صحیفہ سجادیہ کی دوسری دعا

ویکی شیعہ سے
(صحیفہ سجادیہ کی 2 دعا سے رجوع مکرر)
صحیفہ سجادیہ کی دوسری دعا
کوائف
موضوع:پیغمبر اکرمؐ پر درود اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں آپؐ کی کوششوں کا بیان
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سجادؑ
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفہ سجادیہ
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفہ سجادیہ کی دوسری دعا امام سجادؑ کی دعاؤں میں سے ہے جس میں پیغمبر اسلامؐ پر درود اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں آپؐ کی کوششوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس دعا میں امام سجادؑ نے اللہ کے آخری نبی کو مسلمانوں میں سے مبعوث کرنے پر خدا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسلام کی نشر و اشاعت میں پیغمبر اکرمؐ کی زحمتوں پر انہیں اعلی مقام عطا کرنے کی درخواست کی ہے۔ اسی طرح اس دعا میں حضرت محمدؐ کی بعض خصوصیات کی طرف بھی اشارہ ہوا ہے۔

صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں اس دعا کے مختلف حصوں کی بھی تشریح کی گئی ہے۔ جیسے دیار عاشقان میں حسین انصاریان نے فارسی اور ریاض السالکین فی شرح صحیفہ سید الساجدین میں سید علی‌ خان مدنی نے عربی میں اس دعا کی شرح لکھی ہیں۔

دعا و مناجات


مضامین

صحیفہ سجادیہ کی دوسری دعا کا اصل موضوع پیغمبر اسلامؐ پر درود، آپ کی خصوصیات نیز لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں آپؐ کی کوششوں کا بیان ہے۔ اس دعا کے مضامین درج ذیل ہیں:

  • اللہ کے آخری نبی کی بعثت کے ذریعے مسلمانوں پر احسان کرنے پر خدا کی حمد ثنا
  • بڑے سے بڑے امور کی انجام دہی پر خدا کی قدرت اور کسی چیز کا اس سے مخفی نہ ہونا حتی کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہو۔
  • پیغمبر اسلامؐ کا خاتم النبیین اور اسلام کا خاتم ادیان ہونا۔
  • امام کا اُمّت کے اعمال پر گواہ ہونا
  • حضرت محمدؐ کی خصوصیات (وحی کا امین ہونا، تمام کائنات سے افضل ہونا، تمام بندوں میں سے منتخب ہونا، پیشوائے رحمت، تمام خوبیوں کا قافلہ‏‌ سالار اور برکت کی چابی)
  • خدا کی طرف لوگوں کو دعوت دینے میں پیغمر اکرمؐ کی کوششیں اور خدا کے فرامین کی اطاعت اور اس راہ میں سختیوں کا جھیلنا (جان کا خطرے میں پڑنا، حق کے انکار پر رشتہ داروں اور اپنے خویش و اقارب سے جھگڑا، دین کو قبول کرنے پر غیروں کو اپنے ساتھ ملانا، دیار غیر میں ہجرت، خدا کے دشمنوں کے ساتھ جنگ وغیرہ)؛
  • بہشت میں پیغمبر اکرمؐ کے لئے اعلی مقام کی درخواست
  • پیغمبر اکرمؐ کی اہل بیتؑ اور مؤمنین کے لئے پیغمیر اکرمؐ کی شفاعت کا قبول ہونا
  • خدا کی طرف سے مؤمنین کو دئے جانے والے وعدوں کا یقنی ہونا۔[1]

