ٹیپو سلطان

ویکی شیعہ سے
(سلطان ٹیپو سے رجوع مکرر)
ٹیپو سلطان
سلطنت خداداد کا دوسرا بادشاہ
ٹیپو سلطان کا مزار
ٹیپو سلطان کا مزار
کوائف
نامابوالفتح فتح علی خان شہاب
لقبٹیپو سلطان
تاریخ پیدائش20 نومبر 1750ء ( 20 ذوالحجہ، 1163ھ)
جائے پیدائشہندوستان
محل زندگیمیسور
والدحیدر علی
والدہفاطمہ
اولادایک بیٹی 12 بیٹے
زوجہسلطان بیگم، رقیہ بیگم، خدیجہ زماں بیگم
مذہبشیعہ
وفات29 مئی 1799ء (29 ذی قعدہ 1213ھ)
مدفنبنگلور
حکومت
سمتبادشاہ
محدودہجنوبی ہندوستان
آغاز1782ء
انجام1799ء
مرکزمیسور
اہم اقداماتایسٹ انڈیا کمپنی سے جنگ
آثار باقی ماندہمسجد اعلی، دریا دولت باغ
بعد ازحیدر علی


ٹِیپُو سُلطَان، ابوالفتح فتح علی خان (1750-1799ء) اٹھارویں صدی عیسوی کے ایک شیعہ حاکم اور جنوبی ہندوستان میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف قائم کی جانے والی سلطنت خداداد میسور (1761-1799) کے دوسرے بادشاہ تھے۔ آپ کو عربی، فارسی اور بعض دیگر زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ٹیپو سلطان صوم و صلاة کے پابند تھے اور کبھی نماز قضا نہیں ہوئی۔ 15 سال کی عمر میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور اپنے والد حیدر علی کے رکاب میں کئی جنگیں لڑیں۔ والد کی وفات کے بعد آپ تخت نشین ہوئے۔ ٹیپو نے انگریزوں، مرہٹوں اور نظام کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ میسور میں انگریز کے خلاف چار اہم جنگیں لڑی گئیں جنہیں «اینگلو میسور جنگیں» کہا جاتا ہے۔ انگریزوں سے لڑے جانے والی ایک جنگ میں «میر صادق» اور بعض دیگر لوگوں کی غداری کی وجہ سے انگریزوں نے آپ کی سلطنت پر قبضہ کیا اور ٹیپو شہید ہوئے۔ ٹیپو سلطان بلاتفریق ہر مذہب کا احترام کرتے تھے اور مجرم کے مذہب کو دیکھے بغیر سخت سزا دیتے تھے ۔آپ نے کئی اصلاحات انجام دی جن میں راکٹ کی ایجاد سب سے اہم ہے۔ٹیپو سلطان کے بارے میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں۔

سوانح حیات

ٹیپو سلطان 20 نومبرسنہ 1750ء مطابق 20 ذوالحجہ، 1163ھ کو جنوبی ہندوستان کے علاقہ دیوانہالی میں یپدا ہوئے[1] جو بنگلور شہر کے 33 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[2] [یادداشت 1] دیوانہالی کا نام ٹیپو سلطان نے تبدیل کر کے یوسف آباد رکھ دیا۔[3]

کہاجاتا ہے کہ ٹیپو سلطان کا نام مستان شاہ ٹیپو (جو اس وقت ایک بزرگ سمجھے جاتے تھے) کے نام سے منسوب کرکے ٹیپو اور داد کے نام سے فتح اور باپ کے نام سے علی اخذ کرتے ہوئے فتح علی ٹیپو رکھا گیا ہے۔[4] ٹیپو کے والد کا نام حیدرعلی اور والدہ کا نام فاطمہ تھا۔[5] پانچ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز کرتے ہوئےاسلامی علوم کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی اور تامل جیسی زبانیں سیکھنا شروع کرتے ہیں۔[6] ٹیپو سلطان کو عرب کی قریشی خاندان سے قرار دیا جاتا ہے ان کا خاندان مکہ سے جنوبی ہند کے علاقے ”گلبرگ“ پہنچتا ہے۔[7] ٹیپو سلطان مذہبی اعتبار سے ایک شیعہ مسلمان تھے۔[8] ٹیپوسلطان کی شادی سنہ 1774ء میں ہوئی۔[9] آپ کی اولاد میں ایک بیٹی اور بارہ بیٹے تھے۔[10]

