عزاداری

ویکی شیعہ سے

عزاداری سے مراد دینی شخصیات جیسے پیغمبر اکرمؐ یا ائمہ معصومینؑ خاص کر امام حسینؑ کی شہادت کے سوگ میں منعقد ہونے والے مراسم ہیں کہ جسے عام طور پر ماتم داری سے تعبیر کرتے ہیں۔ عزاداری مذکورہ شخصیات سے اظہار ہمدردی اور ان پر آنے والی مصیبتوں کو یاد کرنے کیلئے منعقد کی جاتی ہے جو ہر قوم و ملت کے ہاں مختلف انداز اور مختلف رسومات کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔

عزاداری کی مشروعیت

عزاداری کے بارے میں سنی اور شیعہ علماء کے درمیان اختلاف موجود ہے۔ اہل سنت کے بعض علماء، بالخصوص حنبلی مذہب سے تعلق رکھنے والے، عزاداری کو حرام اور بدعت سمجھتے ہیں، اس کے مقابلے میں شیعہ علماء نے عزاداری کی حمایت میں بہت ساری کتابیں تحریر کی ہیں۔ انہی کتابوں میں سے ایک اقناع اللائم علی اقامہ المآتم ہے جو سید محسن امین کی تالیف ہے۔[1]

عزاداری کی مشرعیت پر شیعہ علماء مختلف دلائل پیش کرتے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:

اہل سنت اور عزاداری

ایران میں مقیم بعض اہل سنت، بالخصوص شافعی مذہب، پانچویں صدی کے بعد عاشورا کی مجالس برپا کرنے میں شیعوں کی مدد کرتے تھے اور حتی کہ بعض اوقات خود بھی عزاداری کا اہتمام کرتے تھے۔ اس طرح عزاداری کے بارے میں شیعہ اور سنیوں کے درمیان پایا جانے والا اختلاف کم ہو گیا، یہاں تک کہ سلسلہ صفویہ میں عزاداری کے مراسم زیادہ تعداد میں برگزار ہونے لگے اور ذکر مصیبت اور مجلس سے بڑھ کر خاص آداب اور تشریفات عزاداری میں اضافہ ہو گئے۔ یہ صورت حال سلسلہ قاجاریہ میں بھی باقی رہی۔ [6]

عزاداری کا فلسفہ

عزاداری دینی اور مذہبی شخصیات سے اظہار ہمدردی اور ان پر آنے والی مصیبتوں کو یاد کرنے کیلئے منعقد کی جاتی ہے جو ہر قوم و ملت کے یہاں مختلف انداز اور مختلف رسومات کے ذریعے انجام پاتی ہیں۔[7]

شیعوں کے یہاں عزاداری‌ عموما محرم الحرام کے مہینے میں امام حسینؑ اور ان کے باوفا اصحاب کی یاد میں منعقد ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تمام ائمہ معصومین علیہم السلام کی شہادت اور وفات کے موقع پر بھی عزاداری منعقد ہوتی ہے۔ امام علی ؑ کی شہادت کی مناسبت سے ماہ رمضان کی 19 تاریخ سے 21 تاریخ تک نیز حضرت زہرا کی شہادت کی مناسب سے عزائے فاطمیہ کے نام سے عزاداری منعقد ہوتی ہے۔

عزاداری تاریخ کے آئینے میں

تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین کی شہادت کے بعد سے مسلمانوں اور بالاخص شیعوں نے عزاداری منعقد کرنا شروع کی ہیں۔ عزاداری‌ کی یہ رسومات کبھی سرکاری طور پر سات سات دنوں کی چھٹی، نئے کپڑے پہننے سے پرہیز کرنے کے ساتھ شعراء کے زبانی عاشورا کے حوالے سے مرثیہ اور نوحہ خوانی کے ذریعے انجام پاتی تھی۔ نیز سرکاری دفاتر اور تجارتی مراکز بھی ان ایام میں بند رہتے تھے۔[8]

تاریخ چوتھی صدی ہجری کے اواخر سے عزاداری کے مخالفین اور موافقین کے درمیان لڑائی جھگڑوں کی حکایت کرتی ہے۔ بغداد میں پہلی بار اعلانیہ طور پر عزاداری منعقد ہونے کے دس سال بعد یعنی سنہ 362 ہجری قمری کو عزاداری کے بارے میں ایک جھگڑا ہوا جس کے بارے میں ابن اثیر نے کتاب الکامل میں لکھا ہے کہ اس جھگڑے میں تقریبا 17 ہزار لوگوں کو زندہ جلایا گیا اور تقریبا 300 دکانیں اور 33 مساجد بھی اس جھگڑے کی نذر ہو گئی۔[9] عزاداری سے متعلق اس قسم کی لڑائی جھگڑے اور بعض حکومتوں (منجملہ سلطان محمود غزنوی) کی طرف سے عزاداری پر لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے شیعوں میں عزاداری کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔[10]

حوالہ جات

  1. مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶.
  2. رجبي، پاسخ بہ شبہات عزاداري، ص ۳۸
  3. امین، اقناع اللائم علی اقامة المآتم،۱۴۱۸ق، ص ۲۹۱
  4. امین، اقناع اللائم علی اقامۃ المآتم،۱۴۱۸ق، ص ۲۱۸-۱۸۸
  5. امین، اقناع اللائم علی اقامۃ المآتم،۱۴۱۸ق، ص ۵۳.
  6. مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶ و ۳۴۷.
  7. مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۵.
  8. گلی زوارہ، «عزاداری»، در دائرۃ المعارف تشیع، ۱۳۹۰ش، ص ۲۶۷.
  9. مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶.
  10. مظاہری، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص ۳۴۶ و ۳۴۷.

مآخذ

  • امین، سید محسن، اقناع اللائم علی اقامۃ المآتم، مؤسسہ المعارف الاسلامیہ، ۱۴۱۸ق، قم.
  • رجبی، حسین، پاسخ بہ شبہات عزاداری، موسسہ مذاہب اسلامی، قم.
  • گلی زوارہ، غلامرضا، «عزاداری»، در دائرۃ المعارف تشیع، ۱۳۹۰ش.
  • مظاہری، محسن حسام، «عزاداری»، در فرہنگ سوگ شیعی، خیمہ، ۱۳۹۵ش.