بکیر بن اعین
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | بکیر بن اعین بن سُنْسُن شیبانی کوفی |
کنیت | ابوجَہم |
محل زندگی | کوفہ |
اقارب | عبد اللہ بن بکیر ، ابوغالب احمدبن محمد زُراری |
مدفن | دامغان (ایران) |
دینی معلومات | |
وجہ شہرت | صحابئ امام باقر و امام صادق (علیہما السلام) |
ابوجَہم بکیر بن اعین بن سُنْسُن شیبانی کوفی حضرت امام باقر اور حضرت امام جعفر صادق کے مشہور ترین اصحاب میں سے ہیں۔ ان کا خاندان کوفہ کے اہم ترین اور پہلے شیعہ خاندانوں میں سے تھا۔ خاندان بکیر کی اولاد میں سے ایک تعداد غیبت کبرای امام عصر (عج) (چوتھی صدی) کے زمانے تک فقہ و حدیث کی جانی پہچانی شخصیت رہی ہے۔ ان میں سے عبد اللہ بن بکیر اور ابوغالب احمدبن محمد زُراری کے نام قابل ذکر ہیں۔
صحابئ امام
اگرچہ بکیر کو امام سجاد کے اصحاب سے شمار نہیں کرتے ہیں جبکہ ان سے منقول احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے امام زین العابدین کے زمانے کو پایا تھا۔[1]
اصحاب امام باقر[2] اور امام صادق (ع) سے ہونا قطعی ہے۔[3] وہ کبھی واسطے کے بغیر اور کبھی اپنے بھائی زرارۃ بن اعین کے واسطے سے حدیث نقل کرتے ہیں۔
منقول روایات
ابوالقاسم خوئی[4] کے مطابق کتب اربعہ میں بکیر سے منقول احادیث کی تعداد ۱۲۵ ک پہنچتی ہے ان میں چار حدیثوں کے علاوہ تمام احادیث فقہ سے متعلق ہیں۔[5]
مقام و منزلت
امام صادق (ع) نے ان کی وفات کے بعد ان کے متعلق تعریفی کلمات میں روز قیامت پیامبر (ص) اور امیر المومنین کے ہمنشین ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ بحرالعلوم[6] اس روایت کو صحیح اور معتبر سمجھتے ہیں۔[7]
راویان بکیر
عبداللہ بن بکیر، ابان بن عثمان، جمیل بن دراج، حریز بن عبداللہ، عبدالرحمان بن حجاج، علی بن رِئاب اور عمر بن اذینہ ان سے حدیث نقل کرنے والوں میں سے ہیں۔[8]
بعض اسناد میں ابن ابی عمیر جیسے افراد بکیر سے نقل کرنے والوں میں سے ہیں حالانکہ زمانی لحاظ سے ان کے درمیان کافی فاصلہ موجود ہے۔ رجال کے ماہرین نے ان اسناد کی تصحیح اور اشتباہ کی وضاحٹ کی ہے۔[9]
شہرت اولاد بکیر
اولاد بکیر بکیریون اور وُلد جہم کے نام سے مشہور ہیں بلکہ اس سے زیادہ بکیر کے بھائی زرارۃ بن اعین سے منسوب زراری کے نام سے مشہور ہیں۔ [10] و نسبت اخیر بہ نوشتہ ابوغالب کے مطابق نسبت اخیر اس وجہ سے تھی کہ حسن بن جہم بن بکیر کی والدہ زرارۃ بن اعین کی نسل سے تھی۔
سلیمان بن جہم کیلئے توقیعات امام ہادی (ع) میں اس نسبت کا ذکر ہونا اس کے رواج[11] میں کافی مؤثر رہا۔[12]
اولاد بکیر
اخلاف بکیر میں سے کئی افراد فقہی اور حدیثی سے معروف رہے مثلا:
- عبدالحمید بن بکیر
عبدالحمید بن بکیر،: اصحاب امام صادق اور امام کاظم (ع) کے اصحاب میں سے ہے جو واسطہ کے بغیر اور کبھی عبدالملک بن بکیر اور محمد بن مسلم کے واسطے سے حدیث نقل کرتا ہے نیز محمد بن ابی عمیر، صفوان بن یحیی، حسن بن محبوب اور یونس بن عبدالرحمان، اس سے روایت نقل کرتے ہیں۔