تاریخ سلطنت خداداد کے نقل کے مطابق آپ نے سنہ 1767ء کو 16 سال کی عمر میں سات ہزار فوج کی کمان کرتے ہوئے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے پہلی جنگ لڑی[11] اس کے علاوہ حیدرآباد کی نظام اور مرہٹوں سے بھی متعدد جنگیں لڑی۔[12]

ہندوستان کے بہت سارے علاقوں پر قابض برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے سلطان کے خلاف ہونے والی ہر سازش کی حمایت کی اور سلطان کو ہمیشہ داخلی جنگوں میں الجھا کر رکھا۔[13] ٹیپو سلطان اور ان کے والد کے خلاف انگریزوں نے چار بڑی جنگیں لڑیں ۔[14] آپ کے والد حیدر علی کی وفات کے بعد 20 محرم سنہ1196ھ (سنہ 1782ء) کو ٹیپو سلطان تخت نشین ہوئے۔[15] کہا گیا ہے کہ سلطنت کے خلاف ہونے والی کسی ایک سازش میں آپ نے 80 ہزار خواتین اور مردوں کو گرفتار کیا جنہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی یوں وہ سب مسلمان ہوگئے۔[16] انگریزوں سے لڑی جانے والی آخر ی جنگ کے دوران 4 مئی 1799ء بمطابق 29 ذوالقعدہ 1213ھ کو 49 سال کی عمر میں 12000 سپاہیوں کے ساتھ شہید ہوئے۔[17] جنرل ہارس سلطان کی لاش کے قریب پہنچ کر فرط مسرت سے چیخ اٹھے اور کہا: «آج سے ہندوستان ہمارا ہے»[18] دوسرے دن تجہیز و تکفین کے بعد میسور کے لال باغ میں اپنے باپ حیدر علی کے پہلو میں سپرد خاک ہوئے۔ [19] ٹیپو سلطان کی آخری آرام گاہ ’’گنبد سلطانی‘‘ کہلاتی ہے۔ یہ صوبہ کرناٹک کے ضلع میسور میں سرنگا پٹم کے لال باغ میں واقع ہے جو آج بھی مرجع خلائق ہے۔[20]

ٹیپو سلطان کا مقبرہ

خاندانی پس منظر

تفصیلی مضمون: حیدر علی خان بہادر

ٹیپو سلطان کے اجداد میں شیخ ولی محمد اپنے بیٹے محمد علی(ٹیپو کے پڑدادا) کے ساتھ دسویں صدی ہجری میں مکہ سے ہندوستان پہنچے ہیں۔ اس وقت دکن میں اسلامی ریاست بیجاپور اپنے عروج پر تھی۔[21] آپ کے داد فتح محمد صوبہ سرا کے صوبہ دار نواب عابد خان کے ماتحت دوہزار پیادہ و پانچ سو سوار فوجیوں پر کمانڈ کرتے تھے۔[22] آپ کے والد حیدرعلی کی عمر ابھی پانچ سال کی تھی دادا کسی جنگ میں مارے گئے۔[23] آپ کے والد حیدر علی نے 19 سال کی عمر میں نندراج کی فوج میں ملازمت اختیار کی[24] اور ترقی کرتا ہوا[25] آخر میسور کے فرمانروا منتخب ہوئے۔[26] حیدر علی نے انگریزوں اور مرہٹوں کے خلاف متعدد جنگیں لڑی۔[27] آپ کینسر کی بیماری سے وفات پاگئے اور آپ یکم محرم 1197 کو بمطابق 7 دسمبر 1782ء کو وفات پاگئے۔[28]

وہ جگہ جہاں ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد ان کا بدن ملا
ٹیپو سلطان کی تعمیر کردہ مسجد اعلی

