امر بالمعروف و نہی عن المنکر
بعض عملی اور فقہی احکام |
---|
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
اَمْرِ بالمَعْروف وَ نَہی عن المُنْکر، اسلام کے عملی احکام یعنی فروع دین میں سے دو اہم عبادات ہیں۔ "امر بالمعروف" یعنی کسی واجب یا مستحب کام کی طرف دعوت دینا اور "نہی عن المنکر" یعنی کسی حرام کام سے منع کرنا۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی معاشرے میں اسلامی تعلیمات کی نشر و اشاعت کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو امر بالمعروف جبکہ اسلامی معاشرے سے برائی کے خلاف رد عمل کو نہی عن المنکر کہا جاتا ہے۔
شریعت کی نگاہ میں یہ کام اس شخص کا وظیفہ ہے جو خود "معروف" یعنی اچھائی اور "منکر" یعنی برائی سے آگاہی رکھتا ہو اور اس کام کے مثمر ثمر واقع ہونے کا بھی احتمال دیا جائے۔ اس کے وجوب کے بعض اور شرائط بھی ہیں۔
قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر "امر بالمعروف اور "نہی عن المنکر" کو امت محمدی کیلئے ایک خاص شرعی وظیفے کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں بعض اوقات اسے خدا اور معاد پر ایمان لانے جیسے اعتقادات یا نماز اور زکات جیسے عبادات کے ساتھ ذکر کیا ہے۔[1] "آیات الاحکام" سے مربوط کتابوں میں بطور خاص وہ کتابیں جنہیں مختلف موضوعات پر بالترتیب لکھی گئی ہے، میں عموما اس اہم شرعی وظیفے سے مختص ایک باب بھی دیکھنے کو ملتا ہے جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق آیات کا تجزیہ و تحلیل کیا گیا ہے۔[2]
فردی یا اجتماعی وظیفہ
اسلام میں ہمیشہ سے ایک عام تاثر چلا آرہا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور مختلف مذاہب کے سیاسی نظریات میں ایک مستقیم رابطہ موجود ہے اس بنا پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے متعلق مباحث کا دائرہ کار اس مذہب کے سیاسی نظریے کے ساتھ ہماہنگ ہوا کرتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر خارج میں تحقق پانے کیلئے کسی "مامور بہ"(جس کو امر کی گئی ہو) اور "منہی عنہ"(جس کو روکا گیا ہو) کا ہونا ضروری ہے۔ اس بنا پر "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" انسان کے فردی وظائف سے ہٹ کر معاشرے کے دوسرے افراد کے حقوق سے بھی مربوط ہے۔
اگر "مامور بہ" اور "منہی عنہ" اس امر یا نہی کو کشادہ روی سے قبول کریں تو معاشرے میں کوئی تعارض پیش نہیں آتا لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر اس وظیفے پر عمل پیرا ہونا معاشرے میں کسی ایسی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو جو نظام حاکم کے سیاست کے خلاف ہو تو اس صورت میں صرف "آمر اور مامور بہ" یا "ناہی" اور "منہی عنہ" کی رضا مندی بھی اسے معاشرے میں لاگو ہونے کیلئے کافی نہیں ہے۔
اس وظیفے پر کرنے والوں کی سرگرمیں کا معاشرے کے دوسرے افراد کے حقوق اور حکومت وقت کے وظائف اور اختیارات کے ساتھ ٹکراؤ کی وجہ سے مختلف مذاہب نے اپنی خاص سیاسی نظریے کی بنیاد پر مشروع اور جائز "امر بالمعروف و نہی عن المنکر" کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اس وظیفے کے دائرہ کار کو مقید اور محدود کیا ہے۔
شیعوں کا نظریہ