- عمر بن بکیر
عمر بن بکیر، صحابئ امام صادق (ع)۔
- عبدالاعلی بن بکیر
عبدالاعلی بن بکیر، امام صادق (ع) کے راوی ہے۔ اس کے اور اسکے چچا عبدالاعلی بن اعین کی اسناد کے درمیان بہت زیادہ خلط ہوا ہے۔ [13]
- زید و جہم بن بکیر
زید بن بکیر اور جہم بن بکیر کہ طوسی،[14] نجاشی[15]، ابن داوود حلی،[16] قہپائی[17] اور امین[18] نے انہیں اولاد بکیر کے زمرے میں ذکر کیا ہے۔
- اولاد عبدالحمید بن بکیر
عبدالحمید بن بکیر کے بیٹے حسین، محمد اور علی احادیث کے راوی ہیں [19] ہر چند زراری نے انہیں عبداللہ بن بکیر کی اولاد کہا ہے۔[20]
- حسن بن جہم بن بکیر
حسن بن جہم بن بکیر امام کاظم اور امام رضا (ع) کے اصحاب اور ثقہ محدثین [21] میں سے ہے کہ جو بعض واسطوں جیسے بکیر بن اعین، حماد بن عثمان، عبداللہ بن بکیر اور فضیل بن یسار کے ذریعے حدیث روایت کرتے ہیں اور دیگر محدثین جیسے احمد بن محمد بن عیسی، حسن بن علی بن فضال، علی بن اسباط، محمد بن اسماعیل اور محمد بن عبدالحمید اس سے روایت نقل کرتے ہیں۔ اس سے مروی احادیث اکثر فقہی ہیں جنکی تعداد ۱۲۳ تک پہنچتی ہے۔[22]
- حسین بن جہم بن بکیر
حسین بن جہم بن بکیر اصحاب امام کاظم اور امام رضا (ع) میں سے ہے کہ بعض کتب رجال اسے حسن بن جہم سے خلط کیا ہے[23]
- علی بن جہم بن بکیر
علی بن جہم بن بکیر، امام کاظم (ع) کے اصحاب اور راویوں میں سے ہے۔
- محمد بن حسن بن جہم بن بکیر
محمد بن حسن بن جہم بن بکیر اصحاب امام کاظم اور امام رضا (ع) کے طبقات میں مردد ہے اور اس سے چند احادیث اس سے منقول ہیں۔[24]
- سلیمان بن حسن بن جہم
سلیمان بن حسن بن جہم بن بکیر، مشائخ شیعہ میں سے معروف بنام زراری کہ جو ماں کی طرف سے آلطاہر سے نسبت رکھتا تھا، اسی مناسبت سے ان کے ہمراہ نیشابور گیا اور آل طاہر کی خراسان سے کوفہ واپسی کے وقت ان کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔ کوفہ میں کئی سالوں تک آل زرارہ کے عنوان سے معروف شیعہ نشین محلہ اس کی جائے سکونت رہا۔[25]
- محمد بن سلیمان
محمد بن سلیمان مشہور بنام ابو طاہر زراری (۲۳۷ـ۳۰۱) موثق اصحاب حدیث میں سے ہے کہ جس کی امام حسن عسکری (ع) سے خط و کتابت تھی نیز کتاب الآداب والمواعظ اور کتاب الدعاء اس کے آثار میں سے ہیں۔
وہ اصحاب آئمہ کی کتب کا دوسری نسلوں تک منتقل ہونے کا واسطہ رہا۔ [26] زراری[27] اور شیخ طوسی،[28] کے مطابق حضرت امام عصر (عج) کی توجہ کا مرکز رہا نیز اس کے لئے توقیعات بھی صادر ہوئیں۔ نوادہ ابوغالب، محمد بن عبیداللہ بن احمد، نیز بہ ابوطاہر زراری معروف بودہ و بعضاً در اسناد، احادیث او و محمد بن سلیمان را خلط کردہاند.[29]
- علی بن سلیمان زراری
ابوالحسن علی بن سلیمان زراری امام زمان کے مورد توجہ محدثین اور فقہا میں سے تھا اور امام کا اس سے تعلق اور رابطہ تھا اور امام کی جانب سے اس کے لئے توقیعات بھی صادر ہوئیں۔ کتاب النوادر اس کے آثار میں سے ہے۔ [30]
- جعفر بن سلیمان زراری
جعفر بن سلیمان کو امام ہادی (ع) کے اصحاب سے کہتے ہیں۔[31]