اخلاقی خصوصیات

ٹیپو سلطان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ باوضو رہتے تھے۔[29] بلوغت کے بعد کبھی کوئی نماز قضاء نہ ہوئی اور ہمیشہ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔[30] کہا جاتا ہے کہ مسجد اعلی کی افتتاحی تقریب میں جب یہ کہا گیا کہ مسجد کی امامت وہی شخص کرے گا جس کی کوئی نماز قضا نہ ہوئی ہو تو اس وقت ٹیپو سلطان کے علاوہ کوئی اور آگے نہ آسکے۔[31] آپ ہمیشہ سر پر سبز عمامہ باندھتے تھے۔ چہرے پر داڑھی نہیں تھی۔ دکھاوے سے اجتناب کرتے اور زمین پر کھدر بچھا کر سویا کرتے تھے۔[32] حیا کی وجہ سے کبھی کسی کے سامنے کپڑے نہیں اتارے تاحیات کسی نے انکے ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ جسم کے کسی دوسرے حصے کو نہیں دیکھا۔ ٹیپو حج پر جانے کی تمنا رکھتے تھے لیکن مسلسل جنگوں میں مصروف رہنے کی وجہ سے نہیں جاسکے۔[حوالہ درکار]

دینداری کی وجہ سے ہی آپ نے ریاست کا نام بھی مملکت خداداد میسور رکھا۔[33] کہا جاتا ہے کہ فنون رزم میں حریف پر جیت جائے تو خوشی کا اظہار نہیں کرتے تھے اور مدمقابل کی جیت پر مبارکبادی دیتے تھے۔[34]

سلطنت خداداد میسور

تفصیلی مضمون: سلطنت خداداد میسور

جنوبی ہندوستان میں سنہ 1761ء بمطابق 1171ھ کو حیدر علی کے توسط قائم شدہ حکومت کو سلطنت خداداد میسور کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت 1761ء سے1799 تک جاری رہی۔[حوالہ درکار]

اس کا پہلا بادشاہ حیدر علی اور دوسرا ٹیپو سلطان تھے۔[35] اس حکومت کا دارالحکومت کرناٹک کا شہر میسور تھا۔[36]) اس سلطنت کا قیام ایسے وقت میں ہوا جب اٹھارویں صدی عیسوی میں سلطنت مغلیہ زوال کے ساتھ ہی ہندوستان کی مختلف مقامی ریاستیں خودمختار ہوئیں اور آپس میں لڑائیاں بڑھ گئیں اور کہا جاتا ہے کہ انہی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے مختلف علاقوں پر قبضہ جمایا اور دوسری طرف حیدرعلی کی سلطنت خداداد میسور وجود میں آگئی[37]

مقامی راجاوؤں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حیدرعلی نے بھی اپنی سلطنت کی سرحدوں کو توسیع دی اور بہت سارے علاقوں پر قبضہ کیا،[38] سلطنت کو 33 گاؤں سے بڑھا کر 80 ہزار مربع میل پر پھیلا دیا۔[39] حیدر علی نے «بدنور» کو «حیدرنگر» نام دے کر دارالحکومت قرار دیا۔[40]

جنگیں

انگریزوں سے جنگ میں ٹیپو سلطان کے توپ
تفصیلی مضمون: اینگلو میسور جنگیں

سلطان ٹیپو نے اپنے دور حکومت میں مرہٹوں، انگریزوں اور دیگر باغیوں سے کئی جنگیں لڑی ان میں سلطنت خداداد میسور کی انگریزوں سے لڑی جانے والی چار جنگوں میں سے تین جنگیں آپ کے دور میں لڑی گئیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف لڑی جانے والی جنگوں کو اینگلو میسور جنگیں کہا جاتا ہے۔ ان جنگوں کا مقصد ہندوستان کو انگریزوں کی مداخلت سے نجات دلوانا تھا۔

پہلی جنگ (1766-1769) حیدر علی کے دور میں لڑی گئی[41] جس میں مسلمانوں کو کامیابی ملی۔[42]

دوسری جنگ (1780-1784) حیدر علی کے دور میں شروع ہوئی[43] اس دوران حیدر علی کی وفات ہوئی اور ٹیپو سلطان تخت سلطنت پر بیٹھ گئے۔[44] جنگ میں انگریز کو شکست ہوئی۔[45]

تیسری جنگ (1790-1792) میں سلطان کی فوج نے انگریز کو مختلف محازوں پر شکست دی[46] اور انگریزوں نے بھی سلطنت خداداد میسور کے کئی علاقوں پر قبضہ کیا۔[47]جنگ میں سلطان کی فوج کو شکست ہوئی اور فریقین کے مابین صلح سے جنگ بندی ہوئی۔[48]صلح نامہ کے تحت سلطان کے اختیار سے ملک کا کچھ حصہ نکل گیا۔[49]

