التفسیر و المفسرون (کتاب)

ویکی شیعہ سے
التفسیر و المفسرون
مشخصات
مصنفمحمد ہادی معرفت
زبانعربی
تعداد جلد2
طباعت اور اشاعت
ناشردفتر نشر دانشگاہ علوم اسلامی رضوی


التَفسیر وَ المُفَسِّرون فی ثَوبِہ القَشیب آیت اللہ معرفت (1349-1427ھ) کی عربی زبان میں تالیف کی گئی کتاب ہے۔ یہ کتاب علم تفسیر میں شیعہ اصول و مبانی کے دفاع اور جامعہ الازہر کے استاد محمد حسین ذہبی کی کتاب التفسیر و المفسرون کے جواب میں لکھی گئی ہے۔

کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے؛ پہلی جلد میں تفسیر و تأویل کی تعریف کے علاوہ، تفسیر کی اقسام، پیغمبر اکرمؐ، صحابہ کرام و تابعین کے دور میں تفسیر کی تاریخ اور قرآن کریم کی تفسیر میں اہل بیت کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسری جلد میں تفسیر روائی کی تشریح کرتے ہوئے تفسیر نقلی میں جعلیات اور اسرائیلیات پر تحقیقانہ بحث کی گئ ہے۔ اس کے علاوہ اس جلد میں شیعہ و اہل سنت کی اہم روائی تفاسیر کا تعارف بھی کیا گیا ہے۔

معاصر محققین نے اس کتاب کی خصوصیات کی طرف اشارے کئے ہیں جن میں تفسیر میں شیعہ اصول و مبانی کا دفاع، معتبر و کثیر منابع سے استفادہ، اسرائیلیات پر خاص توجہ دینا اور نوآوری وغیرہ شامل ہیں۔ البتہ ان خصوصیات کے ساتھ بعض نقائص بھی ذکر کئے گئے ہیں، اس سلسلے میں مصر و یمن کے مختلف تفسیری مکاتب فکر کا تذکرہ نہ کرنا اس کتاب کے اہم نقائص میں شمار کیا جاتا ہے۔

مصنف

تفصیلی مضمون: محمد ہادی معرفت

آیت اللہ محمد ہادی معرفت (1349-1427ھ) شیعہ حدیث‌ شناس، فقیہ اور مفسر قرآن کریم ہیں۔[1] آپ نے کتاب التفسیر والمفسرون کے علاوہ بھی قرآن کریم کے بارے میں متعدد کتابیں تحریر کی ہیں من جملہ ان میں التمہید فی علوم القرآن،[2] التفسیر الأثری الجامع،[3] شبہات و ردود حول القرآن[4] اور صیانۃ القرآن من التحریف کا نام لیا جا سکتا ہے۔[5] آپ فقہ و اصول فقہ میں بھی صاحب تالیف ہیں۔[6]

مضامین

التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب علوم قرآن میں لکھی گئی کتاب ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے مقدمہ میں کتاب کا مقصد اور اس کی خصوصیات ذکر کی گئی ہیں۔[7] خود مصنف کی تصریح کے مطابق یہ کتاب جامعہ الازہر مصر کے استاد محمد حسین ذہبی کی کتاب التفسیر و المفسرون اور عبد الحلیم نجار کی کتاب مذاہب التفسیر الإسلامی کے جواب میں لکھی گئی ہے چونکہ آیت اللہ معرفت کے مطابق ان کتابوں میں اسلام اور تشیع کے خلاف غیر واقع مطالب تحریر کئے گئے ہیں۔[8]

کتاب کی پہلی جلد کے تین ابواب میں تفسیر کی تعریف، شرایط اور اقسام کے علاوہ تفسیر کا تأویل کے ساتھ رابطہ اور قرآن کریم کے انداز سے متعلق بحث کی گئی ہے۔[9] اس جلد کے دوسرے تین ابواب میں تفسیر قرآن کی تاریخ کے ضمن میں پیغمبر اکرمؐ، صحابہ کرام اور تابعین کے دور میں قرآن کی تفسیر پر بحث کرتے ہوئے اس سلسلے میں اہلبیتؑ کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔[10] اس جلد کی آخری اور ساتویں فصل تابعین کے بعد کے مشہور مفسرین کے بارے میں ہے۔[11] اس فصل کا خاتمہ کتاب کی دوسری جلد کے شروع میں موجود ہے۔[12]

