محمد بن ابی عمیر

ویکی شیعہ سے
(ابن ابی عمیر سے رجوع مکرر)
ابن ابی عمیر
کوائف
نام:محمد بن ابی عمیر زیاد بن عیسی ازدی
نسبقحطانی و عدنانی
پیدائشسنہ 125 سے 135 ھ کے درمیان
جائے پیدائشبغداد، عراق
مقام سکونتبغداد
وفاتسنہ 217 ھ مطابق 832 ء
اصحابامام موسی کاظم، امام علی رضا و امام محمد تقی علیہم السلام
سماجی خدماتقاضی


محمد بن ابی عمیر زیاد بن عیسی ازدی (متوفی 217 ھ) ابن ابی عمیر کے نام سے معروف تیسری صدی ہجری کے شیعہ محدث ہیں جن کا شمار اصحاب اجماع میں سے ہوتا ہے۔ انہوں نے تین اماموں کا زمانہ درک کیا ہے۔ اکثر علمائے رجال نے ان کی مرسلہ روایات کو مسند روایات کی طرح قبول کیا ہے۔

تین ائمہ کو درک کرنا

اصحاب اجماع

اصحاب امام باقرؑ
1. زُرارَۃ بن اَعین
2. مَعروفِ بنِ خَرَّبوذ
3. بُرَید بن معاویہ
4. ابوبصیر اَسَدی یا (ابوبصیر مرادی)
5. فُضَیل بن یسار
6. محمد بن مُسلِم

اصحاب امام صادقؑ
1. جَمیل بن دَرّاج
2. عبداللہ بن مُسکان
3. عبداللہ بن بُکَیر
4. حَمّاد بن عثمان
5. حماد بن عیسی
6. اَبان بن عثمان

اصحاب امام کاظمؑ و امام رضاؑ
1. یونس بن عبد الرحمن
2. صَفوان بن یحیی
3. اِبن اَبی عُمَیر
4. عبداللہ بن مُغَیرِہ
5. حسن بن محبوب یا (حسن بن علی بن فَضّال، فَضالَۃ بن ایوب و عثمان بن عیسی)
6. احمد بن ابی نصر بزنطی

ابن ابی عمیر بغداد میں سکونت پذیر تھے اور انہوں نے امام موسی کاظم علیہ السلام سے حدیثیں سنی ہیں۔ ان احادیث میں سے بعض میں امام نے آپ کو ابو احمد کی کنیت سے خطاب کیا ہے۔[1] شیخ مفید[2] اور شیخ طوسی[3] کا ماننا ہے کہ ابن ابی عمیر نے امام کاظم (ع) کو درک تو کیا ہے لیکن انہوں نے ان سے حدیث نقل نہیں کی ہے۔ یہ بات نجاشی کے قول اور کتاب التوحید،[4] کتاب کمال الدین و تمام النعمۃ[5] اور کامل الزیارات[6] کی ان روایات سے جو انہوں نے امام کاظم (ع) سے بلا واسطہ نقل کی ہے، سے سازگاری نہیں رکھتی ہے۔ مگر یہ کہ ان دونوں حضرات کی اس بات سے مراد یہ ہو کہ انہوں نے امام کاظم (ع) سے کم روایات نقل کی ہیں۔[7] ابن ابی عمیر نے امام علی رضا (ع) اور امام محمد تقی (ع) کا زمانہ بھی درک کیا ہے اور امام رضا (ع) سے بلا واسطہ روایات نقل کی ہیں۔[8]

