منشیات، ان نشہ آور چیزوں کو کہا جاتا ہے جن کے جسمانی اور ذہنی ضمنی اثرات ہوتے ہیں اور ان کا مسلسل استعمال نشے کا سبب بنتا ہے۔ فقہاء ہر قسم کی نشہ آور چیزوں کے استعمال کے حرام ہونے پر متفق ہیں اور قرآنی آیات، اسلامی احادیث، عقل سلیم اور قاعدہ لا ضرر وغیرہ کے ذریعے اس پر استدلال کرتے ہیں۔ محققین کے مطابق تمام نشہ آور اشیاء اور منشیات کا نقطہ اشتراک ہوش اور عقل کا زائل کرنا ہے۔ اکثر فقہاء منشیات کو مست کنندہ نہیں سمجھتے اس بنا پر مسکرات کے مختلف احکام کو منشیات پر اطلاق نہیں کرتے ہیں۔ اسی بنا پر فقہاء منشیات کے استعمال کو تعذیری سزا والے جرائم میں شمار کرتے ہیں۔

فقہاء منشیات کی پیداوار، اسمگلنگ، خرید و فروخت اور تقسیم کے حرام ہونے کے بارے میں مختلف دلائل پیش کرتے ہیں: بعض اسے حلال اور عقلائی فوائد کا حامل نہ ہونے کی بنا پر حرام قرار دیتے ہیں۔ بعض فقہاء منشیات کے فردی اور سماجی نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے منشیات کے اسمگلروں کو مفسد فی الارض(زمین پر فساد پھیلانے والے) کے عنوان سے سزائے موت دینے کا حکم دیتے ہیں۔

تعریف اور اہمیت

نشہ آور ادویات ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جو ان چیزوں کے استعمال کرنے والے میں ایک غیر معمولی جوش اور ولولہ پیدا کرتا ہے اور اس کے ساتھ وابستہ اور عادی ہو جاتا ہے۔ [1] اسی طرح ہر وہ چیز جس کے استعمال سے جسم میں نمایاں سستی اور کمزوری پیدا ہوتی ہے منشیات کہلاتا ہے۔[2] اسلامی روایات میں نشہ آور ادویات کی کچھ اقسام کو "بنج"، "مفتر"، "مخدر" اور "افیون" کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور ان کے استعمال سے منع کی گئی ہے۔[3]

فقہی کتابوں میں منشیات سے متعلق کوئی الگ باب نہیں ہے۔ لیکن حدود و تعزیرات[4] طہارت و نجاست[5] صلات،[6] طلاق،[7] محاربہ،[8] دیات،[9] اشیاء خورد و نوش[10] جیسے ابواب میں اس سے متعلق احکام بیان کیے گئے ہیں۔

نشہ آور اشیاء اور مسکرات میں شباہت

محمد باقر صدر (متوفی 1400ھ) اپنی کتاب بحوث فی شرح العروۃ الوثقی میں نشہ آور اشیاء اور مسکرات کے نقطہ اشتراک کو عقل اور ذہانت کا زائل ہونا قرار دیتے ہیں۔[11] اسی طرح کہتے ہیں کہ دماغ کی خرابی اور جسم میں سستی اور کمزوری پیدا کرنا ان دونوں میں مشترک ہے، اور ان کے استعمال کرنے والوں میں ان کے ساتھ ایک قسم کی وابستگی اور عادت پیدا ہو جاتی ہے اور ساتھ ساتھ متعلقہ شخص کے ذہن اور دماغ میں برے اور فاسد خیالات بھی پیدا ہوتے ہیں جو بعض جرائم اور جنایات کے ارتکاب کا باعث بنتے ہیں۔[12]اس کے علاوہ منشیات اور نشہ آور اشیاء میں سے ہر ایک لوگوں کی صحت اور سلامتی کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔[13]

