مندرجات کا رخ کریں

"تفویض" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  18 دسمبر 2023ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 9: سطر 9:


== اسلامی علوم میں تفویض کے مختلف معانی کا استعمال==
== اسلامی علوم میں تفویض کے مختلف معانی کا استعمال==
[[شیعہ]] علماء کے مطابق شیعہ احادیث میں تفویض کے کم از کم چار مختلف معانی زیر استعمال ہیں؛ جن میں سے بعض مثبت اور بعض منفی معنی میں شمار ہوتے ہیں: انسان کا اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھنا(مکمل جبر کے بر خلاف معنی)،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص160؛ شیخ صدوھ، توحید، ص362.</ref> اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کرنا،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص63؛ طبرسی، مشکاةالانوار، 1385ق/1965م، ص16.</ref> [[چودہ معصومین|محمد و آل محمدؐ]] کی [[ولایت تشریعی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص268؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 1391ہجری شمسی، ج1، ص97.</ref> اور ان کی [[ولایت تکوینی]]۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ صدوھ، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97.</ref> اخلاق اور عرفان اسلامی میں تفویض کے معنی ہیں اپنے امور کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا جو کہ [[توکل]] سے ملتے جلتے معنی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: کاشانی، شرح منازل السائرین، 1427ھ، ص329.</ref> علم کلام میں تفویض کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھتا ہے<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج6، ص628.</ref> لیکن شیعہ کلامی کتب میں مذکورہ معنی کے علاوہ احادیث کی پیروی کرتے ہوئے ولایت تشریعی اور ولایت تکوینی کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں چونکہ احادیث میں لفظ تفویض ان دو معانی میں بھی استعمال ہوا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج3، ص285-286؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393ہجری شمسی، ص98-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 1385ہجری شمسی، ص51.</ref>   
[[شیعہ]] علماء کے مطابق شیعہ احادیث میں تفویض کے کم از کم چار مختلف معانی زیر استعمال ہیں؛ جن میں سے بعض مثبت اور بعض منفی معنی میں شمار ہوتے ہیں: انسان کا اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھنا(مکمل جبر کے بر خلاف معنی)،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص160؛ شیخ صدوق، توحید، ص362.</ref> اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کرنا،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص63؛ طبرسی، مشکاةالانوار، 1385ق/1965م، ص16.</ref> [[چودہ معصومین|محمد و آل محمدؐ]] کی [[ولایت تشریعی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص268؛ صافی گلپایگانی، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، 1391ہجری شمسی، ج1، ص97.</ref> اور ان کی [[ولایت تکوینی]]۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، الاعتقادات، 1414ھ، ج1، ص97.</ref> اخلاق اور عرفان اسلامی میں تفویض کے معنی ہیں اپنے امور کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا جو کہ [[توکل]] سے ملتے جلتے معنی ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: کاشانی، شرح منازل السائرین، 1427ھ، ص329.</ref> علم کلام میں تفویض کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے افعال میں مکمل اختیار رکھتا ہے<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج6، ص628.</ref> لیکن شیعہ کلامی کتب میں مذکورہ معنی کے علاوہ احادیث کی پیروی کرتے ہوئے ولایت تشریعی اور ولایت تکوینی کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں چونکہ احادیث میں لفظ تفویض ان دو معانی میں بھی استعمال ہوا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: مطهری، مجموعه آثار، 1384ہجری شمسی، ج3، ص285-286؛ صافی گلپایگانی، ولایت تکوینی و ولایت تشریعی، 1393ہجری شمسی، ص98-100؛ سبحانی، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، 1385ہجری شمسی، ص51.</ref>   


== اختیار ==
== اختیار ==
سطر 17: سطر 17:
شیعہ حضرات [[ائمہ معصومینؑ]] کی احادیث کی روشنی میں نہ مکمل طور پر جبر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر اختیار کا؛ بلکہ ان میں سے ایک درمیانی راہ اپناتے ہیں<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.</ref> جسے "امرٌ بَینَ الْاَمرَین" سے تعبیر کرتے ہیں؛<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.</ref> یعنی انسان ایک مختار موجود ہے؛ لیکن اس کے افعال کو اللہ کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے؛ کیونکہ جہاں انسان کا وجود اللہ سے ہے وہاں اس سے صادر ہونے والے افعال بھی اسی سے وابستہ ہیں۔<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص431-432.</ref>
شیعہ حضرات [[ائمہ معصومینؑ]] کی احادیث کی روشنی میں نہ مکمل طور پر جبر کا عقیدہ رکھتے ہیں اور نہ ہی مکمل طور پر اختیار کا؛ بلکہ ان میں سے ایک درمیانی راہ اپناتے ہیں<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.</ref> جسے "امرٌ بَینَ الْاَمرَین" سے تعبیر کرتے ہیں؛<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص411.</ref> یعنی انسان ایک مختار موجود ہے؛ لیکن اس کے افعال کو اللہ کی طرف بھی نسبت دی جاتی ہے؛ کیونکہ جہاں انسان کا وجود اللہ سے ہے وہاں اس سے صادر ہونے والے افعال بھی اسی سے وابستہ ہیں۔<ref>سبحانی، جبر و اختیار، 1381ش/1423ھ، ص431-432.</ref>


