سید مرتضی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | علی بن حسین بن موسی بن محمد |
لقب/کنیت | سید مرتضی، شریف مرتضی و علم الہدی |
تاریخ ولادت | سنہ 355 ہجری |
تاریخ وفات | سنہ 436 ہجری |
مدفن | کربلا |
نامور اقرباء | سید رضی |
علمی معلومات | |
اساتذہ | شیخ مفید اور أبوعبداللہ محمد بن عمران مرزبانی بغدادی |
شاگرد | شیخ طوسی، سلار دیلمی، ابن براج اور محمد بن علی کراجکی |
تالیفات | الانتصار، الشافی فی الامامۃ، المحکم و المتشابہ، تنزیہ الانبیاء، دیوان المرتضی، الغرر و الدرر (یا امالی مرتضی)، الذریعۃ الی اصول الشریعۃ |
خدمات | |
سماجی | فقیہ، متکلم، اصولی، شاعر |
علی بن حسین بن موسی (355-436 ھ)، سیدِ مرتضی، شریف مرتضی اور علم الہدی کے نام سے مشہور، فقیہ، متکلم اور شیعہ مؤثر سماجی شخصیات میں سے ہیں۔ سید مرتضی اپنے والد اور بھائی سید رضی کی طرح اپنے دور میں نقیب کے منصب پر مدتوں فائز رہے۔ آپ بغداد میں زندگی گزارتے تھے اور بنی عباسی کے خلفاء اور آل بویہ کے حکمران آپ کا نہایت احترام کرتے تھے۔ آپ کچھ مدت کیلئے امیر الحاج اور دیوان مظالم کے عہدے پر بھی فائز رہے۔[1]
سید مرتضی اپنے استاد شیخ مفید کی طرح عقلانیت پسند اور علم کلام سے لگاؤ رکھتے تھے۔ آپ کی اہم ترین فکری تصنیف بھی اسی سلسلہ میں ہے۔ فقہ میں بھی عقلانیت پسند تھے اور اصول فقہ میں بھی ایک کتاب تحریر کی جسے علم اصول میں شیعوں کی پہلی جامع کتاب تصور کیا جاتا ہے۔ آپ کے مشہور شاگرد، شیخ طوسی ہیں۔ سید مرتضی ایک ممتاز ادیب بھی تھے اور تفسیر قرآن میں بھی آپ کی تصانیف موجود ہیں۔
حسب و نسب اور تاریخ ولادت و وفات
علی بن حسین بن موسی بن محمد بن موسی بن ابراہیم بن امام موسی کاظمؑ، سنہ 355 ہجری کو بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو القاسم اور سید مرتضی کے نام سے مشہور ہیں۔[2] آپ کے والد گرامی ابو احمد حسین، شیعہ بزرگ علماء میں سے تھے اور سلسلہ آل بویہ کے حکمرانوں سے قریبی تعلقات رکھنے کے ساتھ ساتھ علویوں کے نقیب، دیوان مظالم اور امیر حج کے عہدوں پر بھی فائز تھے۔[3]
آپ کی والدہ، فاطمہ بنت حسن (یا حسین) بن احمد بن حسن بن علی بن عمر الاشرف بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالبؑ (متوفی 385 ھ) تھیں۔[4]
القاب: سید مرتضی متعدد القاب سے ملقب تھے۔ چونکہ آپ کا حسب و نسب ماں باپ دونوں طرف سے حسینی تھے اسلئے آپ کو "شریف" کہا جاتا تھا۔ آپ "علمالہدی" کے نام سے بھی معروف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سید مرتضی کے معاصر ایک بزرگ نے امام علیؑ کو خواب میں دیکھا کہ آپؑ سید مرتضی کو علم الہدی کے لقب سے پکارتے تھے یوں اس بزرگ نے انہیں اس لقب سے نوازا۔[5] آپ کے دیگر القاب میں سے ایک ذُوالمَجدَین ہے جسے آل بویہ کے حکمران بہاءالدولہ نے دیا۔[6] اسی طرح آپ کو ابو الثمانین اور ذو الثمانین بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے 80 کتابیں لکھیں، 80 دیہاتوں کے مالک تھے اور 80 سال آٹھ مہینے عمر پائی۔[7]