آخری اور چوتھی جنگ(1798-1799) میں داخلی غداری کی وجہ سے مسلمان فوج کو شکست ہوئی۔[50] ٹیپو سلطان دشمن کے نرغے میں تھے کسی جانثار نے سلطان سے دشمن کے سامنے تسلیم ہونے کا کہا تو آپ نے نہایت ناگواری سے کہدیا: «گیدڑ کی صدسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے»[51]اسی جنگ میں ٹیپو سلطان شہید ہوئے۔[52]

ٹیپو کے اصلاحات

ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری اور مہاتما گاندھی

میسور کا بادشاہ فتح علی ٹیپو شہید غیر ملکی مورخوں کی نظر میں ایک ایسا مسلمان تھا جس نے اپنے رعایا کو زبردستی مسلمان بنایا لیکن یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوؤں سے اس کے تعلقات نہایت ہی دوستانہ تھے۔ اس کے کارنامہ زندگی کی یاد، دل کے اندر خوشی اور مسرت کی ایک لہر پیدا کر دیتی ہے۔ اس عظیم المرتبت سلطان کا وزیر اعظم ایک ہندو تھا اور ہمیں نہایت ندامت کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس نے فدائے آزادی کو دھوکہ دے کر دشمنوں کے حوالے کر دیا۔

مآخذ، اخبار «ینگ انڈیا»

ٹیپو سلطان کے مقبرے کے دروازے پر درج شدہ اشعار

ٹیپو سلطان نے رعایا کو سلطنت میں شریک کرنے کے لئے ایک مجلس شورا یعنی پارلیمنٹ کا قیام عمل میں لایا جس کا نام ’’زمرہ غم نہ باشد‘‘ رکھا گیا۔[53]

آپ نے کسانوں کے حق میں ریاست میں جاگیرداری کو ختم کیا اور زمین کو حکومت کی ملکیت قرار دیا اور جب تک کسان زمین کو آباد رکھے گا اسے اس زمین سے بے دخل نہیں کیا جائے گا اور زمین اس کی ملکیت سمجھی جائے گی۔ زمین میں پیداوار آنے کے بعد لگان ریاست کو دے گا۔[54]

آپ نے بنک قائم کر کے قرضہ فراہم کیا نیز سڑکوں، پلوں، بندرگاہوں اور نئے شہروں کی تعمیر پر توجہ دی، ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار مردم شماری کروائی، جامع الامور کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کروائی۔[55]

عسکری اصلاحات میں راکٹ (میزائل) کی ایجاد، بحری فوج کی تشکیل اور مقناطیسی پہاڑوں سے جہازوں کو بچانے کے لئے لوہے کی جگہ تابنے کے تاروں کا استعمال شامل ہیں۔[56]

آپ کو ہندوستان میں سب سے پہلے بحری نظم قائم کرنے والے بادشاہ کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ نے ریاست میں 99 مختلف محکمے ایجاد کیا۔[57] ان کے علاوہ مختلف صنعتوں کے قیام، غیر شرعی رسموں پر پابندی، ذات پات کا خاتمہ، جمعہ کے خطبوں کی اہمیت کے پیش نظر ان کو مفید بنانا آپ کی اہم اصلاحات میں سے تھیں۔[58]

میسور کی چمنڈا ہل پر واقع مندر پر دیوی کے چرنوں میں انسانی سر کی بھینٹ چڑھائی جاتی تھی،اس روایت کو ٹیپو سلطان نے موقوف کیا۔ ٹیپو سلطان سے قبل ریاست ٹرائونکور میں دِلَت ہندوخواتین کو سینہ اور سر کھلا رکھنے کی روایت کو بند کرنے کے لیے اس کے حاکموں سے رابطہ کیا اور اسے بند کرایا۔[59]

سلطان سے پہلے ملک میں مغلیہ دور میں ہجری کیلنڈر رائج تھا اور ہجری کیلنڈر چونکہ آگے پیچھے ہوجاتاتھا اس لئے لگان لینے میں کچھ مشکلات کا سامنا ہوا جس پر آپ نے ایک نئی تقویم بنائی جس کے بارہ مہینوں کے نام ابجد اور ابتث کے حساب سے رکھا۔[60] اور ہندؤوں کے حساب سے ہر ساٹھ سال کا ایک جگ ہوتا ہے اس لئے ساٹھ سالوں کو بھی مذکورہ بالا طریقہ سے نام دئے گئے۔[61]

