ص24۔
  35. شریف رازی، آثار الحجۃ، ‍1332شمسی، ج1، ص28؛ نجفی، اندیشہ سیاسی و تاریخ نہضت حاج‌آقا نوراللّہ اصفہانی، 1378شمسی، ص237-300۔
  36. مکی، تاریخ بیست سالہ ایران، 1362شمسی، ج2، ص432؛ شریف رازی، آثار الحجۃ، 1332شمسی، ج1، ص85۔
  37. حائری یزدی، خاطرات دکتر مہدی حائری یزدی، 1381شمسی، ص118۔
  38. شیرخانی و زارع، تحولات حوزہ علمیہ قم...، 1384شمسی، ص34-35؛ کرجی، قم و مرجعیت، 1383شمسی، ص41۔
  39. امام خمینی، صحیفہ امام، 1378شمسی، ج2، ص407، ج11، ص454؛ پورہادی، خاطرات...، 1382شمسی، ص66۔
  40. بدلا، «مصاحبہ با حجۃ‌الاسلام و المسلمین سید حسین بدلا»، ص93-94؛ شریف رازی، آثار الحجۃ، 1332شمسی، ج2، ص2۔
  41. جعفریان، برگ‌ہایی از تاریخ حوزہ علمیہ قم، 1381شمسی، ص31۔
  42. جغرافیای تاریخی شہرستان قم، 1383شمسی، ص218۔
  43. شریف رازی، آثار الحجۃ، 1332شمسی، ج2، ص172-176۔
  44. وکیلی قمی، حوزہ علمیہ قم، 1348شمسی، ص19۔
  45. وکیلی قمی، حوزہ علمیہ قم، 1348شمسی، ص21، 38۔
  46. سلیمانیہ، پل تا جزیرہ، 1397شمسی، ص42۔
  47. امام خمینی، صحیفہ امام، 1378شمسی، ج14، ص60۔
  48. سلیمانیہ، پل تا جزیرہ، 1397شمسی، ص43۔
  49. اعرافی، حوزہ علمیہ...، 1395شمسی، ص279-281۔
  50. «آخرین آمار طلاب حوزہ‌ہای علمیہ»، سایت تابناک۔
  51. فراتی، روحانیت و سیاست، 1390شمسی، ص55۔
  52. فراتی، روحانیت و سیاست، 1390شمسی، ص56-57۔
  53. فراتی، روحانیت و سیاست، 1390شمسی، ص56-57۔
  54. ذاکری، «حوزہ و غوغای جمہوری رضاخان در آغاز قرن اخیر»، ص99۔
  55. ذاکری، «حوزہ و غوغای جمہوری رضاخان در آغاز قرن اخیر»، ص103۔
  56. شریف رازی، آثار الحجۃ، 1322-1333شمسی، ج1، ص35-36، 46؛ مکی، تاریخ بیست سالہ ایران، 1362شمسی، ج4، ص287۔
  57. شریف رازی، آثار الحجۃ، 1322-1333شمسی، ج1، ص46؛ بصیرت‌منش، علما و رژیم رضاشاہ...، 1376شمسی، ص252۔
  58. شریف رازی، آثار الحجۃ،1332شمسی، ج1، ص51؛ امینی، چالش‌ہای روحانیت با رضاشاہ، 1382شمسی، ص347، سند 14؛ بصیرت‌منش، علما و رژیم رضاشاہ...، 1376شمسی، ص258۔
  59. حائری یزدی، خاطرات دکتر مہدی حائری یزدی، 1381شمسی، ص47، 56، 57؛ فلسفی، خاطرات و مبارزات حجۃالاسلام فلسفی، 1376شمسی، ص187، 189۔
  60. فلسفی، خاطرات و مبارزات حجۃالاسلام فلسفی، 1376شمسی، ص189؛ منظورالاجداد، مرجعیت در عرصہ اجتماع و سیاست، 1379شممسی، ص459۔
  61. منظورالاجداد، مرجعیت در عرصہ اجتماع و سیاست، 1379شمسی، ص452، سند 29۔
  62. فلسفی، خاطرات و مبارزات حجةالاسلام فلسفی، 1376شمسی، ص190-191، 469؛ سلطانی طباطبائی، «مصاحبه با آیةاللّه سید محمدباقر سلطانى طباطبائى»، ص48-49۔
  63. منظورالاجداد، مرجعیت در عرصہ اجتماع و سیاست، 1379شمسی، ص457، سند 36-38۔
  64. استادیان‌خانی و دیگران، «بررسی چگونگی نقش‌آفرینی علمی حوزہ علمیہ قم در بعد حفظ و تعالی انقلاب اسلامی»، ص144۔
  65. طباطبایی‌فر، جریان‌ہای فکری حوزہ‌ی معاصر قم، 1394شمسی، ص17۔
  66. جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران، 1386شمسی، ص238-241۔
  67. اسناد انقلاب اسلامی، 1374شمسی، ج1، ص44۔
  68. اسناد انقلاب اسلامی، 1374شمسی، ج1، ص57؛ روحانی، بررسی و تحلیلی از نہضت امام خمینی در ایران، 1358شمسی، ج1، ص230۔
  69. ہاشمی رفسنجانی، دوران مبارزہ، 1376شمسی، ج1، ص133۔
  70. روحانی، بررسی و تحلیلی از نہضت امام خمینی در ایران، 1358شمسی، ج1، ص265۔
