طوفان الاقصی

ویکی شیعہ سے
(حماس کا حملہ (2023ء) سے رجوع مکرر)
طوفان الاقصی
اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازعہ
تاریخ7 اکتوبر2023ء سے
مقاماسرائیل کے زیر قبضہ سرزمین
علل و اسبابفلسطین کی آزادی
سپہ سالار 1محمد ضیف
سپہ سالار 2اسرائیلی فوج
فوج 1حماس
فوج 2اسرائیل
نقصان 1اب تک 1400 سے زیادہ اسرائیلی ہلاک اور 3000 زخمی
نقصان 2اب تک 33482اہالیان غزہ شہید اور 76049 سے زیادہ زخمی تا 10 اپریل 2024ء


طوفانُ الْاَقصیٰ اسرائیلی مظالم اور ان کی طرف سے مسجد الاقصی کی بے حرمتی کے خلاف حماس کے فوجی آپریشن کا نام ہے۔ یہ آپریشن مورخہ7 اکتوبر سنہ 2023ء کو غزہ اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے درمیانی سرحدی علاقوں میں شروع ہوا اور کئی دنوں تک جاری رہا۔ ان حملوں کا پس منظر یہ ہے کہ حماس کے مجاہدین نے صیہونی حکومت کے مسلسل قبضے کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے اسرائیلی مقبوضہ علاقوں پر راکٹ حملے کیے اور پھر زمینی راستے سے ان علاقوں میں داخل ہوئے۔ اس حملے کے نتیجے میں اب تک 1400 سے زائد اسرائیلی ہلاک اور 3000 زخمی ہوئے ہیں۔ عالمی طور پر حماس کے اس حملے کو اسرائیل کی بے سابقہ شکست کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ اس حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر حملہ کیا ان حملوں میں 10 اپریل 2024ء تک اہالیان غزہ میں سے 33482 سے زائد افراد شہید اور 76049 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ غزہ میں شہریوں کے قتل عام اور اسرائیل کی جانب سے رہائشی علاقوں پر اندھا دھند بمباری کے خلاف دنیا بھرکی مختلف جگہوں سے ردعمل سامنے آرہا ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی ایران و مرجع تقلید عالم تشیع آیت اللہ سید علی خامنہ ای اور دیگر شیعہ مجتہدین نے غزہ کے عوام کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

اہمیت اور اہداف

7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے مجاہدین نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے خلاف "طوفان الاقصی" کے نام سے ایک فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اسرائیلی میڈیا نے اس آپریشن کو تاریخ میں ایک منفرد فوجی آپریشن اور صیہونی حکومت کی بہت بڑی شکست قرار دیا۔[1] اس کے علاوہ بعض ذرائع ابلاغ نے حماس کے گرفتار مجاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی ایک سال قبل کی گئی تھی۔[2]

طوفان الاقصیٰ حملے کے محرکات

حماس کے اس حملے کا محرک فلسطین کی آزادی، مقبوضہ علاقوں کو اسرائیل کے قبضے سے نکالنا اور اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی بار بار خلاف ورزیوں کا مقابلہ کہا گیا ہے۔[3] حماس کے حامی میڈیا کا بھی یہی کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے اس حملے کی وجوہات فلسطینیوں کے قتل عام، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی، اس کے محافظوں پر ظلم و تعدی، فلسطینیوں پر صیہونی آباد کاروں کے حملے کی حمایت کرنے جیسے اسرائیل کے مسلسل جرائم کا ردعمل ہے۔[4] اس حملے کے تیسرے دن حماس کے فوجی کمانڈر نے طوفان الاقصیٰ آپریشن کی وجوہات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ صہیونیوں کی طرف سے مسلمانوں کے مقدسات کی مسلسل توہین، فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تعدی اور فلسطینی سرزمین پر صیہونیوں کے غیر قانونی قبضے کے رد عمل میں یہ حملہ کیا گیا ہے.[5]