مشہور قول کی بنا پر شیعوں کے نزدیک فروع دین دس ہیں جن میں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ساتویں اور آٹھویں نمبر پر آتے ہیں۔ اسلامی فقہ میں سنتی تقسیم بندی کے مطابق فقہ کے ہر باب کو ایک "کتاب" کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔ بعض شیعہ منابع میں "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کو ایک علیحدہ کتاب کی صورت میں "کتاب" جہاد کے بعد عبادات کے آخری حصے کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہی خصوصیت یعنی "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کو عبادات میں شمار کرنا اور اسے "جہاد" جیسے اہم عبادت کے ساتھ ذکر کرنا ایک واضح دلیل ہے کہ شیعہ فقہاء کی نگاہ میں یہ وظیفہ ایک ہم عبادت میں سے ہے۔ منتہی جہاد کی طرح "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کو بھی ایک اجتماعی عبادت شمار کیا جاتا ہے۔
البتہ تیسرے، چوتھے، نویں اور دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقہی آثار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ادوار میں لکھی گئی فقہی اور حدیثی کتابوں جیسے حسین بن سعید اہوازی کی کتابیں،[3] شیخ صدوق کا فقہی مجموعہ اور ابن جنید اسکافی کی تہذیب الشیعۃ[4] میں امر بالمعروف سے بحث نہیں کی گئی ہے۔ لیکن ان کے مقابلے میں کلینی کی الکافی[5] اور فقہ الرضا(ع)[6] جیسے آثار میں بالترتیب کتاب جہاد کے ایک حصے اور اخلاقی ملحقات کے عنوان سے کتاب کے آخری مباحث کو اس اہم موضوع کے ساتھ مختص کیا ہے۔
شیخ مفید نے عصر غیبت کی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کے مسئلے کو "اقامہ حدود" جیسے حکومتی موضوعات کے ساتھ مقایسہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنی فقہی کتاب المقنعہ میں کتاب حدود کے ملحقات کے عنوان سے ایک باب کو "کتاب الامر بالمعروف و النہی عن المنکر و اقامہ الحدود" کا عنوان دیا ہے یہ حصہ مختصر ہونے کے باوجود انکی کتاب کا سب سے اہم حصہ شمار کیا جاتا ہے جس میں ان کی سیاسی اور اجتماعی نظریات پر محیط بنیادی مسائل سے بحث کی گئی ہے۔[7]
سید مرتضی نے ایک رسالے میں حکمرانوں کے ساتھ کسی سیاسی منصب کو قبول کرنے کے حوالے سے جس کے ذریعے کسی مؤمن کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زمینہ فراہم ہو، تعاون کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔[8] شیخ طوسی نے امر بالمعروف کی بحث کو جہاد کی بحث کے بعد لایا ہے اور اس کے احکام سے متعلق تفصیلی بحث کی ہے۔ شہید اول نے الدروس میں اس بحث کے عنوان کو "کتاب الحسبہ" کا نام دیا ہے۔[9]
عصر صفوی میں امامیہ کیلئے حکومت کے مواقع فراہم ہونے اور اجتماعی اور سیاسی مباحث میں وسعت پیدا ہونے کے ساتھ امر بالمعروف کی بحث میں بھی نسبتا وسعت پیدا ہو گئی۔ یوں اس زمینے میں بعض تالیفات جو اس موضوع پر نسبتا تفصیلی بحث کی ہیں، منظر عام پر آگئیں۔ اس حوالے سے حسن بن علی بن عبدالعالی کرکی کی کتاب "الامر بالمعروف و النہی عن المنکر" کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں۔[10] میرزا محمد اخباری (د ۱۲۳۲ق /۱۸۱۷م) سے بھی اسی عنوان سے ایک کتاب موجود ہے۔[11]
فقہ امامیہ
اکثر امامیہ فقہی منابق میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احکام اور اس پر عمل کرنے کے شرائط وغیرہ سے بحث کی گئی ہے۔ چونکہ معروف کی دو قسم ہیں، واجب اور مستحب اس بنا پر واجب پر امر کرنا واجب جبکہ مستحب پر امر کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے۔ لیکن منکر صرف حرام کو شامل کرتا ہے اور اس سے نہی کرنا واجب ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کفایی ہے۔ آیا اس کا وجوب عقلی بھی ہے یا صرف شرعی؟ اس حوالے سے بہی قدما کے آثار میں بحث ہوئی ہے۔[12]