  71. اسناد انقلاب اسلامی، 1374شمسی، ج1، ص80-81، 84؛ رجبی، زندگی‌نامہ سیاسی امام خمینی، 1377شمسی، سند 51۔
  72. منصوری، تاریخ قیام پانزدہ خرداد بہ روایت اسناد، 1377-1378شمسی، ج1، سند 15/3۔
  73. امام خمینی، صحیفہ امام، 1378شمسی، ج1، ص415؛ دوانی، نہضت روحانیون ایران، 1360شمسی، ج4، ص324۔
  74. روحانی، بررسی و تحلیلی از نہضت امام خمینی در ایران، 1358شمسی، ج1، ص744۔
  75. جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ج1، ص270؛ شیرخانی و زارع، تحولات حوزہ علمیہ قم...، 1384شمسی، ص37-38۔
  76. جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ج1، ص268-269۔
  77. مدنی، تاریخ سیاسی معاصر ایران، 1361-1362شمسی، ج2، ص222-223۔
  78. مدنی، تاریخ سیاسی معاصر ایران، 1361-1362شمسی، ج2، ص232-234۔
  79. جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ج1، ص464-498۔
  80. طباطبایی‌فر، گونہ‌شناسی جریان‌ہای فکری حوزہ، 1395شمسی، ص19۔
  81. طباطبایی‌فر، گونہ‌شناسی جریان‌ہای فکری حوزہ، 1395شمسی، ص15۔
  82. فراتی، روحانیت و سیاست، 1390شمسی، ص51۔
  83. «مراجع تقلید: بہ جمہوری اسلامی رأی خواہیم داد»، سایت انقلاب اسلامی۔
  84. پیروزمند، «رابطہ روحانیت و دولت در جامعہ‌سازی قبل و بعد از انقلاب اسلامی»، ص135۔
  85. پیروزمند، «رابطہ روحانیت و دولت در جامعہ‌سازی قبل و بعد از انقلاب اسلامی»، ص135۔
  86. پیروزمند، «رابطہ روحانیت و دولت در جامعہ‌سازی قبل و بعد از انقلاب اسلامی»، ص136-137۔
  87. ہاشمی رفسنجانی، بہ سوی سرنوشت، 1386شمسی، ص45۔
  88. پیروزمند، «رابطہ روحانیت و دولت در جامعہ‌سازی قبل و بعد از انقلاب اسلامی»، ص136-137۔
  89. پیروزمند، «رابطہ روحانیت و دولت در جامعہ‌سازی قبل و بعد از انقلاب اسلامی»، ص136۔
  90. پیروزمند، «رابطہ روحانیت و دولت در جامعہ‌سازی قبل و بعد از انقلاب اسلامی»، ص137۔
  91. «فرماندہ تیپ مستقل 83 امام جعفر صادق(ع) روحانیون رزمی تبلیغی گفت: 18 ہزار پروندہ ایثارگری در تیپ امام صادق(ع) وجود دارد» سایت سپاہ‌نیوز۔
  92. آل‌سیدغفور، «سیر تطوّر و مواجہہ علما با احادیث سیاسی پس از بازتأسیس حوزہ علمیّہ قم»، ص50-51۔
  93. استادیان‌خانی و دیگران، «بررسی چگونگی نقش‌آفرینی علمی حوزہ علمیہ قم در بعد حفظ و تعالی انقلاب اسلامی»، ص144۔
  94. ابراہیمی، «ارتباطات و تعاملات رسانہ‌‎ای حوزہ علمیہ قم با دیگر نہادہای دینی جہان در سدہ اخیر»، ص110۔
  95. مشکی و رمضانی، «حوزہ علمیہ قم و تبلیغ بین‌الملل در صد سال اخیر»، ص16؛ فرحان آل‌قاسم،‌ تاریخ الحوزات العلمیۃ، 1393شمسی، ج6، ص319۔
  96. شریف رازی، آثار الحجۃ، 1332شمسی، ج2، ص14؛ فلسفی، خاطرات و مبارزات...، 1376شمسی، ص203؛ بدلا، «مصاحبہ با حجۃالاسلام والمسلمین سید حسین بدلا»، ص103-104؛ حسینیان، بیست سال تکاپوی اسلام شیعی در ایران...، 1381شمسی، ص386۔
  97. مشکی و رمضانی، «حوزہ علمیہ قم و تبلیغ بین‌الملل در صد سال اخیر»، ص12۔
  98. مشکی و رمضانی، «حوزہ علمیہ قم و تبلیغ بین‌الملل در صد سال اخیر»، ص14۔
  99. فلسفی، خاطرات و مبارزات...، 1376شمسی، ص179-180؛ حسینیان، بیست سال تکاپوی اسلام شیعی در ایران...، 1381شمسی، ص390-391۔
  100. کمالیان، «سرفصل‌ہایی از زندگانی امام موسی صدر»، سایت موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امام موسی صدر؛ جعفریان، اطلس شیعہ، 1387شمسی، ص523۔