یہ بلا اور مصیبت صہیونیوں نے خود اپنے اوپر لائی ہے۔ جب ظلم اور جنایت انتہا کو پہنچ جاتی ہے اور جب درندگی انتہا کو پہنچ جاتی تو پھر طوفان کا انتظار کرنا ہوگا... فلسطینوں کا بہادرانہ اور جانثارانہ اقدام، غاصب دشمن کے سالہا سال سے جاری ظلم و بربریت کا جواب تھا اور آخری مہینوں میں ان کے ظلم و بربریت میں شدت آگئی تھی؛ اس کی ذمہ دار موجودہ غاصب صہیونی حکومت ہے۔[6]

آپریشن کا آغاز

7 اکتوبر 2023ء کو غزہ کی پٹی پر تعینات حماس کے مجاہدین نے ایک غیر متوقع منصوبہ بندی پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں پر حملہ کیا۔ اس حملے کے ابتدائی لمحات میں مقبوضہ علاقوں کی جانب 5000 راکٹ فائر کیے گئے جس کے بعد حماس کے مجاہدین نے غزہ کی پٹی اور مقبوضہ علاقوں کے درمیان حائل رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے دیواریں عبور کیں اور وہاں سے صہیونی بستیوں پر زمینی حملہ کیا۔[7] آپریشن کا آغاز قسام بٹالین کے کمانڈر محمد ضیف کے حکم سے ہوا۔حملے کے ابتدائی اوقات میں صیہونی شہریوں اور فوجیوں کے ایک گروہ کو حماس نے گرفتار کر لیا اور انہیں قیدیوں کے طور پر غزہ منتقل کیے گئے۔ شدید حملوں کے آغاز کے ساتھ ہی صیہونی حکومت کے وزیر جنگ نے ہنگامی حالت کا اعلان کردیا۔[8]حماس کی جانب سے اس حملے میں حصہ لینے والی فورسز کی تعداد تقریباً 1000 افراد پر مشتمل ہے اور مقبوضہ علاقوں میں داخل ہونے والے آپریشنل پوائنٹس کی تعداد 15 ہے۔[9] اسرائیل کے اعداد و شمار کے مطابق مقبوضہ علاقوں پر حماس کے حملے کے آغاز کے 12ویں دن تک 1400 اسرائیلی ہلاک اور 3500 زخمی ہو چکے ہیں۔[10]

رد عمل

انٹونیو گوٹیرش، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ:

«یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم سب کو معلوم ہونا چاہئے کہ حماس کے حملے ویسے ہی نہیں ہوئے ہیں۔ فلسطینی 56 سالوں سے قبضے کے گھٹن ماحول میں سختی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی زمینوں کو نئی بستیاں آباد کرکے چھینا جارہا ہے اور ان پر سختیاں ڈھائی جارہی ہیں۔ ان کا اقتصاد تباہ ہوچکا ہے؛ لوگ بےگھر ہوئے ہیں۔ اب وہ لوگ سیاسی راہ حل سے ناامید ہوچکے تھے۔»[11]

اس آپریشن کی خبر میڈیا پر منتشر ہونے کے بعد مختلف ممالک جیسے ایران،[12] افغانستان،[13] اور عراق[14] کے مسلمانوں نے اسلامی مقاومتی بلاک کی فتح پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جشن منایا۔ جمہوری اسلامی ایران،[15] لبنان کی حزب اللہ اور انصار اللہ یمن[16] نے حماس کے اس حملے کی حمایت کا اعلان کیا۔[17]عالم تشیع کے رہبر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اس آپریشن کو اسرائیل کے لیے ناقابل تلافی ناکامی قرار دیا۔[18] علاوہ ازیں ترک صدر رجب طیب اردگان نے حماس کو ایک آزادی پسند گروہ قرار دیا جو اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے لڑتا ہے۔[19] حوزہ علمیہ قم کے مدیر علی رضا اعرافی نے اس حملے کو اسلامی دنیا میں ایک بڑی تبدیلی کا اہم پیش خیمہ قرار دیا۔[20]