شرایط وجوب
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وجوب کچھ شرائط پر منحصر ہے:
- اس وظیفے پر عمل کرنے والے کا "معروف" و "منکر" سے آگاہی؛
- مخاطب میں تأثیر کرنے کا احتمال ہو؛
- مخاطب کسی معروف کو ترک یا کسی منکر کو انجام دینے پر اصرار کرے؛
- اس وظیفے پر عمل کرنے میں کوئی مفسدہ نہ ہو بنابر این اگر اس کام سے آمر یا ناہی یا کسی اور شخص کو کوئی ضرر پہنچتا ہو تو اس کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔
واجب کفایی
شیعہ فقہاء کی نظر میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واجب کفایی ہے[13]، لیکن شیخ طوسی اور ایک گروہ نے اسے واجبات عینی میں سے قرار دیا ہے۔[14]
مراتب
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مراتب کے اعتبار سے تین قسم ہیں:
قلبی: دل میں معروف کو اچھا اور منکر کو برا سمجھنا واجب ہے۔ منکر سے پرہیز وغیرہ اسی مرحلے میں شامل ہے۔
لسانی: شرائط محقق ہو تو زبان کے ساتھ امر یا نہی کرے۔
عملی: اگر زبان مؤثر نہ ہو تو منکر کو روکنے کیلئے عملی اقدام کرنا واجب ہے۔[15]
اہل سنت کا نظریہ
معتزلہ
معتزلہ کے ہاں "امر بالمعروف" اور "نہی عن المنکر" میں ایک بنیادی فرق ہے ہے وہ یہ کہ "امر بالمعروف" میں صرف اچھے کام کی طرف شوق اور رغبت پیدا کرنا کافی ہے اور اجبار ضروری نہیں ہے۔ جبکہ "نہی عن المنکر" میں اگر شرائط میسر ہو تو صرف کہنا کافی نہیں ہے۔ [16] اس بنا پر "نہی عن المنکر" کے مراتب کو یوں ترسیم کیا جاتا ہے: تنفر قلبی، ممانعت زبانی، ممانعت عملی اور آمنا سامنا اور اقدام مسلحانہ۔
معتزلہ اس بات کے معتقد ہیں کہ اگر آسان مراتب مؤثر واقع نہ ہو تو ہاتھ میں تلوار لینا ناگزیر ہو جاتا ہے اور یہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔[17] معتزلہ نے ہمیشہ اپنے اسی عقیدے پر اصرار کیا ہے اور چہ بسا اس موضوع پر مختلف کتابیں بھی لکھی گئی ہیں،[18] اور عملی زندگی میں بھی اس پر پابند رہے ہیں[19]؛ یہاں تک کہ "مسعودی" کے مطابق معتزلہ کا اجماع ہے کہ اس فریضے کو انجام دینا کبھی کبھار جہاد کی صورت اختیار کرتی ہے اور اس حوالے سے کافر اور فاسق - جو کہ کفر اور ایمان کے درمیان واقع ہے - میں کوئی فرق نہیں ہے۔[20]
اشاعرہ
ان کے یہاں بھی اس وظیفے کے مراتب مختلف ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ نہی عن المنکر کے مراتب صرف قلبی اور زبانی ہے اس سے زیادہ کوئی چیز واجب نہیں ہے۔[21] اگرچہ "ابن حزم" کے مطابق یہ لوگ امام عادل کے خلاف اگر کوئی فاسق بغاوفت کرے تو اس کے خلاف تلوار اٹھانے کو واجب سمجھتے ہیں۔[22]؛ ایک اور گروہ جنہیں "اشعری" "اصحاب حدیث" کے نام سے یاد کرتے ہیں،[23] کا عقیدہ ہے کہ تلوار ہاتھ میں اٹھانا جائز نہیں ہے بلکہ صرف ہاتھ سے مقابلہ کرنے تک آگے جا سکتے ہیں[24]؛ اور آخری گروہ اسلحہ اٹھانے کو بھی واجب سمجھتے ہیں جب اسی کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو۔ [25]
حنفی