شیعہ منابع حدیثی، جیسے [[الکافی (کتاب)|الکافی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص155.</ref> [[التوحید (کتاب)|توحید]]،<ref>شیخ صدوق، توحید، ص359.</ref> [[الاعتقادات (کتاب)|الاعتقادات]]<ref>شیخ صدوق،  اعتقادات الامامیہ، 1414ھ، ص29.</ref> اور [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] وغیرہ<ref> مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، ص2.</ref> میں کچھ ابواب جبر و اختیار مطلق کے رد اور "اَمرٌ بَینَ الْاَمرَین" کی تائید کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ [[شیخ کلینی]] کی کتاب الکافی اور [[شیخ صدوق]] کی کتاب التوحید میں [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام جعفرصادقؑ]] سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے: {{حدیث| "لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِيضَ وَ لَكِنْ أَمْرٌ بَيْنَ أَمْرَيْن}}؛ نہ جبر نہ تفویض؛ بلکہ ان دونوں میں سے صرف درمیانی راہ صحیح اور درست ہے۔"<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص160؛ شیخ صدوھ، توحید، ص362.</ref>
شیعہ منابع حدیثی، جیسے [[الکافی (کتاب)|الکافی]]،<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص155.</ref> [[التوحید (کتاب)|توحید]]،<ref>شیخ صدوق، توحید، ص359.</ref> [[الاعتقادات (کتاب)|الاعتقادات]]<ref>شیخ صدوق،  اعتقادات الامامیہ، 1414ھ، ص29.</ref> اور [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] وغیرہ<ref> مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج5، ص2.</ref> میں کچھ ابواب جبر و اختیار مطلق کے رد اور "اَمرٌ بَینَ الْاَمرَین" کی تائید کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ [[شیخ کلینی]] کی کتاب الکافی اور [[شیخ صدوق]] کی کتاب التوحید میں [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام جعفرصادقؑ]] سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے: {{حدیث| "لَا جَبْرَ وَ لَا تَفْوِيضَ وَ لَكِنْ أَمْرٌ بَيْنَ أَمْرَيْن}}؛ نہ جبر نہ تفویض؛ بلکہ ان دونوں میں سے صرف درمیانی راہ صحیح اور درست ہے۔"<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، کافی، 1407ھ، ج1، ص160؛ شیخ صدوق، توحید، ص362.</ref>


== امور کو اللہ کے سپرد کرنا ==
== امور کو اللہ کے سپرد کرنا ==
سطر 64: سطر 64:
* سبحانی، جعفر، مفاهیم‌القرآن، به‌قلم جعفر الهادی، قم، مؤسسه امام صادھ، 1421ھ۔
* سبحانی، جعفر، مفاهیم‌القرآن، به‌قلم جعفر الهادی، قم، مؤسسه امام صادھ، 1421ھ۔
* سبحانی، جعفر، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، قم، مؤسسه امام صادھ، 1385ہجری شمسی۔
* سبحانی، جعفر، ولایت تکوینی و تشریعی از دیدگاه علم و فلسفه، قم، مؤسسه امام صادھ، 1385ہجری شمسی۔
* شیخ صدوھ، محمد بن علی، اعتقادات‌الامامیه، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، اعتقادات‌الامامیه، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ۔
* شیخ صدوھ، محمد بن علی، التوحید، تحقیق و تصحیح هاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1398ھ۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، تحقیق و تصحیح هاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابسته به جامعه مدرسین حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1398ھ۔
* شیخ مفید، محمد بن محمد، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
* شیخ مفید، محمد بن محمد، سلسلة مؤلفات الشیخ المفید، بیروت، دارالمفید، 1414ھ۔
* صافی گلپایگانی، لطف‌الله، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی، 1391ہجری شمسی۔
* صافی گلپایگانی، لطف‌الله، سلسله‌مباحث امامت و مهدویت، قم، دفتر تنظیم و نشر آثار آیت‌الله العظمی صافی گلپایگانی، 1391ہجری شمسی۔
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم