ذریح محاربی

ویکی شیعہ سے
ذریح محاربی
امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے خاص صحابی
ذاتی کوائف
نام:ذریح بن محمد بن یزید محاربی
کنیت:ابو ولید
لقب:کوفی، محاربی
نسب:طایفہ بنی‌ محارب بن خصفہ
محل زندگی:کوفہ
وفات:148ھ یا 183ھ میں بقید حیات
مذہب:شیعہ
صحابی:امام باقرؑامام صادقؑامام کاظمؑ
حدیثی معلومات
نقل حدیث:امام باقرؑ، امام صادقؑ اور امام کاظمؑ
ان کے راوی:محمد بن ابی‌ عمیر، عبد اللہ بن مغیرہ، صفوان بن یحیی، أبان بن عثمان الاحمر، عبد اللہ بن سنان، یونس بن عبدالرحمن و ...
وثاقت:ثقہ
موضوعات:امامت، مہدویت، فقہی اور اخلاقی
احادیث کی تعداد:61 یا 62 روایت
تألیفات:کتاب اصل یا الحدیث


ذَریح مُحاربی امامیہ محدثین اور امام باقرؑ، امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے تھا۔ کہا جاتا ہے کہ امام صادقؑ کے یہاں ان کا بڑا مقام تھا۔ شیعہ محدثین نے ان سے بہت ساری احادیث نقل کی ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور شیعہ عقائد جیسے امامت اور مہدویت منجملہ ان موضوعات میں سے ہیں جن کے بارے میں محاربی نے حدیث نقل کی ہے۔

اکثر شیعہ علمائے رجال نے بزرگان کا ذریح سے حدیث نقل کرنے پر اعتماد کرتے ہوئے ذریح کی توثیق کی ہیں۔ مذکورہ شیعہ ائمہ کے علاوہ انہوں نے دیگر مشہور افراد جیسے ابو بصیر اسدی اور عبادۃ بن زیاد اسدی کوفی سے بھی کسب فیض کیا ہے اور اصحاب اجماع کے اکثر راوی ان کے شاگرد شمار ہوتے ہیں۔

اجمالی تعارف

ذَریح بن محمد بن یزید مُحاربی[1] شیعہ[2] اور امامیہ[3] محدثین اور امام باقرؑ،[4] امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے اصحاب میں سے تھا اور ان ائمہ سے احادیث نقل کی ہے۔[5]

ان کی کنیت ابو ولید تھی۔[6] لیکن کہا گیا ہے کہ وہ ذَریح مُحاربی کے نام سے معروف تھا[7] یا احادیث میں اسی نام سے مشہور تھا۔[8] اس نام کے ساتھ ان کی شہرت کی وجہ طایفہ بنی‌ محارب بن خصفۃ[9] یا بنی‌ محارب بن حفص[10] کے ساتھ ان کی نسبت بتائی جاتی ہے۔

شیخ طوسی نے ان کا تعارف ذَریح بن یزید کے نام سے کیا ہے؛[11] لیکن تنقیح المَقال کے مصنف عبداللہ مامقانی اور دیگر مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ شیخ طوسی یا انہیں ان کے دادا کی طرف نسبت دی ہے یا ان کا نام غلطی سے لکھنے سے رہ گیا ہے؛[12] کیونکہ رجالیوں کی اکثریت نے ان کا تعارف محمد کے بیٹے سے کیا ہے۔[13] شیخ صدوق بھی انہیں ذریح بن یزید بن محمد کے نام سے یاد کرتے ہیں[14] جسے بعض ٹائپی غلطی سے قرار دیتے ہیں۔[15]

