امام حسینؑ کا بصرہ کے خواص کے نام خط

ویکی شیعہ سے
محرم کی عزاداری
واقعات
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوطحسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تکواقعۂ عاشوراواقعۂ عاشورا کی تقویمروز تاسوعاروز عاشوراواقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میںشب عاشورا
شخصیات
امام حسینؑ
علی اکبرعلی اصغرعباس بن علیزینب کبریسکینہ بنت الحسینفاطمہ بنت امام حسینمسلم بن عقیلشہدائے واقعہ کربلا
مقامات
حرم حسینیحرم حضرت عباسؑتل زینبیہقتلگاہشریعہ فراتامام بارگاہ
مواقع
تاسوعاعاشوراعشرہ محرماربعینعشرہ صفر
مراسمات
زیارت عاشورازیارت اربعینمرثیہنوحہتباکیتعزیہمجلسزنجیرزنیماتم داریعَلَمسبیلجلوس عزاشام غریبانشبیہ تابوتاربعین کے جلوس


امام حسینؑ کا بصرہ کے خواص کے نام خط سے مراد امام حسینؑ کا وہ خط ہے جسے آپؑ نے واقعہ کربلا سے پہلے بصرہ کے بزرگ طبقہ کے نام لکھا جس میں انہیں آپؑ کے ساتھ شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ امام حسینؑ نے اس خط میں خلافت کو اہل بیتؑ کا مسلمہ حق قرار دیا ہے۔ خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ غصب خلافت کے باوجود اس خاندان نے اس لیے خاموشی اختیار کی تاکہ مسلمانوں کے مابین اتحاد کا عنصر برقرار رہے۔ امام حسینؑ نے اپنے قیام کے اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں لکھا کہ اب صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ سنت پیغمبرخدا (ص) پر عمل نہیں ہورہا اور دین میں بدعتوں کا احیاء ہورہا ہے لہذا اس کے خلاف قیام میں بصرہ کے خواص امام حسینؑ کے ساتھ شامل ہوں۔ یہ خط سلیمان بن رزین کے ساتھ ارسال کیا گیا تھا۔

بصرہ کے عام لوگوں نے امام حسینؑ کے خط کا جواب نہیں دیا اور احنف بن قیس جیسے لوگوں نے تو امامؑ کی دعوت کو قبول کرنے سے کھل کر انکار کردیا؛ یہاں تک کہ بصرہ میں اس وقت کے حاکم عبید اللہ بن زیاد کو مطلع کر کے منذر بن جارود نے امامؑ کے قاصد کی گرفتاری اور اس کی شہادت کا ماحول فراہم کیا۔

دوسری طرف یزید بن نبیط اپنے دو بیٹوں کے ساتھ امام حسینؑ کی مدد کے لیے بصرہ سے بھاگ نکلا اور کاروان حسینیؑ میں شامل ہونے کے بعد کربلا میں مرتبہ شہادت پر فائزہوگیا۔ یزید بن مسعود نَہشَلی نے بھی اپنے قبیلے کو جمع کرنے کے بعد امام حسینؑ کو خط لکھا اور آپؑ کی مدد کا وعدہ کیا۔ لیکن جب وہ عازم سفر ہونے والا تھا کہ اسے امامؑ کی شہادت کی خبر ملی۔

خط کے مندرجات

جس وقت امام حسینؑ مکہ میں قیام پذیر(سنہ 60ھ) تھے، اہالیان بصرہ کو ایک خط لکھا[1] اور انہیں اپنی مدد کے لیے بلایا۔[2] کہا جاتا ہے کہ اگرچہ بصرہ کے لوگوں نے امام حسینؑ کو خط نہیں لکھا اور نہ آپؑ کو دعوت دی لیکن امامؑ نے انہیں خط لکھا اور انہیں کتاب خدا اور سنت نبوی کو زندہ کرنے کی دعوت دی۔[3] اس خط میں امامؑ نے خلافت کو اہل بیتؑ کا مسلمہ حق قرار دیا ہے[4] اور سنت پیغمبر اسلام (ص) کو ختم کرنے اور بدعتوں کے احیاء[5] کے لیے بنی امیہ کی کوششوں[6] کا ذکر کیا۔

