امام مہدیؑ کی شادی

ویکی شیعہ سے

امام مہدیؑ کی شادی، حضرت مہدی(عج) سے متعلق مباحث میں سے ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ حضرت مہدیؑ کے ازدواج کے موافقین نے اس مطلب کے اثبات کیلئے ان روایات سے استناد کیا ہے جن میں آپؑ کی اولاد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ نیز ان کے نزدیک ازدواج پیغمبرؐ کی سنت مؤکدہ ہے، اس اعتبار سے امام مہدیؑ نے اس پر عمل کیا ہے۔ مخالفین حضرت مہدیؑ کے ازدواج کو غیبت کے فلسفے یعنی لوگوں کی نگاہ سے مخفی رہنے کے ساتھ ناسازگار قرار دیتے ہیں۔ بعض کا خیال یہ بھی ہے کہ اگرچہ امام مہدیؑ کے ازدواج کا احتمال ہے مگر اس بارے میں قطعی نقطہ نظر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ سید محمد صدر، محدث نوری (متوفی 1320ھ) اور علی ‌اکبر نہاوندی (متوفی 1369ھ) کے نزدیک امام مہدیؑ نے ازدواج کیا ہے۔ یہ بحث تحلیلی صورت میں پہلی مرتبہ کتاب تاریخ الغیبۃ الکبری مؤلفہ سید محمد صدر (متوفی 1377 ہجری شمسی) میں پیش کی گئی ہے۔

بحث کا پس منظر

شیعہ علما کا اس بات میں اختلاف ہے کہ امام مہدیؑ نے زمانہ غیبت میں ازدواج کیا ہے یا نہیں؟! جیسا کہ کتاب دانشنامہ امام مہدی(عج) میں منقول ہے کہ اس بحث پر سنجیدہ توجہ چودہویں صدی شمسی میں کی گئی ہے[1] اور پہلی کتاب جس میں تحلیلی صورت میں امام مہدیؑ کے ازدواج پر بحث کی گئی ہے، تاریخ الغیبۃ الکبری مؤلفہ سید محمد صدر (متوفی ۱۳۷۷شمسی) ہے۔[2] البتہ ان سے قبل کتاب نجم الثاقب[3] مؤلفہ محدث نوری (متوفی 1320ھ) العَبقری الحِسان[4] مؤلفہ علی‌اکبر نہاوندی (متوفی 1369ھ) نے بھی اس موضوع پر بات کی ہے اور بحارالانوار میں «خلفاء المہدی و اولادہ و مایکون بعدہ علیہ و علی آبائہ السلام» کے نام سے ایک باب موجود ہے۔[5]

نظریات

امام مہدیؑ کے ازدواج سے متعلق تین نظریات ہیں:

ازدواج کے قائلین

سید محمد صدر،[6] محدث نوری[7] اور علی‌اکبر نہاوندی[8] نے حضرت مہدیؑ کے ازدواج کو قبول کیا ہے۔ اسی طرح امام مہدیؑ کے بارے میں اس عقیدے کی نسبت علامہ مجلسی کی طرف بھی دی گئی ہے۔[9] اس جماعت کے دلائل درج ذیل ہیں:

  • ازدواج سنت پیغمبرؐ ہے اور امام مہدیؑ سنت پر عمل کے حوالے سے شائستہ ترین فرد ہیں، اس اعتبار سے انہوں نے غیبت کے دوران اس سنت پر عمل کیا ہے۔[10]
  • احادیث اور زیارات امام مہدیؑ کے صاحبِ اولاد ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ کتاب دانشنامہ امام مہدیؑ میں اس حوالے سے چودہ روایات جمع کی گئی ہیں۔[11] منجملہ وہ حدیث جو حدیث وصیت کے نام سے مشہور ہے کہ جس کی بنا پر امام زمانہؑ کے بعد آپ کی نسل سے بارہ مہدیؑ حکومت کریں گے۔[12] البتہ علامہ مجلسی کے بقول یہ روایات مشہور کے مخالف ہیں، اسی طرح احتمال ہے کہ بارہ مہدیؑ سے مقصود پیغمبر اور شیعہ آئمہؑ ہوں بجز حضرت مہدیؑ۔ [13] اس گروہ کی موردِ استناد دیگر احادیث میں سے ایک روایت امام صادقؑ سے ہے کہ جس میں امام مہدیؑ کی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مسجد سہلہ میں آمد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[14] حضرت مہدیؑ کے ازدواج کے نظریے سے اختلاف رکھنے والوں کے نزدیک ان احادیث کو قبول کرنے کی صورت میں امام مہدیؑ کی زوجہ اور اولاد کا تعلق ظہور کے بعد سے ہے۔[15]
  • جزیرہ خضراء میں امام زمانہؑ کے خاندان کی زندگی کے بارے میں روایت۔[16] البتہ بعض شیعہ علما نے جزیرہ خضراء کو جعلی اور جھوٹا افسانہ قرار دیا ہے۔[17]

عدم ازدواج کے قائلین

امام مہدیؑ کے ازدواج نہ کرنے کے قائلین کے دلائل درج ذیل ہیں:

  • فلسفہ غیبت سے ناسازگاری: امام مہدیؑ کی غیبت کا فلسفہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ آپ لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہیں اور ازدواج اس سے سازگار نہیں ہے، کیونکہ ازدواج کے سبب انسان پہچانا جاتا ہے۔[18]
  • وہ روایات جن سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ امام زمانہؑ کی کوئی اولاد نہیں ہے۔[19]
  • امام مہدیؑ کے وکلا اور سفرا کا اس طرف اشارہ نہ کرنا: اگر امام مہدیؑ نے ازدواج کیا ہوتا تو آپ کے سفرا اور وکیل غیبت صغریٰ کے دوران آپ کے ازدواج، زوجہ اور اولاد کا ذکر کرتے۔[20]