شرحیں

صحیفہ سجادیہ کی شرحوں میں اس کی دوسری دعا کے مختلف حصوں کی بھی تشریح کی گئی ہیں۔ حسین انصاریان نے کتاب «دیار عاشقان» میں اس دعا کی مکمل شرح کی ہیں۔[2] اس طرح محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی کی کتاب شہود و شناخت،[3] محمد تقی خلجی کی کتاب اسرار خاموشان[4] اور بعض دوسری کتابوں میں اس دعا کی فارسی میں شرح لکھی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ محمد جواد مغنیہ کی کتاب فی ظلال الصحیفہ السجادیہ،[5] محمد بن محمد دارابی کی کتاب ریاض العارفین[6] اور بعض دوسری کتابوں من جملہ سید محمد حسین فضل‌ اللہ کی کتاب «آفاق الروح»[7] اور سید علی‌ خان مدنی کی کتاب «ریاض السالکین فی شرح صحیفہ سید الساجدین»[8] میں اس دعا کی عربی میں شرح لکھی گئی ہے۔ اس دعا کے عمومی مفاہیم اور الفاظ کے لغوی معانی کو فیض کاشانی کی کتاب «تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ»[9] میں توضیح دی گئی ہے۔

متن اور ترجمہ

متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ كَانَ مِنْ دُعَائِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ بَعْدَ هَذَا التَّحْمِيدِ فِي الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ:

(۱) وَ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی مَنَّ عَلینَا بِمُحَمَّدٍ نَبِیهِ- صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ دُونَ الْأُمَمِ الْمَاضِیةِ وَ الْقُرُونِ السَّالِفَةِ، بِقُدْرَتِهِ الَّتِی لَا تَعْجِزُ عَنْ شَی‏ءٍ وَ إِنْ عَظُمَ، وَ لَا یفُوتُهَا شَی‏ءٌ وَ إِنْ لَطُفَ.
(۲) فَخَتَمَ بِنَا عَلَی جَمِیعِ مَنْ ذَرَأَ، وَ جَعَلَنَا شُهَدَاءَ عَلَی مَنْ جَحَدَ، وَ کثَّرَنَا بِمَنِّهِ عَلَی مَنْ قَلَّ.
(۳) اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ أَمِینِک عَلَی وَحْیک، وَ نَجِیبِک مِنْ خَلْقِک، وَ صَفِیک مِنْ عِبَادِک، إِمَامِ الرَّحْمَةِ، وَ قَائِدِ الْخَیرِ، وَ مِفْتَاحِ الْبَرَکةِ.
(۴) کمَا نَصَبَ لِأَمْرِک نَفْسَهُ
(۵) وَ عَرَّضَ فِیک لِلْمَکرُوهِ بَدَنَهُ
(۶) وَ کاشَفَ فِی الدُّعَاءِ إِلَیک حَامَّتَهُ
(۷) وَ حَارَبَ فِی رِضَاک أُسْرَتَهُ
(۸) وَ قَطَعَ فِی إِحْیاءِ دِینِک رَحِمَهُ.
(۹) وَ أَقْصَی الْأَدْنَینَ عَلَی جُحُودِهِمْ
(۱۰) وَ قَرَّبَ الْأَقْصَینَ عَلَی اسْتِجَابَتِهِمْ لَک.
(۱۱) وَ وَالَی فِیک الْأَبْعَدِینَ
(۱۲) وَ عَادَی فِیک الْأَقْرَبِینَ
(۱۳) و أَدْأَبَ نَفْسَهُ فِی تَبْلِیغِ رِسَالَتِک
(۱۴) وَ أَتْعَبَهَا بِالدُّعَاءِ إِلَی مِلَّتِک.
(۱۵) وَ شَغَلَهَا بِالنُّصْحِ لِأَهْلِ دَعْوَتِک
(۱۶) وَ هَاجَرَ إِلَی بِلَادِ الْغُربَةِ، وَ مَحَلِّ النَّأْی عَنْ مَوْطِنِ رَحْلِهِ، وَ مَوْضِعِ رِجْلِهِ، وَ مَسْقَطِ رَأْسِهِ، وَ مَأْنَسِ نَفْسِهِ، إِرَادَةً مِنْهُ لِإِعْزَازِ دِینِک، وَ اسْتِنْصَاراً عَلَی أَهْلِ الْکفْرِ بِک.
(۱۷) حَتَّی اسْتَتَبَّ لَهُ مَا حَاوَلَ فِی أَعْدَائِک
(۱۸) وَ اسْتَتَمَّ لَهُ مَا دَبَّرَ فِی أَوْلِیائِک.
(۱۹) فَنَهَدَ إِلَیهِمْ مُسْتَفْتِحاً بِعَوْنِک، وَ مُتَقَوِّیاً عَلَی ضَعْفِهِ بِنَصْرِک
(۲۰) فَغَزَاهُمْ فِی عُقْرِ دِیارِهِمْ. (۲۱) وَ هَجَمَ عَلَیهِمْ فِی بُحْبُوحَةِ قَرَارِهِمْ (۲۲) حَتَّی ظَهَرَ أَمْرُک، وَ عَلَتْ کلِمَتُک، «وَ لَوْ کرِهَ الْمُشْرِکونَ‏».
(۲۳) اللَّهُمَّ فَارْفَعْهُ بِمَا کدَحَ فِیک إِلَی الدَّرَجَةِ الْعُلْیا مِنْ جَنَّتِک
(۲۴) حَتَّی لَا یسَاوَی فِی مَنْزِلَةٍ، وَ لَا یکافَأَ فِی مَرْتَبَةٍ، وَ لَا یوَازِیهُ لَدَیک مَلَک مُقَرَّبٌ، وَ لَا نَبِی مُرْسَلٌ.
(۲۵) وَ عَرِّفْهُ فِی أَهْلِهِ الطَّاهِرِینَ وَ أُمَّتِهِ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ حُسْنِ الشَّفَاعَةِ أَجَلَّ مَا وَعَدْتَهُ
(۲۶) یا نَافِذَ الْعِدَةِ، یا وَافِی الْقَوْلِ، یا مُبَدِّلَ السَّیئَاتِ بِأَضْعَافِهَا مِنَ الْحَسَنَاتِ إِنَّک‏ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ‏.
تحمید و ستائش کے بعد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دورد وسلام کے سلسلہ میں آپ کی دعا

(1) تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے ہ پر وہ احسان فرمایا جو نہتہ امتوں پر کیا اورنہ پہلے لوگوں پر۔ اپنی قدرت کی کار فرمائی سے جو کسی شے سے عاجز و درماندہ نہیں ہوتی اگرچہ وہ کتنی ہی بڑی ہو اور کوئی چیز اس کے قبضہ سے نکلنے نہیں پاتی اگرچہ وہ کتنی ہی لطیف و نازک ہو۔

(2) اس نے اپنے مخلوقات میں ہمیں آخری امت قرار دیا اور انکا کرنے والوں پر گواہ بنایا۔ اور اپنے لطف و کرم سے کم تعداد والوں کے مقابلہ میں ہمیں کثرت دی۔

(3) اے اللہ ! تو رحمت نازل فرما محمد اور ان کی آل پر جو تیری وحی کے امانتدار تمام مخلوقات میں تیرے برگزیدہ، تیرے بندوں میں پسندیدہ رحمت کے پیشوا، خیر و سعادت کے پیشتر و برکت کا سرچشمہ تھے۔

(4) جس طرح انہوں نے تیری شریعت کی خاطر اپنے کو مضبوطی سے جمایا۔

(5) اور تیری راہ میں اپنے جسم کو ہر طرح کے آزار کا نشانہ بنایا۔

(6) اور تیری طرف دعوت دینے کے سلسلہ میں اپنے عزیروں سے دشمنی کا مظاہرہ کیا۔

(7) اور تیری رضا کے لیے اپنے قوم قبیلے سے جنگ کی۔

(8) اور تیرے دین کو زندہ کرنے کے لیے سب رشتے ناطے قطع کر لئے۔

(9) نزدیک کے رشتہ داروں کو انکار کی وجہ سے دور دیا۔

(10) اور دور والوں کو اقرار کی وجہ سے قریب کیا۔

(11) اور تیری وجہ سے دور والوں سے دوستی کیا۔

(12) اور نزدیک والوں سے دشمنی رکھی۔

(13) اور تیرا پیغام پہنچا نے کے لیے تکلیفیں اٹھائیں۔

(14) اور دین کی طرف دعوت دینے کے سلسلہ میں زحمتیں برداشت کیں۔

(15) اور اپنے نفس کو ان لوگوں کے پند و نصیحت کرنے میں مصروف رکھا جنہوں نے تیری دعوت کو قبول کیا۔

(16) اور اپنے محل سکونت و مقام رہائش اور جائے ولادت و وطن مالوف سے پردیس کی سرزمین اور دور و دراز مقام کی طر ف محض اس مقصد سے ہجرت کی کہ تیرے دین کو مضبوط کریں اور تجھ سے کفر اختیار کرنے والوں پر غلبہ پائیں۔

(17) یہاں تک کہ تیرے دشمنوں کے بارے میں جو انہو ں نے چاہا تھا وہ مکمل ہو گیا۔

(18) اور تیرے دوستوں (کو جنگ و جہاد پر آمادہ کرنے) کی تدبیریں کامل ہو گئیں۔

(19) تو وہ تیری نصرت سے فتح و کامرانی چاہتے ہوئے اور اپنی کمزوری کے با وجود تو وہ تیری نصرت سے فتح و کامرانی چاہتے ہوئے اور اپنی کمزوری کے با وجود۔

(20) تیری مدد کی پشت پناہی پر دشمنوں کے مقابلہ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے گھروں کے حدود میں ان سے لڑے۔

(21) یہاں تک کہ ان گھروں کے وسط میں ان پر ٹوٹ پڑے۔

(22) یہاں تک کہ تیرا دین غالب اور تیرا کلمہ بلند ہو کر رہا۔ اگرچہ مشرک اسے ناپسند کرتے رہے۔

(23) اے اللہ انہوں نے تیری خاطر جو کوششیں کی ہیں ان کے عوض انہیں جنت میں ایسا بلند درجہ عطا کر۔

(24) کہ کوئی مرتبہ میں ان کے عوض انہیں جنت میں ایسا بلند درجہ عطا کر کوئی مرتبی ان میں ان کے برابر نہ ہو سکے۔ اور نہ منزلت میں ان کا ہم پایہ قرار پا سکے اور نہ کوئی مقرب بارگاہ فرشتہ اور نہ کوئی فرستادہ پیغمبر تیرے نزدیک ان کا ہمسر ہو سکے۔

(25) اور ان کے اہل بیت اطہار اور مومنین کی جماعت کے بارے میں جس قابل قبول شفاعت کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے اس وعدہ سے بڑھ کر انہیں عطا فرما۔

(26) اے وعدہ کے نافذ کرنے والے قول کے پورا کرنے اور برائیوں کو کئی گنا زائد اچھائیوں سے بدل دینے والے بے شک تو فضل عظیم کا مالک ہے۔


حوالہ جات

  1. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۷-۳۵۶؛ خلجی، اسرار خاموشان، ۱۳۸۳ش، ج۲، ۱۶-۱۳۱۔
  2. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۹۹-۴۱۱۔
  3. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۲۱۷-۲۶۵۔
  4. خلجی، اسرار خاموشان، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۱۴۱-۵۳۶۔
  5. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ق، ص۴۵-۷۲۔
  6. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۱۵-۴۷۔
  7. فضل اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ق، ج۱، ص۲۱-۵۴۔
  8. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ق، ج۱، ص۲۲۱-۴۱۲۔
  9. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ق، ص۱۴-۲۰۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۳ ہجری شمسی
  • حسینی مدنی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیدالساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۰۹ھ۔
  • خلجی، محمد تقی، اسرار خاموشان، قم، پرتو خورشید، ۱۳۸۳ ہجری شمسی۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، محقق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • سلطان مرادی، محمد، سیمای پیامبر اعظم در صحیفہ سجادیہ، قم، انتشارات سبط النبی، ‍۱۳۸۵ش۔
  • فضل ‌اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت: ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، با مقدمہ آیت ‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔
  • ہاشمی نژاد، سید جواد، محمد راز آفرینش، قم، انتشارات آیات بینات، ۱۳۸۵ش۔

بیرونی روابط