  101. مشکی و رمضانی، «حوزہ علمیہ قم و تبلیغ بین‌الملل در صد سال اخیر»، ص15۔
  102. ابراہیمی، «ارتباطات و تعاملات رسانہ‎‌ای حوزہ علمیہ قم با دیگر نہادہای دینی جہان در سدہ اخیر»، ص116۔
  103. مشکی و رمضانی، «حوزہ علمیہ قم و تبلیغ بین‌الملل در صد سال اخیر»، ص23۔
  104. مشکی و رمضانی، «حوزہ علمیہ قم و تبلیغ بین‌الملل در صد سال اخیر»، ص23-31۔
  105. ابراہیمی، «ارتباطات و تعاملات رسانہ‎‌ای حوزہ علمیہ قم با دیگر نہادہای دینی جہان در سدہ اخیر»، ص118۔
  106. «شبکہ ماہوارہ‌ای مرجعیت»، پایگاہ اطلاع‌رسانی دفتر آیت‌اللہ سید صادق شیرازی۔
  107. مشکی و رمضانی، «حوزہ علمیہ قم و تبلیغ بین‌الملل در صد سال اخیر»، ص16۔
  108. فرحان آل‌قاسم،‌ تاریخ الحوزات العلمیۃ، 1393شمسی، ج6، ص319۔
  109. فرحان آل‌قاسم،‌ تاریخ الحوزات العلمیۃ، 1393شمسی، ج6، ص320۔
  110. حائری شیرازی، «جریان‌شناسی رویکردہای حدیثی حوزہ علمیّہ قم»، ص8-9۔
  111. شریف رازی، آثار الحجۃ، 1332شمسی، ج2، ص178-188۔
  112. رحمانی، «امکان‌سنجی پیدایی مکتب فقہی از اندیشہ شیخ مؤسس»، ص123-124۔
  113. عشایری، «مہم‌ترین تفاوت‌ہای مکتب قم و نجف»۔
  114. مرتضوی لنگرودی، «مصاحبہ با آیت‌اللہ حاج سید محمدحسن مرتضوی لنگرودی»، ص51۔
  115. الہی، «روش‌ہای تدریس و آموزش تفسیر قرآن در حوزہ علمیہ قم در سدۀ اخیر»، ص163۔
  116. فراہانی، «آیا بہ رویکردہای حدیث‌محورانہ بازخواہیم گشت؟»۔
  117. رشاد، «گفتمان فلسفی نوصدرایی»، ص60۔
  118. وکیلی قمی، حوزہ علمیہ قم، 1348شمسی، ص67-68؛ جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران، 1386شمسی، ص234۔
  119. فراتی، گونہ‌شناسی فکری سیاسی حوزہ علمیہ قم، 1395شمسی، ص125؛ طباطبایی‌فر، جریان‌ہای فکری در حوزہ‌ی معاصر قم، 1394شمسی، ص23۔
  120. جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران،‌ 1382شمسی، ص122-126۔
  121. جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران،‌ 1382شمسی، ص371۔
  122. رہنما، مسلمانی در جستجوی ناکجاآباد، 1383شمسی، ص382؛ بہشتی، دکتر شریعتی جستجوگری در مسیر شدن، 1390شمسی، ص116-119۔
  123. «گذری بر زندگی علمی و سیاسی آقای سید کاظم شریعتمداری»، سایت مرکز بررسی اسناد تاریخی۔
  124. «رہبر انقلاب: از حق شخصی خودم می‌گذرم اما از حق مردم مطلقاً اغماض نخواہم کرد»، سایت رمز عبور۔
  125. طباطبایی‌فر، جریان‌ہای فکری حوزہ‌ی معاصر قم، 1394شمسی، ص8۔
  126. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص220۔
  127. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص222۔
  128. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص226۔
  129. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص227۔
  130. طباطبایی‌فر، گونہ‌شناسی جریان‌ہای فکری حوزہ، 1395شمسی، ص42۔
  131. طباطبایی‌فر، جریان‌ہای فکری در حوزہ‌ی معاصر قم، 1394شمسی، ص43۔
  132. طباطبایی‌فر، جریان‌های فکری در حوزه‌ی معاصر قم، 1394شمسی، ص61۔
  133. طباطبایی‌فر، جریان‌ہای فکری در حوزہ‌ی معاصر قم، 1394شمسی، ص92۔
  134. طباطبایی‌فر، جریان‌ہای فکری در حوزہ‌ی معاصر قم، 1394شمسی، ص135۔
  135. حائری شیرازی، «جریان‌شناسی رویکردہای حدیثی حوزہ علمیّہ قم»، ص10-14۔
  136. حائری شیرازی، «جریان‌شناسی رویکردہای حدیثی حوزہ علمیّہ قم»، ص22۔
  137. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص270۔
