معجم رجال الحدیث (کتاب)

ویکی شیعہ سے
(معجم رجال الحدیث سے رجوع مکرر)
معجم رجال الحدیث
مشخصات
مصنفسید ابو القاسم خوئی
موضوععلم رجال
زبانعربی
مذہبشیعہ
تعداد جلد24
طباعت اور اشاعت
ناشرمرکز نشر الثقافۃ الاسلامیۃ فی العالم
مقام اشاعتقم
سنہ اشاعت1413ھ
اردو ترجمہ
ای بکhttp://lib.eshia.ir/14036


مُعْجَمُ رجالِ الْحَدیث وَ تَفْصیلُ طَبَقاتِ الرُّواة علم رجال کے موضوع پر عربی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جسے سید ابو القاسم خوئی نے تالیف کی ہے۔ اس کتاب میں 15ہزار شیعہ راویان حدیث کا حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ تعارف کیا گیا ہے اور نقل حدیث کے سلسلے میں ان کے معتبر ہونے یا عدم اعتبار کے بارے میں اظہار رائے بھی کیا گیا ہے۔

اس کتاب کے مقدمے میں علم رجال سے متعلق 6 موضوعات کے بارے میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے؛ علم رجال کی ضرورت، راوی کی وثاقت کے معیار، کتب اربعہ میں منقول احادیث کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بحث وغیرہ مقدمے میں بیان ہوا ہے۔

کتاب کے باقی چار حصے اس طرح ہیں: اَسماء (راویوں کے نام‌)، کُنَی (راویوں کی کنیت)، القاباتاور نساء (راوی عورتیں). معجم رجال الحدیث 24 جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔

رجالی کتب میں موجود تمام راویوں کے ناموں کو ایک ہی جگہ پر جمع کرنا اور راویوں کے ناموں میں "تحریف" و تصحیح کے مسئلے کو بیان کرنا اس کتاب کی امتیازی خصوصیات شمار ہوتے ہیں۔

مولف

سید ابو القاسم موسوی خوئی (1899۔1992 ء) شیعہ مرجع تقلید تھے، آپ محمد حسین غروی نائینی اور محمد حسین غروی اصفہانی کے شاگرد تھے۔[1] آپ سید محسن طباطبائی حکیم کی وفات کے بعد عراق میں مرجع اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔[2]

سید ابو القاسم خوئی نے فقہ، اصول فقہ، علم رجال، کلام اور علوم قرآنی جیسے موضوعات پر کتابیں لکھی ہیں۔ کتاب آپ کے سارے قلمی آثار کو «موسوعۃ الامام الخوئی» کے عنوان سے ایک 50 جلدی مجموعے میں جمع کیا گیا ہے۔[3]

اہمیت

معجم رجال الحدیث کو شیعہ علم رجال کی سب سے جامع اور منظم کتاب سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب میں ایسی مثبت خصوصیات ہیں جو دوسری رجال کتابوں میں نہیں پائی جاتیں۔ راویوں کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینا اور گذشتہ علما کے نظریات پر تنقیدی نظر، خاص طور پر رجال کی ابتدائی کتابوں میں مذکور نظریات اور آراء پر نظر ثانی کرنا اس کتاب کی خصوصایت میں شامل ہے۔[4]

اس کتاب کو رجال کی بہترین کتابوں میں شمار کیے جانے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں راویوں کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے بارے میں ایسی مفید معلومات فراہم کی گئی ہیں جو دوسری کتابوں میں نہیں ملتی یا بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔[5]

تالیف کتاب کا محرک اور طریقہ

کتاب میں مذکور مقدمے میں مصنف نے اس کتاب کی تالیف کا محرک یوں بیان کیا ہے کہ علم رجال ایک طویل عرصے سے علماء اور فقہاء کی توجہ کا مرکز رہا ہے، لیکن موجودہ دور میں اسے نظر انداز کیا جاتا ہے؛ جبکہ شرعی احکام کا استنباط اور استخراج اس علم پر منحصر ہے۔ اس لیے علم رجال سے متعلق ایک ایسی جامع اور کامل کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں اس علم کے تمام خصوصیات موجود ہوں۔[6]

معجم رجال الحدیث کی تالیف میں آقا خوئی کے کچھ معاونین بھی تھے جنہوں نے کتاب کی تدوین، نقل، تصحیح، موازنہ اور منابع کا حوالہ دینے میں ان کی مدد کی۔[7] محمد مظفری، حیدرعلی ہاشمیان، یحیی اراکی، سید مرتضی نخجوانی، سید عبدالعزیز طباطبایی یزدی، سید جواد گلپایگانی، محمدکاظم خوانساری، فخرالدین زنجانی، محمد تبریزی، غلامرضا رحمانی اور سید مرتضی حَکَمی آپ کے معاونین تھے.[8]

کتاب کے مندرجات اور ساخت

یہ کتاب ایک مقدمہ اور چار حصوں پر مشتمل ہے۔ مقدمے میں علم رجال سے متعلق 6 موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ باقی چار حصوں میں راویوں کے نام اور ان کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لیا گیا ہے:

مقدمہ

مقدمے میں بیان شدہ مطالب یہ ہیں:

  1. ضرورت علم رجال، علم رجال کی ضرورت کے منکرین کے قول کا رد اور کتب اربعہ میں منقول احادیث کو قطعی الصدور سمجھنے والوں کے نظریے کو اس بحث میں رد کیا گیا ہے؛[9]
  2. راوی کی وثاقت اور حسن حال کی تشخیص کا معیار؛[10]
  3. توثیق ضمنی کا معتبر ہونا؛[11]
  4. توثیقات عامہ کا معتبر نہ ہونا، جیسے راوی کا اصحاب اجماع میں شامل ہونا، مشائخ سے اجازہ نقل روایت کا حامل ہونا، امامؑ کی وکالت رکھنا، امامؑ کی ہمراہی وغیرہ؛[12]
  5. کتب اربعہ میں منقول احادیث کا جائزہ، ان دلائل کا رد جن کے استناد سے ان میں موجود تمام روایتوں کو صحیح السند قرار دیا گیا ہے؛[13]
  6. اہم ترین مآخذ رجالی شیعہ کا تعارف اور اصالت رجال ابن‌غضائری میں تردید.[14]

باقی فصلیں

کتاب معجم رجال الحدیث کی چار فصلیں یہ ہیں: اَسماء (راویوں کے نام)، کُنَی (راویوں کی کنیت)، القابات او رنساء (راوی عورتیں). ان فصلوں میں مجموعی طور پر 15676 نام بیان کیے ہیں اور ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ البتہ بعض راویوں کے نام مشترک ہیں یعنی کچھ نام ایک ہی راوی کے ہیں۔ جن راویوں کے نام، کنیت یا القاب رجالی کتب یا سلسلہ سند میں ذکر ہوئے ہیں، پہلی 3 فصلوں میں ان کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چوتھی فصل میں ان راوی عورتوں کے بارے میں بحث کی گئی ہے جن کے نام کتب رجالی یا سلسلہ سند روایت میں ذکر ہوئے ہیں۔[15]

کتاب کی خصوصیات

کتاب معجم رجال الحدیث کچھ ایسی خصوصیات کی حامل ہے جو دیگر رجالی کتب میں نہیں پائی جاتیں، اس کتاب کی چند خصوصیات درج ذیل ہیں:

  • اس کتاب میں کتب اربعہ میں مذکور تمام راویوں کے سلسلہ سند کو ذکر کیا گیا ہے؛ یہاں تک کہ جن کے نام باقی کتب رجال میں ذکر نہیں ہوئے ہیں۔
  • اس کتاب میں معروف اور غیر معروف رجالی کتابوں میں مذکور تمام راویوں کے نام کو ایک ہی مقام پر جمع کیا گیا ہے۔
  • اس کتاب میں "راویوں کے طبقات" کی آسانی سے شناخت ممکن ہے؛ کیونکہ ہر راوی کے تعارف میں ان تمام لوگوں کے نام ذکر کیے گئے ہیں جنہوں نے اس سے روایت کی ہے یا اس نے ان سے روایت کی ہے۔
  • ہر راوی کی مکمل سوانح حیات کو ذکر کیا گیا ہے۔
  • مصنف نے دیگر رجالیوں کی رائے کو نقل کرنے کے ساتھ ساتھ راوی کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار اپنے معیار کے ساتھ کیا ہے؛ دوسرے لفظوں میں مصنف نے کا جرح و تعدیل کیا ہے۔
  • سلسلہ اسناد میں ایک بڑی مشکل بحث راویوں کے ناموں میں "تصحیح" اور "تحریف" ہے۔ مثال کے طور پر حسن کے نام کو حسین میں تبدیل کی جاتی ہے یا اس کے برعکس، احمد کو محمد اور اس کے برعکس، "عن" کو "ابن" اور اس کے برعکس وغیرہ۔ اس کتاب میں اس اہم مسئلہ کی طرف توجہ مرکوز کی گئی ہے اور ناموں کی تصحیح کا عمل انجام پایا ہے۔[16]

اشاعت

معجم رجال الحدیث کی پہلے سنہ1403ھ کو بیروت پبلیشرز کے توسط سے 23 جلدوں میں اشاعت ہوئی۔[17] پھر 1413ھ میں اس کتاب کا نیا ایڈیشن آیا جس میں کتاب کی ساخت اور مندرجات کے لحاظ سے سے کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں اور اسے الثقافۃ الاسلامیہ پبلیشرز نے 24 جلدوں میں شائع کیا۔[18]

کتاب کے مندرجات میں جو تبدیلیاں کی گئی وہ یہ ہیں: نئی ​​سوانح عمری کا اضافہ، اختلاف کتب، اختلاف نُسخ اور راویوں کے طبقات میں اختلاف جیسے موضوعات کا بھی اضافہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ، بعض مقامات میں مصنف کا نقطہ نظر تبدیل ہوا ہے، جس کی وجہ سے بعض راویوں کے معتبر ہونے یا عدم اعتبار کے بارے میں مصنف کی رائے بدل گئی تھی۔ ان سب چیزوں کو نئے ایڈیشن میں اضافہ کیا گیا ہے۔[19]