اس کتاب کی دوسری جلد دو حصوں پر مشتمل ہے؛[13] پہلا حصہ تفسیر اثری یا نقلی کے بارے میں ہے جس میں مصنف نے تفسیر کی اس قسم میں موجود خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے جعلیات اور اسرائیلیات پر محققانہ گفتگو کی ہے اور اس حصے کے آخر میں تیسری صدی سے اب تک کی شیعہ اور اہل سنت مشہور روائی تفاسیر کا تعارف کیا گیا ہے۔[14] اس جلد کا دوسرا حصہ اجتہادی، فقہی، علمی، ادبی، لغوی، ترتیبی، موضوعی، اجتماعی اور عرفانی تفسیر کے طریقہ کار پر مشتمل ہے۔[15]

خصوصیات اور نقائص

وسیع منابع کا استعمال، نئے مطالب پر مشتمل ہونا، تشیع کا دفاع اور اسرائیلیات پر توجہ دینا اس کتاب کی بعض خصوصیات جبکہ مختلف مناطق کے تفسیری مکاتب پر توجہ نہ دینا اور مدینے میں علم تفسیر کے حوالے سے کی گئی ائمہ معصومینؑ کی کوششوں کا تذکرہ نہ کرنا اس کے نقائص میں شمار کیا گیا ہے جنکی تفصیل درج ذیل ہیں:

معتبر اور وسیع منابع سے استفادہ: آیت اللہ معرفت نے اس کتاب کی تصنیف میں 500 سے بھی زیادہ علوم قرآن اور تاریخی منابع اور دائرۃ المعارف‌ سے استفادہ کیے ہیں۔[16]

نئے مطالب پر مشتمل ہونا: اس کتاب میں شامل نئے مطالب اور جدید نظریات،[17] میں تأویل اور اس کا ضابطہ، تفسیر قرآن میں اہل بیتؑ کا کردار اور روش تفسیر کو اجتہادی اور اثر میں تقسیم‌ کرنا شامل ہیں۔[18]

اسرائیلیات پر توجہ دینا: جعلی احادیث جو شیعہ اور اہل سنت روائی تفاسیر کے آفتوں میس سے ایک ہے پر خاص توجہ دینا اس کتاب کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔[19]

علوم قرآن میں شیعوں کی پہلی مستقل کتاب: کتاب التفسیر والمفسرون تفسیر اور علوم قرآن میں شیعوں کی پہلی مستقل کتاب ہے؛ کیونکہ اس سے پہلے اس سلسلے میں موجود مطالب پراکندہ اور غیر منظم تھے۔[20]

تشیع سے دفاع: اس کتاب کی ایک اہم خصوصیات میں سے ایک تشیع کا دفاع ہے؛ کیونکہ آیت اللہ معرفت نے اس کتاب کو جامعہ الازہر مصر کے استاد محمد حسین ذہبی کی کتاب "التفسیر و المفسرون" کے جواب میں اور تفسیر میں شیعہ مکتب کی دفاع میں تحریر کیں ہیں۔[21] محمد حسین ذہبی نے اپنی کتاب میں علم تفسیر میں شیعہ اصول و مبانی پر تنقید کرتے ہوئے مشہور شیعہ تفاسیر من جملہ مرآۃ الانوار، مجمع البیان، الصافی فی القرآن اور تفسیر امام حسن عسکری(ع) پر تنقید کی تھی۔ بعض محققین کے مطابق اس کی یہ تنقیدیں غیر منصفانہ اور تعصب کی بنا پر تھیں۔[22]

اس کتاب کے بعض نقائص:

تمام تفسیری مکاتف فکر پر مشتمل نہ ہونا: آیت اللہ معرفت نے تفسیری مکاتب کے اعداد و شمار میں صرف مکہ، مدینہ، کوفہ، شام اور بصرہ کے مفسروں پر اکتفا کئے ہیں اور مصر اور یمن کے تفسیری مکاتب کا نام تک نہیں لیے ہیں۔[23]

مدینے میں اہل بیتؑ کی موجودگی کی طرف اشارہ نہ کرنا: کتاب التفسیر و المفسرون، میں اہل بیتؑ کا مدینے میں موجودگی اور اس عرصے میں قرآن سے متعلق مسائل میں ان کے کردار کی طرف کوئی اشاره نہیں کئے ہیں۔[24]

