زیدیہ

ویکی شیعہ سے
(شیعہ زیدی سے رجوع مکرر)
زیدیہ
عمومی معلومات
بانیزید بن علی
مبداءدوسری صدی ہجری
مذہبی معلومات
از فرقشیعہ
رہبران/ائمہزید بن علی، یحیی بن زید، نفس زکیہ، ابراہیم بن عبداللہ محض، صاحب فخ، قاسم رسی، ہادی الی الحق، ناصر اطروش


زیدیہ، معروف شیعہ فرقہ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ "حضرت علی، امام حسن اور امام حسین اور "زید بن علی" کے بعد امامت کا عہدہ ہر اس فاطمی کے لئے ہے جو لوگوں کو اپنی طرف بلائے اور ظاہری طور پر عادل، عالم اور شجاع ہو اور لوگ اس کے ساتھ جہاد کے لئے تلوار اٹھانے کی شرط پر بیعت کریں"۔[1] "یہ فرقہ دوسری صدی ہجری کے ابتدائی برسوں (آٹھویں صدی عیسوی) میں تشیع کے پیکر سے جدا ہوا اور دوسرے شیعیان اہل بیتؑ کے مقابلے میں آ کھڑا ہوا"۔[2] اس فرقے کی خصوصیات یہ ہیں کہ یہ "مسئلۂ حسن و قبح" میں معتزلہ کی طرف مائل ہیں اور دوسرے شیعہ فرقوں کی نسبت اہل سنت سے زيادہ قریب ہیں۔[3] آج یمن کی تقریبا 45 فیصد آبادی کا تعلق زیدی مذہب سے ہے۔[4]

زیدیہ کی شاخیں

فرقہ شناسی کے منابع و مآخذ میں زیدیہ کے اندر معرض وجود میں آنے والی مختلف شاخوں اور شعبوں اور ان کی تعداد کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[5] مطالعات کا عمومی نتیجہ یہی برآمد ہوتا ہے کہ زیدیہ کے دو ذیلی فرقے ہیں:

  1. متقدمین: یہ وہ لوگ ہیں جو رافضہ سمجھے جاتے ہیں اور ابوبکر اور عمر کی امامت کے معترف ہیں۔
  2. متأخرین: یہ وہ لوگ ہیں جو اس امامت کو قبول نہیں کرتے۔

آج یمن میں رائج زیدی مذہب کے پیروکار متقدمین کے مذہب سے قریب تر ہے۔[6] اس فرقے کے اہم ذیلی فرقے جارودیہ، بتریہ اور سلیمانیہ ہیں۔ گوکہ اس فرقے میں مزید ذیلی فرقے بھی موجود ہیں حتی کہ نوبختی نے ان ذیلی فرقوں کی تعداد 17 تک بتائی ہے۔[7]

جارودیہ

جارودیہ یا سرحوبیہ ابو الجارود زیاد بن ابی زیاد کے پیروکار ہیں۔ یہ فرقہ سب سے پہلا زیدی فرقہ یا زیدی فرقوں میں سب سے پہلا فرقہ ہے۔ امامیہ کے ساتھ ان کا نقطۂ اشتراک یہ ہے کہ وہ بھی رسول اللہ(ص) کے واسطے سے امام علیؑ کے بحیثیت امام تعین پر تصریح کرتے ہیں۔ جارودیہ کے پیروکار ابوبکر اور عمر کو فسق کی نسبت دیتے ہیں اور زیادہ تر صحابہ کی تکفیر کے قائل ہیں۔ جارودیہ کے ساتھ امامیہ کا اہم اختلاف یہ ہے کہ علیؑ، حسنؑ اور حسینؑ کے بعد، امامت کو شورائی سمجھتے ہیں۔ جارودیہ ائمہ ؑ کے سلسلہ میں کسی حد تک غلو سے دوچار تھے۔ وہ ائمہؑ کی رجعت کے قائل تھے۔[8]۔[9]۔[10]

صالحیہ یا بتریہ

صالحیہ اور بتریہ: یہ لوگ حسن بن صالح بن حی ہمدانی اور ابو اسماعیل کثیر بن اسمٰعیل بن نافع نواء الملقب بہ "کثیر النواء و الابتر" کے پیروکار ہیں۔ زید کے ساتھ ان کا اختلاف ابوبکر اور عمر کی تولی اور تبری اور زید کی طرف سے ان پر نفرین کے حوالے سے تھا اور ان کی وجہ تسمیہ اور سبب نام گذاری بھی یہی ہے۔[11] صالحیہ کا عقیدہ ہے کہ امامت شورائی ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ فاضل (افضل) کے باوجود مفضول کی امامت جائز ہے بشرطیکہ فاضل اس کی امامت پر راضی ہو۔[12] اس فرقے نے عثمان کے ایمان یا کفر کے موضوع میں توقف کیا اور کوئی رائے قائم نہ کی۔ وہ امر بالمعروف کے قائل اور تقیہ کے مخالف تھے۔ صالحیہ فقہی احکام میں اہل سنت سے قریب تر ہیں۔[13]۔[14]۔[15]

سلیمانیہ یا جریریہ

سلیمانیہ، سلیمان بن جریر رقی زیدی کے پیروکار ہیں۔ سلیمان بداء اور تقیہ کے خلاف تھا۔ اس جماعت کا عقیدہ تھا کہ "گو کہ امامت کے لئے علی(ع) دوسروں سے افضل و برتر ہیں لیکن ابوبکر اور عمر کی خلافت اجتہادی خطا کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی ہے اور قابل قبول ہے؛ اس کے باوجود وہ عثمان کو کافر اور فاسق سمجھتے تھے۔ نیز وہ عایشہ، طلحہ اور زبیر کو کافر سمجھتے تھے۔[16]۔[17]۔[18]۔[19]۔[20]

دوسری شاخیں

قاسم رسی کے پیروکار "قاسمیہ"، یحیی بن حسین بن قاسم؛ الهادی الی الحق کے پیروکار "ہادویہ ناصر اطروش کے پیروکار "ناصریہ"، صباح بن قاسم مری یا مزنی کے پیروکار "صباحیہ"، عبداللہ بن محمد عقبی کے پیروکار "عقبیہ"، نعیم بن یمان کے پیروکار "نعیمیہ" اور یعقوب بن علی (یا عدی) کوفی کے پیروکار یعقوبیہ، دیگر زیدی فرقے ہیں۔

زیدیوں کے اعتقادات

فقہی اعتقادات

زیدیہ کی قدیم ترین فقہی کتابیں مجموع الحدیث اور مجموع الفقہ ہیں۔ ان دونوں مجموعوں کو ملا کر مجموعی طور پر مجموع الکبیر کہا جاتا ہے۔[21] اذان میں حی علی خیر العمل کہنا[22]، جواز مسح علی الخفین، (جوتوں پر مسح کرنے کا جواز)، متعہ پر عدم اعتقاد اور اہل کتاب کا ذبیحہ کھانے کا جواز، زیدیہ کے فقہی معتقدات میں سے ہیں۔ وہ [دوسرے اسلامی مکاتب کی طرح] امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو واجب سمجھتے ہیں اور اس عقیدے کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ جس سرزمین میں گناہ کی نمائش ہوتی ہے (اور علی الاعلان گناہ کا ارتکاب کیا جاتا ہے) وہاں سے ہجرت کرنا ـ ایسی سرزمین کی طرف جہاں گناہ نہ ہو ـ واجب ہے۔ زیدیوں کے ائمہ نے اس عقیدے کے احیاء پر اپنی جانیں قربان کردیں۔ زیدیہ بھی ابو حنیفہ کی طرح، فقہی احکام کے استنباط میں قیاس کو بروئے کار لاتے ہیں۔ یہ فرقہ علمائے اسلام کے اجماع کو شرعی آراء کی بنیاد سمجھتا ہے۔[23]۔[24]

کلامی اعتقادات

  • زیدیہ حسن و قبح میں معتزلی ہیں۔
    شہرستانی کا کہنا ہے کہ چونکہ زید معتزلہ کے بانی واصل بن عطا کے شاگرد تھے اسی وجہ سے زیدیہ حسن و قبح کے حوالے سے اعتزال کی طرف مائل ہیں۔
  • وہ بداء اور رجعت کے قائل نہ تھے اور تقیہ کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔[25]
  • ان کا عقیدہ ہے کہ ہر فاطمی ـ خواہ امام حسن(ع) کی اولاد سے ہو خواہ امام حسین(ع) کی اولاد سے ـ اور جو عالم، زاہد، شجاع اور سخی ہو ـ بشرطیکہ امامت کا دعوی کرے، اور خروج کرے ـ وہ امام ہے۔
  • زیدی عقیدے کے مطابق ایک ہی وقت دنیا کے دو گوشوں میں دو اماموں کا خروج جائز ہے اور دونوں واجب الاتباع ہیں۔
  • زید فاضل کی موجودگی میں مفضول کی امامت کو جائز سمجھتے تھے۔ یہ عقیدہ ناصر اطروش کے زمانے تک زیدیہ میں پایا جاتا تھا اور اس کے بعد، زیدیوں نے یہ عقیدہ ترک کر دیا۔
    زیدیہ کے عقیدے کے مطابق عصمت امامت کی شرط نہیں ہے۔
  • امامت میں وہ مہدویت کے قائل ہیں اور اسی بنا پر محمد نفس زکیہ نے منصور عباسی کے ساتھ اپنے مکاتبات میں اپنے آپ کو مہدی قرار دیا۔
  • زیدی منزلۃ بین المنزلتین کے قائل ہیں۔ اسی بنا پر ان کا کا کہنا ہے کہ کبائر کا مرتکب شخص کافر ہے اور نہ ہی مسلمان بلکہ فاسق ہے۔
  • وہ کفر کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: "کفر جحود" اور "کفر نعمت" اور ان کا عقیدہ ہے کہ جو بھی گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجائے اور اس کا یہ عمل اس عقیدے پر مبنی ہو کہ وہ حلال اور جائز ہے، وہ شخص کافر اور مرتد ہے اور جو شخص کسی حرام عمل کو حلال سمجھے بغیر اندرونی اور نفسانی تحرک پر انجام دے وہ گنہگار اور فاسق ہے اور اگر توبہ کئے بغیر مر جائے تو اہل دوزخ بھی ہے۔[26] اشعری نے اپنی کتاب مقالات الاسلامیین کے صفحہ 70 سے 75 تک زیدیوں کے ساتھ اپنے اعتقادی اختلافات بیان کئے ہیں۔

زیدیہ کے زعماء

محمد بن محمد بن يحيى زبارة الحسنی نے اپنی کتاب " تاریخ الائمة الزیدیة فی الیمن حتى العصر الحديث" میں مختلف صدیوں کے دوران زیدی مجددین کی ایک فہرست درج کی ہے جو حسب ذیل ہے:

زیدیہ کی تحریکیں

زیدیوں کی تحریکوں کی کثرت ـ بالخصوص عباسیوں کی حکمرانی کے آغاز میں ـ اس قدر زیادہ ہیں کہ ایک محقق کے بقول، اس زمانے میں جو بھی حکومت کے خلاف قیام کرتا اس کو "زیدی" کہا جاتا تھا۔[29]

ابن جوزی کی روایت کے مطابق، زید بن علی کی شہادت کے بعد یحیی بن زید نے جوزجان میں ولید بن یزید کے خلاف قیام کیا، محمد بن عبداللہ بن حسن (محمد نفس زکیہ) نے مدینہ میں اور نفس زکیہ کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے بصرہ میں قیام کیا؛ حسین بن علی بن حسن بن حسن، (صاحب فخ) نے حرمین میں قیام کیا اور واقعۂ فخ میں شہید ہوگئے۔ یحیی بن عبداللہ بن حسن بن حسن نے بھی قیام کیا اور محمد بن جعفر بن یحیی بن حسن نہ تاہرت میں قیام کیا؛ محمد بن ابراہیم بن اسمعیل بن ابراہیم الغمر نے مامون عباسی کے دور میں کوفہ میں قیام کیا؛ ابراہیم بن موسی بن جعفر نے اسی دور میں یمن میں قیام کیا؛ ان کے بیٹے جعفر بن ابراہیم نے ان کے بعد قیام کیا؛ محمد بن قاسم بن علی بن عمر نے طالقان میں قیام کیا، حسن افطس بن علي اصغر بن امام سجاد(ع) نے مدینہ میں قیام کیا؛ حسن بن زید نے طبرستان میں قیام کیا؛ حسین بن احمد المعروف بہ کوکبی، نے بھی قیام کیا، مستعین عباسی کے زمانے میں یحیی بن عمر بن زید میں قیام کیا اور اس قسم کی دوسری کئی تحریکیں زیدیوں کی قیادت میں بپا ہوئی۔[30]۔[31]

زید بن علی بن الحسین کی شہادت کے بعد حکومت وقت کے خلاف زیدیوں کی مشہور تحریکیں حسب ذیل ہیں:

یحیی بن زید کا قیام

یحیی بن زید، جو اپنے والد کی شہادت کے بعد مدائن اور وہاں سے رے اور پھر سرخس فرار ہوگئے تھے، نے خراسان میں تبلیغ اور دعوت کا آغاز کیا۔[32]۔[33]

عراق میں امویوں کے کارگزار نصر بن سیار نے انہیں گرفتار کرکے قیدخانے میں بند کیا اور وہ ہشام بن عبدالملک کے انتقال کے بعد رہا ہوگئے اور نیشابور کے اطراف میں چلے گئے۔ انھوں نے وہاں نصر بن سیار کے لشکر کو شکست دی لیکن جوزجان کے نواح میں لڑی والی جنگ میں جام شہادت نوش کیا۔ بعض راویوں کا کہنا ہے کہ امام صادق(ع) نے انہیں خط لکھ کر قیام سے منع کیا تھا۔[34] خراسان کے عوام نے ان کی شہادت پر سات دن تک عزاداری کی۔[35]

عبداللہ بن حسن اور ان کے فرزند

سنہ 145 ہجری (بمطابق 762 عیسوی) (منصور عباسی کے دور حکومت کے پہلے عشرے کے آخر میں) مدینہ اور بصرہ میں دو تحریکیں انجام پائیں ان دونوں تحریکوں کی قیادت محمد بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب (محمد نفس زکیہ) اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ کے ہاتھ میں تھی۔[36] عبداللہ زید بن علی بن حسین کی حیات میں ان کے قیام کی طرف مائل نہ تھے لیکن ان کی شہادت کے بعد عبداللہ بن حسن کے افکار بھی ان کی طرف مائل ہوئے اور انھوں نے اپنے بیٹوں کی تحریکوں کی راہبری اور راہنمائی کی۔

نفس زکیہ کا قیام

نفس زکیہ، محمد بن عبداللہ بن حسن کا لقب ہے۔ کچھ لوگوں نے ان کو مہدی موعود گردانا ہے۔ منصور دوانیقی اور سفاح عباسی نے عباسی سلطنت کے قیام سے قبل نفس زکیہ کے ہاتھ پر بیعت کرچکے تھے اور ان کے داعی تھے اور وہ اپنے آپ کو منصور سے زيادہ لائق خلافت سمجھتے تھے۔ انھوں نے سنہ 145 ہجری میں مدینہ میں قیام کیا اور انہیں امیرالمؤمنین کا لقب دیا گیا۔ منصور نے ان کو خط لکھا، انہیں امان دی اور ساتھ ہی انہیں دھمکی بھی دی۔ محمد نے منصور کے خطوط کو اہمیت نہ دی اور آخر کار منصور نے عیسی بن موسی کی سرکردگی میں ایک لشکر مدینہ روانہ کیا اور اہلیان مدینہ اور منصور کی سپاہ کے درمیان جنگ میں محمد نفس زکیہ مارے گئے اور ان کا سر کوفہ میں پھرایا گیا اور پھر منصور کے پاس لے جایا گیا۔[37]۔[38]

ابراہیم بن عبداللہ کا قیام

جس وقت کوفہ اور مدینہ میں زیدیوں کی تحریکیں ناکام ہوئیں اور محمد بن عبداللہ قتل کئے گئے، ان کے بھائی ابراہیم بن عبداللہ نے بصرہ میں اپنا قیام آشکار کردیا۔ وہ سنہ 143 ہجری (بمطابق 760 عیسوی) کے لگ بھگ بصرہ میں آ بسے تھے۔ انھوں نے اس شہر میں عیسی بن زید بن علی کی مدد سے تحریک کا انتظام کیا اور زیدیوں اور معتزلۂ بغداد کے معتزلیوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کی حمایت کی اور فارس، اہواز اور دوسرے علاقوں کے عوام نے بھی ان کی حمایت کا اعلان کیا۔

... ابراہیم کی سپاہ اور عباسی خلیفہ کی سپاہ کے درمیان علاقہ باخمری میں گھمسان کا رن پڑا اور ابراہیم سمیت 400 زیدی اس جنگ میں کام آئے۔[39]۔[40]۔[41]

شہید فخ کا قیام

حسین بن علی نے سنہ 169 ہجری (بمطابق سنہ 785 ہجری) میں قیام کیا اور یہ قیام محمد بن سلیمان کے ہاتھوں کچل دیا گیا۔ حسین بن علی مکہ سے چھ میل کے فاصلے پر فخ کے مقام پر شہید ہوئے۔ اور ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بے سر جسموں کو صحرا میں برہنہ کرکے دفن کئے بغیر چھوڑ دیا گیا۔[42]۔[43]۔[44] تفصیل یہ کہ حسین بن علی بن حسن بن حسن المحتبی(ع) (شہید فخ) عباسیوں کے خلاف قیام کیا۔[45]۔[46]۔[47] شہید فخ کی تحریک کی خصوصیت یہ تھی کہ معصومین(ع) نے اس قیام یا تحریک کی پیشنگوئی کی تھی۔ رسول اللہ(ص) کے ان مقام شہادت پر نماز پڑھنا اور رونا اور اپنے خاندان کے ایک فرد کی اس مقام پر شہادت کی خبر دینا[48]۔[49]۔[50] اور امام موسی کاظم(ع) [51] کا حسین بن علی کو صالح اور روزہ دار اور آمر بالمعروف اور ناہی عن المنکر کے عنوان سے متعارف کرانا[52] اور امام جواد(ع) کے زبانی ان کی تعریف و تمجید اور ان کی شہادت کے واقعے کو واقعۂ کربلا کے بعد اہل بیت(ع) کے لئے دوسرا بڑا واقعہ قرار دیناخطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag اس تحریک کی دیگر خصوصیات ہیں۔[53] یعقوبی کے بقول، حسین بن علی آل ابی طالب پر بڑھتے ہوئے عباسی دباؤ کے بموجب اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ عباسیوں کے خلاف مکہ کے قریب فخ کے مقام پر نبردآزما ہوئے اور ان کے بیشتر ساتھی منتشر ہوئے اور وہ اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوئے۔[54] عباسی ملوکیت نے بھی اموی ملوکیت کا سیاہ کارنامہ دہرایا اور 100 شہیدوں کے سرہائے بریدہ کو مکہ میں حجاج و زائرین کے سامنے پھرایا جبکہ حسین بن علی کا سر آگے آگے تھا۔[55]

یحیی بن عبداللہ کا قیام

ہارون کے دور خلافت ( 170  تا  193 ہجری/ 786  تا  808 عیسوی)، میں شہید فخ حسین بن علی، کے ایک ساتھی ـ جو فخ کی لڑائی میں زندہ رہ گئے تھے ـ نے سرزمین دیلم پہنچ کر زیدیوں کی ایک جماعت کے ہمراہ قیامی کیا۔ وہ جو کسی وقت زیدیہ بتریہ کی حمایت سے بہرہ ور تھے، کچھ عرصہ بعد اس حمایت سے بے بہرہ ہوئے؛ چنانچہ انھوں نے حکومت وقت کے ساتھ مصالحت کرلی۔[56]

ادریس بن عبداللہ

ادریس بن عبداللہ بن حسن مثنی بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی جنگ فخ سے بچ نکلنے والوں میں سے ایک تھے جو سنہ 172 ہجری (بمطابق 788عیسوی) میں مصر اور وہاں سے مغرب (مراکش) فرار ہوئے؛ اور وہاں کے لوگوں کو اہل بیت اور زیدیہ کی حمایت کی دعوت دی۔ ادریس کو مغرب میں پذیرائی ملی اور انھوں نے آل ادریس کی حکومت کی بنیاد رکھی۔[57]

ابو السرایا کا قیام

اس قیام کے بانی "سری بن منصور شیبانی" المعروف بہ ابو السرایا ہیں جو اپنے آپ کو ہانی بن قبیصہ بن ہانی بن مسعود شیبانی کی اولاد سمجھتے تھے۔ انھوں نے سنہ 199 ہجری (بمطابق 815 عیسوی) میں کوفہ سے اپنے قیام کا آغاز کیا۔ اور محمد بن ابراہیم علوی المعروف بہ ابن طباطبا کے نام اور "خوشنودی آل محمد صلّی اللہ علیہ و آلہ" کے نعرے کی مدد سے اس شہر میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اور دیگر علاقوں میں اپنے ایلچی روانہ کئے؛ یہاں تک کہ حسین بن افطس اور محمد بن سلیمان کو حجاز اور ابراہیم بن موسی بن جعفر کو یمن رمانہ کیا اور خود کوفہ کے بعد بصرہ پر قابض ہوئے۔ ابو السرایا کا قیام سنہ  200  ہجری/ 815  عیسوی میں کچل دیا گیا۔[58]۔[59]

زیدیہ کی حکومتیں

زیدیہ نے یمن کے علاقے صعدہ اور ایران کے علاقے طبرستان میں مستقل حکومتیں قائم کیں۔

یمن میں

زیدیہ کی فراز و نشیب سے بھرپور حکومت کا مرکز یمن کا علاقہ "صعدہ" تھا،[60] جس میں کبھی کبھی عدن اور صنعا کے علاقے بھی شامل ہوجایا کرتے تھے۔[61] زیدی مذہب کی باقاعدہ یمن منتقلی کا کام امام حسن(ع) کے ایک پڑپوتے یحیی بن حسین بن قاسم المعروف بہ الہادی الی الحق نے سرانجام دیا۔[62] اور یہ حکومت سنہ 1960 عیسوی تک زیدیہ کے سلسلۂ ائمہ کی قیادت میں قائم رہی۔ سنہ 1960 عیسوی میں عبدالرحمن الاریانی نے جمال عبدالناصر کی تحریک پر امام یحیی کے خلاف فوجی بغاوت کردی اور یوں یہ حکومت زوال پذیر ہوئی۔[63]

ایران میں

ایران میں زیدیہ کی حکومت طبرستان اور دیلمان میں تشکیل پائی۔ اس سرزمیں مستقل حکومت کی تشکیل کی نسبت حسن بن زید کو دی جاتی ہے۔[64] حسن بن زید بن اسماعیل بن زید بن حسن بن علی) بن ابی طالب(ع) جو داعی کبیر کہلاتے تھے، نے طبرستان میں جس حکومت کی بنیاد رکھی وہ سنہ 316ہجری تک قائم رہی۔ [65]

افریقہ میں

ادریس بن عبداللہ بن حسن مثنی بن حسن بن علی بن ابی طالب بھی جنگ فخ سے بچ نکلنے والوں میں سے ایک تھے جو سنہ 172 ہجری (بمطابق 788 عیسوی) میں مصر اور وہاں سے مغرب (مراکش) فرار ہوئے؛ اور وہاں کے لوگوں کو اہل بیت اور زیدیہ کی حمایت کی دعوت دی۔ ادریس کو مغرب میں پذیرائی ملی اور انھوں نے آل ادریس کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ بربر قوم کا قبیلہ "اوبہ" نیز "زناتہ"، "زراعہ" اور "کناسہ" نامی قبائل سمیت عوام کے مختلف طبقات نے ان کا ساتھ دیا اور ان کی حکومت قیروان سے لے کر مغربی سمت میں بحر اوقیانوس (‏Atlantic Ocean‏) تک پھیلے ہوئے مراکشی قبائل تک پھیل گئی۔ جو حکومت ادریس بن عبداللہ نے اس انداز سے قائم کی تھی وہ سنہ 172 ہجری سے 375 ہجری ( 788  سے  985  عیسوی) تک قائم رہی۔ اور اس خاندان اور اغالبہ نیز خوارج کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں۔[66]

زیدیہ کا مسکن

یمن کے علاقے صعدہ میں ائمۂ رسی کی حکومت (280 سے 700ہجری تک) نیز ایران کے علاقے طبرستان میں علویوں کی حکومت (250 سے 316 ہجری تک) کا تعلق زیدیہ سے تھا۔ یمن کے عوام کا مذہب زیدی ہے اور جمہوریت سے قبل ان کے امام کا مسکن صنعا میں تھا۔[67] موجودہ زمانے میں زیدیوں کا اصل مسکن ملک یمن ہے جہاں کی 45 فیصد آبادی شیعیان اہل بیت(ع) پر مشتمل ہے۔[68]

زیدیہ ایران میں

اس کے باوجود کہ ائمۂ زیدیہ کی کئی متقدم اور ناکام تحریکیں سرزمین ایران میں انجام پائیں لیکن زیدیوں کا مذہب (اور فرقہ) زید بن علی بن حسین کی وفات (بسال  122 ہجری/ 740 عیسوی) کے بعد 100 سال تک اس ملک میں مستفر نہ ہوسکا۔ [69] زیدی تعلیمات کی تدریس کو سب سے پہلے امام قاسم بن ابراہیم رسی حسنی، (متوفٰی  246 ہجری/ 860عیسوی ) کے بعض پیروکاروں نے رائج کیا۔... مغربی طبرستان، سرزمین رویان، کلار اور چالوس ایران میں پہلے زیدی مراکز قرار پائے۔[70] طبرستان میں علوی زیدیوں کی فرمانروائی دوسری بار سنہ  301ہجری / 914 عیسوی میں حسن بن علی اطروش المعروف بہ الناصر للحق کے ہاتھوں قائم ہوئی۔ {انھوں نے دوسرے زیدیوں سے فقہی اختلافات اور شیعیان اثنا عشری کے ساتھ قربت کی بنا پر} زیدیوں کی الگ جماعت بنام الناصریہ کی بنیاد رکھی۔ یہ جماعت رویان اور مشرقی دیلمان میں رائج قاسم اور ہادی کے پیروکاروں کی جماعتوں سے مختلف تھی۔[71] زیدیہ کی عظمت ایران میں آل بویہ کی حکومت کے دور میں عروج تک پہنچی۔[72]

بحر خزر کے ساحل کے ائمۂ زیدیہ کے درمیان ناصر کے بعد مشہور ترین زیدی علماء دو بھائی احمد بن حسین المؤید باللہ (متوفٰی  411  ہجری/ 1020 عیسوی) اور ابو طالب یحیی الناطق بالحق تھے جن کا تعلق خاندان بطحانی سے تھا۔ یہ دونوں کسی زمانے میں رے میں آل بویہ کے وزیر صاحب بن عباد اور ان کے معتزلی قاضی القضات عبد الجبار ہمدانی سے تعلق اور وابستگی رکھتے تھے۔[73] شہر بیہق، بحر خزر کی ساحلی صوبوں سے دور مشرقی ایران میں زیدی مذہب کی تعلیمات کا مرکز تھا۔ ابن فندق نے لکھا ہے کہ بیہق کے رئیس ابو القاسم علی بن محمد بن حسین جمادی الاول سنہ 414 ہجری/جولائی سنہ 1023 سے کچھ عرصہ قبل چار دھڑوں یعنی حنفیوں، شافعیوں، کرامیوں اور سیدوں اور ان کے پیروکاروں، معتزلیوں (عدلیہ) اور زیدیوں کے لئے چار مدرسے تعمیر کئے۔[74] بیہقی کے انتقال کے بعد زیدی مذہب ایران اور عراق میں رو بہ زوال ہوگیا اور کچھ ہی عرصہ بعد رویان اور دیلمان اور گیلان میں اپنے دور دراز کے الگ تھلگي ٹھکانوں کے سوا باقی علاقوں سے یکبارگی سے غائب ہوا؛ جبکہ الگ تھلگ علاقوں میں بھی اسماعلیہ اور اہل سنت کی پیش قدمی کی وجہ سے کافی حد تک کمزور ہوگیا؛ تاہم زیدیوں کی دونوں شاخوں یعنی ناصریہ اور مؤيدیہ کی چھوٹی جماعتیں سلطنت صفویہ کے آغاز تک برقرار رہیں اور ان دو جماعتوں کے پیروکار اپنی محدود تعلیمات کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے؛ اور صفوی فرمانروا شاہ طہماسب کے زمانے میں سنہ  933 ہجری / 1526 عیسوی  میں بحر خزر کے ساحلوں میں باقی ماندہ زیدیوں کی اکثریت نے مذہب امامیہ اثناعشریہ اختیار کیا۔[75]

متعلقہ مآخذ

پاوری حاشیے

  1. مفید، اوائل المقالات، ص‏39 ۔
  2. صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص63۔
  3. نک. نوبختی، فرق الشیعہ، ص90۔
  4. (ویکی پدیا، زیدیہ) اور رجوع کریں: جعفریان، اطلس شیعہ، 465۔
  5. رجوع کریں: صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، صص95-93۔
  6. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص95۔
  7. دیکھیں: نوبختی، فرق الشیعہ صص93-91۔
  8. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص97-95۔
  9. شهرستانی، کتاب الملل و النحل، صص142-140۔
  10. اشعری، مقالات الاسلامیین، صص67-66۔
  11. وجہ تسمیہ جاننے کے لئے رجوع کریں: طوسی، اختیار معرفة الرجال، ص236، نمبر شمار:429 ۔
  12. وہ علی (ع) کے باوجود ابوبکر اور عمر کی خلافت کے لئے اسی عقیدے کے ذریعے جواز فراہم کرتے تھے۔
  13. نک صابری، وہی ماخذ، ص100۔
  14. شهرستانی، وہی ماخذ، صص142-140۔
  15. اشعری، مقالات الاسلامیین، صص69-68۔
  16. صابری، همان، صص102-101 ۔
  17. شهرستانی، وہی ماخذ، صص142-140 ۔
  18. اشعری، مقالات الاسلامیین، ص68 ۔
  19. عمرجی، الحیاة السیاسیة و الفکریه للزیدیه فی المشرق الاسلامی، صص92-90  ۔
  20. شامی، تاریخ زیدیہ در قرن دوم و سوم هجری، صص249-248 ۔
  21. مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص217۔
  22. قاسم بن محمد الزیدی المتوفی عام 1029، الاعتصام بحبل اللّه،۔
  23. مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص218۔
  24. صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، صص89-80۔
  25. مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص218۔
  26. صابری، تاریخ فرق اسلامی جلد2، ص84۔
  27. زبارة الحسنی، تاریخ الائمة الزیدیة فی الیمن ...، صص10 13۔
  28. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص90۔
  29. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص67۔
  30. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص67۔
  31. ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک ج7، ص212۔
  32. یحیی بن زید کی شہادت کی تفصیلات کے لئے رجوع کریں: عمرجی، الحیاة السیاسیة و الفکریہ للزیدیہ فی المشرق الاسلامی، صص 76 - 82۔
  33. شامی، تاریخ زیدیہ در قرن دوم و سوم هجری، ص  97 - 106 ۔
  34. عمرجی، الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص78۔
  35. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص69۔
  36. صابری، تاریخ فرق اسلامی، ج2، ص70۔
  37. صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، صص72-70۔
  38. محمد بن عبداللہ کے قیام کے بارے میں مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: ابن جوزی، المنتظم، ج8، صص68-63 ۔
  39. صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، ص72۔
  40. رجوع کریں: البدء و التاریخ، ج6، ص86۔
  41. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج2، صص379-376 ۔
  42. صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، ص73۔
  43. تاریخ الیعقوبی، ج2، ص405۔
  44. ابن جوزی، المنتظم، ج7، ص213۔
  45. ابن اثیر، الکامل في التاریخ، ج9 ص90۔۔
  46. طبری، تاریخ الامم والملوک، ج8 ص192۔۔
  47. مسعودی، مروج الذهب، ج3 ص339۔۔
  48. بحارالانوار، ج 48 ص 170۔
  49. اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، ص290۔
  50. مامقانی، تنقیح المقال ، ج1 ص337 ذیل لفظ "حسین"۔
  51. | امام موسی کاظم(ع) اور قیام فخ۔
  52. مجلسی، بحارالانوار، ج48 ص165۔
  53. | شہدائے فخ کی شہادت کا واقعہ۔
  54. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2 ، صص404-405۔
  55. تاریخ طبری؛ ج 8 ص 197۔
  56. صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، ص73۔
  57. صابری، وہی ماخذ، صص74-73۔
  58. يعقوبى، تاريخ اليعقوبى، ج2، ص445۔
  59. صابری، وہی ماخذ، صص75-74۔
  60. ابن خلدون، المقدمه، ص47 ۔
  61. شامی، تاریخ زیدیه در قرن دوم و سوم هجری، ص233۔
  62. نشار، نشأة الفکر الفلسفی، ج2 ، ص186 ۔
  63. شامی، تاریخ زیدیه در قرن دوم و سوم هجری، ص236 ۔
  64. صابری، تاریخ فِرَقِ اسلامی، ج2، ص78 ۔
  65. شامی، وہی ماخذ، ص236 ۔
  66. صابری، وہی ماخذ، صص74-73۔
  67. نوبختی، فرق الشیعه، ص90۔
  68. ویکی پدیا، زیدیه
  69. میڈیلونگ (Wilferd Ferdinand Madelung)، فرقه‌های اسلامی، (Religious school and sects in medieval Islam) ص141۔
  70. میڈیلونگ، وہی ماخذ، ص142۔
  71. میڈیلونگ، وہی ماخذ، ص143۔
  72. میڈیلونگ، وہی ماخذ، ص144۔
  73. میڈلونگ، وہی ماخذ، ص145۔
  74. میڈلونگ، وہی ماخذ۔
  75. میڈیلونگ، وہی ماخذ، صص8-147۔

مآخذ

  • ابن جوزی، عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، دراسة و تحقیق:عبد القادر عطا، محمد، مراجعه و تصحیح:زرزور، نعیم، دار الکتب العلمیه، بیروت، بی تا.
  • ابن خلدون، عبدالرحمن بن محمد، مقدمة ابن خلدون، دار صادر، بیروت، 1984م.
  • اشعری، علی بن اسماعیل، مقالات الاسلامیین و اختلاف المصلین، مصحح هلموت ریتر، دارالنشر، بیروت، بی تا.
  • شامی، فضیلت، تاریخ زیدیه در قرن دوم و سوم هجری، مترجم:علی اکبر مهدی پور و محمد ثقفی، دانشگاه شیراز، شیراز، 1367.
  • الشهرستانی، محمد بن عبدالکریم، کتاب الملل و النحل، تخریج محمد بن فتح الله بدران، مکتبه الانجلو المصریه، القاهره، 1956م.
  • صابری، حسین، تاریخ فِرَقِ اسلامی، سمت، تهران، 1384.
  • زبارة الحسنی، محمد بن محمد بن یحیی، تاریخ الائمة الزیدیة فی الیمن حتی العصر الحدیث، تصحیح محمد زینهم، (قاهرة: مکتبه الثقافیة الدینیة، بی تا)۔
  • طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفة الرجال (رجال کشی)، مصحح حسن مصطفوی، دانشکده الهیات و معارف اسلامی مشهد، مشهد، 1348.
  • عمرجی، احمد شوقی ابراهیم، الحیاه السیاسیه و الفکریه للزیدیه فی المشرق الاسلامی، مکتبه مدبولی، قاهره، بی تا.
  • قاسم بن محمد الزیدی المتوفی عام 1029، الاعتصام بحبل اللّه، نشر مطابع الجمعیه عمان.
  • مادلونگ، ویلفرد، فرقه‌های اسلامی، ترجمه ابوالقاسم سری، اساطیر، تهران، 1377.
  • مفید ،اوائل المقالات، المؤتمر العالمی لالفیة الشیخ المفید، مصنفات الشیخ المفید، جلد چهارم، 1413.
  • مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، مکتبه الثقافه الدینیه، بور سعید، بی تا.
  • نشار، علی سامی، نشأة الفکر الفلسفی فی اسلام، دار المعارف، مصر، 1966م.
  • النوبختی، حسن بن موسی، فرق الشیعه، ترجمه محمد جواد مشکور، بنیاد فرهنگ ایران، تهران، 1353.
  • یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صار، بیروت، بی تا.
  • ابن جریرم طبری، تاریخ الامم والملوک۔
  • ابن اثیر، الکامل في التاریخ۔
  • مسعودی، مروج الذهب.
  • مجلسی، بحار الانوار۔
  • ابو الفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین؛
  • مامقانی، تنقیح المقال مامقانی۔
  • ابن عنبه، عمدة الطالب۔