اسپائیکر قتل عام

ویکی شیعہ سے
اسپائیکر چھاونی کا ہولناک قتل عام
اسپائیکر قتل عام کی ایک نقاشی
اسپائیکر قتل عام کی ایک نقاشی
واقعہ کی تفصیلداعش کا عراق کے شہرِ تکریت پر حملہ
زمانجون سنہ 2014ء
مکانعراق، شہر تکریت، اسپائیکر چھاونی
مقاصدعراقی شیعوں کا قتل عام
عناصرعراقی بعث پارٹی کے باقیماندہ لوگ، داعش فورسز، بعث پارٹی کے وفادار عرب، عراق کے معدوم ڈیکٹیٹر صدام حسین خاندان کے بعض لوگ
نقصانات1700 شیعہ کا قتل عام


اسپائیکر چھاونی میں قتل عام، عراق میں داعش کے ہاتھوں شیعوں کا قتل عام ہے۔ یہ واقعہ جون سنہ2014ء میں پیش آیا۔ اس قتل عام میں داعش کے دہشتگروں نے تقریبا 4,000 عراقی فوجیوں کو اسیر کیا اور ان میں سے صرف شیعوں کو چن کر قتل کر دیا۔ عراق کی بعث پارٹی کے وفادار عرب اور عراق کے سابق صدر صدام حسین خاندان کے لوگوں پر اس قتل عام میں داعش کے ساتھ تعاون کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ داعش کے کارکنوں نے شیعوں کا قتل عام کرنے کے بعد بعض مقتولین کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کردیا؛ کچھ کو دریائے دجلہ میں پھینک دیا اور موصولہ اطلاعات کے مطابق، قیدیوں کے ایک گروہ کو زندہ درگور کر دیا۔ داعشی کارکنان اس قتل عام کے ہولناک مناظر کو ویڈیو فلم بنا کر پوری دنیا میں نشر کرتے تھے۔ شہر تکریت کا یہ تباہ کن اور انسانیت سوز واقعہ عراق میں حشد الشعبی(عوامی رضاکار فورس) تشکیل دینے کا سبب بنا۔ اس واقعے کے بعد عراقی حکومت کو مقتولین کی بہت سی اجتماعی قبریں ملی ہیں۔ اس واقعے کے متعدد مجرموں کو گرفتار کیا گیا؛ بعض کو پھانسی اور دیگر مجرموں کو قید کی سزائیں سنائی گئیں۔

اہمیت و مقام

اسپائیکر چھاونی کے قتل عام کو داعش کے کارکنوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا قتل عام قرار دیا ہے۔ بعض ذرائع اس واقعہ کو 11ستمبر کے حملوں کے بعد دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ قرار دیتے ہیں۔[1] بعض دیگر ذرائع اس قتل عام کو شیعہ نسل کشی کے طور پر ثبت و ضبط کرنے کے درپے ہیں۔[2] اس قتل عام میں ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد یورپ میں داعش کی دہشت گردانہ کاروائیوں میں مارے گئے لوگوں کی کل تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔[3] اس انسانیت سوز واقعے میں 4000 قیدیوں میں سے 2500 افراد قتل کردیے گئے ہیں؛[4] یہ تعداد موصولہ اطلاعات کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔[5]

واقعہ

صدارتی محل اور اسپائیکر چھاونی میں بے گناہ لوگوں کی پھانسی، داعش کی طرف سے شائع کردہ تصاویر، جو اسپائیکر قتل عام کے نام سے مشہور ہے