مذہبی رواداری

سرینگا پٹنم کی جامع مسجد اعلی

بھارتی مورخ محب الحسن ٹیپو سلطان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک روشن خیال حکمران تھے جس نے اپنی حکومت میں ہندوؤں کو اعلی منصب عطا کئے، پرستش کی آزادی دی، برہمنوں کو معافی دی، بت تراشنے کے لئے رقمیں دیں اور مندر تعمیر کروائے۔[62] وہ بلا تفریق اپنی تمام رعایا کا خیال رکھتے تھے، مسلمان ہونے کے باوجود آپ نے سری رنگا پٹم، میسور اور دیگر مقامات پر متعدد مندر تعمیر کروائے اور مندروں کے لئے زمینیں فراہم کی۔[63]ہندو اہم پوسٹوں پر فائز تھے۔[64]

مغربی مورخین کا کہنا ہے کہ ٹیپو سلطان ایک متعصب حاکم تھے جو اپنی رعایا کو اسلام لانے پر مجبور کرتے تھے۔[65] اسی وجہ سے سنہ 2020ء میں بھارتی حکومت کی طرف سے کرناٹک کے شہر سری رنگاپٹنا (ریاست میسور کا دارالحکومت جو اس وقت سرنگا پٹم کہلاتا تھا) میں ٹیپو سلطان کے نام پر یونیورسٹی بنانے کی تجویز کو بی جے پی اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیموں نے مخالفت کی۔[66] سرندر ناتھ سین کا خیال ہے کہ ٹیپو متعصب نہیں تھے اور جبراً لوگوں کو مسلمان بنانا ایک سیاسی عمل تھا اس کے برخلاف ٹیپو سلطان کے بارے میں متعدد مقالات لکھنے والے بنگلور یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر شیخ مستان کا کہنا ہے کہ ٹیپو سلطان کو متعصب قرار دینا ایسٹ انڈیا کمپنی کی سیاست کا حصہ ہے اور ہم 18ویں صدی کے سیاسی منظرنامے کو آج سے موازنہ نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ ٹیپو کے بعض سخت اقدامات لوگوں کی بار بار کی بغاوت کا نتجہ تھا۔[67]

محب الحسن کا کہنا ہے اگر کہیں ہندوؤں کو مذہب تبدیل کرانے پر مجبور کیا ہے تو وہ ایسے ہندوؤں کو سزا کے طور پر تجویز دیا ہے جو بار بار بغاوت کرتے تھے[68] کیونکہ کورگ اور مالابار کے علاوہ سلطنت کے کسی اور حصے میں ٹیپو نے مذہب کی تبدیلی کی پالیسی اختیار نہیں کی ہے اور یہاں اکثر بغاوتیں ہوتی تھیں۔[69] اور مغربی مورخین کی طرف سے سلطان پر لگائے گئے الزامات ٹیپو کو بدنام کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔[70]

ٹیپو سلطان علامہ اقبال کے کلام میں

علامہ اقبال اپنی کتاب جاوید نامہ میں اس تخیلی سفرنامے میں جب جنت میں ٹیپو سلطان سے ملاقات ہوتی ہے اس بارے میں «حقیقت حیات و مرگ و شهادت» کے موضوع پر «پیغام سلطان شهید به رود کاویری» کے عنوان سے ایک نظم[71] اور «حرکت به کاخ سلاطین مشرق» کے عنوان سے ایک نظم لکھتے ہیں جس میں سلطان ٹیپو کو وارث جذبِ حسینؑ کا عنوان دیا ہے[72] اس کے چند مصرعے درج ذیل ہیں:

آں شہیدان محبت را امامآبروئے ہند و چین و روم و شام
نامش از خورشید و مہ تابندہ ترخاکِ قبرش از من و تو زندہ تر
عشق رازے بود بر صحرا نہادتو ندانی جاں چہ مشتاقانہ داد
ازنگاہ خواجہؐ بدر و حنینفقرِ سلطاں وارثِ جذب حسینؑ
رفعت سلطاں زیں سرائے ہفت روزنوبت او در دکن باقی ہنوز[73]

نیز ٹیپو سلطان کی وصیت نامہ کے نام سے علامہ اقبال اپنی کتاب ضرب کلیم میں یوں لکھتے ہیں:

تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبوللیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیزساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھویا نہ جا صنم کدۂ کائنات میںمحفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئیل نےجو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہےشرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول! [74]

مونوگراف

گنبد سلطانی کا بیرونی منظر

ٹیپو سلطان کی حالات زندگی پر سب سے پہلے مستشرقین نے توجہ دی لیکن ان کا مقصد ٹیپو سلطان کی شہادت کو ایسا معاندانہ رنگ میں پیش کرنا تھا تاکہ ان کی بہادری سے الہام لیتے ہوئے کوئی تحریک شروع نہ کرے۔[75]

  • محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، مترجم: مترجم حامداللہ افسر اور عتیق صدیقی، ترقی اردو بیورو نئی دہلی، 1982ء۔
  • سلطان ٹیپو کے بارے میں تاریخی کتابوں کے علاوہ متعدد ناولیں لکھی گئیں جن میں سب سے پہلے نسیم حجازی نے «اور تلوار ٹوٹ گئی» لکھا۔[76]
  • بھگوان ایس کڈوانی کا ناول «سورڈ آف ٹیپو سلطان» اس ناول پر بھارت میں سنہ 1990ء کو ایک ٹی وی ڈراما بھی بنایا گیا۔[77] جو مختلف زبانوں میں مختلف ملکوں میں نشر ہوا۔
  • الیاس ندوی کی کتاب سیرت ٹیپو سلطان، جو 1999ء میں لکھنؤ سے طبع ہوئی۔
  • ڈپٹی لال نگم دہلوی کی کتاب، سوانح عمری سلطان ٹیپو، جو 1906 میں دہلی سے نشر ہوئی۔
  • ساموئل سٹرنڈبرگ کی کتاب Tipu Sultan (The Tiger of Mysore) جسے محمد زاہد ملک نے ٹیپو سلطان(شیر میسور) کے نام سے ترجمہ کیا اور لاہور سے چھپ کر منظر عام پر آگئی۔
  • سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کی تالیف ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد،جسے مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو نے سنہ 1433ھ2011ء میں چھاپ کر منظر عام پر لے آیا
  • نشان حیدری،یہ ٹیپو سلطان کے بارے میں لکھی جانے والی سب سے پہلی کتاب ہے جسے ٹیپو کی شہادت کے آٹھ سال بعد سید میرحسین علی کرمانی نے تصنیف کی اور محمود احمد فاروقی نے ترجمہ کیا ہے۔[78]

ان کتابوں کے علاوہ دسیوں کتابیں ہیں جو ٹیپو سلطان کے بارے میں لکھی گئی ہیں۔

نوٹ

  1. شہر بنگلور نواب حیدر علی اور سلطان ٹیپو کے دور میں ان کی سلطنت خدادا کا حصہ تھا جو اب ریاست کَرناٹَک کا صدر مقام ہے۔ جہاں کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے اور پچیس فیصد مسلمان ہیں اور نو سو کے قریب مساجد ہیں۔(کریمی ندوی، چند ایام ٹیپو سلطان کے ریار میں 2017، ص11-12)

