جسم برزخی

ویکی شیعہ سے
(مثالی جسم سے رجوع مکرر)

جسم برزخی یا اخروی جسم یا مثالی جسم، اس جسم کو کہا جاتا ہے جس میں موت کے بعد (عالم برزخ میں) انسان کی روح منتقل ہو جاتی ہے اور آخرت میں انسانی روح اسی جسم کے ساتھ عذاب یا نعمتوں میں ہو گی۔ متکلمین جسم برزخی کی حقیقت کے بارے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں چہ بسا اسے بعینہ مادی جسم کی طرح قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ موت کے بعد انسان کی روح دوبارہ جسم میں لوٹ آتی ہے اور اخروی ثواب و عقاب بھی اسی مادی جسم کے ساتھ تعلق پکڑتا ہے جبکہ بعض اسے مثالی جسم قرار دیتے ہوئے مادے کی خصوصیات جیسے رنگ، وزن اور ابعاد سے عاری قرار دیتے ہیں۔

برزخی جسم کی حقیقت

انسان روح اور بدن سے مرکب ایک موجود ہے۔ انسان کی روح موت کے بعد برزخی جسم میں داخل ہو جائے گی۔[1] برزخی جسم کی حقیقت کے بارے میں مختلف نظریے بیان ہوئے ہیں جن میں سے اہم نظریے درج ذیل ہیں:

مثالی بدن

مشہور قول کے مطابق موت کے بعد انسان کی روح مثالی جسم میں منتقل ہو جاتی ہے۔ [2] مثالی جسم ظاہری شکل و صورت کے لحاظ سے انسان کے دنیائی جسم جیسی ہے، لیکن مادہ اور اس کی خصوصیات جیسے رنگ، وزن اور ابعاد کی حامل نہیں ہے۔ [3] اخروی جسم مادی جسم سے زیادہ لطیف و نازک ہوتا ہے۔ اسلامی محققین نے برزخی جسم کو انسان کے ذہن میں موجود شکل و صورت یا عالم خواب میں نظر آنے والے جسم سے تشبیہ دیتے ہیں۔ [4] اسی ضمن میں بعض محققین اس بات کے معتقد ہیں کہ فرشتے بھی مثالی بدن رکھتے ہیں۔ [5] اس نظریے کے مطابق فشار قبر مثالی بدن پر آئے گا۔[6]

ملاصدرا، ابن سینا، غزالی، ابن عربی اور شیخ بہائی کو اسی نظریے کے طرفدار قرار دئے جا سکتے ہیں۔ [7] علامہ مجلسی اس بات کے پیش نظر کہ برزخی بدن کا تذکرہ معتبر احادیث میں آیا ہے اسے قبول کرتے ہیں۔ [8] اسی طرح معاصر علماء جیسے امام خمینی اور آیۃ اللہ سبحانی نے اس نظریے کو معتبر کہا ہے۔ [9] آیۃ اللہ شاہ آبادی بھی معتقد ہیں کہ انسان کی رجعت بھی اس کے مثالی بدن ساتھ ہوگی۔[10]

دنیوی اور مادی جسم

بعض معتقد ہیں کہ انسان کی روح، موت کے بعد عالم برزخ میں، دوبارہ اسی بدن کے ساتھ ملحق ہو جائے گی۔ اگرچہ یہ برزخی جسم، بالکل انسان کے دنیائی جسم جیسا ہو یا اس کے بعض اجزاء جیسا ہو۔ [11] اس نظریے کے مطابق فشار قبر اور منکر و نکیر کے سوال، اسی دنیاوی بدن کے متعلق ہیں۔ بعض نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ نظریہ ان جسموں کے بارے میں جو قبر میں خاک ہو گئے ہیں یا ختم ہو چکے ہیں انکی نسبت کوئی توضیح نہیں دیتا۔ [12]

بعض معتقد ہیں کہ انسان کی شکل اور شخصیت اس کی روح اور خاکی جسم دونوں سے متعلق ہے۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ انسان برزخ میں، مثالی اور دنیائی بدن دونوں رکھتا ہے۔ عذاب قبر اور منکر ونکیر کے سوال دنیائی بدن سے ہوں گے اور زندگی کو جاری رکھنے کے لئے مثالی جسم ہو گا۔[13] اہل سنت کی بعض احادیث کے مطابق موت کے بعد انسان کی روح پرندوں کے بدن میں چلی جاتی ہے۔ [14] امام صادقؑ نے اس نظریے کو رد فرمایا ہے۔ [15]

حوالہ جات

  1. محسنی دایکندی، برزخ و معاد از دیدگاہ قرآن و روایات، انتشارات مجمع جہانی شیعہ شناسی، ص۲۹-۳۰۔
  2. ملایری، «نظریہ های بدن برزخی»، ص۱۱۴۔
  3. صفر علیپور و ابراہیم زاده، معاد استدلالی، ۱۳۷۶ش، ص۴۵۔
  4. سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۱۰، ص۲۲۳۔
  5. سبحانی، منشور جاوید، ۱۳۸۳ش، ج۱۰، ص۲۲۴۔
  6. ابراہیمی دینانی، «برزخ»، ج۱۱، ص۷۰۱۔
  7. ملایری، «نظریہ های بدن برزخی»، ص۱۱۴۔
  8. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۲۷۱۔
  9. سبحانی، منشورجاوید، ۱۳۸۳ش، ج۵، ص۱۹۱۔
  10. محمدی، «فلسفہ رجعت از منظر آیةالله شاه آبادی»، ص۸۵۔
  11. سید مرتضی، ۱۴۱۱ق، الذخیرة فی علم الکلام، ق، ص۵۲۹؛ حمصی رازی، المنقذ من التقلید، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۹۸۔
  12. ملایری، «نظریہ های بدن برزخی»، ص۱۱۰۔
  13. ملایری، «نظریہ های بدن برزخی»، ص۱۱۶۔
  14. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۶۴۔
  15. علامہ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۲۶۹۔

ماخذ

  • ابراہیمی دینانی، غلام حسین، «برزخ»، در دائرة المعارف بزرگ اسلامی، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ۱۳۸۱ش۔
  • سبحانی تبریزی، جعفر، منشور جاوید، قم، چاپ چہارم، موسسہ امام صادق ع، ۱۳۸۱ش۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الذخیرة فی علم الکلام، قم، چاپ سوم، موسسہ النشر السلامی، ۱۴۳۱ق۔
  • صفرعلیپور، حشمت الله، و عبدالله ابراہیم زاده، معاد استدلالی، تہران، بی چا، ۱۳۷۶ش۔
  • حمصی رازی، سدید الدین، المنقذ من التقلید، قم، چاپ اول، موسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۱۲ق۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، موسسہ الوفا، ۱۴۰۴ق۔
  • محمدی، بہزاد، «فلسفہ رجعت از منظر آیةالله شاه آبادی» در مجلہ اندیشہ نوین دینی، قم، نہاد رہبری در دانشگاه‌ہا، تابستان ۱۳۹۴ش۔
  • ملایری، موسی، «نظریہ های بدن برزخی»، در مجلہ پژوهش دینی، تہران، انجمن علوم قرآن وحدیث، پاییز و زمستان ۱۳۸۹ش۔