امام صادق (ع) سے نقل روایت

ابن ابی عمیر امام جعفر صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے نہیں تھے اور انہوں نے زیادہ تر روایات کو ایک یا دو واسطہ سے امام (ع) سے نقل کیا ہے۔ البتہ بعض نے آپ کو امام صادق (ع) کے اصحاب میں بھی شمار کیا ہے۔ اس اشتباہ کی وجہ یہ ہے کہ ابن ابی عمیر کا نام ایک اور روای سے ملتا ہے جن کا انتقال امام موسی کاظم علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا ہے۔[9] بعض علمائے رجال نے ان دونوں کی روایات میں خلط ملط کیا ہے اور بعض نے امام صادق علیہ السلام سے نقل ہونے والی احادیث کی نسبت آپ کی طرف دی ہے اور ان روایات کو مرسل (وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ سند میں سے ایک یا دو راوی حذف ہو گئے ہوں) کہا ہے[10] اور بعض نے ان روایات کی نسبت ان ابن ابی عمیر غیر معروف کی طرف دی ہے اور انہیں مسند قرار دیا ہے۔[11]

آپ شیعہ و سنی کے درمیان ایک خاص مقام و منزلت رکھتے ہیں۔ شیخ مفید[12] کے قول کے مطابق: آپ اپنے زمانہ کے معتمد ترین اور زاہد ترین افراد میں سے تھے۔ معتزلی عالم اور ادیب جاحظ نے ابن ابی عمیر کا شمار تند ترین شیعہ مشایخ میں سے کیا ہے۔[13]

تشدد اور قید

ابن ابی عمیر نے ایک طویل مدت ہارون الرشید کے قیدخانہ میں گزاری ہے۔ آپ کے قید کا زمانہ ۴ سال[14] سے ۱۷ سال[15] تک بیان کیا گیا ہے اور اس قید کے مختلف اسباب ذکر کئے گئے ہیں۔ ایک قول کے مطابق آپ کو قاضی کا منصب قبول نہ کرنے کی وجہ سے، جسے بعد میں آپ نے مجبورا قبول کر لیا تھا، قید کیا گیا۔ ایک دوسرا قول یہ ذکر ہوا ہے کہ آپ کو اس سبب سے قید کیا گیا کہ وہ چاہتے تھے کہ آپ شیعوں کی مخفی گاہ اور امام موسی کاظم علیہ السلام کے اصحاب سے بارے میں انہیں بتا دیں۔[16]

شیخ طوسی کے قول کے مطابق: ابن ابی عمیر کے مخالفین نے ہارون الرشید کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ عراق کے تمام شیعوں کے اسما۴ جانتے ہیں۔ اس لئے ھارون نے انہیں طلب کیا اور ان سے کہا کہ وہ تمام شیعوں کے نام بتا دیں جب انہوں نے اس سے انکار کیا تو ہارون نے حکم دیا کہ انہیں برہنہ کرکے کھجور کے دو درخت کے درمیان لٹکا کر ۱۰۰ کوڑے مارے جائیں۔[17]

ہارون کے زمانہ کے بعد مأمون کے زمانہ میں جب تک امام علی رضا علیہ السلام موجود رہے وہ اور تمام شیعہ امان میں رہے۔ لیکن آپ (ع) کی شہادت کے بعد انہیں گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا گیا۔ آپ نے بیحد صدمے برداشت کئے اور آپ کے تمام اموال کو غارت کر دیا گیا۔

علمی مقام و منزلت

ابن ابی عمیر کی تالیفات سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علم فقہ، علم حدیث اور علم کلام و مغازی میں تبحر رکھتے تھے۔ شیخ طوسی[18] نے علی بن حسین فضال سے نقل کیا ہے کہ ابن ابی عمیر، یونس بن عبد الرحمن سے افقہ، اصلح اور افضل تھے۔ البتہ خود شیخ طوسی نے ایک مقام پر جہاں انہوں نے اصحاب اجماع کے طبقہ سوم کی اسماء بیان کئے ہیں،[19] یونس بن عبد الرحمن اور صفوان بن یحیی کو ان میں سب سے بڑا فقیہ شمار کیا ہے۔ سید بن طاووس[20] نے کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کی ایک روایت کے مطابق انہیں منجم قرار دیا ہے[21] جبکہ بعض نے اس روایت کو سند و متن کے اعتبار سے مخدوش بتایا ہے۔[22]