منشیات کے حرام ہونے کی وجوہات اور دستاویزات

منشیات اور ذہنی الجھن پیدا کرنے والی چیزوں کے حرام ہونے کی حدیث

پیغمبر اکرمؐ: آگاہ ہو جاؤ کہ ہر نشہ آور اور مست کرنے والی چیز حرام ہے اور جس چیز کا زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے اور جو چیز عقل کو مست، پریشان اور زائل کرتی ہے وہ بھی حرام ہے۔[14]

منشیات کی حرمت کے بارے میں فقہاء کی طرف سے جو دلائل بیان کئے گئے ہیں وہ مختلف ہیں:

  • قرآن پاک: آیت اللہ مکارم شیرازی آیہ تہلکہ کے ایک حصےوَ لَا تُلْقُوا بِأَیدِیکمْ إِلَی التَّہْلُکۃِ کا حوالہ دیتے ہوئے منشیات کے استعمال کو اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں ڈالنے کا واضح مصداق قرار دیتے ہیں اور مذکورہ آیت میں مذکور ممانعت کو اس کے حرام ہونے پر حمل کرتے ہیں۔[15]علم فقہ اور علم اصول کے محقق محمد جواد مہری درسنامہ مواد مخدر نامی کتاب میں آیت تہلکہ، آیت تجارت، سورہ اسراء کی آیت 27 اور سورہ اعراف کی آیت 157 وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے منشیات کی خرید و فروخت اور اس کے استعمال کو باطل طریقے سے دوسروں کا مال کھانے(مال حرام کھانے)، اپنے آپ کو تباہی و بربادی کے جال میں ڈالنے اور مال کو حرام اور ناجائز کی راہ میں فضول خرچ کرنے کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق منشیات نقصان دہ، گھٹیا اور دماغ کو تباہ کرنے والی چیزیں ہیں اسی بنا پر اس کا استعمال اور خرید و فروخت حرام ہے۔[16]
  • اسلامی روایات: بعض فقہا "ہر نشہ آور چیز حرام ہے اور ہر مست کرنے والی چیز حرام ہے"[یادداشت 1] اسی طرح ہر وہ چیز جس کا نتیجہ اور انجام انسان کو مست کر دینے والی ہو تو وہ بھی حرام ہے۔[یادداشت 2] منشیات کے استعمال کو حرام قرار دیا گیا ہے؛[17] لیکن موسوی اردبیلی (1304-1395ہجری شمسی) اپنی کتاب فقہ الحدود و التعذیرات میں کہتے ہیں کہ حدیث منابع میں جو احادیث منشیات کے حرام ہونے کے دلائل کے طور پر ذکر کی گئی ہیں وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں اسی بنا پر ان سے استناد کرنا صحیح نہیں ہے۔[18]
  • عقلی دلیل: سید محمد باقر صدر کے مطابق منشیات کے حرام ہونے کا شرعی حکم عقل کے ذریعے قابل درک ہے۔[19] ان کے مطابق عقل نشہ آور آشیاء کو مست کرنے والی چیزوں کے ساتھ موازنہ کرنے کے ذریعے اس کے حرام ہونے کا حکم لگاتی ہے۔[20]

منشیات کا استعمال حرام ہونے کی وجہ اور علت

آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق اگرچہ قاعدہ لاضرر کا موضوع دوسروں کو نقصان پہنچانا ہے، لیکن اس میں خود کو نقصان پہنچانا بھی شامل ہے، اسی بنیاد پر وہ کہتے ہیں کہ منشیات یقینی طور پر خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کا استعمال حرام ہے۔ [21]

سید محمد باقر صدر کے نزدیک شراب کے حرام ہونے کی وجہ اس کا نشہ آور ہونا ہے اور منشیات کے استعمال کے حرام ہونے کی وجہ ان کا نقصان دہ ہونا ہے۔[22]