وہ کوفہ کا رہنے والا تھا۔[16] اس بنا پر انہیں کوفی کے لقب سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[17] انہوں نے امام صادقؑ سے کسب فیض کرنے کے لئے کوفہ سے مدینہ سفر کیا۔[18] ان کی تاریخ ولادت کے بارے میں منابع میں کوئی معلومات میسر نہیں ہے؛ لیکن بعض دوسری صدی ہجری کے ابتدائی سالوں کو ان کی تاریخ ولادت قرار دیتے ہیں؛[19] چنانچہ ان کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی منابع میں کوئی چیز ذکر نہیں ہوئی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ 148ھ تک زندہ تھے[20] حتی 183ھ تک بھی ان کے بقید حیات ہونے کے بارے میں شواہد ملتے ہیں۔[21]

طبقات حدیث میں ان کا مقام

ذَریح مُحاربی کو راویوں کے پانچویں طبقے میں شمار کیا جاتا ہے[22] اور شیعہ بزرگان نے ان سے حدیث نقل کی ہیں۔[23] امام صادقؑ کے یہاں ان کا بڑا مقام تھا[24] یہاں تک کہ وہ امام کے «خاصُ الخاص» اصحاب میں ان کا شمار ہوتا تھا۔[25]

ذریح سے بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ اسی بنا پر بعض انہیں کثیر الروایہ قرار دیتے ہیں۔[26] کہا جاتا ہے کہ سلسلہ اسنادِ میں ذریح کے نام 61[27] یا 62 روایت[28] ذکر ہوئی ہے جن میں سے اکثر روایات میں ان کا نام ذریح محاربی آیا ہے۔[29]

اسلامی تعلمیات اور شیعہ عقائد خاص کر امامت،[30] مہدویت[31] اور اسی طرح فقہی[32] اور اخلاقی[33] احادیث من جملہ ان کی احادیث کے موضوعات میں سے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی ایک کتاب[34] اَصل[35] یا الحدیث[36] کے نام سے ہے۔ ان کی کتاب کی احادیث کو مختلف راویوں نے نقل کی ہیں۔[37]

علمائے رجال کے یہاں ذریح کی وثاقت

ذریح محاربی کی مدح و ذم دونوں میں احادیث موجود ہیں۔ بعض ان کی مدح کو ترجیح دیتے ہیں۔[38] شیخ طوسی[39] و دیگر علماء نے ذریح کی توثیق[40] اور تعریف کی ہیں[41] یہاں تک کہ ان کو نمایاں ثقہ [42] اور مافوق ثقہ[43] راویوں میں شمار کئے ہیں۔ عبداللہ مامقانی کہتے ہیں کہ ان کی وثاقت کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔[44]

بعض رجالی علماء جیسے حسن بن محبوب،[45] جعفر بن بشیر، صفوان بن یحیی، عبداللہ بن مغیرہ اور یونس بن عبدالرحمن نے ان سے[46] اور اسی طرح محمد بن ابی‌ عمیر کی طرف سے ان کی روایات پر اعتماد کرنے کو[47] ان کی وثاقت کی دلیل قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح کلینی اور شیخ صدوق کا ان سے احادیث نقل کرنا علم حدیث میں ان کے بلند مقام و مرتبے کی نشاندہی کرتی ہے۔[48] اسی طرح کتاب اصل اور بعض اصحاب کے توسط سے اس سے حدیث نقل کرنا بھی ذریح کی وثاقت کی دلیل قرار دی گئی ہے۔[49]

بعض رجالی علماء ذریح کی وثاقت کو ثابت کرنے کے لئے امام صادقؑ سے منقول حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں ذریح کی صداقت کی تعریف و تمجید کی گئی ہے اور ان کو صادق کے لقب سے یاد کیا گیا ہے۔[50] بعض اس حدیث کو ذریح کے اعلی مقام و منزلت کی دلیل قرار دیتے ہیں۔[51] اسی طرح کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث ذریح کی تعریف و تمجید اور اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی طرح کوئی بھی قرآن کے باطن اور اسرار و رموز سے واقف نہیں تھا۔[52]