ابو حنیفہ ان لوگوں میں سے تھے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حمایت کرتے تھے اسی وجہ سے اپنے رسالہ "الفقہ الاکبر" میں بھی یہی نظریہ نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ یہ رسالہ اصل میں ابوحنیفہ کے پیروکاروں کا عقیدہ نامہ شمار ہوتا ہے، "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اسے اپنی مذہب کے اصلی شعار میں سے قرار دیتے ہیں۔[26]
مذہب حنفیہ نے بعد میں اہل سنت و جماعت کے روپ میں اپنی سیاسی نقطہ نگاہ میں تجدید نظر کے سبب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے بھی ان کا نقطہ نظر تبدیل ہو گیا اور اسے نہایت ہی محدود کر دیا۔ انہوں نے "الفقہ الاکبر" میں اس جملے ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل تمہیں کوئی نفع و نقصان نہیں پہنچاتا اور ہر چیز کا اپنا ثواب اور عقاب ہے کا اضافہ کرنے کے ذریعے اس جدید سیاسی نظریے سامنے لانے کی کوشش کی ہیں۔[27] بہر حال یہ فکر اہل سنت و جماعت کے ہاں صراحت کے ساتھ مطرح ہونے لگا اور یوں تلقی ہونا شروع ہوا کہ اس زمانے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر لوگوں کی گردن سے ساقط ہو گیا ہے۔[28]
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو محدود کرنے کا یہ واقعہ جو اہل سنت کے مختلف مذہب میں بطور مشترک دیکھا جا سکتا ہے، حقیقت میں صرف فردی حوالے سے ان دو وظیفوں کو محدود کرنا ہے ورنہ جہاں پر عمومی اور حکومتی احکام کی بات آتی ہے تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بحث بھی وسعت پیدا کرتی ہے۔[29]
اہل سنت میں اصلاحی اور سلفی سوچ
صدر اسلام میں مختلف فقہی مذاہب کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مسئلے سے محتاطانہ رویہ اختیار کرنے کی باوجود بعض ایسے افراد بھی پائے جاتے تھے جو معاشرے سے برائی کے خامتے کیلئے تلوار کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ضرورت پر زور دیتے تھے۔ اور موانع کے باوجود بھی اس قسم کی سرگرمیوں میں سبقت لیتے تھے۔[30] گذر زمان کے ساتھ یہ مسلحانہ سوچ مصلحانہ اور اطلاح طلبانہ سوچ میں تبدیل ہو گیا یوں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بحث نے ایک جدید شکل اختیار کی۔
ابن تیمیہ (متوفی 728 ھ) اگر چہ "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کے مسئلے میں پہلی سوچ کے حامی ہیں لیکن اس حوالے سے ایک نیا انداز اپنایا۔ان کی سیاسی نظریے کے مطابق حکومت کے اصلی وظائف میں سے ایک معاشرے میں "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کا اجراء ہے۔ اس کے مطابق "امام" جو حاکموں میں شمار ہوتا ہے، کا وظیفہ ہے کہ شرائط اور مقتضائے حال کے مطابق "معروف" کے پرچار اور "منکر" کو معاشرے سے ختم کرنے کیلئے عملی اقدام کریں۔[31]
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باب میں مصر کے متأخر اصلاح طلبان میں "شیخ محمد عبدُہ" کے نظریہ کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں جو "اس وظیفے کو معاشرے کی حفاظت کرنے والا اور وحدت کا عامل سمجھتے ہیں"۔ شیخ عبدہ اپنے نظریات کی تبیین کرتے ہوئے "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" کو "حبل اللہ" یعنی اللہ کی وہ مضبوط رسی قرار دیتے ہیں کہ اگر امت اسلامی اسے تھام لے تو اختلاف سے نجات پا کر وحدت کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔[32]
حوالہ جات
- ↑ آل عمران /۳/۱۰۴، ۱۱۰، ۱۱۴؛ اعراف /۷/۱۵۷؛ توبہ /۹/۶۷، ۷۱، ۱۱۲؛ حج /۲۲/۴۱؛ لقمان /۳۱/۱۷.