امریکہ نے اسرائیل کی امداد کے سلسلے میں اپنے طیارہ بردار بحری جہازوں کو اس علاقے میں بھیجا۔[21]

غزہ پر اسرائیل کے حملے میں شہریوں کا قتل عام

غزہ کے المعمدانی ہسپتال پر اسرائیلی دہشت گردانہ حملوں کے شہداء کے درمیان غزہ کی وزارت صحت کی پریس کانفرنس
اسرائیل کی طرف سے غزہ پر حملہ کے بعد یہاں کی تباہ کاریوں کا منظر

حماس کے "طوفان الاقصی" نامی حملے کے بعد اسرائیلیوں نے جوابی حملوں میں غزہ کی پٹی میں رہائشی اور فوجی علاقوں پر حملہ کیا۔ پانی اور بجلی منقطع کرنا، رہائشی علاقوں پر بمباری، شہریوں، خواتین اور بچوں کو ہلاک کرنا، طبی عملے اور ہسپتالوں پر بمباری اور ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال ایسے اقدامات ہیں جو اسرائیل نے حماس کے مجاہدین کے ساتھ محاذ آرائی کے دوران سرانجام دیے ہیں۔[22]

ایک رپورٹ کے مطابق 10 اپریل 2024ء تک اسرائیل کے غزہ پر کئے جانے والے حملوں میں شہدا کی تعداد 33482 اور زخمیوں کی تعداد 76049 سے تجاوز کر گئی ہے۔[23] ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔[24] اس کے علاوہ اس عرصے کے دوران اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں 52 ٹن سے زیادہ دھماکہ خیز مواد گرایا اور 305,000 سے زائد رہائش گاہوں کو تباہ اور 15 لاکھ سے زائد افراد کو بے گھر کیا گیا ہے۔[25] صرف المعمدانی ہسپتال پر کئے جانے والے ایک ہی حملے میں 500 عام شہری مارے گئے ہیں۔ حملے کے دوران ہسپتال زخمیوں اور بے گھر افراد سے بھرا ہوا تھا۔[26]

مزید معلومات کے لئے دیکھئے: معمدانی ہسپتال کا قتل عام

عارضی جنگ بندی

جنگ کے 46 دن کے بعد نومبر 2023ء کو قطر اور مصر کی ثالثی پر فلسطین کے مقاومتی بلاک کے مجاہدین اور اسرائیل کے مابین عارضی طور پر جنگ بندی ہوئی۔ دونوں ممالک اس بات کے پابند ہوئے کہ 24 نومبر سے چار دن تک جنگ روک دی جائے گی اور اسرائیل کے حماس کے ہاتھوں 50 قیدیوں کے بدلے اسرائیل 150 فلسطینی قیدی رہا کرے گا اور انسانی ہمدردی کے تحت دیے جانے والے امدادی سامان کو غزہ پٹی تک پہنچنے میں رکاوٹ نہ ڈالنا اس باہمی مفاہمت کا حصہ تھا۔[27]

سیاسی، اقتصادی اور امنیتی نتائج

طوفان الاقصی کے سیاسی، امنیتی اور اقتصادی آثار و نتائج میں سے بعض درج ذیل ہیں:

لندن میں طوفان الاقصی کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف «آزادی فلسطین» کے نعروں کے ساتھ احتجاجی مظاہرے

شیعہ علما او مراجع تقلید کا رد عمل

مرجع اور رہبر عالم تشیع آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک خطاب میں جبکہ نجف اشرف میں مقیم شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سید علی سیستانی نے اپنے ایک بیانیے میں غزہ پر اسرائیلی فوج کے حملے کی مذمت کی۔ دیگر مراجع تقلید نوری ہمدانی، مکارم شیرازی، جعفر سبحانی اور جوادی آملی نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور فلسطینیوں کی حمایت کی۔[28] آیت اللہ سید خامنہ ای نے اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام کو کھلی نسل کشی قرار دیتے ہوئے صیہونی حکومت کو عالمی عدالت میں پیش کیے جانے اور غزہ پر بمباری کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔[29]

