صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا

ویکی شیعہ سے
(صحیفہ سجادیہ دعا 7 سے رجوع مکرر)
صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا
کوائف
موضوع:غم واندوہ اور سختیوں کی برطرفی کی دعا
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سجاد علیہ السلام
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفہ سجادیہ
مخصوص وقت:بین طلوعین
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


دعا و مناجات

صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا، امام سجاد علیہ السلام کی دعاؤں کی کتاب صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں میں سے ہے۔ یہ دعا مشکلات اور دشواریوں کے وقت پڑھی جاتی ہے جس میں تمام سختیوں اور دشواریوں کا حل خدا کے ہاتھ میں ہونے نیز خدا کی رحمت سے حیات کے اساب فراہم ہونے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ امام سجادؑ اس دعا میں زندگی کی سختیوں اور گرفتاریوں سے نجات کی درخواست کرتے ہیں۔ اسی طرح اس دعا میں آپ تمام موجودات کو خدا کا فرمانبردار قرار دیتے ہوئے خدا کے مقابلے میں ان کی بے بسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور یہ یقین دلاتے ہیں کہ جسے خدا ذلیل کرے اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا ہے۔

مشکلات اور بلاؤں کی برطرفی کے لئے ایک خاص آداب کے ساتھ نماز صبح کے بعد اور سورج طلوع ہونے سے پہلے اس دعا کے پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے۔

صحیفہ سجادیہ کی شرحوں جیسے حسین انصاریان کی کتاب دیار عاشقان میں فارسی میں اور سید علی خان مدنی کی کتاب ریاض السالکین میں عربی میں اس دعا کی شرح کی گئی ہے۔

اہمیت

صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا کو امام سجادؑ سخت گھڑیوں اور بلاؤں کے نزول نیز حزن و اندوہ کے مواقع پر ان سختیوں سے نجات کے لئے پڑھا کرتے تھے۔ چوتھے امامؑ نے اس دعا میں ضمنی طور پر بلاؤں کے نزول کے وقت انسان کی ذمہ داریوں کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے۔[1] ایران کے سپریم لیڈر آیت ‎اللہ خامنہ ای نے ایران اور دوسرے ممالک میں مارج 2020ء کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران اس بیماری سے محفوظ رہنے کے لئے اس دعا کی سفارش کی ہیں۔[2]

مضامین

صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا 10 حصوں پر مشتمل ہے[3] جو امام سجادؑ سے صادر ہوئی ہے اور اس کے مضامین درج ذیل ہیں:

  • تمام سختیوں اور مشکلات سے نجات دینے والی ذات صرف خدا ہے۔
  • تمام موجودات ارادہ خداوندی کی مطیع اور فرمانبردار ہیں۔
  • زندگی کے وسائل اور اسباب خدا کی رحمت سے فراہم ہوں گے۔
  • قضا و قدر خدا کے قبضہ قدرت میں ہے۔
  • ارادہ الہی کا حتمی ہے۔
  • سخت ترین مشکلات اور بلاؤں کے مقابلے میں خدا ہی انسان کا ملجا اور پناگاہ ہے
  • خدا کے ارادے کے سامنے تمام موجودات بے بس ہے۔
  • خدا سے فراخی اور آسائش کے دروں کے کھولنے کی درخواست۔
  • واجبات کی انجام دہی اور مستحبات کی توفیق کے لئے دعا۔
  • کائنات کے امور خدا کے ارادے اور مشیت سے جاری و ساری ہیں۔
  • جسے خدا ذلیل اور رسوا کرے اس کا کوئی یاور و مددگار نہیں ہے۔[4]

پڑھنے کا طریقہ

بعض کتابوں میں صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا کے پڑھنے کا خاص طریقہ یوں نقل ہوا ہے: اتوار کے دن سے اس کے پڑھنے کا آغاز کریں اور مسلسل تیس دن تک ہر روز دس مرتبہ پڑھئے اور دعا ختم ہونے کے بعد یا رب، یا رب کا ورد کریں یہاں تک کہ سانس رک جائے، اس کے بعد سجدے میں جا کر خدا سے اپنی حاجت طلب کریں۔

کہا گیا ہے کہ اس دعا کے شروع کرنے سے پہلے دس مرتبہ صلوات بھیجا جائے اسی طرح دعا سے پہلے اور بعد میں چالیس مرتبہ "یا اللہ" کا ورد کیا جائے۔ اس دعا کو نماز صبح کے بعد بین الطلوعین پڑھنا چاہئے اور ان تیس دنوں میں حرام خواری اور پرخوری سے پرہیز کرنے کی سفارش ہوئی ہے۔ اسی طرح با طہارت اور رو بہ قبلہ نیز حضور قلب کے ساتھ پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے۔[5]

شرحیں

صحیفہ سجادیہ پر لکھی گئی شروحات میں اس دعا کی بھی شرح کے ساتھ مشکل الفاظ کے معانی کی توضیح دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دیار عاشقان،[6] شہود و شناخت،[7] ریاض السالکین[8] اور فی ظلال الصحیفۃ السجادیۃ[9] جیسی کتابوں میں بھی اس دعا کی شرح کی گئی ہے۔ اسی طرح فیض کاشانی کی کتاب تعلیقات علی الصحیفۃ السجادیۃ اور محمد باقر شفیع‌ حسینی کی کتاب "حل لغات الصحیفۃ السجادیۃ" میں اس دعا کے مشکل الفاظ کی توضیح دی گئی ہے۔

بیرونی لینک

متن اور ترجمہ

متن ترجمه
وَ کانَ مِنْ دُعَائِهِ علیه‌ السلام إِذَا عَرَضَتْ لَهُ مُهِمَّةٌ أَوْ نَزَلَتْ بِهِ، مُلِمَّةٌ وَ عِنْدَ الْکرْبِ
امام سجادؑ کی دعا جسے آپ سخت دشواریوں و بلاؤں کے نزول نیز غم و اندوہ کے مواقع پر پڑھا کرتے تھے۔


حوالہ جات

  1. ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۴۲۵۔
  2. «دعایی کہ رہبر انقلاب خواندن آن را در دوران شیوع بیماری توصیہ کردند۔»
  3. ترجمہ و شرح دعای ہفتم صحیفہ سجادیہ، سایت عرفان۔
  4. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۰۳-۲۲۴
  5. اکبری ساوجی، آب حیات، ۱۳۹۲ش، دستور ۱۸۶۔
  6. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۱ش، ج۴، ص۱۰۳-۲۲۴۔
  7. ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۴۲۵۔
  8. حسینی مدنی، ریاض السالکین، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۳۰۱-۳۲۵۔
  9. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۲۸ق، ص۱۳۵-۱۴۱۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۳ ہجری شمسی۔
  • اکبری ساوجی، محمد حسین، آب حیات، قم، قائم آل محمد (ص)، ۱۳۹۲ ہجری شمسی۔
  • تنکابنی، محمد بن سلیمان، شرح صحیفہ سجادیہ، قم، شمس الضحی، ۱۳۸۴ ہجری شمسی۔
  • حسینی مدنی، سید علی خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیدالساجدین، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ۱۴۰۹ھ۔
  • شفیع‌ حسینی، محمد باقر، حل لغات الصحیفۃ السجادیۃ، مشہد، تاسوعا، ۱۴۲۰ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت ‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔

بیرونی روابط