- ↑ سیوری، کنزالعرفان، ج۱، صص۴۰۴- ۴۰۸.
- ↑ نک: نجاشی، الرجال، ص۵۸، فہرست ابواب.
- ↑ نک: نجاشی، الرجال، صص۳۸۵-۳۸۷، فہرست ابواب.
- ↑ کلینی، الکافی، ج۵، صص۵۵ بب.
- ↑ فقہ الرضا(ع)، ص۳۷۵.
- ↑ المقنعۃ، صص۸۰۸ بب.
- ↑ مسألۃ فی العمل مع السلطان، صص۸۹ بب.
- ↑ نک: شہید اول، الدروس، صص۱۶۴- ۱۶۵.
- ↑ برای مدرسی، ص۱۷۰.
- ↑ برای فہرستی از این دست آثار، نک: مدرسی.
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، ج۱، ص۳۴۳؛ علامۃ حلی، مختلف الشیعۃ، ج۴، صص۴۷۱-۴۷۴؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ج۱، ص۲۶۲؛ صاحب جواہر، جواہر الکلام، ج۲۱، صص۳۵۸- ۳۶۵).
- ↑ (نک: شیخ مفید، اوائل المقالات، ص۵۶؛ سیدمرتضی، الذخیرۃ، ص۵۵۴، ۵۶۰؛ سیوری، ارشاد الطالبین، ص۳۸۱.
- ↑ شیخ طوسی، الاقتصاد، صص۱۴۷، ۱۵۰-۱۵۱.
- ↑ محقق حلی، شرائع الاسلام، ج۱، ص۳۴۲-۳۴۳؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ج۱، ص۲۶۵؛ صاحب جواہر، جواہر الکلام، ج۲۱، صص۳۶۶- ۳۸۵.
- ↑ قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسۃ، صص۷۴۴- ۷۴۵؛ قاسم بن محمد، الاساس لعقائد الاکیاس، ص۱۷۸.
- ↑ اشعری، مقالات الاسلامیین، ج۱، ص۳۱۱، ج۲، ص۱۲۵؛ ابن حزم، الفصل، ج۴، ص۱۷۱.
- ↑ خیاط، الانتصار، ص۱۲۷؛ ملطی، التنبیہ والرد، صص۴۲-۴۴.
- ↑ ابن حزم، الفصل، ج۴، ص۱۷۲.
- ↑ مسعودی، مروج الذہب، ج۳، ص۲۲۲؛ نیز نک: ابوالقاسم بلخی، باب ذکر المعتزلۃ، ص۶۴؛ ابن مرتضی، البحرالزخار، ص۹۷.
- ↑ اشعری، مقالات الاسلامیین، ج۲، ص۱۲۶.
- ↑ ابن حزم، الفصل، ج۴، ص۱۷۱.
- ↑ اشعری، مقالات الاسلامیین، ج۲، ص۱۲۵.
- ↑ اشعری، مقالات الاسلامیین، ج۲، ص۱۲۶.
- ↑ ابن حزم، ابن حزم، الفصل، ج۴، ص۱۷۱.
- ↑ بند ۲: انا نأمر بالمعروف و ننہی عن المنکر.
- ↑ الفقہ الاکبر (۱)، ص۱۵؛ قس: ونسینک، ۱۰۴ -۱۰۳، کہ این بند در آن وجود ندارد.
- ↑ ماتریدی، عقیدۃ، ص۳۶؛ «شرح الفقہ الاکبر»، ص۱۵.
- ↑ مثلاً نک: ماوردی، الاحکام السلطانیۃ، صص۳۹۷ بب؛ ابویعلی، الاحکام السلطانیۃ، ص۲۸۷؛ ابن اخوہ، معالم القربۃ، صص۱۵ بب.
- ↑ بحشل، تاریخ واسط، صص۱۱۴- ۱۱۵.
- ↑ ل ائوست ۱، سراسر کتاب.
- ↑ برای بسط موضوع، نک: رضا، تفسیر المنار، ج۴، صص۲۶-۵۰، جم.