اس قتل عام سے جان بچ کر آنے والے ایک عینی گواہ کے مطابق، 11جون2014ء کو رات 10 بجے دو صوبوں موصل اور صلاح الدین پر داعش کے قبضے کے باوجود، تقریباً تین ہزار افراد کو صوبہ صلاح الدین میں عراق کے سب سے بڑے فضائی اڈہ اسپائیکر بیس پر منتقل کیا گیا۔ بیس کمانڈر کے حکم کے مطابق اگلے دن سے تمام لوگوں کو 15دن کی چھٹی دی جانے کے بہانے سے چھاونی سے نکالے گئے۔ فوجیوں کے اڈے سے نکلنے کے تھوڑی ہی دیر کے بعد، ان تمام لوگوں کو داعش کے مسلح کارکنوں نے اسیر کرلیا۔ انہیں تکریت میں صدارتی محل منتقل کیے گئے۔ محل میں طویل تفتیش اور پوچھ گچھ کے بعد شیعہ فوجیوں کو غیر شیعہ فوجیوں سے الگ کیا گیا اور شیعوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ باقی لوگ داعش کی شرعی عدالت کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے۔[6] واقعے میں زندہ بچ جانے والے ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ چھاونی میں موجود فوجیوں کے نکلنے کی وجہ 3000فوجیوں کا بیس سے فرار تھی جنہیں بالآخر 50 داعشیوں نے گرفتار کرلیا۔[7] بعض دیگر ذرائع کے مطابق چھاونی کے فوجیوں کو صدارتی محل تک لے جانے والے مسلح گروہ کا تعلق علاقے کے عشائری قبیلے سے تھا؛ انہوں نے قیدیوں کو صدارتی محل میں داعشی کارکنوں کے حوالے کر دیا۔[8] داعشی‌ها در 22 خرداد 1393ہجری شمسی، باند پایگاه اسپایکر را اشغال کردند.[9] اس کے بعد حکومتی فورس کی داعشیوں کے ساتھ جھڑپ شروع ہوئی۔[10]

عرب قبائل نے صدارتی محل میں گرفتار فوجیوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے غرض سے ایک اجلاس منعقد کیا اور یہ دلیل پیش کرتے ہوئے کہ عراق میں جلد ہی بعثی حکومت قائم ہوگی، انہوں نے عراق میں شیعہ آبادی کو کم کرنے کے لیے شیعوں کا قتل عام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے مطابق 12 جون2014ء کو قیدی شیعوں کا قتل عام شروع ہوا۔ 13جون کو داعش کے کارکنان صدارتی محل میں داخل ہوئے اور عرب قبائل نے قیدیوں کو داعش کے حوالے کر دیا۔ داعش کے کمانڈروں نے ایک شرعی عدالت قائم کی؛ عدالت نے سارے شیعوں کو موت کی سزا سنا دی۔ اہل سنت میں سے جنہوں نے توبہ کی انہیں چھوڑ دیا گیا۔[11]

داعش کے کارکنان فوجیوں کے اجتماعی قتل کی ویڈیو فلم بنا کر اسی وقت آنلائن شئیر کرتے رہے۔ فوجیوں کو دریائے دجلہ کے کنارے لے جاکر سر میں گولیاں مار کر ان کی لاشیں دریابرد کی گئیں۔ دیگر مقامات پر بھی فوجیوں کو ان کے ہاتھ باندھ کر گولیاں ماری گئیں۔[12] سپاہیوں میں سے ایسے لوگ جو داعش کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے تھے، بالآخر عرب قبیلوں کے فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور مارے جاتے تھے۔[13] داعش کے کارکنان مقتولین کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کرتے تھے۔[14] بعض قیدیوں کو زندہ درگور کرتے تھے۔[15] عراقی ایک خبر رساں ایجنسی کے مطابق 18مارچ سنہ2018ء تک مقتولین میں سے 1150افراد کی لاشیں پیدا کی جاچکی ہیں۔[16]

نقصانات

صوبہ صلاح الدین کے اسپائیکر چھاونی سے داعش کے ہاتھوں اسیر کیے جانے والے سپاہیوں کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اخباری ذرائع کی جانب سے نشر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 1,700 سے لے کر 4,000 غیر مسلح زیر تربیت سپاہی سقوط اسپائیکر کے وقت اس چھاونی میں موجود تھے۔[17] لیکن خود داعشیوں کے اعلان کے مطابق قتل عام کے اس سانحے میں 1700 شیعہ قتل کیے گئے ہیں۔[18] انسانی حقوق کے لئے سرگرم تنظیم "ہیومن رائٹس واچ" نے اس حملے کے مقتولین کی کل تعداد 2,134 بتائی ہے۔ [19]

نتائج

اسپائیکر قتل عام کے برسوں بعد بھی تکریت کے مختلف علاقوں سے مقتولین کی لاشیں برآمد کی جاتی رہیں