متعلقہ آثار

معجم رجال الحدیث سے متعلق کچھ دیگر قلمی آثار درج ذیل ہیں:

  1. دلیلُ مُعجَمِ رجالِ الحدیث، تألیف: محمد سعید طریحی؛
  2. المعینُ علیٰ مُعجَمِ رجالِ الحدیث، تألیف: سید محمدجواد حسینی بغدادی؛
  3. المفیدُ مِن مُعجَمِ رجالِ الحدیث، تألیف: محمد جواہری. اس کتاب میں آیت‌ اللہ خویی کا راویوں کے بارے میں آخری نظریہ بطور مختصر بیان ہوا ہے۔[20]
  4. درآمدی بر علم رجال، ترجمہ مقدمہ معجم رجال الحدیث، تالف: عبدالہادی فقہی‌زادہ.

حوالہ جات

  1. پیری سبزواری، «آیت‌اللہ العظمی سید ابوالقاسم خویی؛ قرآن‌شناس بزرگ معاصر»، ص30؛ انصاری قمی، «نجوم امت - حضرت آیت‌اللہ العظمی حاج سید ابوالقاسم خویی»، ص57.
  2. شریف رازی، گنجینہ دانشمندان، 1352–1354ہجری شمسی، ج2، ص3–5؛ رئیس‌زادہ، «خویی، ابوالقاسم»، ص515.
  3. رئیس‌زادہ، «خویی، ابوالقاسم»، ص522.
  4. ونکی و دیگران، «روش آیت‌اللہ خویی در تعامل با اصول اولیہ رجالی»، ص120.
  5. علی‌نژاد، «معرفی یکی از مہم‌ترین آثار رجالی شیعہ»، ص167.
  6. ملاحظہ کریں: خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج1، ص11-12.
  7. مختاری، «نکتہ‌ہا»، ص222-223.
  8. مختاری، «نکتہ‌ہا»، ص223؛ ملاحظہ کریں: خویی، معجم رجال الحدیث، ج1، 1413ھ، صفحہ ل.
  9. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج1، ص17.
  10. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج1، ص37.
  11. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج1، ص47.
  12. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج1، ص53-73.
  13. خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج1، ص79.
  14. ملاحظہ کریں: خویی، معجم رجال الحدیث، 1413ھ، ج1، ص93.
  15. علی‌نژاد، «معرفی یکی از مہم‌ترین آثار رجالی شیعہ»، ص164.
  16. علی‌نژاد، «معرفی یکی از مہم‌ترین آثار رجالی شیعہ»، ص167-177.
  17. طلاییان، مأخذشناسی رجال شیعہ، 1381ہجری شمسی/1423ھ، ص291.
  18. طلاییان، مأخذشناسی رجال شیعہ، 1381ہجری شمسی/1423ھ، ص292.
  19. طلاییان، مأخذشناسی رجال شیعہ، 1381ہجری شمسی/1423ھ، ص292.
  20. دلبری، آشنایی با اصول علم رجال، 1395ہجری شمسی، ص258.

مآخذ

  • انصاری قمی، ناصرالدین، «نجوم امت: حضرت آیت‌اللہ العظمی خویی»، در مجلہ نور علم، دورہ4، ش11، مہر و آبان 1371ہجری شمسی۔
  • پیری سبزواری، حسین، «آیت‌اللہ العظمی سید ابوالقاسم خویی؛ قرآن‌شناس بزرگ معاصر»، در ماہنامہ گلستان قرآن، ش126، آبان 1381ہجری شمسی۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواة، قم، مرکز نشر الثقافة الاسلامیة فی العالم، 1413ھ۔
  • دلبری، علی، آشنایی با اصول علم رجال، مشہد، دانشگاہ علوم اسلامی رضوی، 1395ہجری شمسی۔
  • رئیس‌زادہ، محمد، «خویی، ابوالقاسم»، در دانشنامہ جہان اسلام، تہران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1375ہجری شمسی۔
  • شریف رازی، محمد، گنجینہ دانشمندان، تہران، کتابفروشی اسلامیہ، 1352–1354ہجری شمسی۔
  • طلاییان، رسول، مأخذشناسی رجال شیعہ، قم، سازمان چاپ و نشر دارالحدیث، 1381ہجری شمسی/1423ھ۔
  • علی‌نژاد، ابوطالب، «معرفی یکی از مہم‌ترین آثار رجالی شیعہ»، در شیعہ‌شناسی، پاییز 1386ہجری شمسی، شمارہ 19.
  • ربانی‌خواہ، احمد، آشنایی با دانش و منابع رجالی شیعہ.
  • مختاری، رضا، «نکتہ‌ہا»، در کتاب شیعہ، بہار و تابستان 1389ہجری شمسی، شمارہ 1.
  • ونکی، فاطمہ و محمدکاظم رحمان‌ستایش و فتحیہ فتاحی‌زادہ، «روش آیت‌اللہ خویی در تعامل با اصول اولیہ رجالی»، در رہیافت‌ہایی در علوم قرآن و حدیث، شمارہ 97، پاییز و زمستان 1395ہجری شمسی۔