مشایخ

ابن ابی عمیر نے حالانکہ اہل سنت مشایخ کی صحبت بھی اختیار کی ہے اور ان سے حدیثیں بھی سنیں ہیں لیکن وہ فقط شیعہ طرق روایت سے حدیث نقل کرتے تھے۔[23] ان کا نام ۶۴۵ سے زائد سلسلہ سند میں ذکر ہوا ہے۔[24] ان کے بعض مشایخ کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:

ان سے روایت نقل کرنے والے

ان سے روایت نقل کرنے والے بعض راویان حدیث کے اسماء یہ ہیں: [25]

ان سے منقول مرسلہ روایات

قدماء کے نظریات

ابن ابی عمیر اصحاب اجماع میں سے ہیں اور علمائے رجال ان سے نقل ہونے والی روایات کے صحیح ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں۔[26] نجاشی نے علمائے امامیہ کے ان سے منقول مرسلہ روایات پر اعتماد کرنے کا سبب اس طرح سے ذکر کیا ہے: ابن ابی عمیر اپنی تمام کتابوں کے ضائع ہو جانے کے بعد سے اپنے حافظہ سے حدیث بیان کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ہمارے محدثین ان کی مرسلہ روایات پر اعتبار کرتے ہیں۔[27]

شیخ طوسی تعادل و تراجیح کے باب میں اس طرح سے فرماتے ہیں: اگر ایک راوی نے اپنی روایت کو سند کے ساتھ اور دوسرے راوی نے مرسلہ کے طور پر نقل کی ہے تو مرسلہ روایت کے راوی کے سلسلہ میں دقت کی جائے گی اور اگر اس کا شمار ان راویوں میں سے ہوتا ہو جو فقط ثقہ افراد سے روایت نقل کرتے ہیں تو ان دونوں حدیثوں میں کسی کو دوسری کے اوپر ترجیح حاصل نہیں ہوگی۔ یہی سبب ہے کہ شیعہ محمد بن ابی عمیر اور صفوان بن یحیی و ۔۔۔ کی روایات اور ان روایات میں جو دوسرے روات نے نقل کی ہے، کسی امتیاز کے قائل نہیں ہیں۔[28] اکثر فقہا اور علمائے رجال کا یہی نظریہ ہے اور مامقانی نے اس اجماع منقول کے سلسلہ میں تواتر کا دعوی کیا ہے۔[29]

متاخرین کے نظریات

متاخرین علما کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے: اجماع کشی کے نقل سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ہر وہ حدیث جو اصحاب اجماع سے نقل ہوئی ہو اسے صحیح اور معتبر سمجھا جائے گا اب چاہے وہ مسند ہو یا مرسل، ثقہ ہو یا ضعیف و مجہول، اس شرط کے ساتھ کہ سلسلہ سند میں ذکر ہونے والے روات اس راوی تک معتبر ہوں۔[30] بعض دوسرے افراد ابن ابی عمیر سے منقول مرسلہ روایات کو معتبر نہیں مانتے ہیں اور اس کا شمار بھی دوسرے ثقہ راویوں سے منقول مرسلہ روایات میں کرتے ہیں۔ یعنی ان کے مطابق ابن ابی عمیر اور دوسرے روات کی مرسلہ روایات میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں کی قابل قبول نہیں ہیں۔ اور ان کے مطابق بعض موارد میں اصحاب اجماع اور ابن ابی عمیر نے ضعیف راویوں سے احادیث نقل کی ہیں۔[31] اور اسی طرح سے وہ اس سلسلہ میں اجماع کے دعوی کو حکم شرعی پر اجماع کے طور پر مانتے ہیں۔ اور اس کی بازگشت شیخ طوسی کی طرف ہوتی ہے۔ اور اصول فقہ میں ثابت ہو چکا ہے کہ اجماع منقول خبر واحد کے ذریعہ سے حجیت نہیں رکھتا ہے۔[32]