کتاب "اخبارالطِّوال" کے مصنف دینوری نے اس خط کا مختصر متن پیش کیا ہے، خط کے مخاطبین کے نام بتانے کے بعد امام حسینؑ نے ان سے حق کی نشانیوں کو زندہ کرنے اور بدعتوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اس صورت میں وہ لوگ راہ راست پر گامزین ہونے والوں میں سے قرار پائیں گے۔[7] طبری نے اس خط کو مزید تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے، البتہ بعض نے اس میں شک کیا ہے اور اسے راویوں کا از خود اضافہ قرار دیا ہے۔[8]

طبری کی روایت پر مبنی خط کا متن یوں ہے:

متن ترجمه
«أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ اَللَّهَ اِصْطَفَی مُحَمَّداً صَلَّی اَللَّهُ عَلَیْهِ [وَ آلِهِ] وَ سَلَّمَ عَلَی خَلْقِهِ، وَ أَکْرَمَهُ بِنُبُوَّتِهِ، وَ اِخْتَارَهُ لِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ قَبَضَهُ اَللَّهُ إِلَیْهِ وَ قَدْ نَصَحَ لِعِبَادِهِ وَ بَلَّغَ مَا أُرْسِلَ بِهِ، وَ کُنَّا أَهْلَهُ وَ أَوْلِیَاءَهُ وَ أَوْصِیَاءَهُ وَ وَرَثَتَهُ وَ أَحَقَّ اَلنَّاسِ بِمَقَامِهِ فِی اَلنَّاسِ، فَاسْتَأْثَرَ عَلَیْنَا قَوْمُنَا بِذَلِکَ، فَرَضِینَا وَ کَرِهْنَا اَلْفُرْقَه وَ أَحْبَبْنَا اَلْعَافِیَه، وَ نَحْنُ نَعْلَمُ أَنَّا أَحَقُّ بِذَلِکَ اَلْحَقِّ اَلْمُسْتَحَقِّ عَلَیْنَا مِمَّنْ تَوَلاَّهُ وَ قَدْ أَحْسَنُوا وَ أَصْلَحُوا وَ تَحَرَّوْا اَلْحَقَّ، فَرَحِمَهُمُ اَللَّهُ، وَ غَفَرَ لَنَا وَ لَهُمْ وَ قَدْ بَعَثْتُ رَسُولِی إِلَیْکُمْ بِهَذَا اَلْکِتَابِ، وَ أَنَا أَدْعُوکُمْ إِلَی کِتَابِ اَللَّهِ وَ سُنَّه نَبِیِّهِ ص فَإِنَّ اَلسُّنَّه قَدْ أُمِیتَتْ، وَ إِنَّ اَلْبِدْعَه قَدْ أُحْیِیَتْ، وَ إِنْ تَسْمَعُوا قَوْلِی وَ تُطِیعُوا أَمْرِی أَهْدِکُمْ سَبِیلَ اَلرَّشَادِ، وَ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَه اَللَّه.[9] (ترجمه )امابعد؛ خداوند عالم نے محمد (ص) کو اپنی مخلوقات میں چن لیا اور اپنی نبوت کے ذریعے انہیں اعلیٰ مرتبے کا تشخص عطا فرمایا، اپنی رسالت کے لئے انہیں منتخب کر لیا، پھرخداوند عالم نے ان کی روح کو قبض کرلیا۔ حقیقت یہی ہے کہ آن حضرت (ص) نے بندگا ن خدا کی خیر خواہی فرمائی ہے اور وہ سب کچھ پہنچایا جس چیز کے ہمراہ ان کو بھیجا گیا تھا۔ جان لو کہ ہم ان کے اہل، اولیا، اوصیاء اور وارث ہیں جو دنیا کے تمام لوگوں میں ان کے مقام و منزلت کے سب سے زیادہ مستحق ہیں لیکن ہماری ہی قوم نے ظلم وستم کر کے ہمارا حق چھین لیا۔ ہم اس پر راضی ہوگئے، ہم نے اختلاف کرنے کو بُرا عمل سمجھا اور امت کی عافیت کو پسند کیا جبکہ یہ بات ہم کو بخوبی معلوم ہے کہ اس حق کے سب سے زیادہ مستحق ہم ہی ہیں اور اب تک جن لوگوں نے حکومت کی ہے ان میں نیکی، صلح اورحق کی آزادی میں ہم ہی اولی ہیں۔ اب میں نے تمہارے پاس اپنا یہ خط روانہ کیا ہے اور میں تمہیں کتاب خدا اور اس کے نبی(ص) کی سنت کی طرف دعوت دے رہا ہوں؛ کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ پیغبرخدا(ص)کی سنت مٹ چکی ہے اور بدعتوں نے اس کی جگہ لے لی ہے، اگر تم لوگ میری باتوں کو سنو اور میری اطاعت اور پیروی کرو تو تمہیں راہ راست کی جانب ھدایت کروں گا۔ وَ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَہ اَللَّہ۔