دنیا کے مختلف ممالک کے طلبا اور عوام کا احتجاجی مظاہرہ

غزہ پر صیہونی حکومت کے حملوں کے بعد عالم اسلام اور غیر مسلم ممالک کے مختلف مقامات پر غزہ کے عوام کے قتل عام پر اسرائیلی فوج کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے اور سڑکوں پر جلوس نکالے گئے۔ ترکی، ایران، ملائیشیا، آسٹریلیا، انگلینڈ اور امریکہ ان ممالک میں شامل تھے جنہوں نے فلسطینی مزاحمتی مجاہدین کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔[30]

نیز، امریکہ اور فرانس کی یونیورسٹیوں کے طلباء نے اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کے لوگوں کی نسل کشی اور قتل کے ردعمل میں احتجاج کیا۔[31] اخباری ذرائع کے مطابق اپریل 2024ء میں امریکی پولیس نے صیہونیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے متعدد طلباء کو گرفتار کیا[32] اقوام متحدہ نے خود کو آزادی اظہار بیان کا حامی اور پر امن مظاہروں کو عوام کا حق قرار دیتے ہوئے طلباء کی گرفتاری پر ردعمل ظاہر کیا۔[33]

اسرائیل کی اقتصادی منڈیاں زوال کا شکار

اسرائیلی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے مندی، کرنسی کی قدر میں کمی اور بین الاقوامی برادری میں اسرائیل کی کریڈٹ ریٹنگ کے کمزور ہونے کو اس آپریشن کے نتائج سمجھے جارہے ہیں۔ نیز اسرائیل میں سرمایہ کاری کی مقدار میں کمی کو "طوفان الاقصیٰ آپریشن" کے طویل المدتی نتائج میں سے قرار دیا گیا ہے۔[34] اس کے علاوہ فارس نیوز ایجنسی نے سوئس کمپنی نیسلے اور ہسپانوی کمپنی(Inditex) جیسی بین الاقوامی کمپنیوں کی شاخوں کی بندش کی خبر دی ہے۔[35]

سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی معطلی

بعض اطلاعات کے مطابق الاقصیٰ آپریشن کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا عمل معطل کر دیا ہے۔[36]

جنوبی لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جھڑپیں

حماس کی طرف سے حملے کے دوسرے دن لبنانی حزب اللہ نے بھی ایک پیغام میں اس آپریشن کی حمایت کی اور دعویٰ کیا کہ اس نے صہیونی فوج کے تین ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے۔[37] اس کے علاوہ، طوفان الاقصیٰ کے تیسرے دن، لبنان کی حزب اللہ نے اسرائیل کے ہاتھوں اس کی چند فوجیوں کی ہلاکت کے جواب میں دو صیہونی ٹھکانوں پر راکٹوں اور مارٹروں سے حملہ کیا۔[38]‌‌

فلسطینی علاقوں سے صیہونیوں کی مہاجرت کی الٹی گنتی شروع

بین الاقوامی امور کے ایک ماہر کے تجزیے کے مطابق طوفان الاقصیٰ آپریشن مقبوضہ علاقوں سے صیہونیوں کی نقل مکانی میں شدت کا باعث بنا ہے۔[39] اس کے علاوہ اسٹریٹجک امور کے ماہر محمد حسین قدیری ابیانہ کے مطابق حماس کے اس آپریشن سے نہ صرف مقبوضہ علاقوں کی طرف نقل مکانی رکی ہے؛ بلکہ مقبوضہ علاقوں سے صیہونیوں کی دوسری جگہوں کی طرف مہاجرت شروع ہوئی ہے۔[40]