وفات: سید مرتضی سنہ 436 ہجری کو وفات پائی۔ آپ کے بیٹے نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بغداد میں اپنے آبائی گاوں کرخ میں اپنے گھر میں دفن کیا گیا۔[8]
سید مرتضی کے محل دفن کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ایک قول کے مطابق ان کی میت کو بعد میں بغداد سے کربلا منتقل کیا گیا اور امام حسینؑ کے روضہ اطہر کے قریب دفن کیا گیا۔[9] اس کے علاوہکاظمین میں بھی سید مرتضی سے منسوب ایک قبر موجود ہے۔ [10]
تعلیم، اساتذہ اور شاگرد
سید مرتضی اپنے بھائی شریف رضی کے ساتھ بچپن میں ادبیات اور مبادی کو ابن نباتہ سعدی جو اپنے زمانے کے شاعر اور ادیب تھے کے پاس اور فقہ و علم اصول کو شیخ مفید کے پاس پڑھا۔ سید مرتضی شعر و ادب میں ابو عبید اللہ مرزبانی کے شاگرد تھے اور کتاب امالی میں بہت ساری احادیث کو ان سے نقل کیا ہے۔[11]
آپ کے دیگر اساتید اور مشایخ میں درج ذیل افراد کا نام لیا جا سکتا ہے:[12]
- حسین بن علی بن بابویہ، شیخ صدوق کے بھائی
- سہل بن أحمد دیباجی
- أبو الحسن أحمد بن محمد بن عمران معروف بہ ابن جندی بغدادی
- أبو الحسن أو (أبو الحسین) علی بن محمد کاتب
- أحمد بن محمد بن عمران کاتب
شاگرد
سید مرتضی اپنے زمانے میں اچھی خاصی شہرت کے حامل تھے اور کہا جاتا ہے کہ ان کا کلاس درس کافی پر رونق رہتا تھا اور اس زمانے کے بعض مشاہیر مانند ابو العلاء معری، ابو اسحاق صابی اور عثمان بن جنی ان کے درس میں شرکت کرتے تھے۔[13] بعض اقوال کے مطابق آپ نے اپنا گھر جو ایک بہت بڑا گھر تھا، کو مدرسہ میں تبدیل کیا ہوا تھا جس میں فقہ، کلام، تفسیر، لغت، شعر اور دیگر علوم مانند علم فلکیات اور حساب پڑھائے جاتے تھے۔[14] سید مرتضی کے بعض شاگرد درج ذیل ہیں:[15]
- شیخ طوسی
- حمزۃ بن عبد العزیز سلار دیلمی
- ابو الصلاح حلبی
- عبد العزیز حلبی
- ابو الفتح کراجکی
- محمد بن معبد حسنی
- جعفر بن محمد دوریستی
- سلیمان بن حسن صہرشتی
- ابو الحسن بصروی
- أبو عبداللہ بن تبان تبانی
- أحمد بن حسن نیسابوری
- ابو الحسین حاجب
- نجیب الدین حسن بن محمد موسوی
- عبد العزیز بن کامل طرابلسی
- قاضی أبو القاسم علی بن محسن تنوخی
- عبد الرحمن بن أحمد بن حسین
- تقی بن ابی طاہر ہادی نقیب رازی
- محمد بن علی حلوانی
- محمد بن حمزۃ علوی
- یعقوب بن إبراہیم بیہقی
سیاسی اور سماجی زندگی
سید مرتضی سلسلہ آل بویہ اور بنی عباسی کے سلاطین کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے تھے ۔ انہوں نے اپنے اشعار میں "القائم" اور بنی عباس کے بعض دیگر خلفاء کی مدح ثرائی کی ہے۔[16] شریف مرتضی سنہ 406 ھ سے آل بویہ اور عباسی حکمرانوں کی طرف سے علویوں کے نقیب، امیر حجاج اور رئیس دیوان مظالم منصوب رہے۔ یہ مناصب اس سے پہلے ان کے والد اور بھائی کے پاس تھے۔[17]
سید مرتضی کی سیاسی تفکرات میں سلاطین کا کردار
سید مرتضی نے ایک رسالہ میں فی العمل مع السلطان کے عنوان سے حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرنے کے جواز سے متعلق جواب[18] دیا ہے۔ عادل حکمران کہ جو در واقع امام معصوم ہوا کرتا ہے ان کے ساتھ تعاون کرنے میں تو کوئی شک و شبہہ نہیں ہے لیکن سید مرتضی اور دیگر شیعہ فقہاء نے جس مسئلے کو مطرح کیا ہے وہ یہ تھا کہ آیا عصر غیبت میں کسی حکومتی عہدے کو قبول کرنا جائز ہے یا نہیں؟ سید مرتضی کی نظر میں ظالم حکمران کے ساتھ تعاون کرنا اگر عقلا اور شرعا کوئی فائدہ رکھتا ہو یعنی یہ شخص اس عہدے کی ذریعے کسی ظلم کو روک سکتا ہو یا عدل قائم کر سکتا ہو یا الہی احکام کو جاری کر سکتا ہو تو جائز ہے۔[19]
بعض شیعہ مصنفین کے مطابق سید مرتضی کا بنی عباس اور آل بویہ کے ساتھ تعاون بھی اسی مبنا کے مطابق تھا۔ ان کا حکمراوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا اور ان کی تعریف و تمجید حکومتی عہدوں پر فائز رہ کر شیعہ قوم کی خدمت کرنا تھا۔[20]
افکار اور تالیفات
سید مرتضی شیعہ بزرگ علماء میں سے تھے اور اپنے زمانے کے بہت سارے رائج علوم جسے کلام، فقہ، علم اصول، تفسیر، فلسفہ، علم نجوم، فلکیات اور ادبی علوم پر عبور رکھتے تھے۔[21] سید مرتضی کے افکار کے افکار کا محور اس کی عقلانیت پسندی ہے جو اس کے مختلف کلامی اور فقہی تفکرات پر نمایاں نظر آتے ہیں اور یہی چیز انہیں ان کے استاد شیخ مفید کے افکار سے قریب کرتے ہیں۔
عقلانیت اور کلامی نظریات
سید مرتضی ایک عقلانیت پسند مفکر تھا۔ سید مرتضی کے نزدیک خدا شناسی سے مربوط مباحث کی جستجو میں عقلانیت اور استدلال واجب ہے کیونکہ خدا کی شناخت بدیہی نہیں ہے اور خدا کی شناخت میں کسی کے کہنے یا سمعی دلائل (روایات اور متون دینی) سے استناد نہیں کر سکتے کیونکہ خود متون دینی کی حجیت خداوندعالم کی وجود پر اعتماد اور اطمینان اور خدا کی شناخت سے حاصل ہوتی ہے۔ سید مرتضی کے مطابق خدا پر صرف کسی کی تقلید یا اس کے کہنے پر بغیر کسی دلیل و برہان کے اعتقاد پیداا کرنا کافی نہیں ہے۔[22]
سید مرتضی عقائد اور کلامی مباحث میں عقل کی حجیت پر تاکید کرتے ہیں اور ہر اس چیز کو باطل سمجھتے ہیں جو عقل کے مخالف ہوں۔ اسی بنا پر عقل اور نقل کے تعارض کے مقام پر وہ عقل کو فوقیت دیتے ہیں اور اس بات کے معتقد تھے کہ جوامع حدیث میں موجود تمام کے تمام احادیث صحیح نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ان روایت کو قبول نہیں کرتے تھے جن کا لازمہ تشبیہ، جبر، رویت خداوند، خدا کے صفات کا قدیم ہونا ہے اسی طرح وہ روایات جو بعض خرافات جیسے رعد و برق کا فرشتہ ہونا وغیرہ پر تائید کرتے ہیں کو بھی قبول نہیں کرتے اسی وجہ سے وہ آیات جو عقلی بنیادوں کے خلاف نظر آتی کے تاویل کے قائل تھے۔[23]
سید مرتضی اور مذہب معتزلہ: سید مرتضی کے افکار عقلانیت پسندی کے اعتبار سے معتزلہ کے قریب ہے، چنانچہ بعض اہل سنت انہیں معتزلہ سمجھتے تھے۔ سید مرتضی کے دور میں بغداد جو کہ سید مرتضی کا محل زندگی تھا، میں مذہب معتزلہ کا رواج تھا اور سید مرتضی بھی اس سے متاثر ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔[24] ان تمام باتوں کے باوجود سید مرتضی کے افکار ایک شیعہ متفکر ہونے کی حیثیت سے معتزلہ کے بعض افکار سے مختلف ہے اور اپنی کتاب الشافی میں قاضی عبدالجبار معتزلی کے بعض اعتقادات پر تنقید کی ہے اور امامت، انبیاء کی عصمت، منزلۃ بین منزلتین اور ارادہ الہی وغیرہ میں معتزلہ کا ہم عقیدہ نہیں تھا۔[25]
