اِسلامی مَرکَزہیمبرگ (قیام: 1953ء) جرمنی کے اہم اسلامی مراکز میں سے ایک ہے۔ یہ مرکز آیت اللہ بروجردی کے مالی تعاون سے ہیمبرگ میں قائم کیا گیا۔ نماز جمعہ اور باجماعت نماز کا انعقاد، جرمن اور فارسی میں علمی اور ثقافتی رسالہ جات کی اشاعت اور مشاورتی خدمات فراہم کرنا اس مرکز کے اہم اقدامات میں سے ہیں۔ اسلامی مرکز ہیمبرگ میں ایک کتب خانہ ہے جس میں مختلف اسلامی اور شیعہ موضوعات پر چھ ہزار سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔ سید محمد بہشتی، محمد مجتہد شبستری، سید محمد خاتمی، سید عباس قائم مقامی اور رضا رمضانی گیلانی ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے یکے بعد دیگرے اب تک اسلامی مرکز ہیمبرگ کا انتظام و انصرام سنبھالا ہے۔ محمد مفتح کے بیٹے محمد ہادی مفتح ستمبر 2018ء سے اس مرکز کے انتظامات کے سربراہ ہیں۔

اسلامی مرکز ہیمبرگ
ہیمبرگ اسلامی مرکز ہیمبرگ
اسلامی مرکز ہیمبرگ کی امام علیؑ مسجد
اسلامی مرکز ہیمبرگ کی امام علیؑ مسجد
کوائف
تأسیس1953ء
بانیآیت اللہ بروجردی کے مالی تعاون سے
وابستہعصائب اہل الحق
نوعیت• تبلیغی • ثقافتی
دائرہ کارہیمبرگ
فعالیت‌جرمن اور فارسی زبان میں رسالہ جات کی اشاعت اور مشاورتی خدمات فراہم کرنا
سربراہمحمد ہادی مفتح، اگست 2018ء سے۔۔۔
دیگر معلومات
زبانعربی

24 جولائی سنہ 2024ء کو جرمن پولیس نے انتہا پسندی کو فروغ دینے کے الزام میں اس مرکز کو بند کر دیا۔

تاریخچہ

ہیمبرگ کا اسلامی مرکز جرمنی کے اہم ترین اسلامی مراکز میں سے ایک ہے جو کہ سنہ 1953ء میں آیت اللہ بروجردی کے مالی تعاون سے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ایک آغاز میں ایک مسجد کے طور اس کا قیام عمل میں لایا گیا۔[1] اسلامی مرکز ہیمبرگ کی تعمیر4000 مربع میٹر سے زیادہ اراضی پر فروری 1958ء میں آیت اللہ بروجردی کے نمائندے شیخ محمد محققی کی موجودگی میں شروع ہوئی تھی لیکن مذکورہ مرکز کی عمارت سنہ 1962ء تک (آیت اللہ بروجردی کی وفات تک) مکمل نہیں ہو سکی تھی۔[2]

مسجد سے متصل اسلامی ثقافتی ادارے کو مختلف ممالک اور مذاہب کے تمام مسلمانوں کو یکجا کرنے کے لیے ہیمبرگ مسجد کے ساتھ فروری سنہ 1966ء میں رجسٹرڈ اور اس کی سرگرمیوں کے دائرہ کار کو جرمنی اور دیگر یورپی ممالک تک پھیلانے کا اہتمام کیا گیا۔[3] یہ عمل سید محمد بہشتی کے دور میں سرانجام پایا۔[4]