تالیفات

ابن بطہ نے ابن ابی عمیر کی تصنیفات کی تعداد ۹۴ تک ذکر کی ہے جس میں اکثر ان کی زندگی میں ہی نابود ہو گئی تھیں۔ اس کے سبب کے بارے میں اس طرح سے کہا جاتا ہے: ان کی بہن نے جس زمانہ میں وہ قید میں تھے، ان کی تمام کتابوں کو زمین میں چھپا دیا تھا یہاں تک کہ وہ سب خراب ہو گئیں۔ ایک دوسری روایت کے مطابق: انہوں نے کتابوں کو ایک کمرہ میں رکھا جس میں بارش کا پانی جانے کی وجہ سے وہ خراب ہو گئیں۔[33] شیخ طوسی کے قول کے مطابق: امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد ابن ابی عمیر کی کتابوں کو غارت کر دیا گیا۔ اور آخر کار انہوں نے اپنے حافظہ کی بنیاد پر انہیں ۴۰ جلدوں میں جمع کیا اور النوادر کا نام دیا۔[34] ان کی بعض کتابیں جن کے صرف نام باقی رہ گئے وہ درج ذیل ہیں:

  • المغازی
  • الکفر والایمان‌
  • البداء
  • الاحتجاج فی الامامہ
  • الملاحم‌
  • النّوادر
  • یوم و لیلہ
  • التوحید
  • بعض دوسری فقہی کتابیں۔[35]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. نجاشی‌، ج۲، ص۲۰۴
  2. مفید، ص۸۶
  3. الفهرست‌، ۲۶۶
  4. صدوق‌، ۷۶، ۳۵۶، ۴۰۷
  5. صدوق، ج۲،ص۴۳۳
  6. ابن قولویہ، ۲۴۷
  7. کلباسی‌، ص۴۵.
  8. طوسی‌، الفهرست‌، ۲۶۶
  9. رجوع کریں: کلینی‌، ج۷،ص۱۲۶
  10. طوسی‌، اختیار معرفت الرجال‌، ۱۴۳؛ طوسی، تهذیب‌، ج۱،ص۲۷۴، ج۲،ص۵۵، ۳۷۰، ج۵،ص۴۴۷؛ کلینی‌، ج۳، ص۴۲۰ و ۴۴۳
  11. شوشتری، ج۷،ص۵۰۸ -۵۱۰؛ خویی‌، ج۱۴،ص۲۷۶، ۲۷۷؛ قس‌: اردبیلی‌، ج۲، ص۵۰؛ مامقانی‌، تنقیح المقال‌، ج۲،ص۶۱، ۶۳، ۶۴
  12. مفید، ص ۸۶
  13. جاحظ، ج۱،ص۸۴
  14. نجاشی‌، ج۲،ص۲۰۶
  15. مفید، ص ۸۶
  16. نجاشی‌، ج۲،ص۲۰۵
  17. اختیار معرفت الرجال‌، ۵۹۱ -۵۹۲
  18. اختیار معرفت الرجال‌، ۵۸۹ -۵۹۱
  19. اختیار معرفت الرجال‌، ۵۵۶
  20. ص ۱۲۳، ۱۲۴
  21. صدوق‌، ج۲،ص۲۶۹
  22. رجوع کریں: برقی‌، ص۳۴۹؛ مجلسی‌، ج۵۵، ص۲۷۳.
  23. طوسی‌، اختیار معرفة الرجال‌، ۵۹۰ -۵۹۱
  24. خویی‌، ج۱۴،ص۲۸۶
  25. رجوع کریں: خویی‌، ج۱۴،ص۲۸۷، ۲۸۸؛ اردبیلی‌، ج۲،ص۵۱ -۵۶
  26. اختیار معرفت الرجال‌، ۵۵۶
  27. نجاشی، ج۲،ص۲۰۶.
  28. طوسی، العده، ص۳۸۶، ۳۸۷.
  29. مقباس الهدایہ، ۷۰
  30. حرّ عاملی‌، ج۲۰،ص۸۰، ۸۱
  31. حلی‌، ص۴۳
  32. خویی‌، ج۱، ص۵۹ -۶۹
  33. نجاشی‌، ج۲،ص۲۰۶
  34. اختیار معرفت الرجال‌، ۵۹۰
  35. نجاشی‌، ج۲،ص۲۰۶، ۲۰۷؛ طوسی‌، الفہرست‌، ۲۶۶