بعض فقہاء منشیات کے استعمال نقصان کو زہر اور زہریلی چیزوں کے استعمال کے نقصان کے برابر سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جو چیز جسم کے لیے نقصان دہ ہے وہ زہر کھانے کی طرح (تھوڑا یا بہت، ٹھوس یا مائع) [23] حرام ہے۔[24] لیکن اگر اس کا معمولی استعمال نقصان دہ نہ ہو جیسا کہ افیون تو اس کا استعمال اس وقت تک حرام نہیں جب تک یہ جسم کے لیے مضر نہ ہو، لیکن جب یہ نقصان دہ ہونے کی حد تک پہنچ جائے تو اس کا استعمال بھی حرام ہوگا۔[25] اسی بنا پر بعض فقہاء جیسے آیت اللہ خوئی، (وفات: 1992ء) اس بات کے معتقد ہیں کہ منشیات کا استعمال زہر کے استعمال اور جسم کو نقصان پہنچانا اور جسمانی اور ذہنی صحت کو خطرے میں ڈالنے کی زمرے میں آتی ہے اور حرام ہے؛ خواہ اس کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے ہو یا اس کے مسلسل استعمال کی وجہ سے ہو۔[26] بعض فقہاء جیسے امام خمینی[27] اور آیت‌ اللہ خامنہ ای[28] ان کے نقصانات اور آفتوں پر توجہ دیتے ہیں اور اس کے انفرادی اور سماجی نقصانات کو اس کی حرمت کا باعث اور علت قرار دیتے ہیں۔

منشیات کے نقصان دہ ہونے کا معیار اور مقدار

فقہاء کے نزدیک جس چیز کا ایک یا دو بار استعمال نقصان دہ نہ ہو لیکن اگر اس مسلسل اور بار بار استعمال یا اس کا عادی ہونا نقصان کا باعث ہو تو اس کا تکرار اور بار بار استعمال کرنا حرام ہے۔[29] اسی بنیاد پر آیت اللہ تبریزی، [30] محمد تقی بہجت، (وفات: 2009ء)[31] اور فاضل لنکرانی، (وفات: 2007ء)[32] جیسے فقہاء منشیات کی حرمت کے معیار کو ان کا عادی ہونا قرار دیتے ہیں نہ فقط ان کا استعمال؛ کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ منشیات کے بارے میں جو چیز نقصان دہ ہے وہ ان کا عادی ہونا اور ایسا استعمال حرام ہے جو ان کا عادی بنا دے۔ لہٰذا فقہاء کا خیال ہے کہ جو شخص نشہ کا عادی ہو اور نشہ چھوڑنا اس کے بس کی بات نہ تو شرعی اعتبار سے نشہ آور چیزوں کا استعمال جان کی حفاظت کے عنوان سے جائز اور بلا اشکال ہے۔[33]

منشیات کے استعمال کے لیے سزائیں

امامیہ فقہاء کے درمیان اس بارے میں مختلف آراء پائے جاتے ہیں کہ آیا منشیات نشہ آور اور مست کنندہ ہیں اور آیا ان کے مجرمانہ احکام میں منشیات شامل ہیں یا نہیں؟۔ فقہی کتابوں میں جو بات بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ منشیات کو نشہ آور اشیاء کے ساتھ ملحق کرنا مسلم نہیں بلکہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ اکثر فقہاء منشیات کو نشہ آور نہیں سمجھتے اور نشہ آور اشیاء کے مختلف احکام کو منشیات پر لاگو نہیں کرتے ہیں۔[34] اسی وجہ سے منشیات کے استعمال کو وہ تعذیری سزا کے جرائم میں شمار کرتے ہیں۔[35] ان کے مقابلے میں بعض فقہاء منشیات کے حرام ہونے کو اس کا نشہ آور اور مست کنندہ ہونا قرار دیتے ہیں[36] اور منشیات کے استمعال کرنے والوں پر شرعی حد کی سزا جاری ہونے کا معیار ان کا نشہ آور ہونا قرار دیتے ہیں، مثال کے طور پر آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور فقیہ علامہ حلی اپنی کتاب [[کب الاحکام (کتاب)][37] میں اور امام خمینی اپنی کتاب تحریر الوسیلہ[38] میں اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر مست کرنے والی چیز چاہے جامد ہو یا مایع شراب کے ساتھ ملحق ہے جیسے چرس وغیرہ۔

آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ شہید اول چرس کے حرام ہونے کی وجہ کے بارے میں دو آراء اور ان کے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر اس کی حرمت نشہ آور ہونے کی وجہ سے ہو تو اس پر شرعی حد جاری ہوگا لیکن اگر اس کا حرام ہونا اس کے فاسد ہونے(عقل کو زائل کرنے) کی بنا پر ہو تو اس کے مرتکب شخص پر تذیر کی سزا ہوگی۔ [39]

منشیات کی تیاری، سمگلنگ اور خرید و فروخت کا حکم

بھنگ اور چرس جیسی ٹھوس نشہ آور اشیاء کے بارے میں امامیہ فقہا کا اختلاف، صرف ان نشہ آور چیزوں کی طہارت اور نجاست کے لحاظ سے ہے؛ ورنہ تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال کی حرمت پر تمام فقہاء متفق اور متحد ہیں۔ ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ ٹھوس نشہ آور چیزیں پاک ہیں اور اگر اس میں کوئی ایسی چیز ڈالیں جو انہیں مائع میں تبدیل کرے تو تب بھی یہ چیزیں پاک ہیں۔[40] ان کے مقابلے میں فقہاء کا ایک گروہ ہر نشہ آور اور مست کرنے والی چیز کی نجاست کا حکم دیتے ہیں۔[41]

آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم اور فقیہ علامہ حلی منشیات کی خرید و فروخت اور اس کے استعمال کی حرمت کا میعار نشہ آور اور مست کرنے والی چیزوں کے ساتھ ان کا الحاق ہے؛[42] لیکن اکثر فقہاء منشیات کی سمگلینگ اور خرید و فروخت کی حرمت کا معیار حلال اور عقلائی فوائد کا حامل نہ ہونا اور ناجائز مقاصد کا حصول قرار دیتے ہیں۔ ان فقہاء کا کہنا ہے کہ ان چیزوں کو ا گر حلال فوائد میں استعمال جیسے طبی امور یا دیگر معقول فوائد میں استعمال کیا جائے تو جائز ہے ورنہ حرام ہے۔[43] مثال کے طور پر سید علی خامنہ ای، (پیدائش 1939ء) منشیات کا استعمال[44]اور خرید و فروخت اور نقل و حرکت اور ذخیرہ کرنے کی حرمت اس پر مترتب فردی اور سماجی نقصانات کی بنا پر ہے سوائے اس کہ کسی بیماری کی علاج وہ بھی حاذق اور ماہر طبیب کی تشخص پر ہو تو ان موارد میں اس کا استعمال ضرورت کی حد تک جائز ہے۔[45]

ناصر مکارم شیرازی (پیدائش 1927ء) افیون اور دیگر منشیات کا استعمال اور ان کی خرید و فروخت اور منشیات استعمال ہونے والی مجالس میں شرکت کرنے کو گناہان کبیرہ میں شمار کرتے ہیں۔ اسی طرح آپ منشیات کی تیاری، فروخت، نقل و حمل اور اس کے استعمال میں کسی بھی قسم کی مدد کو حرام ع قرار دیتے ہیں؛[46] ان کے نزدیک جو بھی ان اشیاء کی کاشت، تیاری، نقل و حمل اور تقسیم میں مدد کرے گا، گویا اس نے حرام کام ا نجام دیا ہے اور وہ خدا کی طرف سے سزا کا مستحق قرار پائے گا اور اس مد میں حاصل ہونے والی ہر قسم کی آمدنی بھی حرام اور ناجائز ہے۔[47]

کچھ دوسرے فقہاء جیسے مرزا جواد تبریزی (وفات: 2006ء) معاشرے میں ان اشیاء سے پھیلنے والا اور ان کا عادی ہونے کو ان کے حرام ہونے کا معیار قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح بعض دوسرے فقہا جیسے امام خمینی اور سید کاظم حائری (پیدائش1938ء) نے اسلامی حکومت کے قوانین و مقررات کی مخالف کو ان کے حرام ہونے کا معیار قرار دیا ہے۔[48]