سربراہان اور ائمہ جماعت

  • محمد محققی لاہیجی، نمایندہ آیت اللہ بروجردی، اس مرکز کے قیام کے ابتدائی سال (1953ء) سے سنہ 1961ء تک۔[5]
  • سید محمد بہشتی، سنہ 1965ء سے سنہ 1970ء تک۔[6] انہوں نے محمد فلسفی،[7] [[سید محمد ہادی میلانی</ref> اور دیگر مراجع تقلید کے مشورے سے اسلامی مرکز ہیمبرگ کے انتظامات کی ذمہ داری سنبھالی۔[8]
  • محمد مجتہد شبستری؛ سنہ 1970ء سے 1977ء تک۔[9] انہوں نے اس مرکز کے انتظامات کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے ایک سال تک سید محمد بہشتی کے ساتھ کام کیا۔[10]
  • سید محمد خاتمی سنہ 1978ء سے سنہ 1980ء تک اس مرکز کے سربراہ رہے۔[11]
  • محمد مقدم نے سنہ 1980ء سے 1992ء تک اس مرکز کے امور چلائے۔ سید محمد بہشتی کے مشورے سے انہوں نے یہ ذمہ داری قبول کی اور یہاں فارسی زبان کے تعلیمی دوروں کے انعقاد کے ساتھ ساتھ علمی اور ثقافتی سیمینارز بھی منعقد کئے۔[12] حج کے حوالے سے کانفرنس کا انعقاد، اسلامی اتحاد کانفرنس اور جرمن زبان میں رسالہ "الفجر" اور "سلام بچو!" کا اجراء بھی ان کے کارناموں میں شامل ہے۔[13]
  • محمد باقر انصاری؛ سنہ 1992ء سے 1999ء تک اس مرکز کی سربراہی کی۔[14] ان کے دور میں مرکز اسلامی ہیمبرگ میں تقریبا 2 ہزار مربع میٹر کے ارضی پر ایک کتابخانہ کی بنیاد رکھی گئی۔[15]
  • سید رضا حسینی‌ نسب؛ 1999ء سے 2003ء تک اس مرکز کے امور چلائے۔ انہوں نے انگریزی زبان میں «The Right Path» نامی مجلہ اور فارسی زبان میں "نیستان" کے نام سے ایک مجلے کی اشاعت کا کام شروع کیا۔[16]
  • سید عباس قائم‌ مقامی نے سنہ 2003ء سے 2009ء تک یہاں مختلف امور انجام دیے۔[17]
  • رضا رمضانی گیلانی سنہ 2009ء سے 2018ء تک اسلامی مرکز ہیمبرگ کے سربراہ رہے۔[18]
  • محمد مفتح کے بیٹے محمد ہادی مفتح نے سنہ 2018ء سے اس مرکز کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔[19]

اقدامات

 
سنہ 2023ء میں اسلامی مرکز ہیمبرگ میں نماز عید فطر کا منظر

[20]]]

نماز جمعہ کا انعقاد اسلامی مرکز ہیمبرگ کے اہم اقدامات میں سے ایک ہے جو تین زبانوں میں منعقد ہوتی ہے: جرمن، عربی اور فارسی۔[21] با جماعت نماز کا قیام اور جرمن زبان میں "الفجر" کے نام سے ایک رسالہ شائع کرنا اس مرکز کے دیگر امور میں سے ہے۔[22]

اسلامی مرکز ہیمبرگ میں فقہ، اصول فقہ، قرآن، حدیث، تاریخ سیرت ائمہؑ، عرفان، عربی زبان و ادب کے ساتھ ساتھ ایرانی تاریخ جیسے موضوعات پر چھ ہزار سے زائد کتب سے بھرپور ایک کتابخانہ بھی موجود ہے۔[23] اس مرکز میں "سماجی امور" نمٹانے کے لیے ایک الگ سے دفتر بھی ہے جو شادی بیاہ، اسلام قبول کرنے والوں کے امور اور طلاق کے بارے میں مشاورتی خدمات فراہم کرتا ہے۔[24]

اسلامی مرکز کی فعالیتوں پر جرمن حکومت کی پابندی

 
اسلامی مرکز ہیمبرگ پرجرمن پولیس کی پابندی

24 جولائی سنہ 2024ء کو جرمن پولیس فورسز نے "اسلامی مرکز ہیمبرگ (IMH)" پر حملہ کیا اور اسی وقت جرمن وزارت داخلہ نے بھی ایک بیان شائع کرکے اعلان کیا کہ اس اسلامی مرکز اور اس سے منسلک تنظیموں کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ وزارت داخلہ جرمن نے دعوی کیا کہ اس مرکز کی جانب سے انتہا پسندی کی تبلیغ و ترویج ہوتی ہے۔[25] 16 نومبر2023 کو (الاقصیٰ طوفان آپریشن کے تقریباً ایک ماہ بعد) جرمن وزیر داخلہ نے اس مرکز پر لبنان کی حزب اللہ سے تعلق رکھنے اور یہود دشمنی کا الزام لگاتے ہوئے اس مرکز کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی[26] اور ایک پریس بیان میں کہا: ہم اسلام پسندانہ پروپیگنڈہ یا یہودی مخالف اشتعال انگیزی کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔[27]

مہر خبر رساں ایجنسی کے مطابق اسلامی مرکز ہیمبرگ کو بند کرنے کی درخواست ایران کے خلاف جرمن اتحادی حکومت کی تنظیموں کے 22 نکاتی منصوبے کی ایک شق کے مطابق ہے جسے "انسانی حقوق کا دفاع" کہا جاتا ہے اور اسے ایران میں ناامنی اور فساد پھیلانے والوں کی حمایت میں تدوین کی گئی ہے۔ آزادی اظہار کے خلاف ہے۔ البتہ یہ پابندی آزادی بیان کے ساتھ متصادم اقدام ہے۔[28] اس کے علاوہ، اہل بیتؑ عالمی اسمبلی نے اپنے ایک بیانیے میں لکھا کہ جرمن حکومت کا یہ غیر منصفانہ اقدام انسانی حقوق اور آزادی کی خلاف ورزیوں کی ایک واضح مثال ہے جسے بین الاقوامی قوانین اور دستاویزات میں تسلیم کیا گیا ہے۔[29]

20 اگست سنہ 2024ء کو اس مرکز کی بندش کے ردعمل میں لیجران پولیس نے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ کے دفاتر کو بند کر دیا جو تہران میں جرمن حکومت سے منسلک مراکز میں سے ایک ہے۔

حوالہ جات

  1. «تاریخچہ بنیانگذاری و مراحل بنای مرکز»، سایت مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  2. «تاریخچہ بنیانگذاری و مراحل بنای مرکز»، سایت مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  3. «تاریخچہ بنیانگذاری و مراحل بنای مرکز»، سایت مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  4. «تاریخچہ بنیانگذاری و مراحل بنای مرکز»، سایت مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  5. «تاریخچہ بنیانگذاری و مراحل بنای مرکز»، سایت مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  6. انصاری محلاتی، تاریخچہ مسجد و مرکز اسلامی ہامبورگ، 1374شمسی، ص35۔
  7. حسینی میلانی، مرجع آگاہ، 1395شمسی، ج1، ص235۔
  8. مؤسسہ امام ہادی، اتحاد و انسجام، 1389شمسی، ص429۔
  9. انصاری محلاتی، تاریخچہ مسجد و مرکز اسلامی ہامبورگ، 1374شمسی، ص36-37۔
  10. انصاری محلاتی، تاریخچہ مسجد و مرکز اسلامی ہامبورگ، 1374شمسی، ص36-37۔
  11. انصاری محلاتی، تاریخچہ مسجد و مرکز اسلامی ہامبورگ، 1374شمسی، ص38۔
  12. انصاری محلاتی، تاریخچہ مسجد و مرکز اسلامی ہامبورگ، 1374شمسی، ص40۔
  13. «امامان مرکز»، مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  14. انصاری محلاتی، تاریخچہ مسجد و مرکز اسلامی ہامبورگ، 1374شمسی، ص40؛ «امامان مرکز»، مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  15. «امامان مرکز»، مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  16. «امامان مرکز»، مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  17. «امامان مرکز»، مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  18. «امامان مرکز»، مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  19. «امامان مرکز»، مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  20. «اقامہ نماز عید فطر در مسجد امام علی(ع) مرکز اسلامی ہامبورگ»، خبرگزاری حوزہ۔
  21. «تاریخچہ بنیانگذاری و مراحل بنای مرکز»، سایت مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  22. «تاریخچہ بنیانگذاری و مراحل بنای مرکز»، سایت مرکز اسلامی ہامبورگ۔
  23. دویمی، «مرکز اسلامی ہامبورگ»، ص45۔
  24. دویمی، «مرکز اسلامی ہامبورگ»، ص46۔
  25. «چرا آلمان «مرکز اسلامی ہامبورگ» را تعطیل کرد؟»، خبرگزاری مہر۔
  26. "Bundesinnenministerin Faeser verbietet das "Islamische Zentrum Hamburg" und dessen Teilorganisationen»، www.bmi.bund.de۔
  27. «Ermittlungsmaßnahmen gegen das "Islamische Zentrum Hamburg" und dessen mögliche Teilorganisationen»، www.bmi.bund.de۔
  28. «چرا آلمان «مرکز اسلامی ہامبورگ» را تعطیل کرد؟»، خبرگزاری مہر۔
  29. «بیانیہ مہم مجمع جہانی اہل‌بیت(ع) دربارہ تعطیلی مراکز اسلامی ہامبورگ، برلین و فرانکفورت»، خبرگزاری ابنا۔

مآخذ