اشاعت اور ترجمہ

آیت اللہ معرفت کی کتاب التفسیر و المفسرون دفتر نشر دانشگاہ علوم اسلامی رضوی مشہد کی جانب سے شایع ہوئی ہے۔ اسی طرح اس کا فارسی ترجمہ مختصر اضافے کے ساتھ دو جلدوں میں تفسیر و مفسرین کے عنوان سے مؤسسۃ التمہید کے توسط سے سنہ 1422ھ میں شایع ہوا ہے۔[25]

حوالہ جات

  1. بہجت ‌پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۷۷ و ۱۸۱۔
  2. بہجت‌پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۸۲۔
  3. بہجت‌پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۹۵۔
  4. بہجت‌ پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۸۹۔
  5. بہجت‌پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۸۷۔
  6. بہجت ‌پور، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، ص۱۸۱-۱۸۲
  7. معرفت، التفسیر و المفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۳۔
  8. معرفت، التفسیر و المفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۴۔
  9. معرفت، التفسیر و المفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۳-۱۶۸۔
  10. معرفت، التفسیر و المفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۱۶۹-۵۶۵۔
  11. معرفت، التفسیر و المفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ۳۱۳-۴۵۲۔
  12. معرفت، التفسیر و المفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۷۔
  13. معرفت، التفسیر و المفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۲۰و ۳۵۴۔
  14. معرفت، التفسیر و المفسرون،۱۴۱۸ق، ج۲،ص۲۱-۳۴۷۔
  15. معرفت، التفسیر و المفسرون،۱۴۱۸ق، ج۲، ص۳۵۴-۵۸۷۔
  16. مؤدب، «نگاہی بہ کتاب التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب»، ص۴۸۔
  17. مؤدب، «نگاہی بہ کتاب التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب»، ص۴۹۔
  18. مؤدب، «نگاہی بہ کتاب التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب»، ص۴۹؛ معرفت، التفسیر و المفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص ۱۶۹-۵۶۵؛ معرفت، التفسیر و المفسرون، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۳۵۴-۵۸۷۔
  19. علیزادہ، «التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب در بوتہ نقد و معرفی»، ص۱۶۰۔
  20. علی زادہ، «التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب در بوتہ نقد و معرفی»، ص۱۶۱۔
  21. سبحانی، «سخنرانی آیت اللہ سبحانی در نکوداشت استاد معرفت»، ص۴۷-۴۸؛ مؤدب، «نگاہی بہ کتاب التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب»، ص۴۸۔
  22. مؤدب، «نگاہی بہ کتاب التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب»، ص۴۸۔
  23. علی زادہ، «التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب در بوتہ نقد و معرفی»، ص۱۶۲۔
  24. علی زادہ، «التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب در بوتہ نقد و معرفی»، ص۱۶۳۔
  25. مؤدب، «نگاہی بہ کتاب التفسیر و المفسرون فی ثوبہ الشقیب»، ص۵۱۔

مآخذ

  • بہجت‌پور، عبدالکریم، «سیری در زندگی علمی آیت اللہ معرفت»، در معرفت قرآنی: یادنگار آیت اللہ محمدہادی معرفت، ج۱، بہ کوشش علی نصیری، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۷ش۔
  • سبحانی، جعفر، «سخنرانی آیت اللہ سبحانی در نکوداشت استاد معرفت»، در معرفت قرآنی: یادنگار آیت اللہ محمدہادی معرفت، ج۱، بہ کوشش علی نصیری، تہران، پژوہشگاہ فرہنگ و اندیشہ اسلامی، ۱۳۸۷ش۔
  • علیزادہ، میرزا، «التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب در بوتہ معرفی و نقد»، در مجلہ الہیات و حقوق، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، پاییز ۱۳۸۶ش۔
  • معرفت،محمد ہادی، التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب، مشہد، الجامعۃ الرضویۃ لعلوم الاسلامیۃ، ۱۴۱۸ق۔
  • مؤدب، سید رضا، «نگاہی بہ کتاب التفسیر و المفسرون فی ثوبہ القشیب»، در پیام جاویدان، تہران، اوقاف و امور خیریہ، بہار ۱۳۸۴ش۔