  138. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص376۔
  139. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص386۔
  140. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص415۔
  141. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی۔
  142. فراتی، روحانیت و سیاست: مسائل و پیامدہا، 1390شمسی۔
  143. فراتی، روحانیت و دولت مدرن، 1400شمسی، ص97-269۔
  144. فراتی، گونہ‌شناسی فکری سیاسی حوزہ علمیہ قم، 1395شمسی۔
  145. طباطبایی‌فر، جریان‌ہای فکری در حوزہ‌ی معاصر قم، 1394شمسی۔
  146. طباطبایی‌فر، گونہ‌شناسی جریان‌ہای فکری حوزہ»، 1395شمسی۔
  147. ہاشمیان‌فر، گونہ‌شناسی رفتار سیاسی مراجع تقلید شیعہ، 1390شمسی۔
  148. طباطبایی، فقیہان و انقلاب ایران، 1395شمسی۔
  149. اعرافی، حوزہ علمیہ...، 1395شمسی، ص55-62۔
  150. جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران، 1390شمسی، ص48-54۔
  151. جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران، 1390شمسی، ص55۔
  152. محمدی، «بازخوانی تحلیلی نقش آیت‌اللہ بروجردی و امام‌خمینی در مبارزہ با اسلام‌ستیزی و نفوذ بہائیان در حکومت پہلوی»، ص71۔
  153. محمدی، «بازخوانی تحلیلی نقش آیت‌اللہ بروجردی و امام‌خمینی در مبارزہ با اسلام‌ستیزی و نفوذ بہائیان در حکومت پہلوی»، ص75۔
  154. حیدری چراتی، «نقش علمای قم در مبارزہ با بہائیت در سدہ اخیر»، ص168-170۔
  155. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص141۔
  156. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص136۔
  157. جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران، 1390شمسی، ص32۔
  158. جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران، 1390شمسی، ص32۔
  159. فراتی، روحانیت و تجدد، 1389شمسی، ص156۔
  160. فنائی اشکوری، «پیشگامان حوزہ علمیہ شیعہ در مواجہہ با فلسفہ غرب»، ص175۔
  161. «پاسدارى از سنگرہاى ایدئولوژیك جلد 1»، پایگاہ اطلاع‌رسانی آثار آیت‌اللہ مصباح یزدی۔
  162. ابراہیمی، «ارتباطات و تعاملات رسانہ‌‎ای حوزہ علمیہ قم با دیگر نہادہای دینی جہان در سدہ اخیر»، ص118۔
  163. ابراہیمی، «ارتباطات و تعاملات رسانہ‎‌ای حوزہ علمیہ قم با دیگر نہادہای دینی جہان در سدہ اخیر»، ص118۔
  164. نصر اصفہانی، «فہرستوارہ پایان‌نامہ‌ہای حوزوی-دانشگاہی در موضوع سلفی‌گری و نقد وہابیت»، ص160۔
  165. رہنما، مسلمانی در جستجوی ناکجاآباد، 1383شمسی، ص391-392۔
  166. عظیمی‌فر، «مقابلہ حوزہ علمیہ قم با جریان‌ہای انحرافی سدۀ اخیر در عرصۀ تفسیر و علوم قرآن»۔

مآخذ

  • «آخرین آمار طلاب حوزہ‌ہای علمیہ»، سایت تابناک، تاریخ درج مطلب: 10 شہریور 1393شمسی، تاریخ بازدید: 13 مہر 1404ہجری شمسی۔
  • آشتیانی، سید جلال‌الدین، «مقدمہ»، در الشواہد الربوبیۃ فی المناہج السلوکیّۃ، با حواشی ملاہادی سبزواری، تہران، 1360ہجری شمسی۔
  • آل‌سیدغفور، سید سجاد، «سیر تطوّر و مواجہہ علما با احادیث سیاسی پس از بازتأسیس حوزہ علمیّہ قم»، در دوفصلنامہ حدیث و اندیشہ، شمارہ 34، پاییز و زمستان 1401ہجری شمسی۔
  • ابراہیمی، عارف، «ارتباطات و تعاملات رسانہ‌ای حوزہ علمیہ قم با دیگر نہادہای دینی جہان در سدہ اخیر»، در دوفصلنامہ الہیات ہنر، شمارہ 23، بہار و تابستان 1402ہجری شمسی۔
  • استادی، رضا، «كتاب‌ہا و آثار علمى امام خمینى»، در کیہان اندیشہ، ش29، فروردین و اردیبہشت 1369.