عراق اور شام میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا

غزہ پر اسرائیل کے حملوں اور عام شہریوں کے قتل عام کے بعد عراقی مزاحمتی مجاہدین نے عراق اور شام میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا۔ ان گروہوں کے عہدیداروں کے مطابق یہ کارروائیاں امریکہ کی طرف سے صیہونی حکومت کی مالی، فوجی اور سیاسی حمایت کے جواب میں کی جاتی ہیں اور یہ اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک اسرائیل غزہ پر اپنے حملے بند نہیں کر دیتا۔ ایرانی اخبار "کیہان اخبار(شائع شدہ: 11 اکتوبر 2023ء)" نے فاکس نیوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ 7 اکتوبر سے عراق اور شام میں امریکی اڈوں کو اسلامی مزاحمتی بلاک کے مجاہدین 42 بار نشانہ بنایا ہے۔[41]

اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم

دنیا کے مختلف ممالک میں لوگوں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے لیے باقاعدہ سے مہم چلائی تاکہ لوگ اسرائیلی مصنوعات کا استعمال بند کریں۔[42] نیز اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل سے ملاقات میں بعض اسلامی ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تیل کی برآمدات بند کرنے کا مطالبہ کیا۔[43]

بعض ممالک کا اسرائیل اور اس کی حامی حکومتوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قطع

غزہ میں شہریوں کی ہلاکت کے ردعمل میں کولمبیا نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لیے اور اسرائیلی سفیر کو ملک بدر کر دیا۔[44] نیز، لیبی حکومت نے انگلستان، امریکہ، فرانس اور اٹلی کے سفیروں کو صیہونی حکومت کی حمایت میں ان کی حکومتوں کے موقف کی وجہ سے طرابلس سے نکال دیا۔[45] ایرانی وزیر خارجہ نے اسلامی تعاون تنظیم کے سکریٹری جنرل سے ملاقات میں اسرائیلی حکومت کے سفیروں کو اسلامی ممالک سے نکالنے کا مطالبہ کیا ہے۔[46] ترکی کی "سعادت اور مستقبل کی سیاسی جماعتوں" کے رہنماؤں نے بھی انقرہ سے تل ابیب کے تعلقات منقطع کرنے اور اسرائیلی سفیر کو ترکی سے ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔[47]

بحیرہ احمر کو اسرائیلی جہازوں کے لیے غیر محفوظ بن گیا

طوفان اقصیٰ آپریشن کے بعد اور اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی پر بمباری اور شہریوں کی ہلاکت کے جواب میں یمن کی تحریک انصار اللہ نے اعلان کیا کہ بحیرہ احمر میں صہیونی بحری جہاز اس کے ہدف ہوں گے۔ لہٰذا، 19 نومبر 2023ء کو بحیرہ احمر میں (Galaxy Leader) نامی تجارتی جہاز پکڑا گیا۔ یہ جہاز ایک اسرائیلی تاجر "رامی اونگر" کا ہے۔[48] نیز، انصار اللہ کے مجاہدین بحیرہ احمر اور آبنائے باب المندب میں اسرائیلی جہازوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی جانب روانہ ہونے والے تجارتی جہازوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔[49]

حوثیوں کی طاقت کو طاقت کو کم کرنے اور ان کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے امریکہ نے یمن کے مختلف علاقوں میں انصار اللہ سے متعلق اہداف کو نشانہ بنایا۔[50] ان حملوں کے باوجود انصار اللہ نے اعلان کیا کہ یہ حملے ان کو فلسطین کی حمایت کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتے ہیں۔[51]

ایران کا اسرائیل پر حملہ

تفصیلی مضمون: ایران کا اسرائیل پر حملہ
14 اپریل سنہ 2024ء کو ایران نے ڈرونز اور میزائلوں سے مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔[52] ان حملوں میں ایران کے کچھ میزائل اسرائیل کے دفاعی نظام سے گزرے اور مقبوضہ فلسطین میں اہداف کو نشانہ بنایا اور دو اسرائیلی فضائی اڈوں کو نقصان پہنچا۔[53] اس حملے کو دنیا کا سب سے بڑا ڈرون حملہ اورایران کی تاریخ کا سب سے بڑا میزائل حملہ سمجھا جاتا ہے۔[54]