سکوت

جیسا کہ دانشنامہ امام مہدیؑ میں آیا ہے کہ امام زمانہؑ کا ازدواج واقع ہونے سے اتفاق اور اختلاف رکھنے والوں کے دلائل میں باہمی تعارض ہے، اس لیے ان کی طرف استناد کرتے ہوئے ایک تاریخی مسئلے پر قطعی رائے پیش نہیں کی جا سکتی۔[21] تاریخ اسلام کے محقق سید جعفر مرتضی عاملی (متوفی ۱۴۴۱ھ) کے نزدیک امام مہدیؑ کے صاحب اولاد ہونے میں تردید ہے اور اس بارے میں کسی قسم کا قطعی نقطہ نظر نہیں دیا جا سکتا۔ [22] اسی طرح مرجع تقلید آیت‌ اللہ صافی گلپائیگانی (متوفی2022ء) کے بقول اگرچہ حضرت مہدیؑ کے ازدواج کا احتمال ہے مگر کوئی ایسی معتبر حدیث جو باعثِ اطمینان ہو، اس بارے میں نہیں ملی ہے۔[23]

حوالہ جات

  1. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی (عج)، ۱۳۹۳ش، ص۵۶۔
  2. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی (عج)، ۱۳۹۳ش، ص۴۵، حوالہ2۔
  3. محدث نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۳ش، ص۴۰۲-۴۰۷۔
  4. نہاوندی، العبقری الحسان، ۱۳۸۶ش، ج۶، ص۵۳۷۔
  5. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵۳، ص۱۴۵ق۔
  6. صدر، تاریخ الغیبہ الکبری، دارالتعارف، ج۲، ص۶۴۔
  7. محدث نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۳ش، ص۴۰۳۔
  8. نہاوندی، العبقری الحسان، ۱۳۸۶ش، ج۶، ص۵۳۷۔
  9. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی (عج)، ۱۳۹۳ش، ص۴۶۔
  10. محدث نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۳ش، ص۴۰۳۔
  11. ملاحظہ کیجئے:محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی (عج)، ۱۳۹۳ش، ص۴۶-۵۱۔
  12. شیخ طوسی، الغیبۃ، ۱۴۱۱ھ، ص۱۵۰۔
  13. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵۳، ص۱۴۸-۱۴۹۔
  14. ابن‌مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۰۹ھ، ص۱۳۴-۱۳۵۔
  15. صافی گلپایگانی، پاسخ دہ پرسش، ۱۳۹۰ش، ص۵۴۔
  16. ملاحظہ کیجئے:محدث نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۳ش، ص۴۰۵۔
  17. کاشف‌الغطا، الحق المبین، ۱۳۱۹ق. ص۸۷۔
  18. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی (عج)، ۱۳۹۳ش، ج۳، ص۵۲-۵۳۔
  19. شیخ طوسی، کتاب الغیبۃ، ۱۴۱۱ھ، ص۲۲۴۔
  20. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدی (عج)، ۱۳۹۳ش، ج۳، ص۵۳۔
  21. محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدیؑ ، ۱۳۹۳ش، ج۳، ۵۵-۵۶۔
  22. عاملی، دراسة فی علامات الظہور و الجزیرة الخضراء، ۱۴۱۲ھ، ص۲۵۷ منقول از محمدی ری‌شہری، دانشنامہ امام مہدیؑ ، ۱۳۹۳ش، ج۳، ص۵۵۔
  23. صافی گلپایگانی، پاسخ دہ پرسش، ۱۳۹۰ش، ص۵۴۔

ماخذ

  • ابن‌مشہدی، محمد بن جعفر، المزار الکبیر، تصحیح جواد قیومی اصفہانی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۰۹ہجری۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، قم، مؤسسہ المعارف الاسلامیۃ، ۱۴۱۱ہجری۔
  • صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، پاسخ دہ پرسش، قم، دفتر آیت‌اللہ صافی گلپائیگانی، ۱۳۹۰شمسی۔ ‮
  • صدر، سید محمد، تاریخ الغیبۃ الکبری، دارالتعارف، بی‌تا۔
  • عاملی‌، جعفرمرتضی‌، دراسۃ فی‌ علامات‌ الظہور و الجزیرۃ الخضراء، قم‌، منتدی‌ جبل‌ عامل‌ الاسلامی‌ قسم‌ الطباعۃ و النشر، ۱۴۱۲ق‌/۱۹۹۲ء۔
  • کاشف‌الغطا، جعفر، الحق المبین فی تصویب المجتہدین و تخطئۃ الاخباریین، تہران، احمد شیرازی، ۱۳۱۹ہجری۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ہجری۔
  • محدث نوری، میرزاحسین، نجم الثاقب، قم، مسجد جمکران، ۱۳۸۳شمسی۔
  • محمدی ری‌شہری، محمد، دانشنامہ امام مہدی (عج)، قم، دارالحدیث، ۱۳۹۳شمسی۔
  • نہاوندی، علی‌اکبر، العبقری الحسان فی احوال مولانا صاحب‌الزمان(عج)، قم، نشر مسجد جمکران، ۱۳۸۶شمسی۔

متعلقہ صفحات