  • استادیان‌خانی، علیرضا، و حسین ارجینی و محمدجواد نوروزی، «بررسی چگونگی نقش‌آفرینی علمی حوزہ علمیہ قم در بعد حفظ و تعالی انقلاب اسلامی»، در فصلنامہ پژوہش‌ہای انقلاب اسلامی، شمارہ 44، بہار 1402ہجری شمسی۔
  • اسناد انقلاب اسلامی، ج1، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1374ہجری شمسی۔
  • اعرافی، علیرضا، حوزہ علمیہ: چیستی، گذشتہ، حال، آیندہ، تدوین محمد آزادی، قم، مؤسسہ اشراق و عرفان، 1395ہجری شمسی۔
  • الگار، حامد، «BORŪJERDĪ, ḤOSAYN ṬABĀṬABĀʾĪ»، دائرۃالمعارف آنلاین ایرانیکا، تاریخ درج مطلب: 15 دسامبر 1989، تاریخ بازدید: 14 مہر 1404ہجری شمسی۔
  • الہی، عباس، «روش‌ہای تدریس و آموزش تفسیر قرآن در حوزہ علمیہ قم در سدۀ اخیر»، در دوفصلنامہ قرآن‌شناخت، شمارہ 32، بہار و تابستان 1403ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1378ہجری شمسی۔
  • امینی، داوود، چالش‌ہای روحانیت با رضاشاہ: بررسی علل چالش‌ہای سنت‌گرایی با نوگرایی عصر رضاشاہ، تہران، سپاس، 1382ہجری شمسی۔
  • باقری، علی‌اوسط، «حجم آثار علمی اثرگذار حوزہ علمیہ قم در زمینۀ علوم قرآن در سدۀ اخیر»، در دوفصلنامہ قرآن‌شناخت، شمارہ 32، بہار و تابستان 1403ہجری شمسی۔
  • بدلا، سید حسین، «مصاحبہ با حجۃالاسلام والمسلمین سید حسین بدلا»، در مجلہ حوزہ، سال 8، ش 1 و 2 (فروردین- تیر 1370).
  • بصیرت‌منشمسی، حمید، علما و رژیم رضاشاہ: نظری بر عملکرد سیاسی-فرہنگی روحانیون در سال‌ہای 1305-1320شمسی، تہران، مؤسسہ چاپ و نشر عروج، 1376ہجری شمسی۔
  • ب‍ہ‍ش‍ت‍ی‌، سید م‍ح‍م‍د، دکتر شریعتی جستجوگری در مسیر شدن، تدوین بنیاد نشر آثار و اندیشہ‌ہای شہید آیت‌اللہ دکتر بہشتی، تہران، روزنہ، 1390ہجری شمسی۔
  • «پاسدارى از سنگرہاى ایدئولوژیك جلد 1»، پایگاہ اطلاع‌رسانی آثار آیت‌اللہ مصباح یزدی، تاریخ بازدید: 13 مہر 1404ہجری شمسی۔
  • پورہادی، یداللہ، خاطرات حجۃالاسلام والمسلمین پورہادی، تدوین عبدالرضا احمدی و معصومہ حسینی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • پیروزمند، علیرضا، «رابطہ روحانیت و دولت در جامعہ‌سازی قبل و بعد از انقلاب اسلامی»، در روحانیت و انقلاب اسلامی، جلد اول، بہ اہتمام عبدالوہاب فراتی، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1389ہجری شمسی۔
  • تشکری صالح، ابوذر، «شخصیت‌ہای تفسیری حوزہ علمیہ قم در سدہ اخیر»، در دوفصلنامہ قرآن‌شناخت، شمارہ 32، بہار و تابستان 1403ہجری شمسی۔
  • جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم از آغاز تا اکنون، زیرنظر سید محسن صالح، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی‏‫‏‏، 1385ہجری شمسی۔
  • ج‍ع‍ف‍ری‍ان‌، رس‍ول‌، اطلس شیعہ، تہران، سازمان جغرافیایی نیروہای مسلح، ‏‫‏‏1387ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، برگ‌ہایی از تاریخ حوزہ علمیہ قم، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1381ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران: از روی کار آمدن محمدرضا شاہ تا پیروزی انقلاب اسلامی: سال‌ہای 1320-1357، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1382ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران: از روی کار آمدن محمدرضا شاہ تا پیروزی انقلاب اسلامی: سال‌ہای 1320-1357، تہران، نشر علم، 1390ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران: از روی کار آمدن محمدرضا شاہ تا پیروزی انقلاب اسلامی: سال‌ہای 1320-1357، قم، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1386ہجری شمسی۔