مآخذ
- ابن اثیر، مبارک، جامع الاصول، بہ کوشش عبدالقادر ارناؤوط، بیروت، ۱۳۸۹ق /۱۹۶۹ء
- ابن اخوہ، محمد، معالم القربۃ، بہ کوشش روبن لوی، کمبریج، ۱۹۳۷ء
- ابن ادریس، محمد، السرائر، تہران، ۱۲۷۰ق.
- ابن بطۃ عکبری، عبیداللہ، الابانۃ عن شریعۃ الفرق الناجیۃ، بہ کوشش رضا بن نعسان معطی، ریاض، ۱۴۰۹ق /۱۹۸۸ء
- ابن حزم، علی، الفصل، بیروت، ۱۴۰۶ق /۱۹۸۶ء
- ابن حمزہ، محمد، الوسیلۃ، بہ کوشش محمد حسون، قم، ۱۴۰۸ق.
- ابن شہر آشوب، محمد، متشابہ القرآن و مختلفہ، تہران، ۱۲۲۸ش.
- ابن مرتضی، احمد، البحر الزخار، بیروت، ۱۳۹۴ق /۱۹۷۵ء
- ابن میمون، ابوبکر، شرح الارشاد، بہ کوشش احمد حجازی احمد سقا، قاہرہ، ۱۴۰۷ق /۱۹۸۷ء
- ابو داوود سجستانی، مسائل احمد، بہ کوشش محمد رشید رضا، بیروت، دار المعرفہ.
- ابو الصلاح حلبی، تقی، الکافی، بہ کوشش رضا استادی، اصفہان، ۱۴۰۳ق.
- ابو عمرو دانی، عثمان، السنن الواردۃ فی الفتن، نسخۃ خطی کتابخانۃ ظاہریہ، شم ۳۱۴ حدیث.
- ابو الفتح حسینی، مفتاح الباب، ہمراہ الباب الحادی عشر علامۃ حلی، بہ کوشش مہدی محقق، مشہد، ۱۳۶۸ش.
- ابو القاسم بلخی، عبداللہ، باب ذکر المعتزلۃ، فضل الاعتزال و طبقات المعتزلۃ، بہ کوشش فؤاد سید، تونس، ۱۴۰۶ق / ۱۹۸۶ء
- ابو یعلی، محمد، الاحکام السلطانیۃ، بہ کوشش محمد حامد فقی، قاہرہ، ۱۳۸۶ق /۱۹۶۶ء
- ہمو، المعتمد فی اصول الدین، بہ کوشش ودیع زیدان حداد، بیروت، ۱۹۸۶ء
- اشعری، علی، مقالات الاسلامیین، بہ کوشش محمد محیی الدین عبد الحمید، قاہرہ، ۱۳۶۹ق /۱۹۵۰ء
- بحشل، اسلم، تاریخ واسط، بہ کوشش کورکیس عواد، بغداد، ۱۳۸۷ق /۱۹۶۷ء
- تفتازانی، مسعود، شرح المقاصد، بہ کوشش عبدالرحمان عمیرہ، بیروت، ۱۴۰۹ق /۱۹۸۹ء
- جرجانی، علی، شرح المواقف، بہ کوشش محمد بدر الدین نعسانی، قاہرہ، ۱۳۲۵ق /۱۹۰۷ء
- جوینی، عبدالملک، الارشاد، بہ کوشش محمد یوسف موسی و علی عبد المنعم عبد الحمید، قاہرہ، ۱۳۶۹ق /۱۹۵۰ء
- خیاط، عبدالرحیم، الانتصار، بہ کوشش نیبرگ، بیروت، ۱۹۸۷- ۱۹۸۸ء
- حر عاملی، محمد، وسائل الشیعۃ، بیروت، ۱۳۹۱ق.
- راوندی، سعید، فقہ القرآن، بہ کوشش احمد حسینی، قم، ۱۳۹۷ق.
- رضا، محمد رشید، تفسیر المنار، بیروت، دار المعرفہ.