مقتولین کی لاشیں

مارچ 2015ء میں تکریت کی داعش سے آزادی کے بعد، اسپائیکر قتل عام کے مقتولین کی درجنوں اجتماعی قبریں دریافت کی جاچکی ہیں۔[20] 10جون 2015ء تک اسپائیکر چھاونی کے مقتولین میں سے 597 افراد کی لاشیں[21] اور دریائے دجلہ کے کنارے سے 80 مقتولین کی لاشیں دریافت کی جاچکی ہیں۔[22] اسپائیکر سانحے کے مقتولین کی اب تک دریافت ہونے والی سب سے بڑی اجتماعی قبر سے 400 لاشیں دریافت کی گئی ہیں۔[23]

ملزمان

بعض لوگوں کے کہنے اور کچھ لوگوں کی گواہی کے مطابق تکریت علاقے کے عشائری قبیلہ اور بعثی پارٹی کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے فوجی حکام نے داعش کے ساتھ تعاون کیا۔[24] عشائری قبیلہ اور القاعدہ سے وابستہ ایک گروہ،[25] اسی طرح صدام حسین خاندان کے باقیماندہ لوگوں پر اس جرم میں حصہ لینے کا الزام ہے۔[26]

27 اگست سنہ2014ء کو عراقی حکومت نے اس قتل عام کے مرتکب افراد کی شناخت کے لیے «مجموعة الثأر لشهداء سبایکر» کے نام سے ایک خصوصی سکیورٹی فورس تشکیل دینے کا اعلان کیا۔[27] 25جنوری سنہ 2015ء میں اس قتل عام کے 30 ملزمان گرفتار کیے گیے۔[28]چند ماہ بعد اس مقدمے کے مدعا علیہان کے برخلاف پہلا عدالتی فیصلہ جاری کیا گیا اور 9 جون 2015ء کو ان مدعا علیہان میں سے 24 افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔[29] اس کے بعد کے مہینوں اور سالوں میں بھی، اسی طرح سنہ2020ء تک کئی بار اس سانحے کے چند ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور ان کے خلاف عدالتی فیصلے کیے جانے کی خبریں مختلف ذرائع سے شائع ہوئی ہیں۔[30]

اقدامات

عراقی خبر رساں ایجنسی "صوت العراق" (وائس آف عراق) کے مطابق، الصدر تحریک کے رہنما سید مقتدی صدر نے جون 2014ء میں اسپائیکر واقعہ کے بعد، کئی دوسرے ملیشیا گروپس کے انضمام سے "سرایا السلام" کے نام سے ایک فوج تشکیل دی۔[31]

اس واقعہ کے بعد شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سید علی سیستانی نے داعش کے خلاف جہاد کا فتوا صادر کیا۔ عراقی عوام اسپائیکر کے خون آشام واقعے کو عراق میں حشد شعبی(عوامی رضا کار فورس) کی تشکیل کا اصل محرک قرار دیتے ہیں۔[32]شیعہ حقوق کی عالمی تنظیم واچ نے اسپائیکر قتل عام کے دن کو "عالمی شیعہ حقوق کا دن" کے نام سے موسوم کیا ہے۔[33]

فن اور ذرائع ابلاغ

اسپائیکر قتل عام کی دستاویزی فلمیں بنائی گئی ہیں، جیسے ام قصی نامی عراقی خاتون نے جنگ کی یادداشتیں کے عنوان سے فلم بنائی ہے،[34] «داعش، پیرس سے اسپائیکر تک»[35] اور ایک طویل دستاویزی فلم "یہاں وقت رک گیا" کے نام سے فطرس میڈیا نے تیار کی ہے۔[36]