  • جغرافیای تاریخی شہرستان قم، بہ کوشش ابوالفضل عرب‌زادہ، قم، انتشارات زائر، 1383ہجری شمسی۔
  • حائری شیرازی، محمد، «جریان‌شناسی رویکردہای حدیثی حوزہ علمیّہ قم از ابتدای بازتأسیس تاکنون در سدہ گذشتہ»، در دوفصلنامہ حدیث و اندیشہ، شمارہ34، پاییز و زمستان 1401ہجری شمسی۔
  • حائری یزدی، مہدی، خاطرات دکتر مہدی حائری یزدی، بہ‌کوشش حبیب لاجوردی، تہران، نشر نادر، 1381ہجری شمسی۔
  • حسینی علی‌آباد، سید روح‌اللہ، «دانشوران علوم قران سدہ اخیر حوزہ علمیہ قم»، در دوفصلنامہ قرآن‌شناخت، شمارہ 32، بہار و تابستان 1403ہجری شمسی۔
  • حسینی ہرندی، سید محمدحسین، «حوزہ علمیہ قم و سیر تطورات نشریات (مطبوعات) دینی در سدہ اخیر (2)»، در فصلنامہ الہیات ہنر، شمارہ 23، تیر 1402ہجری شمسی۔
  • حسینیان، روح‌اللہ، بیست سال تکاپوی اسلام شیعی در ایران: 1320-1340، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1381ہجری شمسی۔
  • حیدری چراتی، حجت، «نقش علمای قم در مبارزہ با بہائیت در سدہ اخیر»، در فصلنامہ انتظار موعود، شمارہ 80، بہار 1402ہجری شمسی۔
  • دوانی، علی، نہضت روحانیون ایران، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1360ہجری شمسی۔
  • ذاکری، علی‌اکبر، «حوزہ و غوغای جمہوری رضاخان در آغاز قرن اخیر»، در دوفصلنامہ تاریخ اسلام در آیینہ پژوہشمسی، شمارہ 52، بہار و تابستان 1401ہجری شمسی۔
  • رجبی، محمدحسن، زندگی‌نامہ سیاسی امام خمینی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1377ہجری شمسی۔
  • رحمانی، علی، «امکان‌سنجی پیدایی مکتب فقہی از اندیشہ شیخ مؤسس»، در جستارہای فقہی و اصولی، شمارہ 28، پاییز 1401ہجری شمسی۔
  • رشاد، علی‌اکبر، «گفتمان فلسفی نوصدرایی»، در فصلنامہ قبسات، شمارہ 10-11، زمستان 1377 و بہار 1378ہجری شمسی۔
  • رضا‌نژاد، غلامرضا، «مقدمہ»، در مجموعہ رسائل و مقالات فلسفی حکیم متألّہ علامہ سید ابوالحسن رفیعی قزوینی، تہران، مؤسسہ پژوہشی حکمت و فلسفہ ایران، 1386ہجری شمسی۔
  • روحانی، سید حمید، بررسی و تحلیلی از نہضت امام خمینی در ایران، ج1، تہران، راہ امام، 1358ہجری شمسی۔
  • «رہبر انقلاب: از حق شخصی خودم می‌گذرم اما از حق مردم مطلقاً اغماض نخواہم کرد»، سایت رمز عبور، تاریخ بازدید: 13 مہر 1404ہجری شمسی۔
  • رہنما، علی، مسلمانی در جستجوی ناکجاآباد، ترجمۂ کیومرث قرقلو، تہران، گام نو، 1383ہجری شمسی۔
  • ریحان یزدی، علیرضا، آینہ دانشوران، با مقدمہ و تعلیقات و اضافات ناصر باقری بیدہندی، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آيت اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1372ہجری شمسی۔
  • سلطانی طباطبائی، سید محمدباقر، «مصاحبہ با آیۃاللّہ سید محمدباقر سلطانى طباطبائى»، در مجلہ حوزہ، سال 8، ش 1 و 2 (فروردین-تیر 1370)۔