یہ خط تاریخی دوسرے منابع و مآخذ میں بھی مندرجات کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ بیان ہوا ہے۔[10]

امام حسینؑ کا قاصد اورخط کے مخاطبین

امام حسینؑ کا یہ خط بصرہ کے خواص اور بڑی شخصیات[11] یا بصرہ میں امامؑ کے شیعوں [12] کے نام لکھا گیا تھا۔ طبری نے اس خط کے آغاز میں بصرہ کے پانچ سردار و خواص کا ذکر کیا ہے جو اس خط کے مخاطبین تھے، تاہم، متن کے ذیل میں چھ افراد کا تذکرہ کیا ہے،[13] جن کے نام بعض دیگر ذرائع میں بھی ملتے ہیں۔[14] ان چھ افراد کے نام یہ ہیں: مالک بن مسمع بکری، احنف بن قیس، منذر بن جارود، مسعود بن عمرو، قیس بن ہیثم، عمرو بن عبید اللہ بن معمر۔ البتہ دیگر تاریخی منابع میں یزید بن مسعود نہشلی کا ذکر بھی آیا ہے۔[15]

بعض علما کہتے ہیں کہ امام حسینؑ نے مذکورہ لوگوں کو الگ الگ متن پر مشتمل خط ارسال کیا ہے۔[16] چنانچہ بعض تاریخی منابع میں آیا ہے کہ امام حسینؑ نے مذکورہ افراد میں سے بعض کے نام خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی۔[17]

اس خط کا قاصد کون تھا؟ اس سلسلے میں مختلف نام لیے گئے ہیں؛ چنانچہ بعض مورخین نے سلیمان[18] یا سلمان[19] کا نام لیا ہے جس کا لقب «ابورزین» بتایا گیا ہے۔[20] کہتے ہیں کہ ابو زرین امام حسینؑ کا آزاد کردہ غلام تھا۔[21] امامؑ کی طرف سے خط پہنچانے کی ذمہ داری ملتے ہی اس نے خود کو جلد از جلد کوفہ پہنچانے کی سرتوڑ کوشش کی۔[22] بعض تاریخی مآخذ میں ذراع سدوسی کو امام حسینؑ کے قاصد کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔[23]

خواص بصرہ کا رد عمل

امام حسینؑ کا خط موصول ہونے کے بعد بصرہ کے خواص رد عمل کے بارے میں مختلف اطلاعات تاریخ میں ملتی ہیں۔ عام لوگوں نے امام حسینؑ کو کوئی مثبت جواب نہیں دیا حتی کہ بعض نے اس معاملے کو حاکمِ بصرہ پر چھوڑدیا؛ لیکن دوسری طرف کچھ لوگوں نے امامؑ کی دعوت کو قبول کیا اور آپؑ سے ملحق ہوگئے۔

