نقد الرجال (کتاب)
مشخصات | |
---|---|
مصنف | مصطفی بن حسین تفرشی |
موضوع | علم رجال |
زبان | عربی |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام لإحیاء التراث |
مقام اشاعت | قم |
سنہ اشاعت | ۱۴۱۸ھ |
نَقْدُ الرّجال علم رجال کے موضوع پر عربی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے جسے مصطفی بن حسین تفرشی نے تحریر کی ہیں۔ یہ کتاب جسے گیارہویں صدی ہجری میں لکھی گئی ہے علم رجال میں ایک جامع کتاب مانی جاتی ہے جس میں مختلف نظریات کی تنقیدی نگاہ سے چھان بین کی گئی ہے۔
علم رجال کے ماہرین کے مطابق نقدالرجال دقیق علمی بنیادوں پر استوال ہے اس بنا پر علم رجال میں ایک بہترین کتاب مانی جاتی ہے۔ محمد تقی مجلسی، سید نعمت اللہ جزایری اور بعض دیگر شیعہ علماء نے اس پر شرحیں لکھی ہیں۔
مصنف
مصطفی بن حسین تفرشی دسویں اور گیارہویں صدی ہجری کے علمائے رجال میں سے ہیں۔[1] وہ ملا عبداللہ شوشتری کے شاگرد ہیں[2] جو محمد تقی مجلسی کے استاد تھے۔[3] انہوں نے ملا عبداللہ شوشتری اور محقق کَرَکی سے روایت کی اجازت دریافت کی۔[4] سیرہ شناس انہیں علم رجال میں بہت زیادہ مہارت کے مالک قرار دیتے ہیں۔[5] ملا عبداللہ شوشتری ان کے استاد بھی علم الحدیث میں ان کی قابلیت اور مہارت کے معترف تھے۔[6]
مضامین
نقدالرجال میں 6604 راویوں کے نام حروف تہجی کے مطابق آیا ہے۔[7] اس کتاب میں میں ہر شخصیت کے ساتھ اس کی تعریف یا مذمت یا مہمل ہونے کے اعتبار سے علمائے رجال کی رائ بیان کی ہے۔[8]
کتاب کے آخری حصے میں خاتمہ کے عنوان سے علم رجال کے درج ذیل چھ مسائل مطرح کئے ہیں:
- علمائے رجال کے یہاں ائمہ کے القاب؛
- اسامی معصومین، القاب، تاریخ ولادت، تاریخ وفات اور مدت عمر؛
- کتاب کافی میں "عدہ"(کئی) سے مراد؛
- شیخ طوسی اور شیخ صدوق نے جن راویوں سے حدیث نقل کئے ہیں ان کے نام؛
- اصول اربعمائہ کے احادیث کا اعتبار؛
- کلینی، شیخ طوسی، شیخ صدوق اور شیخ مفید کی احادیث پر مصنف کا طریقہ۔[9]
خصوصیات
الذریعہ میں آقابزرگ تہرانی کے مطابق یہ کتاب سنہ 1015ھ میں لکھی گئی ہے۔[10] علمائے رجال کے مطابق نقدالرجال ایک دقیق علمی بنیادوں پر استوار علم رجال کی بہترین کتابوں میں سے ہے۔[11] کہا جاتا ہے کہ اس کتاب میں مختلف نظریات کو منظم، جامع اور مختصر طور پر بیان کرتے ہوئے تنقیدی نگاہ سے ان کی چھان بین کی گئی ہے۔[12]
علماء کے نظریات کو بغیر کسی تغییر کے بیان کرنے کی کوشش، ہر راوی میں افراد کی توثیق و تضعیف، مشایخ و شاگردوں کے بیانف اختلاف نُسَخ میں دقت اور اسامی کو صحیح درج کرنے میں سعی و تلاش اس کتاب کی دیگر خصوصیات میں سے ہیں۔[12]
حاشیہ اور شرح
کہا جاتا ہے کہ کتاب نقدالرجال مختصر عرصے میں علم الحدیث کے ماہرین کے درمیان مشہور ہوئی؛ یہاں تک کہ خود مصنف کی زندگی میں اس پر حاشیے لکھنے لگے۔ اس کے بعد بھی اس پر حاشیہ، شرح اور تکملہ لکھنے کا کام جاری رہا جو مختلف ادوار میں اس کتاب کی مقبولیت کی گواہی سمجھی جاتی ہے۔[13]
کتاب الذریعہ میں آقابزرگ تہرانی نے اس کتاب کے سات حاشیوں کا نام لیا ہے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- حاشیہ محمدتقی مجلسی (1070)،
- حاشیہ عنایۃاللہ قہپایی (گیارہویں صدی)،
- حاشیہ سیدنعمت اللہ جزایری (1112ھ)،
- حاشیہ سیدعبداللہ جزایری شوشتری (1173ھ)۔[14]
اشاعت
آقابزرگ تہرانی کے مطابق نقدالرجال کا ایک نسخہ سنہ1318ھ میں تہران میں شایع ہوا۔[15] مؤسسہ آلبیت نے اس کتاب کو 5 جلدوں میں سنہ 1418ھ میں منتشر کیا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ رہایی، «تفرشی، مصطفی بن حسین»، ص۶۱۳۔
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج۲۴، ص۲۷۴۔
- ↑ امین، اعیانالشیعہ، ۱۴۲۰ھ، ج۱۲، ص۵۲۔
- ↑ رہایی، «تفرشی، مصطفی بن حسین»، ص۶۱۳۔
- ↑ رہایی، «تفرشی، مصطفی بن حسین»، ص۶۱۴۔
- ↑ مہروش، «تفرشی»، ص۶۷۸۔
- ↑ رجوع کریں: تفرشی، نقدالرجال، ۱۴۱۸ھ۔
- ↑ نمونہ کے لئے رجوع کریں: تفرشی، نقدالرجال، ۱۴۱۸ھ، ج۵، ص۳۱۶۔
- ↑ رجوع کریں: تفرشی، نقدالرجال، ۱۴۱۸ھ، ج۵، ص۳۱۷تا۴۶۰۔
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعۃ، ۱۴۰۳ھ، ج۱۰، ص۱۰۱ و ج۲۴، ص۲۷۵۔
- ↑ رہایی، «تفرشی، مصطفی بن حسین»، ص۶۱۴۔
- ↑ 12.0 12.1 مہروش، «تفرشی»، ص۶۷۸۔
- ↑ مہروش، «تفرشی»، ص۶۷۹۔
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۶، ص۲۲۷و۲۲۸۔
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعہ، ۱۴۰۳ھ، ص۱۰۱۔
مآخذ
- آقا بزرگ تہرانی، محمدحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دارالاضواء، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
- امین، محسن، اعیانالشیعہ، تحقیق و تعلیق حسن امین، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۲۰ھ۔
- تفرشی، سیدمصطفی بن حسین، نقدالرجال، قم، مؤسسہ آلالبیت علیہمالسلام لإحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۱۸ھ۔
- رہایی، یحیی، «تفرشی، مصطفی بن حسین»، دانشنامہ جہان اسلام، ج۷، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۲ہجری شمسی۔
- مہروش، فرہنگ، «تفرشی»، دایرۃالمعارف بزرگ اسلامی، ج۱۵، تہران، مرکز دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، چاپ اول، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