  • زہرہ کاشانی، علی‌اکبر، تاریخ 1200 سالہ حوزہ علمیہ قم: با رویکرد آموزشی و پژوہشی، قم، پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ، 1394ہجری شمسی۔
  • «شبکہ ماہوارہ‌ای مرجعیت»، پایگاہ اطلاع‌رسانی دفتر آیت‌اللہ سید صادق شیرازی، تاریخ بازدید: 13 مہر 1404ہجری شمسی۔
  • شریف رازی، محمد، آثار الحجۃ یا تاریخ و دائرۃالمعارف حوزہ علمیہ قم، قم، کتابفروشی برقعی، 1332ہجری شمسی۔
  • شیرخانی، علی، و عباس زارع، تحولات حوزہ علمیہ قم پس از پیروزی انقلاب اسلامی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
  • صالحی، حمید، دوگانہ حوزہ نجف، حوزہ قم، تہران، مؤسسہ مطالعات اندیشہ‌سازان نور، 1396ہجری شمسی۔
  • صبوریان، محسن، تکوین نہاد مرجعیت تقلید شیعہ، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ، ہنر و ارتباطات، 1398ہجری شمسی۔
  • صفری، امیر، و علی‌محمد حاضری، «احیا و تثبیت حوزہ علمیہ قم در ایران معاصر»، در دوفصلنامہ جامعہ‌شناسی تاریخی، سال چہاردہم، شمارہ 2، پاییز و زمستان 1401ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، سید ہادی، فقیہان و انقلاب ایران، تہران، نشر کویر، 1395ہجری شمسی۔
  • طباطبایی‌فر، سید محسن، جریان‌ہای فکری در حوزہ‌ی معاصر قم، تہران، نشر نی، 1394ہجری شمسی۔
  • طباطبایی‌فر، سید محسن، گونہ‌شناسی جریان‌ہای فکری حوزہ و نسبت آن با اندیشہ انقلاب اسلامی، قم، مکث اندیشہ، 1395ہجری شمسی۔
  • عشایری، محمدحسن، «مہم‌ترین تفاوت‌ہای مکتب قم و نجف»، پایگاہ خبری مفتاح انسانی اسلامی، تاریخ درج مطلب: 15 خرداد 1398شمسی، تاریخ بازدید: 17 خرداد 1404ہجری شمسی۔
  • عظیمی‌فر، علیرضا، «مقابلہ حوزہ علمیہ قم با جریان‌ہای انحرافی سدۀ اخیر در عرصۀ تفسیر و علوم قرآن»، در دوفصلنامہ قرآن‌شناخت، شمارہ 32، بہار و تابستان 1403ہجری شمسی۔
  • فراتی، عبدالوہاب، روحانیت و تجدد، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، 1389ہجری شمسی۔
  • فراتی، عبدالوہاب، روحانیت و دولت مدرن، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1400ہجری شمسی۔
  • فراتی، عبدالوہاب، روحانیت و سیاست: مسائل و پیامدہا، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1390ہجری شمسی۔
  • فراتی، عبدالوہاب، گونہ‌شناسی فکری سیاسی حوزہ علمیہ قم، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، 1395ہجری شمسی۔
  • فراہانی، وحید، «آیا بہ رویکردہای حدیث‌محورانہ بازخواہیم گشت؟»، سایت مباحثات، تاریخ درج مطلب: 15 تیر 1397شمسی، تاریخ بازدید: 2 تیر 1404ہجری شمسی۔
  • فرحان آل‌قاسم، عدنان، تاریخ الحوزات العلمیہ والمدارس الدینیۃ عند الشیعۃ الامامیۃ، قم، جامعۃ المصطفی العالمیۃ، 1393ہجری شمسی۔
  • «فرماندہ تیپ مستقل 83 امام جعفر صادق(ع) روحانیون رزمی تبلیغی گفت: 18 ہزار پروندہ ایثارگری در تیپ امام صادق(ع) وجود دارد.»، سپاہ‌نیوز، تاریخ درج مطلب: 18 تیر 1402شمسی، تاریخ بازدید: 4 تیر 1404ہجری شمسی۔
  • فرمانیان، «یکصد سال فراز و فرود تقریب مذاہب در حوزہ علمیہ قم»، سایت مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تاریخ درج مطلب: 28 اردیبہشت 1404، تاریخ بازدید: 21 تیر 1404ہجری شمسی۔