منشیات کے سمگلروں پر "مفسد فی الارض" کا اطلاق

کچھ فقہاء نے منشیات کے اسمگلروں اور بڑے پیمانے پر جسم فروشی کے مراکز بنانے والوں کو "مفسد فی الارض" (زمین میں فساد پھیلانے والے) کا کامل مصداق قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر، آیت اللہ مکارم شیرازی "مفسد فی الارض" کی تعریف میں لکھتے ہیں: "مفسد فی الارض سے مراد وہ شخص ہے جو معاشرے میں وسیع پیمانے پر فساد پھیلانے کا ذریعہ بنتا ہے، چاہے وہ ہتھیاروں کا سہارا لیے بغیر ہی کیوں نہ ہو۔ جیسے منشیات کے اسمگلر اور بڑے پیمانے پر جسم فروشی کے مراکز بنانے والے۔[49]

امام خمینی بھی منشیات میں موجود فساد کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان موارد فساد پھیلانے کا جنبہ اس وقت ہے جب ان چیزوں کو معاشرے میں اس طرح تقسیم کرے کہ بہت سارے لوگ اس برے عادت میں مبتلاء ہو جائے یا اسی مقصد کے لئے تقسیم کیا جائے یا اس مقصد کے بارے میں علم رکھتے ہوئے انجام دے،[50] اسی بنا پر اس وقت( 1922-2009ء) کے چیف جسٹس سید عبدالکریم موسوی اردبیلی کے خط کے جواب میں جس میں مفسدین فی الارض کو عدالت میں سزائے موت تعیین کرنے سے متعلق تھا، ان کو آیت اللہ منتظری کے فتوے کے مطابق عمل کرنے کی اجازت دی گئی۔[51] آیت اللہ متنظری مفسد فی الارض کو پھانسی کی سزا دینے کو جائز سمجھتے تھے۔[52] اور صرف اس مورد میں جہاں مفسد فی الارض کے اطلاق میں شک و تردید ہو خون میں احتیاط کا قاعدہ کی بنا پر پھانسی دینے کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔[53]

جمہوری اسلامی ایران کی آئین جو سنہ 1367ہجری شمسی میں منظور ہوئی، آرٹیکل 6 اور 9 کے تحت منشیات کے جرائم کے مرتکب افراد کو، جن کی منشیات کی مقدار ایک مخصوص کورم تک پہنچ جاتی ہے، مفسد فی الارض قرار دیا گیا تھا۔ تاہم سنہ 1376 میں اس قانون کی تبدیلی کے بعد اس کے آرٹیکل 6 کو آرٹیکل 45 کے ساتھ ملحق کر کے ان جرائم کے مرتکب افراد میں مفسد فی الارض کے عنوان کو مشخص کیا ہے۔[54]

مونوگراف

کتاب "فقہی منابع اور مراجع عظام کے فتوؤں میں منشیات" علی اکبر بصری کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے اسلام کے فقہی مآخذ اور مکاتب میں منشیات کے استعمال کے احکام اور ان کی سزاؤں کا جائزہ لیا ہے اور مراجع عظام کے فتوے اس کے ساتھ منسلک کیا ہے۔ اس کتاب کو خرسندی پبلی کیشنز نے 1388ہجری شمسی میں شائع کی تھی۔[55]

حوالہ جات

  1. ماہیار، دایرۃ‌المعارف اعتیاد و مواد مخدر، 1387ہجری شمسی، ص21؛ سلمان‌پور، «مبانی فقہی حرمت استعمال و قاچاق مواد مخدر و جرایم مربوط بہ آن»، ص122۔
  2. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں:حسینی، فرہنگ اصطلاحات فقہی، 1389ہجری شمسی، ص456؛ معین، فرہنگ معین، ذیل واژہ «مخدر»۔
  3. ملاحظہ کریں: نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج17، ص86۔
  4. شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص805۔
  5. شہید ثانی، مسالک الأفہام، 1413ھ، ج1، ص122۔
  6. شیخ طوسی، المبسوط فی الفقہ الامامیہ، 1387ھ، ج1، ص128۔
  7. شیخ طوسی، کتاب الخلاف، مؤسسہ نشر اسلامی، ج4، ص480
  8. شیخ مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص805۔
  9. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج42، ص187۔
  10. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج36، ص370۔
  11. صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، 1408ھ، ج3، ص367۔
  12. طیار، المخدرات فی فقہ الاسلامی، 1418ھ، ص89۔
  13. فتحی بہنسی، الموسوعۃ الجنائیہ فی الفقہ الاسلامی، 1412ھ، ج2، ص394؛۔
  14. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص408۔
  15. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج3، ص171۔
  16. مہری، درس‌نامہ مواد مخدر، 1401ہجری شمسی، ص215-207۔
  17. ملاحظہ کریں:انصاری، کتاب الطہارہ، 1415ھ، ج1، ص210۔
  18. موسوی اردبیلی، فقہ الحدود و التعذیرت، 1427ھ، ج2، ص562۔
  19. صدر، دروس فی علم الاصول، 1406ھ، ج1، ص279۔
  20. صدر، دروس فی علم الاصول، 1406ھ، ج1، ص279۔
  21. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج3، ص174-173۔
  22. صدر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، 1408ھ، ج3، ص367۔
  23. شہید ثانی، مسالک الأفہام، 1413ھ، ج12، ص70۔
  24. شہید ثانی، الروضۃ البہیہ فی شرح اللمعۃ الدمشقیہ، 1410ھ، ج7، ص329۔
  25. نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج36، ص372۔
  26. خویی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج2، ص347۔
  27. امام خمینی، استفتائات، 1372ہجری شمسی، ج2، ص37-35۔
  28. خامنہ‌ای، أجوبۃ الاستفتائات، 1420ھ، ج2، ص53۔
  29. ملاحظہ کریں: امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1392ہجری شمسی، ج2، ص164۔
  30. تبریزی، استفتائات جدید، 1385ہجری شمسی، ج2، ص483۔
  31. بہجت، استفتائات، 1386ہجری شمسی، ج4، ص558۔
  32. فاضل لنکرانی، جامع المسائل، 1383ہجری شمسی، ج2، ص271۔
  33. ملاحظہ کریں: مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج1، ص161۔
  34. برای نمونہ نگاہ کنید بہ نجفی، جواہر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج41، ص449۔
  35. فاضل مقداد، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، 1404ھ، ج4، ص366؛ شہید اول، القواعد و الفوائد، کتاب‌فروشی مفید، ج2، ص76۔
  36. برای نمونہ نگاہ کنید بہ علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1419ھ، ج1، ص120؛ علامہ حلی، أجوبۃ المسائل المُہَنّائیۃ، 1401ھ، ج1، ص32۔
  37. علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1419ھ، ج3، ص332۔
  38. امام خمینی، تحریر الوسیلہ، 1392ہجری شمسی، ج2، ص166۔
  39. شہید اول، القواعد و الفوائد، کتاب‌فروشی مفید، ج2، ص73۔
  40. امام خمینی، توضیح المسائل، 1372ہجری شمسی، ص15؛ «مصرف دخانیات و مواد مخدر»، وبگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای۔
  41. خویی، التنقیح فی شرح العروۃ الوثقی، 1410ھ، ج2، ص99۔
  42. علامہ حلی، قواعد الاحکام، 1419ھ، ج1، ص120۔
  43. باصری، علی‌اکبر، مواد مخدر در منابع فقہی و فتاوای مراجع تقلید، ص118-87۔ (اصل استفتائات در این کتاب آمدہ است۔)
  44. «مصرف دخانیات و مواد مخدر»، وبگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای۔
  45. خامنہ‌ای، اجوبۃ الاستفتائات، 1420ھ، ج2، ص53۔
  46. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج3، ص174-173۔
  47. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج2، ص242۔
  48. باصری، علی‌اکبر، مواد مخدر در منابع فقہی و فتاوای مراجع تقلید، ص118-87۔
  49. مکارم شیرازی، استفتائات جدید، 1427ھ، ج2، ص499۔
  50. امام خمینی، صحیفہ امام، 1378ہجری شمسی، ج18، ص354
  51. امام خمینی، صحیفہ امام، 1389ہجری شمسی، ج20، ص397۔
  52. منتظری، رسالہ استفتائات، 1384ہجری شمسی، ج1، ص254۔
  53. منتظری، رسالہ استفتائات، 1384ہجری شمسی، ج1، ص254۔
  54. ذبحی، شرح جامع قانون مبارزہ با مواد مخدر، 1397ہجری شمسی، ج2، ص202۔
  55. «مواد مخدر در منا‌بع‌ فقہی‌ و فتا‌وای مراجع‌ تقلید عظا‌م»، پایگاہ اطلاع‌رسانی کتاب‌خانہ‌ہای ایران۔