- سلیمان کی دیگر اولاد
سلیمان کے دیگر تین فرزند احمد و حسن و حسین نیز رسالۃ فی آلاعین زراری میں مذکور ہیں۔[32]
وفات اور مقبرہ
بکير امام صادق (ع) کے زمانے می فوت ہوا ۔امام نے اس کی وفات کے بعد فرمایا: «اما واللہ لقد انزلہ اللہ بين رسولہ و اميرالمؤمنين عليہماالسلام» خدا کی قسم! خداوند نے اسے رسول خدا (ص) اور اميرالمؤمنين (ع) کے درمیان وارد کیا۔ جب حضرت صادق (ع) نے اسے یاد کیا تو فرمایا: «رحم اللہ بکيرا و قد و اللہ فعل» خداوند بکير پر رحمت نازل کرے، خدا کی قسم اللہ نے رحمت نازل کی ہے۔[33]
ایران کے شہر دامغان شہر میں بکیر کے نام سے منسوب ایک مقبرہ و گنبد موجود ہے۔ مقبرہ کے ایوان کے اوپر موجود کتبہ پر تحریر کے مطابق اس مقبرے کا مدفون سال ۱۵۶ ہجری.ق. سے متعلق ہے اور امام باقر (ع) اور امام صادق (ع) کا خاص صحابی تھا۔دامغان کے حاکم مطلب خان نے اس مزار پر گنبد بنوایا جسکا ارتفاع چھ ذرع تھا۔ یہ بقعہ علماء اور دامغان کے شہریوں کے درمیان ایک زیارتگاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مقبرہ اس شہر میں شہدا روڈ پر ایک بڑی مسجد بنام مسجد النبی کے ساتھ بنایا گیا ہے[34]
مربوطہ لنک
حوالہ جات
- ↑ طوسی، الفہرست، ص ۷۴؛ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۳، ص۳۵۹.
- ↑ ابن ندیم، الفہرست، ص۲۷۶.
- ↑ امین، اعیان الشیعۃ، ج۳، ص۵۹۹ـ۶۰۰.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۳، ص۳۶۰.
- ↑ کلینی، الکافی، ج۱، ص۹۳؛ ص۱۰۹؛ ص۴۳۸.
- ↑ بحرالعلوم، رجال السید بحرالعلوم:المعروف بالفوائدالرجالیۃ، ج۱، ص۲۵۶.
- ↑ کشی، اختیار معرفۃ الرجال، (تلخیص) محمدبن حسن طوسی، ص۳۱۵؛ علاّمہ حلّی، رجال، ص۲۸؛ قہپائی، مجمع الرجال، ج۱، ص۲۷۹؛ امین، اعیان الشیعۃ، ج۳، ص۵۹۹ـ۶۰۰.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۳، ص۳۶۰ـ۳۶۱؛ مازندرانی حائری، منتہیالمقال فی احوالالرجال، ج۲، ص۱۷۵.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۳، ص۳۶۲؛ تستری، قاموس الرجال، ج۲، ص۳۸۶.
- ↑ موحد ابطحی، تاریخ آلزرارہ، ص۱۸۵؛ زراری، رسالۃ فی آل اعین، مع شرحہا لمحمدعلی موحدابطحی، ج۲، ص۱۱.
- ↑ زراری، رسالۃ فی آل اعین، مع شرحہا لمحمدعلی موحدابطحی، ج۲، ص۱۱.
- ↑ بحرالعلوم، رجال السید بحرالعلوم:المعروف بالفوائدالرجالیۃ، ج۱، ص۲۲۸-۲۲۹.
- ↑ موحد ابطحی، تاریخ آلزرارہ، ص۱۳۳.
- ↑ طوسی، رجالالطوسی، ص۱۰۹.
- ↑ نجاشی، فہرست اسماء مصنّفی الشیعۃ المشتہر برجال النجاشی، ص ۲۲۲
- ↑ ابن داوود حلّی، کتابالرجال، ص۵۷.
- ↑ قہپائی، مجمعالرجال، ج۱، ص۲۷۹.
- ↑ امین، اعیان الشیعۃ، ج۳، ص۵۹۹ـ۶۰۰.
- ↑ نجاشی، فہرست اسماء مصنّفیالشیعۃ المشتہر برجالالنجاشی، ص ۲۲۲
- ↑ زراری، رسالۃ فی آل اعین، مع شرحہا لمحمدعلی موحدابطحی، ج۲، ص۲۴.
- ↑ زراری، رسالۃ فی آل اعین، مع شرحہا لمحمدعلی موحدابطحی، ج۲، ص۸.
- ↑ ابوالقاسم خوئی، معجمرجالالحدیث، ج۴، ص۲۹۵.
- ↑ مامقانی، تنقیحالمقال فی علمالرجال، ج۱، بخش۲، ص۳۲۳.
- ↑ موحد ابطحی، تاریخ آلزرارہ، ص۱۹۸.