کلامی موضوعات میں متون دینی کاملا بے معنی نہیں اور ان اعتقادات کے مقابلے میں جو صرف عقلی دلائل سے حاصل ہوتے ہیں، بعض کلامی مباحث نقل اور احادیث اور عقل دونوں طریق سے حاصل ہوتے ہیں جیسے امامت اور بعض دیگر کلامی نظریات میں نقل ہی تنہا دلیل اور حجت ہے۔ سید مرتضی کے مطابق ثواب و عقاب کا جاویدانی ہونا عقل کے ذریعے قابل اثبات نہیں ہے اور اس عقیدے کا تنہا دلیل نقل اور روایات ہیں۔[26]
علم کلام میں ان کے قلمی آثار: علم کلام میں سید مرتضی کی اہم ترین تألیفات درج ذیل ہیں:
- الشافی فی الامامۃ امامت کے موضوع پر قاضی عبدالجبار کی کتاب المغنی کا جواب
- تنزیہ الانبیاء انبیاء کی عصمت مطلقہ کے بارے میں
- المخلص فی اصول الدین
- الفصول المختارہ شيعہ اعتقادات عقل، قرآن اور اہل بیتؑ کے احادیث کی روشنی میں
- الذخیرہ فی علم الکلام
- الموضح عن جہہ اعجاز القرآن
- جمل العلم و العمل اعتقادی اور فقہی موضوع پر لکھی گئی ہے۔
- المقنع فی الغیبہ امام زمانہ اور آپ کی غیبت پر لکھی گئی ہے۔
فقہی نظریات
فقہ میں بھی سید مرتضی عقلانیت پسند تھے اور احکام کو کشف کرنے میں نقلی قرائن موجود نہ ہونے کی بنا پر عقل کو حجت سمحھتے تھے۔ سید مرتضی فقہ شیعہ میں اجتہادی روش کو متعارف کرنے والے اولین شخصیتوں میں سے ہیں۔ [27] اخباریوں اور متکلمین کے خلاف احکام کو استنباط کرنے میں اصول لفظیہ اور عقلیہ دونوں سے استفادہ کرتے تھے۔[28] وہ مسائل جن کو عقلی دلائل کی بنیاد پر استنباط کر سکتے ہوں ان میں دلائل نقلی کو لازم نہیں سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود فروع دین میں دلائل نقلیہ سے استفادہ کرنے کو جائز سمجھتے تھے یہاں تک کہ بعض احکام اور اعتقادی مسائل میں نقلی دلائل کو کافی نہیں سمجھتے تھے۔ مثال کے طور پر ان کے عقیدے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو وجوب شرعی سمجھتے تھے نہ وجوب عقلی۔ [29]
عدم حجیت خبر واحد: سید مرتضی اپنے استاد شیخ مفید کی طرح خبر واحد کی حجیت کو قبول نہیں کرتے تھے۔ ان کے عقیدہ میں خبر واحد پر استناد کرنا نہ صرف اعتقادی موضوعات[30] بلکہ فقہ میں بھی جائز نہیں سمجھتے تھتے۔ [31] ان کے مطابق خبر واحد میں راوی کی عدالت شرط ہے اور عدالت کے شرائط میں سے ایک یہ کہ کہ راوی منحرف مذاہب میں سے نہ ہو جبکہ بہت سارے فقہی احادیث کو ایسے راویوں نے نقل کیا ہے جن میں مذکورہ شرط موجود مفقود ہے اس بنا پر خبر واحد پر اعتماد کرنے کی شرائط مکمل نہیں ہے۔[32] محققین معتقد ہیں کہ خبر واحد کی حجیت کا انکار، سید مرتضی کو فقہی احکام کی دریافت میں حد سے زیادہ اجماع سے استفادہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔[33]
سید مرتضی کی فقہی آثار میں کتاب الانتصار میں صرف شیعوں سے مختص احکام درج ہے۔ یہ کتاب فقہی کتابوں میں سب سے پہلے لکھی جانے والی کتابوں میں شامل ہیں جن میں شیعہ اور اہل سنت کے درمیان مورد اختلاف مسائل پر بحث کی گئی ہے۔ سید مرتضی کی دیگر فقہی آثا میں سے ایک کتاب الناصریات ہے۔ سید مرتضی نے اس کتاب کو اپنے دادا حسن اطروش کے فقہی نظریات کی تشریح کی ہے۔ سید مرتضی کے بعض دیگر نظریات بعض رسالوں میں بیان ہوئی ہے جسے انہوں نے خطوط اور سوالات کے جواب میں لکھی ہے۔[34]
سید مرتضی علم اصول فقہ میں بھی تصانیف کے مالک ہیں علم اصول میں ان کی اہم ترین آثار میں الذریعہ الی اصول الشریعہ ہے۔ یہ کتاب علم اصول میں شیعوں کی پہلی جامع کتاب شمار ہوتی ہے۔[35] سید مرتضی نے اس کتاب میں اہل سنت کے نظریات کو بیان کرتے ہوئے ان کی بررسی کرتے ہوئے اپنا نظریہ بیان کیا ہے۔ اس وجہ سے یہ کتاب شیعہ علم اصول کی شکل گیری اور اس کا اہل سنت علم اصول سے متمائز ہونے کا باعث بنا۔[36]
تفسیر قرآن
سید مرتضی نے علوم قرآن سے مرتبط موضوعات کے اوپر بھی مقالات اور کتابیں لکھی ہیں۔ مثلا اعجاز قران کے بارے میں "الموضح عن وجہ اعجاز القرآن" کے عنوان سے ایک کتاب موجود ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کی تفسیر سے متعلق متعدد مقالات ان کے مختلف آثار میں پراکندہ طور چر موجود ہے۔ قرآن کی بعض آیات کے بارے میں مختصر مقالہ جات کے علاوہ ان کی تفسیر کے بارے میں لکھی گئی عمدہ مطالب ان کی کتاب الامالی میں جمعآوری کی گئی ہے جس میں تقریبا 140 آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ اسی طرح انہوں نے کتاب تنزیہ الانبیاء میں انبیائے الہی سے متعلق آیات کی تفسیر کی ہے۔[37] سید مرتضی کے دیگر کلامی آثار میں سے ایک الشافی ہے جس میں بھی بعض آیات کو مورد بررسی قرار دیا ہے۔ [38]
سید مرتضی، تفسیر میں بھی عقلی استدلال کو بروئے کار لاتا ہے، جہاں آیات کا ظاہر عقلی اصول اور قوانین سے متضاد ہوں تو عقلی اصول و قواعد کی بنیاد پر آیات کی تاویل کرتا ہے۔[39] اس طرح وہ قرآن کی تفسیر میں کلامی پہلو کا بھی خیال رکھتے ہیں اسی لئے اکثر اعتقادات سے مربوط آیات کی تفسیر کرتے وقت شیعہ اعتقادات کی تقویت کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ [40] سید مرتضی کی تفسیر کی دوسری خصوصیت اس کا ادبی پہلو ہے۔ انہوں نے قرآن کے مفاہیم کو صحیح درک کرنے کیلئے ادبیات عرب کے اصول و قوانین سے استفادہ کرنے کو نہایت ضروری سمجھتا ہے۔[41]
آثار ادبی
سید مرتضی ایک ماہر اور ممتاز ادیب بھی تھا۔[42] سید مرتضی کے متعدد ادبی آثار بھی موجود ہیں۔ منجملہ یہ کہ ان کے اشعار 6 جلدوں میں موجود ہے۔ ان کی ایک مشہور کتاب "الدرر و الغرر" میں ادبی اور لغوی مباحث پر مشتمل ہے۔ [43] اس کے علاوہ سید مرتضی قدماء کے ادبی آثار کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے بعض کتابیں لکھی ہیں۔[44]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، ج۲، صص۱۲۰-۱۲۱.