خط کو فاش کرنا اور قاصد کی گرفتاری

تاریخی مآخذ کے مطابق امام حسینؑ کا خط موصول ہونے کے بعد بصرہ کے خواص نے اسے چھپا دیا۔[24] لیکن منذر بن جارود، جس کی بیٹی عبید اللہ بن زیاد کی بیوی تھی،[25] یہ خط عبید اللہ کے پاس لے گئی۔[26] اس وقت عبید اللہ یزید کی طرف سے بصرہ کا گورنر تھا؛ یزید نے کوفہ کے نازک حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے اس شہر کی گورنری سونپ دی تھی۔[27] علم تاریخ کے محقق باقر شریف قرشی (متوفی: 1433ھ) کے مطابق منذر نے گورنر کی اطاعت کا اعزاز حاصل حاصل کرنے کے لیے امام حسینؑ کا خط عبید اللہ کے حوالے کیا۔[28]

تاریخی دوسرے ذرائع کے مطابق اسے خدشہ تھا کہ یہ خط عبید اللہ کی طرف سے ایک سازش تھا[29] اور اس کی وفاداری کا امتحان لینا مقصود تھا۔[30] خط دیکھ کر ابن زیاد غصے میں آگیا اور اس نے قاصد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔[31] امامؑ کے قاصد کو، جو شیعوں کے درمیان کہیں چھپا ہوا تھا،[32]کو منذر[33]یا دیگر کچھ لوگوں[34] نے گرفتار کر لیا اور عبید اللہ کے پاس لے گیے۔ عبید اللہ بن زیاد نے قٓاصد کا سر تن سے جدا کر دیا اور اس کی لاش کو لٹکا دیا۔[35] وہ فوراً شہر کی جامع مسجد گیا اور منبر پر چڑھ کر[36] لوگوں کو اپنی مخالفت کرنے سے خبردار کیا اور کوفہ جانے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کرتے ہوئے اپنے بھائی عثمان کو اپنا جانشین مقرر کیا۔[37]

منفی جواب

امام حسینؑ کے خط کے مخاطبین میں سے ایک احنف بن قیس نے امامؑ کے جواب میں سورہ روم کی آیت 60(فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَ لا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذينَ لا يُوقِنُونَ) سے استناد کرتے ہوئے مختصر جواب یوں لکھا: صبر و ثبات سے کام لیں۔ بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ (آپ(ص) کو) (جوش دلا کر) بے برداشت نہ کردیں۔[38] اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاگیا ہے کہ وہ لوگ امام حسینؑ کی مدد سے انکاری ہیں اور امام کو قیام شروع کرنے کے لیے لوگوں پر بھروسہ کرنے کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔[39]

امام حسینؑ کا ساتھ دینے کی کوشش کرنا

کہتے ہیں کہ بصرہ کے بعض خواص مثلاً یزید بن ثبیط عبدی نے اس کے باوجود کہ عبید اللہ بن زیاد نے حکم دیا تھا کہ بصرہ سے کوفہ کی طرف نکلنے والے سارے راستوں کو بند کر دیا جائے تاکہ کوئی امامؑ کی مدد کو نہ پہنچے، وہ اپنے دونوں بیٹوں عبد اللہ اور عبید اللہ کے ساتھ بصرہ سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ باپ بیٹے تینوں مکہ میں امامؑ سے ملحق ہوگئے اور کربلا میں شہید ہوئے۔[40]

بصرہ کے کچھ دیگر خواص جیسے یزید بن مسعود نے امام حسینؑ کا خط موصول ہوتے ہی بنی تمیم، بنی حنظلہ اور بنی سعد کے قبائل کو جمع کیا اور انہیں امام حسینؑ کی دعوت کے بارے میں آگاہ کیا اور اس سلسلے میں ان سے مشورہ مانگا ساتھ ہی انہیں بتایا گیا کہ وہ خود امامؑ کی مدد کے لیے تیار ہے۔

سوائے بنی سعد کے، جس نے مشاورت کے لیے مہلت مانگی، سب نے فوراً اپنی تیاری کا اعلان کردیا۔ یزید بن مسعود نے امام حسینؑ کو خط لکھا جس میں اپنے اور اپنے قبیلے کی امام کی مدد کے لیے تیار ہونے کی اطلاع دی۔ یہ خط موصول ہوتے ہی امام حسینؑ نے یزید بن مسعود کے حق میں دعا کی۔[41] البتہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ خط امام حسینؑ کو 10 محرم کو موصول ہوا جس وقت امامؑ کے اصحاب و اہل بیت شہید ہوگئے تھے۔[42] جب یزید بن مسعود امامؑ کی مدد کو جانے کے لیے تیار ہوا تو اسے امام کی شہادت کی خبر ملی، اس پر اسے انتہائی افسوس ہوا اور بے صبری کا اظہار کیا۔[43]

اہداف امام حسینؑ

بعض مصنفین کے مطابق اگرچہ امام حسینؑ کے خط میں مذکورافراد میں سے کسی نے بھی امامؑ کو مناسب جواب نہیں دیا [44] اور ان کے سیاسی نظریات اہل بیتؑ کی سیرت سے متصادم تھے،[45] اس کے باوجود امامؑ نے ان کو خط لکھا؛ امامؑ کے درج ذیل مقاصد تھے:

  • بڑی شخصیات اور خواص کے ذریعے عوام اور عام لوگوں کو قیام سے آگاہ کرنا اور انہیں اس طرف بلانا؛
  • بصرہ کے لوگوں پر اتمام حجت کرنا اور امام حسینؑ کے قیام کے بارے میں علم نہ ہونے کے عذر کو ختم کرنا؛
  • ان خواص کو دشمن کی صفوں میں شامل ہونے روکنا جو امامؑ کی مدد کے سلسلے میں دو دلی کے شکار تھے؛
  • بصرہ میں اہل بیتؑ کے ماننے والوں کو قیام کے آغاز کے بارے میں معلومات فراہم کرنا، جیسے یزید بن مسعود نہشلی اور دیگر افراد۔[46]