نوٹ

  1. ألا إنَّ کلَّ مُسکرٍ حَرامٌ، و کلَّ مُخَدِّرٍ حَرامٌ، و ما أسکرَ کثیرہُ حَرامٌ قَلیلُہُ، و ما خَمَّرَ العَقلَ فَہُوَ حَرامٌ ؛ پیغمبر اسلامؐ : جان لو کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے، ہر مست کرنے والی چیز حرام ہے، اور جس چیز کی زیادہ نشہ آور ہے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے، اور جو چیز عقل کو زائل کرتی ہے وہ بھی حرام ہے۔(کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص408۔)
  2. إنَّ اللّہ َ عز و جل لَم یحَرِّمِ الخَمرَ لاِسمِہا، ولکنَّہُ حَرَّمَہا لِعاقِبَتِہا ؛ فَما کانَ عاقِبَتُہُ عاقِبَۃَ الخَمرِ فَہُوَ خَمرٌ ؛ امام کاظم(ع) : اللہ تعالیٰ نے شراب کو اس کے نام کے سبب حرام قرار نہیں دیا، بلکہ اس کے اثرات اور نتائج کی وجہ سے اسے حرام قرار دیا ہے، اور ہر وہ چیز جس کے نتائج شراب کی طرح ہے وہ بھی حرام ہے۔ (کلینی، الکافی، 1407ھ، ج6، ص412۔)