- ↑ تہرانی، طبقات اعلام الشیعۃ، ج۲، ص۱۲۰-۱۲۱.
- ↑ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۹، ص۱۸۲؛ ذہبی، تاریخ الاسلام، ج۲۱، ص۱۹.
- ↑ المحامی رشید الصفار، ترجمۃ الشریف المرتضی، در: شریف مرتضی، ۱۴۱۵ق، صص۱۱-۱۲.
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ج ۴، ص ۲۹۵.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ج ۱۵، ص ۵۴.
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، ج ۴، ص ۲۹۶.
- ↑ نجاشی، رجال، ص۲۷۱.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ج۸، ۲۱۳.
- ↑ نک: بحرالعلوم و خامہیار، زیارتگاہہای عراق، ج ۱، ص ۳۲۴-۳۲۵.
- ↑ تہرانی، طبقات اعلام الشیعۃ، ج۲، صص۱۲۰-۱۲۱.
- ↑ المحامی رشید الصفار، ترجمۃ الشریف المرتضی، فی: شریف مرتضی، ۱۴۱۵ہ.ق.، ص۲۴.
- ↑ اسعدی، سید مرتضی، ۵۲-۵۳.
- ↑ المحامی رشید الصفار، ترجمۃ الشریف المرتضی، فی: شریف مرتضی، ۱۴۱۵ہ.ق.، ص۲۲.
- ↑ المحامی رشید الصفار، ترجمۃ الشریف المرتضی، فی: شریف مرتضی، ۱۴۱۵ہ.ق، صص۴۷-۴۸.
- ↑ نصر، تحلیل فقہی رابطہ سلطان و علمای دین از دیدگاہ علم الہدی، ص۱۷۲-۱۷۳.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ج ۱۵، ص ۱۱۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۹، ص ۲۶۳.
- ↑ شفیعی، رسالہ فی العمل مع السلطان
- ↑ علی خانی و ہمکاران، اندیشہ سیاسی متفکران مسلمان، ج۲ ، ص۱۵۴-۱۵۵ ، ۱۶۰-۱۶۱.
- ↑ نصر، تحلیل فقہی رابطہ سلطان و علمای دین از دیدگاہ علم الہدی، ص۱۷۳.
- ↑ الطوسی، الفہرست، ص۹۹، نجاشی، رجال، ص۲۷۰.
- ↑ اسعدی، سید مرتضی٬(ص)
- ↑ نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص۷۶ و ۸۱- ۸۲
- ↑ نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص۷۵.
- ↑ اسعدی، سید مرتضی، ص۹۱-۹۴
- ↑ برنجکار و ہاشمی، عقل گرایی در مدرسہ امامیہ بغداد و معتزلہ، ص۷۰-۷۱.
- ↑ اسعدی، سید مرتضی، ص ۵۰ و ۹۰.
- ↑ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، صص ۱۴۹-۱۴۸
- ↑ نیاسر، معارف و شاہرودی، عقل و نقل در دیدگاہ سید مرتضی، ص ۸۴-۸۷.
- ↑ جبرئیلی، سیر تطور کلام شیعہ، ص ۱۰۰.
- ↑ جعفری، مقایسہای میان دو مکتب فکری شیعہ در قم و بغداد، ص۲۲-۲۳.