حوالہ جات

  1. سماوی، ابصار العین، ۱۴۱۹ھ، ص۹۴.
  2. ابن طاووس، اللہوف، ۱۳۴۸شمسی، ص۳۸.
  3. قرشی، حیاہ الامام الحسین(ع)، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۲۲–۳۲۳.
  4. قرشی، حیاة الإمام الحسین(ع)، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۲۲.
  5. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۲، ص۷۸.
  6. قرشی، حیاة الإمام الحسین(ع)، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۲۲.
  7. دینوری، اخبارالطوال، ۱۳۶۸شمسی، ص۲۳۱.
  8. ابن‌ کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ھ، ج۸، ص۱۵۸.
  9. طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۷.
  10. مقرم، مقتل الحسین، ۲۰۰۷ء، ص۱۴۱-۱۴۲؛ ابو مخنف، وقعہ الطف، ۱۴۱۷ھ، ص۱۰۷.
  11. طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۷.
  12. دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸شمسی، ص۲۳۱.
  13. طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۸.
  14. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۳۷.
  15. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۵۹۰.
  16. طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۷؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۵۹۰.
  17. دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸شمسی، ص۲۳۱.
  18. طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۷؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۳۷.
  19. دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸شمسی، ص۲۳۱؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ھ، ج۸، ص۱۵۷.
  20. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۵۹۰؛ قرشی، حیاہ الإمام الحسین(ع)، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۲۳.
  21. ابن طاووس، اللہوف، ۱۳۴۸شمسی، ص۳۸.
  22. قرشی، حیاہ الإمام الحسین(ع)، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۲۳.
  23. امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۵۹۰.
  24. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۲، ص۷۸؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۳۷؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۷.
  25. مقرم، مقتل الحسین، ۲۰۰۷ء، ص۱۴۲؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۵۹۰.
  26. بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۲، ص۷۸.
  27. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۵۷.
  28. قرشی، حیاۃ الإمام الحسین(ع)، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۲۳.
  29. طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۷-۳۵۸.
  30. قرشی، حیاہ الإمام الحسین(ع)، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۲۳-۳۲۴
  31. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۳۷.
  32. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۳۷.
  33. طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۷-۳۵۸؛ مقرم، مقتل الحسین، ۲۰۰۷ء، ص۱۴۲.
  34. دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸شمسی، ص۲۳۱.
  35. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۳۷؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۵۹۰.
  36. دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸شمسی، ص۲۳۲
  37. طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۸؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۲، ص۷۸.
  38. مقرم، مقتل الحسین، ۲۰۰۷ء، ص۱۴۲؛ قرشی، حیاہ الإمام الحسین(ع)، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۲۳.
  39. جمعی از نویسندگان، مع الرکب الحسینی، ۱۴۲۸ھ، ج۲، ص۳۵۷.
  40. طبری، تاریخ طبری، ۱۹۶۷ء، ج۵، ص۳۵۳-۳۵۴؛ مقرم، مقتل الحسین، ۲۰۰۷ء، ص۱۴۴.
  41. ابن طاووس، اللہوف، ۱۳۴۸شمسی، ص۳۸-۴۴؛ مقرم، مقتل الحسین، ۲۰۰۷ء، ص۱۴۲-۱۴۴.
  42. قرشی، حیاہ الإمام الحسین(ع)، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۲۷.
  43. ابن طاووس، اللہوف، ۱۳۴۸شمسی، ص۴۴؛ مقرم، مقتل الحسین، ۲۰۰۷ء، ص۱۴۴.
  44. جمعی از نویسندگان، مع الرکب الحسینی، ۱۴۲۸ھ، ج۲، ص۳۶۱.
  45. جمعی از نویسندگان، مع الرکب الحسینی، ۱۴۲۸ھ، ج۲، ص۳۶۱-۳۶۳.
  46. جمعی از نویسندگان، مع الرکب الحسینی، ۱۴۲۸ھ، ج۲، ص۳۶۳-۳۶۴.

مآخذ

  • ابن اعثم، احمد، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۱۱ھ۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، اللہوف علی قتلی الطفوف‏، تہران، جہان، ۱۳۴۸ہجری شمسی۔
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ھ۔
  • ابومخنف، لوط بن یحیی، وقعہ الطف، تحقیق محمدہادی یوسفی غروی، قم، ‏جامعہ مدرسین‏، چاپ سوم، ۱۴۱۷ھ۔
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، تحقیق حسن امین، بیروت، دار التعارف، ۱۴۰۳ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، مع الرکب الحسینی‏، قم، تحسین، چاپ دوم، ۱۴۲۸ھ۔
  • دینوری، احمد بن داود، اخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر و جمال الدین شیال، قم، منشورات رضی، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • سماوی، محمد بن طاہر، ابصار العین فی أنصار الحسین(ع)، قم، دانشگاہ شہید محلاتی‏، ۱۴۱۹ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، چاپ دوم، ۱۹۶۷ء۔
  • قرشی، باقر شریف، ‏حیاہ الامام الحسین(ع)، قم، ‏مدرسہ علمیہ ایروانی‏، چاپ چہارم، ۱۴۱۳ھ۔
  • مسعودی، علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجرہ، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
  • مقرم، عبدالرزاھ، مقتل الحسین(ع)، بیروت، مؤسسہ الخرسان للمطبوعات‏، ۲۰۰۷ء۔