ابن‌ غضائری ایک حدیث کی طرف اشارہ کی ہے جسے بعض نے ذریح کے ضعیف ہونے کی دلیل قرار دی ہیں۔ وہ اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی مزمت پر دلالت نہیں کرتی۔[53] [یادداشت 1] شیعہ برجستہ رجالی اور فقیہ آیت اللہ خویی اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر اس حدیث کی سند صحیح بھی ہو تو اس کا مضمون ذریح کی مزمت پر دلالت نہیں کرتا؛ کیونکہ امام صادقؑ نے ان کو جابر کے توسط سے نقل ہونے والی احادیث کو سیکھنے سے منع نہیں کیا ہے؛ بلکہ اسے دوسروں تک منتقل کرنے سے منع کیا ہے۔[54] دوسرے رجالی علماء نے بھی مذکورہ حدیث اور اس کے راویوں کو مورد خدشہ قرار دینے کی چھان بین کے بعد اس حدیث کے ضعیف ہونے کو رد کرتے ہیں۔[55]

اساتذہ اور شاگرد

ذَریح مُحاربی نے فقہ اور حدیث میں امام صادقؑ سے کسب فیض کیا اور ان سے بہت ساری احادیث نقل کی ہے۔[56] اسی طرح انہوں نے ابو بصیر اور عبادۃ بن زیاد اسدی کوفی سے بھی روایت نقل کی ہے۔[57] اسی طرح ان کو فُضَیل بن یَسار کا ہم نشین قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے اکثر احادیث کو ان سے نقل کی ہے۔[58]

محمد بن ابی‌ عمیر، عبد اللہ بن مغیرہ، صفوان بن یحیی، اَبان بن عثمان الاحمر اور عبد اللہ بن سنان جو کہ اصحاب اجماع میں سے تھے نے ذریح سے روایت نقل کی ہیں۔[59] ان کے علاوہ دوسرے راویوں جیسے یونس بن عبد الرحمن،[60] جعفر بن بشیر بجَلّی، جمیل بن صالح، علی بن حکم، حسین بن نعیم صحّاف، حسن بن جہم، معاویۃ بن وہب بجلی، محمد بن خالد برقی قمی، حسن بن رباط، یحیی بن عُمران حلبی، حسین بن عثمان،[61] عبداللّہ بن جبلۃ الکنانی، صالح بن رزین، المرتجل بن معمر اور علی بن أسباط[62] وغیرہ[63] نے ذریح محاربی سے روایت نقل کی ہیں۔