- زمخشری، محمود، الکشاف، بیروت، دار الکتاب العربی؛
- سید مرتضی، علی، مسألۃ فی العمل مع السلطان، رسائل الشریف المرتضی، بہ کوشش احمد حسینی، قم، ۱۴۰۵ق، ج۲.
- ہمو، الذخیرۃ، بہ کوشش احمد حسینی، قم، ۱۴۱۱ق.
- سیوری، مقداد، کنزالعرفان، بہ کوشش محمد باقر شریف زادہ و محمد باقر بہبودی، تہران، ۱۳۴۳ش.
- ہمو، ارشاد الطالبین، بہ کوشش مہدی رجایی، قم، ۱۴۰۵ق.
- شرح الفقہ الاکبر، منسوب بہ ابو منصور ماتریدی، الرسائل السبعۃ فی العقائد، حیدر آباد دکن، ۱۴۰۰ق /۱۹۸۰ء
- شریف رضی، محمد، حقائق التأویل، بہ کوشش محمد رضا آل کاشف الغطاء، بیروت، دار المہاجر.
- شہید اول، محمد، الدروس، چ سنگی، ایران، ۱۲۶۹ق.
- شہید ثانی، زین الدین، الروضۃ البہیۃ، تہران، ۱۳۰۹ق.
- شیخ طوسی، محمد، الاقتصاد، قم، ۱۴۰۰ق.
- ہمو، الجمل و العقود، الرسائل العشر، قم، ۱۴۰۳ق.
- ہمو، النہایۃ، بیروت، ۱۳۹۰ق /۱۹۷۰ء
- شیخ مفید، محمد، اوائل المقالات، بہ کوشش مہدی محقق، تہران، ۱۳۷۲ش.
- ہمو، محمد، المقنعۃ، قم، ۱۴۱۰ق.
- صاحب جواہر، محمد حسن، جواہر الکلام، بہ کوشش محمود قوچانی، تہران، ۱۳۹۴ق.
- علامۃ حلی، حسن، انوار الملکوت، بہ کوشش محمد نجمی زنجانی، قم، ۱۳۶۳ش.
- ہمو، کشف المراد، بہ کوشش ابراہیم موسوی زنجانی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی؛ فخر الدین رازی، تفسیر، بیروت، ۱۴۰۵ق /۱۹۸۵ء
- ہمو، مختلف الشیعۃ، قم، ۱۴۱۵ق.
- غزالی، محمد، احیاء علوم الدین، قاہرہ ۱۲۸۹ق.
- الفقہ الاکبر (۱)، منسوب بہ ابو حنیفہ، ضمن «شرح الفقہ الاکبر» (نک: ہم).
- فقہ الرضا (ع)، مشہد، ۱۴۰۶ق.
- قاسم بن محمد، الاساس لعقائد الاکیاس، بہ کوشش البیر نصری نادر، بیروت، ۱۹۸۰ء
- قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسۃ، بہ کوشش عبد الکریم عثمان، قاہرہ، ۱۳۸۴ق /۱۹۶۵ء
- قرآن کری.
- کلینی، محمد، الکافی، بہ کوشش علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۷۷ق.
- ماتریدی، محمد، عقیدۃ، ضمن السیف المشہور سبکی، بہ کوشش مصطفی صائم یپرم، استانبول، ۱۹۸۹ء
- ماوردی، علی، الاحکام السلطانیۃ، بہ کوشش خالد عبد اللطیف السبع العلمی، بیروت، ۱۴۱۰ق /۱۹۹۰ء
- ہمو، ادب الدنیا و الدین، بہ کوشش محمد صباح، بیروت، ۱۹۸۶ء
- محقق حلی، جعفر، شرائع الاسلام، بہ کوشش عبد الحسین محمد علی، نجف، ۱۳۸۹ق /۱۹۶۹ء
- مسعودی، علی، مروج الذہب، قم، ۱۳۶۳ش؛
- معتقد الامامیۃ، بہ کوشش محمد تقی دانش پژوہ، تہران، ۱۳۳۹ش.
- ملطی، محمد، التنبیہ والرد، ۱۳۶۹ق / ۱۹۴۹ء
- نجاشی، احمد، الرجال، بہ کوشش موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.