- ↑ ضمیری، دانشنامہ اصولیان شیعہ، ص ۱۵۲
- ↑ ضمیری، دانشنامہ اصولیان شیعہ، ۱۵۲-۱۵۳.
- ↑ نک: گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ص ۱۶۵-۱۶۸
- ↑ ضمیری، دانشنامہ اصولیان شیعہ، ص۱۲۰
- ↑ گرجی، تاریخ فقہ و فقہا، ص۱۷۳ .
- ↑ قربانی زرین، مبانی ادبی-کلامی سید مرتضی در تفسیر قرآن کریم، ص ۱۹.
- ↑ شکرانی، مقدمہای بر مباحث تفسیری سید مرتضی، ص۵۱ -۵۲.
- ↑ شکرانی، مقدمہای بر مباحث تفسیری سید مرتضی، ص ۵۸.
- ↑ شکرانی، مقدمہای بر مباحث تفسیری سید مرتضی، ص ۵۷؛ قربانی زرین، مبانی ادبی-کلامی سید مرتضی در قرآن کریم، ص ۲۲.
- ↑ قربانی زرین، مبانی ادبی-کلامی سید مرتضی در قرآن کریم، ص ۲۰-۲۲.
- ↑ ابن جوزی، المنتظم، ج ۱۵، ص ۲۹۴.
- ↑ امین، اعیان الشیعہ، ج ۸، ص ۲۱۳
- ↑ محدثی، شخصیت ادبی سید مرتضی، ص ۶۱-۶۳.
مآخذ
- ابن اثیر، عزالدین علی، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر -دار بیروت، ۱۳۸۵ق.
- ابن جوزی، عبد الرحمن، المنتظم، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الكتب العلمیۃ، ط الأولی، ۱۴۱۲
- اسعدی، علی رضا، سید مرتضی، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، ۱۳۹۱
- الذہبی، شمس الدین محمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الكتاب العربی، ط الثانیۃ، ۱۴۱۳
- الشریف المرتضی، علی بن حسین موسوی، الانتصار فی انفرادات الامامیۃ، قم: دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۵ق.
- بحرانی، ابن میثم، شرح نہج البلاغۃ، قم: مرکز النشر مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۳۶۲ش.
- برنجکار، رضا و ہاشمی، ریحانہ، عقل گرایی در مدرسہ امامیہ بغداد و معتزلہ، مجلہ فلسفہ دین، بہار ۱۳۹۳
- تہرانی، آقا بزرگ، طبقات اعلام الشیعۃ، ج۲، قم: اسماعیلیان، بیتا.
- جعفری، سید محمد مہدی، سیدرضی، تہران: طرح نو، ۱۳۷۵ش.
- خوانساری، محمد باقر، روضات الجنات، تحقیق اسداللہ اسماعیلیان، قم، اسماعیلیان،
- شفیعی، محمود، رسالہ فی العمل مع السلطان، فصلنامہ علوم سیاسی، شمارہ ۱۴ ، تابستان ۱۳۸۰
- شکرانی، رضا، مقدمہای بر مباحث تفسیری سید مرتضی، مجلہ کیہان اندیشیہ، شمارہ۵۹ ، فروردین و اردیبہشت ۷۴
- شیخ طوسی، الفہرست. محقق/مصحح: سید محمد صادق آل بحر العلوم، نجف: المکتبۃ الرضویۃ، بیتا.
- ضمیری، اصولیان شیعہ، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۴
- علیخانی و ہمکاران، اندیشہ سیاسی متفکران مسلمان، تہران، پژوہشگاہ مطالعات فرہنگی و اجتماعی، ۱۳۹۰
- قربانی زرین، باقر، مبانی ادبی- کلامی سید مرتضی در تفسیر قرآن کریم، مجلہ صحیفہ مبین، شمارہ ۵۱ ، بہار و تابستان ۱۳۹۱
- گرجی، ابوالقاسم، تاریخ فقہ و فقہا، تہران: سمت، ۱۳۸۵ش.
- نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم:مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۳۶۵ش.