حوالہ جات

  1. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص430۔
  2. برقعی، راہنمای دانشوران در ضبط نامہا، نسب‌ہا و نسبت‌ہا، 1384ہجری شمسی، ج‌1، ص298۔
  3. شبستری، الفائھ، 1418ھ، ج‌1، ص557۔
  4. نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، 1414ھ، ج‌3، ص377۔
  5. نجاشی، رجال النجاشی، 1365ہجری شمسی، ص163؛ استرآبادی، منہج المقال، 1422ھ، ج‌5، ص129؛ شیخ حر عاملی، تفصیل وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ص369؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص431۔
  6. شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص203؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص430؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج‌2، ص196۔
  7. تبریزی، الموسوعۃ الرجالیۃ، 1429ھ، ج‌4، ص140۔
  8. مظاہری، الثقات الأخیار، 1428ھ، ص161، 510۔
  9. نجاشی، رجال النجاشی، 1365ہجری شمسی، ص163؛ علیاری تبریزی، بہجۃ الآمال، 1412ھ، ج‌4، ص127۔
  10. استرآبادی، منہج المقال، 1422ھ، ج‌5، ص129؛ نراقی، شعب المقال، 1422ھ، ص78۔
  11. شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص203۔
  12. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج‌26، ص363؛ امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص430؛ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج‌4، ص303؛ اردبیلی، جامع الرواۃ، 1403ھ، ج‌1، ص313۔
  13. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج‌26، ص363۔
  14. شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، 1413ھ، ج4، ص510۔
  15. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج‌26، ص363۔
  16. ربانی سبزواری، «ذریح بن محمد محاربی (محدث صادق)»۔
  17. شیخ طوسی، رجال الطوسی، 1373ہجری شمسی، ص203؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج‌2، ص196؛ شبستری، الفائق، 1418ھ، ج‌1، ص557؛ قہپایی، مجمع الرجال، 1364ہجری شمسی، الفہرس‌، ج‌3، ص2۔
  18. ربانی سبزواری، «ذریح بن محمد محاربی (محدث صادق)»۔
  19. ربانی سبزواری، «ذریح بن محمد محاربی (محدث صادق)»۔
  20. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج‌2، ص196؛
  21. شبستری، أحسن التراجم لأصحاب الإمام موسی الکاظمؑ، 1411ھ، ج‌1، ص241۔
  22. حسینی جلالی، المنہج الرجالی، 1422ھ، ص269۔
  23. اعرجی کاظمی، عدۃ الرجال، 1415ھ، ج‌2، ص129؛ مظاہری، الثقات الأخیار، 1428ھ، ص161۔
  24. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج‌2، ص197۔
  25. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج‌26، ص371 بہ نقل برخی مشایخ۔
  26. استرآبادی، منہج المقال، 1422ھ، ج‌5، ص129؛ مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج‌26، ص373؛ اردبیلی، جامع الرواۃ، 1403ھ، ج‌1، ص313۔
  27. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج‌2، ص197-198۔
  28. شبستری، أحسن التراجم لأصحاب الإمام موسی الکاظمؑ، 1411ھ، ج‌1، ص241۔
  29. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج‌8، ص159؛ مرتضی، زبدہ المقال، 1426ھ، ج‌1، ص440۔
  30. برقی، المحاسن، 1371ھ، ج‌1، ص92؛ شیخ صدوق، کمال الدین، 1395ھ، ج‌1، ص230؛ علیاری تبریزی، بہجۃ الآمال، 1412ھ، ج‌4، ص128۔
  31. کشی، رجال الکشی، 1404ھ، ج‌2، ص671؛ شیخ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1425ھ، ج‌5، ص186۔