مآخذ

  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، استفتائات، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ اول، 1372ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلۃ، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، 1392ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1389ہجری شمسی۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، توضیح المسائل، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، چاپ ہفتم، 1372ہجری شمسی۔
  • انصاری، مرتضی، کتاب الطہارہ، قم، المؤتمر العالمی بمناسبۃ الذکری المئویۃ الثانیۃ لمیلاد الشیخ الأعظم الأنصاری۔ الأمانۃ العامۃ، چاپ اول، 1415ھ۔
  • بہجت، محمدتقی، استفتائات، قم، نشر دفتر حضرت آیت‌اللہ بہجت، 1386ہجری شمسی۔
  • تبریزی، جواد، استفتائات جدید، قم، نشر سرور، 1385ہجری شمسی۔
  • حسینی، محمد، فرہنگ اصطلاحات فقہی، تہران، انتشارات سروہجری شمسی، 1389ہجری شمسی۔
  • خامنہ‌ای، سید علی، اجوبۃ الاستفتائات، بیروت، الدار الاسلامیہ للطباعہ و النشر و التوزیع، 1420ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، نشر مدینۃ العلم، 1410ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، التنقیح فی شرح العروّ الوثقی، قم،‌ دار الہادی للمطبوعات، 1410ھ۔
  • ذبحی، حسین، شرح جامع قانون مبارزہ با مواد مخدر مصوب 1367 با اصلاحات و الحاقات بعدی در نظم حقوقی جدید، تہران، مرکز مطبوعات و انتشارات قوہ قضاییہ، 1397ہجری شمسی۔
  • سلمان‌پور، محمدجواد، «مبانی فقہی حرمت استعمال و قاچاق مواد مخدر و جرایم مربوط بہ آن»، در مجلہ فقہ اہل بیت، قم، شمارہ 35، پاییز 1382ہجری شمسی۔
  • شہید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، تصحیح: سید عبدالہادی حکیم، قم، نشر کتاب‌فروشی مفید، بی‌تا۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق سید محمد کلانتر، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، 1410ھ۔
  • شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی الفقہ الامامیہ، تحقیق: محمدباقر بہبودی، تہران، المکتبۃ المرتضویہ لإحیاء الآثار الجعفریہ، چاپ سوم، 1387ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، کتاب الخلاف، تحقیق: جمعی از محققین حوزہ علمیہ قم، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، 1407ھ۔
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • صدر، سید محمدباقر، بحوث فی شرح العروۃ الوثقی، قم، مجمع الشہید الصدر العلمی، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • صدر، سید محمدباقر، دروس فی علم الاصول، بیروت، مکتبۃ المدرسہ، 1406ھ۔
  • طیار، عبداللہ بن محمد، المخدرات فی فقہ الاسلامی، ریاض،‌ دار ابن‌جوزی، چاپ دوم، 1418ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، أجوبۃ المسائل أجوبۃ المسائل المُہَنّائیۃ، مقدمہ نویس: محی‌الدین مامقانی، قم، مطبعۃ الخیام، چاپ اول، 1401ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، مختلف الشیعہ فی احکام الشریعہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم‌، 1419ھ۔
  • علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الأحکام فی معرفہ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1419ھ۔
  • فاضل لنکرانی، محمدفاضل، جامع المسائل، قم، امیر قلم، چاپ یازدہم، 1383ہجری شمسی۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، محقق: عبداللطیف حسینی کوہ‌کمری، قم، مکتبہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • فتحی بہنسی، احمد، المؤسوعہ الجناییہ فی الفقہ الاسلامی، بیروت،‌ دار النہضۃ العربیہ، 1412ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری، تہران،‌ دار الکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
  • ماہیار، آذر و سیما نوحی، دایرۃ‌المعارف اعتیاد و مواد مخدر، تہران، نشر ارجمند، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
  • «مصرف دخانیات و مواد مخدر»، وبگاہ دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای، تاریخ بازدید: 3 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • معین، محمد، فرہنگ معین، تہران، نشر سرایہجری شمسی، 1382ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، استفتائات جدید، تحقیق: ابوالقاسم علیان‌نژادی، قم، نشر مدرسہ علمیہ امام علی بن ابی‌طالب(ع)، 1427ھ۔
  • منتظری، حسینعلی، رسالہ استفتائات، تہران، نشر سایہ، 1384ہجری شمسی۔
  • «مواد مخدر در منا‌بع‌ فقہی‌ و فتا‌وای مراجع‌ تقلید عظا‌م»، پایگاہ اطلاع‌رسانی کتاب‌خانہ‌ہای ایران، تاریخ بازدید: 5 شہریور 1403ہجری شمسی۔
  • موسوی اردبیلی، سید عبدالکریم، فقہ الحدود و التعذیرات، قم، مؤسسہ النشر لجامعۃ المفید(رہ)، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • مہری، محمدجواد، درس‌نامہ مواد مخدر: راہبردہای مقابلہ‌ای و خودکارآمدی از دیدگاہ قرآن، روایات و کارشناسان، قم، بوستان کتاب، 1401ہجری شمسی۔
  • نجفی، محمدحسن، جَواہر الکلام فی شرحِ شرائعِ الاسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت،‌ دار اِحیاء التُّراثِ العربی، چاپ ہفتم، 1362ہجری شمسی۔
  • نوری، حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، بیروت، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، 1408ھ۔
  • ہلالی، سعدالدین مسعد، التأصیل الشرعی للخمر و المخدرات دراسۃ فقہیۃ مقارنہ، کویت، بی‌نا، 1421ھ۔