  • فلسفی، محمدتقی، خاطرات و مبارزات حجۃالاسلام فلسفی، تہران، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، 1376ہجری شمسی۔
  • فنائی اشکوری، محمد، «پیشگامان حوزہ علمیہ شیعہ در مواجہہ با فلسفہ غرب»، در فصلنامہ علوم سیاسی، شمار 44، زمستان 1387ہجری شمسی۔
  • «فہرست نرم‌افزارہای موسسہ نور»، سایت مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی، تاریخ بازدید: 13 مہر 1404ہجری شمسی۔
  • کرجی، علی، قم و مرجعیت، قم، نشر زائر، 1383ہجری شمسی۔
  • کمالیان، «سرفصل‌ہایی از زندگانی امام موسی صدر»، سایت موسسہ فرہنگی تحقیقاتی امام موسی صدر، تاریخ بازدید: 13 مہر 1404ہجری شمسی۔
  • «گذری بر زندگی علمی و سیاسی آقای سید کاظم شریعتمداری»، سایت مرکز بررسی اسناد تاریخی، تاریخ درج مطلب: 11 فروردین 1404شمسی، تاریخ بازدید: 13 مہر 1404ہجری شمسی۔
  • محمدی، مسلم، «بازخوانی تحلیلی نقش آیت‌اللہ بروجردی و امام‌خمینی در مبارزہ با اسلام‌ستیزی و نفوذ بہائیان در حکومت پہلوی»، در فصلنامہ مطالعات انقلاب اسلامی، شمارہ 25، تابستان 1390ہجری شمسی۔
  • مدنی، جلال‌الدین، تاریخ سیاسی معاصر ایران، قم، دفتر نشر اسلامی، 1361-1362ہجری شمسی۔
  • «مراجع تقلید: بہ جمہوری اسلامی رأی خواہیم داد»، سایت انقلاب اسلامی، تاریخ درج مطلب: 9 فروردین 1397شمسی، تاریخ بازدید: 4 تیر 1404ہجری شمسی۔
  • مرتضوی لنگرودی، سید محمدحسن، «مصاحبہ با حضرت آیۃاللّہ حاج سید محمدحسن مرتضوى لنگرودى»، در مجلہ حوزہ، سال 10، ش 1 (فروردین و اردیبہشت 1372)۔
  • منظورالاجداد، سید محمدحسین، مرجعیت در عرصہ اجتماع و سیاست: اسناد و گزارش‌ہایی از آیات عظام نائینی، اصفہانی، قمی، حائری و بروجردی: 1292-1339 شمسی، تہران، شیرازہ، 1379ہجری شمسی۔
  • مشکی، مجید، و عادل رمضانی، «حوزہ علمیہ قم و تبلیغ بین‌الملل در صد سال اخیر»، در پژوہش‌نامہ تبلیغ اسلامی، شمارہ10، پاییز و زمستان 1402ہجری شمسی۔
  • مکی، حسین، تاریخ بیست سالہ ایران، ج2 و 4، تہران، بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، 1362ہجری شمسی۔
  • م‍ن‍ص‍وری‌، ج‍واد‏، ت‍اری‍خ‌ ق‍ی‍ام‌ پ‍ان‍زدہ‌ خ‍رداد ب‍ہ‌ روای‍ت‌ اس‍ن‍اد، ت‍ہ‍ران‌، م‍رک‍ز اس‍ن‍اد ان‍ق‍لاب‌ اس‍لام‍ی‌، 1377-1378ہجری شمسی۔‬
  • نجفی، موسی، اندیشہ سیاسی و تاریخ نہضت حاج‌آقا نوراللّہ اصفہانی، تہران، مؤسسہ مطالعات تاریخ معاصر ایران، 1378ہجری شمسی۔
  • نصر اصفہانی، اباذر، «فہرستوارہ پایان‌نامہ‌ہای حوزوی-دانشگاہی در موضوع سلفی‌گری و نقد وہابیت»، در فصلنامہ سراج منیر، شمارہ 14، تابستان 1393ہجری شمسی۔
  • وکیلی قمی، ابومحمد، حوزہ علمیہ قم، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات اجتماعی دانشگاہ تہران، 1348ہجری شمسی۔
  • ویژہ‌نامہ بیست‌وپنجمین ہمایش کتاب سال حوزہ، دبیرخانہ ہمایش کتاب سال حوزہ، 1402شمسی، نسخہ الکترونیک۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر، بہ سوی سرنوشت: کارنامہ و خاطرات سال 1363، تہران، دفتر نشر معارف انقلاب، 1386ہجری شمسی۔
  • ہاشمی رفسنجانی، اکبر، دوران مبارزہ، زیر نظر محسن ہاشمی، تہران، دفتر نشر معارف انقلاب، 1376ہجری شمسی۔
  • ہاشمیان‌فر، سید حسن، گونہ‌شناسی رفتار سیاسی مراجع تقلید شیعہ: 1332-1357، تہران، دانشگاہ امام صادق(ع)، 1390ہجری شمسی۔