  32. اردبیلی، جامع الرواۃ، 1403ھ، ج‌1، ص313-314۔
  33. شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج‌4، ص304-305۔
  34. نجاشی، رجال النجاشی، 1365ہجری شمسی، ص163۔
  35. شیخ طوسی، الفہرست، نجف، ص189؛ ابن‌شہرآشوب، معالم العلماء، 1380ھ، ص49؛ آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، 1408ھ، ج‌2، ص149۔
  36. آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، 1408ھ، ج‌6، ص331۔
  37. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص430؛ اردبیلی، جامع الرواۃ، 1403ھ، ج‌1، ص313۔
  38. حر عاملی، الرجال، 1427ھ، ص119۔
  39. شیخ طوسی، الفہرست، نجف، ص189۔
  40. حر عاملی، الرجال، 1427ھ، ص119؛ ابن‌شہرآشوب، معالم العلماء، 1380ھ، ص49؛ قہپایی، مجمع الرجال، 1364ہجری شمسی، الفہرس‌، ج‌3، ص2۔
  41. علیاری تبریزی، بہجۃ الآمال، 1412ھ، ج‌4، ص128؛ شبستری، أحسن التراجم لأصحاب الإمام موسی الکاظمؑ، 1411ھ، ج‌1، ص242۔
  42. نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج‌22، ص291۔
  43. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص430۔
  44. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج‌26، ص373۔
  45. نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج‌22، ص291۔
  46. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص430۔
  47. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج‌2، ص197۔
  48. فیض کاشانی، علامہ حلی، الفہرست و بذیلہ کتاب نضد الإیضاح، ص136۔
  49. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص430۔
  50. صَدَقَ ذریح و صَدَقْتَ مَن یحتَمل ما یحتمل ذریح؛ کون ان مطالب کو تحمل کر سکتا ہے جسے ذریح نے تحمل کی ہے؟» کشی، رجال الکشی، 1404ھ، ج‌2، ص670-671۔
  51. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص430؛ کشی، رجال الکشی، 1404ھ، ج‌2، ص670؛ استرآبادی، منہج المقال، 1422ھ، ج‌5، ص133؛ مازندرانی حائری، منتہی المقال، 1416ھ، ج‌3، ص226؛ خویی، معجم رجال الحدیث، الناشر : مؤسسۃ الخوئي الإسلاميۃ، ج8، ص158۔
  52. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج‌26، ص371: تفسیر سورہ ذاریات،سہ‌شنبہ 28 دی 1395، سایت اسرا آیت اللہ جوادی آملی،https://javadi.esra.ir/fa/w/
  53. ابن‌غضائری، الرجال، 1422ھ، ص59۔
  54. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج‌8، ص157-158۔
  55. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج‌6، ص430؛ کشی، رجال الکشی، 1404ھ، ج‌2، ص670، محقق؛ استرآبادی، منہج المقال، 1422ھ، ج‌5، ص133؛ شوشتری، قاموس الرجال، 1410ھ، ج‌4، ص304؛ اردبیلی، جامع الرواۃ، 1403ھ، ج‌1، ص313۔
  56. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج‌2، ص197۔
  57. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج‌8، ص159؛ سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج‌2، ص197۔
  58. فیض کاشانی، علامہ حلی، الفہرست و بذیلہ کتاب نضد الإیضاح، ص137۔
  59. مظاہری، الثقات الأخیار، 1428ھ، ص161-162۔
  60. نراقی، شعب المقال، 1422ھ، ص78۔
  61. مامقانی، تنقیح المقال، 1431ھ، ج‌26، ص374۔
  62. سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، 1418ھ، ج‌2، ص197۔
  63. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج‌8، ص15؛ شبستری، الفائھ، 1418ھ، ج‌1، ص557۔

