عبد اللہ بن سنان
ذاتی کوائف | |
---|---|
نام: | عبد اللہ بن سنان |
تاریخ پیدائش: | تقریبا 130 ھ |
وفات: | تقریباً سنہ 200 ہجری |
مذہب: | شیعہ |
صحابی: | امام صادقؑ |
حدیثی معلومات | |
نقل حدیث: | امام صادقؑ، امام کاظمؑ |
وثاقت: | ثقہ |
تألیفات: | عمل یوم و لیلۃ، الصلاۃ الکبیرۃ، فی سائر الابواب من الحلال و الحرام |
عبد اللہ بن سِنان، امام صادقؑ کے راویوں میں سے تھے جو دوسری صدی ہجری میں رہتے تھے۔ آیت اللہ خوئی کے مطابق عبداللہ بن سنان کا نام 1146 احادیث کے سند میں آیا ہے، ان کے بقول انہوں نے امام باقرؑ سے لے کر امام جوادؑ تک کا دَور درک کیا ہے۔ شیعہ علمائے رجال انہیں شیعہ اور ثقہ سمجھتے ہیں۔ نجاشی نے عبد اللہ بن سنان کی بعض تالیفات کا بھی ذکر کیا ہے اور شیخ طوسی نے ان کے توسط سے امام صادقؑ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں عاشورا کے دن کی دعا، زیارت اور نماز شامل ہیں۔
تعارف
عبداللہ ابن سنان کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ ان کی پیدائش کی جگہ، تاریخ اور ذاتی زندگی کی تفصیلات نامعلوم ہیں۔ ان کی وفات کا سال 200ھ لکھا گیا ہے۔[1] مختلف مآخذ میں انہیں بنی ہاشم کا مولا،[2] بنی ابی طالب کا مولا،[3] قریش کا مولا،[4] اور بنی عباس کا مولا[5] (عربی: مَولیٰ) کہا گیا ہے۔ حدیث اور رجال کی اصطلاح میں مولا آزاد شدہ غلام کے معنی میں ہے اور بعض اوقات یہ لفظ حلیف اور ہم پیمان کے معنی میں بھی آتا ہے۔[6]
احمد بن علی نجاشی نے ابن سنان کو کوفی لکھا ہے، جس میں یہ واضح نہیں کیا ہے کہ ان کی زندگی کا کونسا حصہ کوفہ سے منسوب ہے، سکونت، پیدائش، وفات یا شہرت۔[7]
پیشہ
نجاشی، شیخ طوسی اور احمد بن محمد برقی نے لکھا ہے کہ عبد اللہ خزانچی تھے۔ نجاشی نے انہیں عباسی خلفاء میں سے منصور دوانیقی، مہدی عباسی، ہادی عباسی اور ہارون الرشید کے خزانچی کے طور پر متعارف کرایا ہے۔[8] طوسی[9] اور برقی[10] نے عبد اللہ کو منصور اور مہدی کا خزانچی قرار دیا ہے۔
والد کا نام
رجال کے منابع میں عبد اللہ بن سنان کے والد کا نام ایک جیسا نہیں ہے۔ شیخ طوسی[11] اور نجاشی نے عبداللہ کے والد کا نام سنان ابن طَریف،[12] برقی نے سنان بن سنان اور ابن داوؤد حلی نے سنان بن ظریف[13] لکھا ہے۔
برقی نے سنان بن سنان کو قریش کا غلام اور امام باقرؑ کے صحابی کہا ہے۔[14] ان کا عقیدہ ہے کہ محمد بن سنان کے دادا سنان بن طریف امام رضاؑ اور امام جوادؑ کے اصحاب میں سے تھے۔[15] برقی نے عبد اللہ ابن سنان کے نام سے دو اور لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے، جن میں سے پہلا واسط کا ہے اور امام کاظمؑ کے صحابی[16] اور دوسرے کو امام رضاؑ کے صحابی[17] کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ آیت اللہ خوئی ان دونوں افراد کو عبداللہ ابن سنان سے مختلف سمجھتے ہیں۔[18] اور عبداللہ کے والد کے نام کے بارے میں برقی کی رائے کو حق کے قریب سمجھتے ہیں۔[19]
علم رجال میں آپ کا مقام
نجاشی نے عبداللہ بن سنان کو امام صادقؑ کے راویوں میں درج کیا ہے۔ وہ اگرچہ عبد اللہ کو امام کاظمؑ کا ہم عصر سمجھتا ہے لیکن معتقد ہے کہ ان کا امام کاظمؑ سے روایت نقل کرنا معلوم نہیں ہے۔[20] محمد کشی نے بھی ان کا تعارف امام صادقؑ کے راوی کے طور پر کرایا ہے۔[21] آیت اللہ خوئی کا کہنا ہے کہ عبداللہ بن سنان نے امام باقرؑ سے امام جوادؑ تک کا عصر درک کیا ہے اور ان سے روایت کی ہے۔[22]
برقی، نجاشی، کشی اور شیخ طوسی نے عبداللہ ابن سنان کو ثقہ قرار دیا ہے۔[23] نجاشی انہیں شیعہ، قابل احترام، عظیم اور دوسروں کی بدگوئی سے پاک سمجھتا ہے۔[24] رجال کشی میں منقول ایک روایت کے مطابق عبداللہ کا نام آنے کے بعد امام صادقؑ نے فرمایا کہ جیسے جیسے اس کی عمر بڑھتی ہے اس کی نیکی بھی بڑھتی ہے۔[25]
شیخ طوسی نے الفہرست میں عبداللہ بن سنان سے تین روایتیں لکھی ہیں۔[26] انہوں نے عبداللہ بن سنان سے امام صادقؑ کی ایک روایت اپنی کتاب مصباح المتہجد میں نقل کی ہے جو عاشورا کے دن کی دعا، زیارت اور نماز کے بارے میں ہے۔[27] آیت اللہ خوئی نے 1146 احادیث کے سند میں عبد اللہ ابن سنان کا نام پایا ہے۔[28]
شیخ مفید نے عبد اللہ ابن سنان کو ایک ممتاز فقیہ اور شرعی احکام اور فتاوا کے مرجع جیسے الفاظ کے ذریعے ان کی توصیف کی ہے۔[29] شیخ مفید نے کتاب الاخلاص میں امام صادقؑ سے عبد اللہ کے توسط ایک روایت نقل کی ہے جس میں گناہوں کے مصادیق بیان ہوئے ہیں۔[30]
تالیفات
نجاشی کے مطابق عبداللہ بن سنان کی تین کتابیں تھیں: کتاب عمل یوم و لیلۃ (دن اور رات کے اعمال کے بارے میں)، کتاب صلاۃ الکبیر اور کتاب فی سائر الابواب من الحلال و الحرام (حلال و حرام کے موضوعات پر)۔[31] شیخ طوسی نے صرف کتاب "عمل یوم و لیلۃ" کا ذکر کیا ہے۔[32]
حوالہ جات
- ↑ بغدادی، ہدیۃ العارفین، 1951ق، ج1، ص439۔
- ↑ نجاشی، رجال، 1424ق، ج1، ص214، ش558۔
- ↑ نجاشی، رجال، 1424ق، ج1، ص214۔
- ↑ برقی، طبقات رجال، 1383ش، ص22۔
- ↑ نجاشی، رجال، 1424ق، ج1، ص214۔
- ↑ سجادی، روابط موالی و تشیع، 1391ش، ص25۔
- ↑ نجاشی، رجال، 1424ق، ج1، ص214۔
- ↑ نجاشی، رجال، 1424ق، ج1، ص214۔
- ↑ طوسی، اختیار معرفۃالرجال، 1404ق، ج2، ص711۔
- ↑ برقی، طبقات رجال، 1383ش، ص22۔
- ↑ طوسی، رجال طوسی، 1415ق، ص221۔
- ↑ نجاشی، رجال، 1424ق، ج1، ص214۔
- ↑ حلی، رجال، 1392ق، ج1، ص120۔
- ↑ برقی، رجال برقی، 1383ش، ص16و18۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ق، ج11، ش6919۔
- ↑ برقی، طبقات رجال، 1383ش، ص48۔
- ↑ برقی، طبقات رجال، 1383ش، ص57۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ق، ج11، ش6919۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ق، ش6919۔
- ↑ نجاشی، رجال، 1424ق، ج1، ص214۔
- ↑ طوسی، اختیار معرفۃالرجال، 1404ق، ج2، ص711۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ق، ج11، ص227۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ق، ج11، ص228-226۔
- ↑ نجاشی، رجال، 1424ق، ج1، ص214۔
- ↑ طوسی، اختیار معرفۃالرجال، 1415ق، ج1، ص412۔
- ↑ طوسی، الفہرست، 1417ق، ص166-165۔
- ↑ طوسی، مصباح المتہجد، 1411ق، ص782-787
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ق، ج11، ص217۔
- ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ق، ج11، ص2225۔
- ↑ مفید، اختصاص، 1379ق، ص238۔
- ↑ نجاشی، رجال، 1424ق، ج1، ص214۔
- ↑ طوسی، الفہرست، 1417ق، ص166۔
مآخذ
- برقی، احمد بن محمد، رجال برقی، تصحیح: سید کاظم موسوی میاموی، تہران، دانشگاہ تہران، 1383ہجری شمسی۔
- بابانی بغدادی، اسماعیل بن محمد، ہديۃ العارفين (أسماء المؤلفين و آثار المصنفين)، دار إحياء التراث العربی، بيروت ـ لبنان، 1951ء۔
- خویی، سیدابوالقاسم، معجم رجال الحدیث، لندن، موسسہ اسلامی خویی، 1413ھ/1992ء۔
- حلی، حسن بن داوود، کتاب الرجال، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، نجف، مطبعۃ الحیدریۃ، 1392 ھ۔
- سجادی، سیدمحسن، روابط موالی و تشیع، قم، آشیانہ مہر، 1391ہجری شمسی۔
- طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفۃ الرجال (رجال کشی)، قم، موسسہ آل البیت، 1363شمسی/1404ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، رجال طوسی، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1373شمسی/1415ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، تحقیق:جواد قیومی، قم، موسسہ نشر الفقاہہ، 1417ھ/1375ہجری شمسی۔
- طوسی، محمد بن حسن، مصباح المتہجد، بیروت، موسسہ فقہ شیعہ، 1411ھ/1991ء۔
- مفید، محمد بن نعمان، اختصاص، تحقیق: علی اکبر غفاری، تہران، نشر صدوق، 1379ھ/1338ہجری شمسی۔
- نجاشی، احمد بن علی، رجال نجاشی، تصحیح: موسی شبیری زنجانی، قم، موسسہ نشر اسلامی، 1382شمسی/1424ھ۔