- ↑ زراری، رسالۃ فی آلاعین، مع شرحہا لمحمدعلی موحدابطحی، ج۲، ص11-13.
- ↑ زراری، رسالۃ فی آلاعین، مع شرحہا لمحمدعلی موحدابطحی، ج۲، ص ۳۴-۳۷.
- ↑ زراری، رسالۃ فی آلاعین، مع شرحہا لمحمدعلی موحدابطحی، ج۲، ص۱۷.
- ↑ طوسی، کتاب الغیبۃ، ص ۱۸۱ـ۱۸۲.
- ↑ مامقانی، تنقیحالمقال فی علمالرجال، ج ۳، بخش ۱، ص ۲۲
- ↑ خوئی، معجمرجالالحدیث، ج۱۲، ص۴۲ـ۴۳.
- ↑ طوسی، رجالالطوسی، ص۴۱۲.
- ↑ زراری، رسالۃ فی آلاعین، مع شرحہا لمحمدعلی موحدابطحی، ص ۱۲-۱۴.
- ↑ کشی، رجال، ص۱۶۰.
- ↑ کاظمینی، محمد، دانشنامہ مشاہیر و مفاخر دامغان، ج۱، ذیل عنوان بکیر بن اعین.
مآخذ
- ابن حجر عسقلانی، لسانالمیزان، بیروت، ۱۳۹۰/۱۹۷۱.
- ابن داوود حلّی، کتاب الرجال، چاپ محمدصادق آل بحرالعلوم، نجف، ۱۳۹۲/ ۱۹۷۲.
- ابن طاووس، التحریر الطاووسی، المستخرج من کتاب حلالاشکال فی معرفۃالرجال، تألیف حسن بن زین الدین شہید ثانی، چاپ محمدحسن ترحینی، قم، ۱۳۶۸ش.
- ابن ندیم، الفہرست، چاپ رضا تجدد، تہران، ۱۳۵۰ش.
- محسن امین، اعیان الشیعہ، چاپ حسن امین، بیروت، ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
- محمد مہدی بن مرتضی بحرالعلوم، رجال السید بحرالعلوم : المعروف بالفوائدالرجالیة، چاپ محمدصادق بحرالعلوم و حسین بحرالعلوم، تہران، ۱۳۶۳ش.
- محمدتقی تستری، قاموس الرجال، قم، ۱۴۱۰ق.
- ابوالقاسم خوئی، معجم رجال الحدیث، بیروت، ۱۴۰۳/ ۱۹۸۳.
- احمد بن محمد زراری، رسالة فی آلاعین، مع شرحہا لمحمدعلی موحدابطحی، اصفہان، ۱۳۹۹ق.
- محمد بن حسن طوسی، رجال الطوسی، نجف، ۱۳۸۰/۱۹۶۱.
- محمد بن حسن طوسی، الفہرست، چاپ محمدصادق آلبحرالعلوم، نجف ۱۳۵۶/۱۹۳۷، چاپ افست قم، ۱۳۵۱ش.
- محمد بن حسن طوسی، کتاب الغیبة، تہران (تاریخ مقدمہ ۱۳۹۸).
- حسن بن یوسف علاّمہ حلّی، رجال العلامة الحلّی، نجف ۱۳۸۱/۱۹۶۱، چاپ افست قم، ۱۴۰۲ق.
- عنایۃاللہ قہپائی، مجمع الرجال، چاپ ضیاءالدین علامہ اصفہانی، اصفہان ۱۳۸۴ـ۱۳۸۷، چاپ افست قم.
- محمدامین بن محمدعلی کاظمی، ہدایۃالمحدثین الی طریقۃالمحمدین، چاپ مہدی رجائی، قم، ۱۴۰۵.
- محمد بن عمر کشّی، اختیار معرفة الرجال، (تلخیص) محمد بن حسن طوسی، چاپ حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش.
- محمد بن یعقوب کلینی، الکافی، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت، ۱۴۱۰ق.
- محمد بن اسماعیل مازندرانی حائری، منتہیالمقال فی احوالالرجال، قم، ۱۴۱۶ق.
- عبداللہ مامقانی، تنقیحالمقال فی علمالرجال، چاپ سنگی نجف، ۱۳۴۹ـ۱۳۵۲.
- محمدعلی موحد ابطحی، تاریخ آلزرارہ، (اصفہان).
- احمد بن علی نجاشی، فہرست اسماء مصنفیالشیعہ مشہور بنام رجالالنجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.
بیرونی رابط
منبع مقالہ: دانشنامہ جہان اسلام