مآخذ

  • ابن طاووس، علی‌، فرج المهموم‌، قم‌، ۱۳۶۳ہجری شمسی۔
  • ابن قولویہ، جعفر، کامل الزیارات، بہ کوشش عبدالحسین امینی‌، نجف‌، ۱۳۵۶ق‌/۱۹۳۷ء۔
  • اردبیلی، محمد، جامع الرواه، بیروت‌، ۱۴۰۳ق‌/۱۹۸۳ء۔
  • برقی، احمد، المحاسن، بہ کوشش سید جلال حسینی‌، تهران‌، ۱۳۴۲ہجری شمسی۔
  • جاحظ، عمرو، البیان و التبیین‌، بہ کوشش حسن سندویی‌، قاهره‌، ۱۳۵۱ق‌/۱۹۳۲ء۔
  • حر عاملی، محمد، وسایل الشیعہ، بہ کوشش محمد رازی، بیروت‌، ۱۳۸۹ق‌/۱۹۶۹ء۔
  • حلی‌، جعفر، المعتبر، چاپ سنگی‌، تهران‌، ۱۳۱۸ھ۔
  • خویی‌، ابو القاسم‌، معجم رجال الحدیث، بیروت‌، ۱۴۰۳ق‌/۱۹۸۳ء۔
  • شوشتری، محمد تقی‌، قاموس الرجال، تهران‌، ۱۳۸۷ھ۔
  • صدوق، محمد، التوحید، بہ کوشش هاشم حسینی و علی‌ اکبر غفاری، قم‌، ۱۳۹۸ھ۔
  • صدوق، کمال الدین و تمام النعمہ، بہ کوشش علی‌ اکبر غفاری، تهران‌، ۱۳۹۰ھ۔
  • صدوق، من لا یحضره الفقیہ، بہ کوشش علی‌ اکبر غفاری، قم‌، ۱۴۰۴ھ۔
  • طوسی‌، محمد، اختیار معرفة الرجال، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشهد، ۱۳۴۸ہجری شمسی۔
  • طوسی‌، تهذیب الاحکام، بہ کوشش حسن موسوی، بیروت‌، ۱۴۰۱ق‌/۱۹۸۱ء۔
  • طوسی‌، عدّة الاصول‌، بہ کوشش محمد مهدی نجفی‌، قم‌، ۱۴۰۳ھ۔
  • طوسی‌، الفهرست‌، بہ کوشش محمود رامیار، مشهد، ۱۳۵۱ہجری شمسی۔
  • کلباسی‌، ابو المهدی، سماء المقال‌، بہ کوشش محمد علی روضاتی، قم‌، ۱۳۷۲ھ۔
  • کلینی، محمد، الکافی، بہ کوشش علی‌ اکبر غفاری، تهران‌، ۱۳۸۸ھ۔
  • مامقانی‌، عبدالله‌، تنقیح المقال، نجف‌، ۱۳۵۲ق‌/۱۹۳۳ء۔
  • مامقانی‌، عبدالله‌، مقباس الهدایہ (پیوست تنقیح المقال‌)۔
  • مجلسی‌، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت‌، ۱۴۰۳ق‌/۱۹۸۳ء۔
  • مفید، محمد، الاختصاص‌، بہ کوشش علی‌اکبر غفاری، قم‌، مؤسسه نشر الاسلامی‌۔
  • نجاشی، احمد، الرجال‌، بہ کوشش محمد جواد نائینی‌، بیروت‌، ۱۴۰۸ق‌/۱۹۸۸ء۔

بیرونی روابط