حوالہ جات

  1. Rubin. "Massacre Claim Shakes Iraq". The New York Times.
  2. «کشتار پادگان اسپایکر، نسل‌کشی علیه شیعیان»، پایگاه خبری دیدبان شیعه.
  3. «فیلم داعش، از پاریس تا اسپایکر»، خبرگزاری بین‌المللی قرآن.
  4. کرم‌زاده و مرادیان، «بررسی مبانی رعایت قواعد بشردوستانه توسط گروه‌های غیردولتی»، پژوهش تطبیقی حقوق اسلام و غرب. 1395ہجری شمسی.
  5. «حقیقة مجزرة سبایکر»، صوت العراق.
  6. «شاهد عیان یروی ما حدث لیلة سقوط سبایکر»، المدی پرس.
  7. «Escaping Death in Northern Iraq". the new york times.
  8. «حقیقة مجزرة سبایکر»، صوت العراق.
  9. «IS-led Militants Storm Iraqi Air Base near Tikrit". naharnet.
  10. «IS-led Militants Storm Iraqi Air Base near Tikrit". naharnet; "The Iraqi Army’s Alamo: Standoff in Tikrit". thedailybeast.
  11. «حقیقة مجزرة سبایکر»، صوت العراق.
  12. «نبش‌قبر گورهای دسته جمعی»، خبرگزاری دویچه وله.
  13. «حقیقة مجزرة سبایکر»، صوت العراق.
  14. «نبش قبر بقایای اجساد 600 قربانی اسپایکر»، خبرگزاری صدای آمریکا.
  15. «سبایکر، محنة وطن»، صوت العراق؛ «عمار حکیم خواستار گنجاندن کشتار اسپایکر در کتب درسی»، خبرگزاری شفقنا.
  16. «IS-led Militants Storm Iraqi Air Base near Tikrit". naharnet.
  17. کرم‌زاده و مرادیان، «بررسی مبانی رعایت قواعد بشردوستانه توسط گروه‌های غیردولتی»، پژوهش تطبیقی حقوق اسلام و غرب. 1395ہجری شمسی؛ شهبازی، «شواهد کینه‌توزی داعش»، مطالعات منطقه‌ای، 1395ہجری شمسی، ص 37؛ «روایت روزی که دجله به خون نشست»، خبرآنلاین.
  18. «Iraqi teams exhume mass graves of soldiers in Tikrit". BBC news; "Escaping Death in Northern Iraq". the new york times.
  19. «چهارمین سالروز فاجعه اسپایکر»، خبرگزاری ابنا.
  20. «درخواست برای بازگشایی پرونده کشتار اسپایکر درعراق»، خبرگزاری مشرق.
  21. «نبش قبر بقایای اجساد 600 قربانی اسپایکر»، خبرگزاری صدای آمریکا.
  22. «کشف 80 جسد از قربانیان کشتار اسپایکر»، پارس نیوز.
  23. «کشف 470 جسد در گورهای جمعی در تکریت»، خبرگزاری دویچه وله.
  24. «ذکری خیانة فلول البعث و حاضنتهم بتسلیم الموصل»، صوت العراق؛ «بازداشت عامل کشتار اسپایکر با آرایش زنانه»، خبرگزاری آوا.
  25. «ارسال پرونده کشتار اسپایکر به حقوق بشر سازمان ملل»، سازمان دفاع از قربانیان خشونت.
  26. «مجزرة سبایکر»، الوسیط.
  27. «اعتقال أربعة من المشتبه بمشارکتهم فی جریمة سبایکر جنوبی کرکوک»، السومریه.
  28. «30 متهم کشتار «اسپایکر» عراق دستگیر شدند»، برگزاری انتخاب.
  29. «Iraqi court sentences 24 to death over Speicher massacre". middleeastmonitor.
  30. «القبض علی أخطر المشارکین بمجزرة سبایکر»، صوت العراق؛ «درخواست برای بازگشایی پرونده کشتار اسپایکر درعراق»، خبرگزاری مشرق.
  31. «الحشد الشعبی ومستقبل العراق»، صوت العراق.
  32. «ISIS releases footage of Tikrit massacre". alarabiya; "Iraq hangs 36 men convicted over Speicher massacre". The guardian.
  33. «روز جهانی حقوق شیعیان»، سازمان جهانی دیدبان حقوق بشر.
  34. « «خاطرات خبرنگار جنگ» از مقابله جسورانه با داعشی‌ها»، باشگاه خبرنگاران جوان؛ «مستند خاطرات خبرنگار جنگ دربارهٔ واقعه کشتار اسپایکر»، بسیج نیوز.
  35. «فیلم داعش، از پاریس تا اسپایکر»، خبرگزاری بین‌المللی قرآن.
  36. «تولید 32 عنوان فیلم مستند»، شفقنا.

مآخذ