حوالہ جات

  1. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص194۔
  2. صدیقی علیگ، ایک عظیم مجاہد: شیر میسور ٹیپو سلطان، قومی آواز ویب سائٹ۔
  3. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء، ص30-31؛ ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص95۔
  4. جی آر اعوان، ٹیپو سلطان شہید... برطانوی سامراج کے لئے سدِ سکندری، روزنامہ نوائے وقت۔
  5. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص194۔
  6. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص27۔
  7. جی آر اعوان، ٹیپو سلطان شہید... برطانوی سامراج کے لئے سدِ سکندری، روزنامہ نوائے وقت۔
  8. رضوی، علی حسین، تاریخ شیعیان علی، 2006ء، ص 584۔
  9. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص29۔
  10. ندوی، الیاس، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، 1999ء ص368
  11. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص198۔
  12. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص32۔
  13. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص32۔
  14. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص48۔
  15. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص30۔
  16. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص31۔
  17. الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، 1999ء، ص342
  18. ندوی، الیاس، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، 1999ء ص343
  19. ڈپٹی لال نگم دہلوی، سوانح عمری سلطان ٹیپو، 1906ء، ص47
  20. محمد ہاشم اعظمی، شیرِ میسور ٹیپو سلطان :حیات اور کارنامے
  21. کرمانی، نشان حیدری، ترجمہ: محمود احمد فاروقی، 1960ء، ص26
  22. کرمانی، نشان حیدری، ترجمہ: محمود احمد فاروقی، 1960ء، ص34
  23. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص51۔
  24. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص54۔
  25. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص23۔
  26. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص65۔
  27. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص24۔
  28. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء، ص257
  29. عیشتہ الراضیہ، شیر میسور ٹیپو سلطان، روزنامہ نوائے وقت
  30. عیشتہ الراضیہ، شیر میسور ٹیپو سلطان، روزنامہ نوائے وقت
  31. محمد ہاشم اعظمی،شیرِ میسور ٹیپو سلطان :حیات اور کارنامے
  32. عیشتہ الراضیہ، شیر میسور ٹیپو سلطان، روزنامہ نوائے وقت
  33. عیشتہ الراضیہ، شیر میسور ٹیپو سلطان، روزنامہ نوائے وقت
  34. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص24۔
  35. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء، ص75
  36. کریمی ندوی، چند ایام ٹیپو سلطان کے دیار میں، 2017ء، ص23۔
  37. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص26۔
  38. ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء، ص80،116،112 و 78-96۔
  39. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص23۔
  40. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء، ص264
  41. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص198۔
  42. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص86۔
  43. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص139-140۔
  44. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص154-155۔
  45. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص199۔
  46. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص230-232۔
  47. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص250۔
  48. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص261۔
  49. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، 1939ء، ص262۔
  50. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص42-43۔
  51. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص42۔
  52. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص44۔
  53. محمد ہاشم اعظمی، شیرِ میسور ٹیپو سلطان :حیات اور کارنامے
  54. محمد ہاشم اعظمی، شیرِ میسور ٹیپو سلطان :حیات اور کارنامے
  55. ٹیپو سلطان کی بہادری اور اصلاحات، نیوز فلیکس
  56. صدیقی علیگ، ایک عظیم مجاہد: شیر میسور ٹیپو سلطان، قومی آواز ویب سائٹ۔
  57. صدیقی علیگ، ایک عظیم مجاہد: شیر میسور ٹیپو سلطان، قومی آواز ویب سائٹ۔
  58. محمد ہاشم اعظمی، شیرِ میسور ٹیپو سلطان :حیات اور کارنامے نیا سویر ویب سائٹ،
  59. صدیقی علیگ، ایک عظیم مجاہد: شیر میسور ٹیپو سلطان، قومی آواز ویب سائٹ۔
  60. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء، ص30-31؛ ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ
  61. محمود بنگلوری، تاریخ سلطنت خداداد میسور، 1939ء، ص499۔
  62. محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، 1982ء، ص490۔
  63. ٹیپو سلطان: غلامی کے خلاف آزادی کا علمبردار ای ٹی وی بھارت
  64. ملاحظہ کریں: محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، 1982ء، ص491۔
  65. محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، 1982ء، ص490۔
  66. ظہور حسین، انگریزوں نے ٹیپو سلطان کو متعصب حکمران کے طور پر کیوں پیش کیا؟
  67. ملاحظہ کریں: ظہور حسین، انگریزوں نے ٹیپو سلطان کو متعصب حکمران کے طور پر کیوں پیش کیا؟
  68. محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، 1982ء، ص495۔
  69. محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، 1982ء، ص496۔
  70. محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، 1982ء، ص495۔
  71. اقبال لاهوری » جاویدنامه »، سایت گنجور؛لئیق احمد، علامہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا مختصر مطالعہ، مرآۃ العارفین انٹرنیشنل سایٹ
  72. پروفیسر فتح محمد ملک، ٹیپو سلطان ایک زندہ و منوّر استعارہ، ہلال اردو ویب سائٹ
  73. اقبال لاہوری » جاویدنامه »، سایت گنجور
  74. علامہ اقبال، ضرب کلیم،ٹیپو سلطان کی وصیت
  75. الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، ص 21
  76. قریشی، عظیم مجاہد ٹیپو سلطان، تاریخ اخذ، 4 مئی 2017ء
  77. قریشی، عظیم مجاہد ٹیپو سلطان
  78. «نشان حیدری، تاریخ ٹیپو سلطان»، ریختہ ویب سائٹ۔

مآخذ