نوٹ

  1. ایک حدیث میں امام صادقؑ نے ذریح کو جابر بن یزید جعفی سے حدیث نقل کرنے سے منع کیا ہے؛ ممکن ہے اس کی علت یہ ہو کہ یہ احادیث پست فطرت انساوں کے ہاتھ نہ لگے کیونکہ ان کے لگنے کے بعد ان میں موجود اسرار و رموز فاش ہو جائے۔

مآخذ

  • آقابزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، قم، اسماعیلیان، 1408ھ۔
  • ابن‌شہرآشوب، محمد بن علی، معالم العلماء فی فہرست کتب الشیعۃ و أسماء المصنفین۔۔۔، نجف، المطبعۃ الحیدریۃ، 1380ھ۔
  • ابن‌غضائری، احمد بن حسین، الرجال، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی‌ دارالحدیث، 1422ھ۔
  • اردبیلی، محمد بن علی، جامع الرواۃ و ازاحۃ الاشتباہات عن الطرق و الأسناد، بیروت،‌ دار الأضواء، 1403ھ۔
  • استرآبادی، محمد بن علی، منہج المقال فی تحقیق أحوال الرجال، قم، موسسۃ آل البیتؑ لإحیاء التراث، 1422ھ۔
  • اعرجی کاظمی، محسن بن حسن، عدۃ الرجال، قم، اسماعیلیان، 1415ھ۔
  • امین، محسن، أعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
  • برقعی، علی اکبر، راہنمای دانشوران در ضبط نامہا، نسب‌ہا و نسبت‌ہا، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
  • برقی، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، قم، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ دوم، 1371ھ۔
  • تبریزی، جواد، الموسوعۃ الرجالیۃ، قم،‌دار الصدیقۃ الشہیدۃ(س)، 1429ھ۔
  • حسینی جلالی، محمدرضا، المنہج الرجالی و العمل الرائد فی الموسوعۃ الرجالیۃ لسید الطائفۃ آیۃ اللہ العظمی البروجردی (قدس سرہ)، قم، بوستان کتاب، چاپ دوم، 1422ھ۔
  • خویی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواۃ، بی‌نا، بی‌جا، چاپ پنجم، 1413ھ۔
  • ربانی سبزواری، «ذریح بن محمد محاربی (محدث صادق)»، فرہنگ کوثر، شمارہ 82، 1389ہجری شمسی۔
  • شبستری، عبدالحسین، أحسن التراجم لأصحاب الإمام موسی الکاظم علیہ‌ السلام، مشہد، المؤتمر العالمی للإمام الرضاؑ، 1411ھ۔
  • شبستری، عبدالحسین، الفائق فی رواۃ و أصحاب الإمام الصادقؑ، قم، مؤسسۃ النشرالإسلامی، 1418ھ۔
  • شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، بیروت، اعلمی، 1425ھ۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، الرجال، قم، موسسہ علمی فرہنگی‌ دارالحدیث، 1427ھ۔
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعۃ إلی تحصیل مسائل الشریعۃ، قم، مؤسسۃ آل البیتؑ، 1409ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، کمال الدین و تمام النعمۃ، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، 1395ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لا یحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ سوم، 1373ہجری شمسی۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعۃ و أصولہم و أسماء المصنفین و أصحاب الأصول، نجف، مکتبۃ المرتضویۃ، بی‌تا۔
  • علیاری تبریزی، علی بن عبداللہ، بہجۃ الآمال فی شرح زبدۃ المقال، تہران، بنیاد فرہنگ اسلامی کوشانپور، چاپ دوم، 1412ھ۔
  • فیض کاشانی، علامہ حلی، الفہرست (و بذیلہ کتاب نضد الایضاح)، بی‌نا، بی‌تا۔
  • قہپایی، عنایۃاللہ، مجمع الرجال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، 1364ہجری شمسی۔
  • کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، قم، موسسۃ آل البیتؑ لإحیاء التراث، 1404ھ۔
  • گروہ علمی موسسہ امام صادقؑ، زیر نظر جعفر سبحانی، موسوعۃ طبقات الفقہاء، قم، مؤسسۃ الإمام الصادقؑ، 1418ھ۔
  • مازندرانی حائری، محمد بن اسماعیل، منتہی المقال فی أحوال الرجال، قم، موسسۃ آل البیتؑ لإحیاء التراث، 1416ھ۔
  • مامقانی، عبداللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، قم، موسسۃ آل البیتؑ لإحیاء التراث، 1431ھ۔
  • مرتضی، بسام، زبدۃ المقال من معجم الرجال، بیروت، دارالمحجۃ البیضاء، 1426ھ۔
  • مظاہری، حسین، الثقات الأخیار من رواۃ الأخبار، قم، موسسۃ الزہراءؑ الثقافیۃ الدراسیۃ، 1428ھ۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جماعۃ المدرسین فی الحوزۃ العلمیۃ بقم، چاپ ششم، 1365ہجری شمسی۔
  • نراقی، ابوالقاسم بن محمد، شعب المقال فی درجات الرجال، قم، کنگرہ بزرگداشت محققان ملا مہدی و ملا احمد نراقی، چاپ دوم، 1422ھ۔
  • نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، تہران، فرزند مؤلف، 1414ھ۔
  • نوری، حسین بن محمد تقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسۃ آل البیتؑ، 1408ھ۔
  • https://javadi.esra.ir/fa/w/تفسیر-سورہ-ذاریات-جلسہ-15-1395/10/29-?p_l_back_url=%2Fsearch%3Fq%3D%25D8%25B0%25D8%25B1%25DB%258C%25D8%25AD%