یہ حملہ یکم اپریل سنہ 2024ء کو دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیلی فوج کے حملے کے جواب میں کیا گیا تھا۔[55] ایران کی طرف سے فلسطینی مزاحمتی بلاک کی حمایت کے بعد اسرائیلی فوج نے ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا۔ اس حملے میں قدس فورس کے بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی سمیت پاسداران انقلاب اسلامی کے 7 فوجی افسر شہید ہوئے تھے۔[56]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. «دهمین روز از عملیات "طوفان الاقصی"»، شبکه العالم۔
  2. «بازنده اصلی عملیات «طوفان الاقصی» کیست؟»، خبرگزاری دنیای اقتصاد۔
  3. «طوفان الاقصی نقطه عطف زوال قطعی رژیم صهیونیستی است»، مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی۔
  4. «دهمین روز از عملیات "طوفان الاقصی"»، شبکه العالم۔
  5. «لحظه به لحظه با سومین روز از عملیات طوفان الاقصی»، خبرگزاری العالم۔
  6. «مراسم مشترک دانش‌آموختگی دانشجویان دانشگاه‌های افسری نیروهای مسلح»، دفتر و حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔
  7. «دهمین روز از عملیات طوفان الاقصی»، شبکه العالم۔
  8. «لحظه به لحظه با عملیات توفان الاقصی»، شبکه العالم۔
  9. «بازنده اصلی عملیات «طوفان الاقصی» کیست؟»، خبرگزاری دنیای اقتصاد۔
  10. «دوازدهمین روز از عملیات طوفان الاقصی»، شبکه العالم؛ «Palestinian health minister says 3,478 killed in Gaza; Israeli government says 1,400 killed in Israel»، nbcnews۔
  11. «گوترش: جنگ هم دارای قوانینی است»، خبرگزاری آنادولو۔
  12. ملاحطہ کیجیے: «شادی مردم تهران در پی پیروزی مقاومت فلسطین در عملیات طوفان الاقصی»، خبرگزاری ایرنا۔
  13. «شادی مردم افغانستان پس از عملیات طوفان الاقصی»]، خبرگزاری مهر۔
  14. «تصویر اولین جشن عملیات طوفان الاقصی| کارناوال‌های شادی به راه افتادند»، همشهری‌آنلاین۔
  15. «تهران به پشتیبانی همه‌جانبه از مقاومت فلسطین ادامه می‌دهد حمایت ایران از «طوفان‌الاقصی»»، سایت روزنامه دنیای اقتصاد۔
  16. «"أنصار الله": "طوفان الأقصى" كشفت ضعف العدو.. ودعوات إلى الاحتشاد دعماً للعملية». شبکه المیادین.
  17. «لحظه به لحظه با دومین روز از عملیات طوفان الاقصی]»، شبکه العالم۔
  18. «مراسم مشترک دانش‌آموختگی دانشجویان دانشگاه‌های افسری نیروهای مسلح»، دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای۔
  19. «رئیس جمهوری ترکیه حماس را «سازمان آزادی‌بخش» خواند»، وب‌گاه بی‌بی‌سی فارسی۔
  20. «عملیات طوفان الاقصی سرآغاز تحولات بزرگی در جهان اسلام و منطقه است»، شورای نگهبان۔
  21. «لحظه به لحظه با پنجمین روز از عملیات "طوفان الاقصی"»، خبرگزاری العالم۔
  22. «دهمین روز از عملیات "طوفان الاقصی"»، شبکه العالم۔
  23. «لحظه به لحظه با ۱۸۷امین روز حملات رژیم صهیونیستی به باریکه غزه و کرانه باختری فلسطین»، شبکه العالم۔
  24. «الاحتلال يواصل تصعيده بالضفة ويعتقل عددا من الفلسطينيين»، خبرگزاری الجزیره۔
  25. «إسرائيل دمرت أكثر من 305 آلاف منزل في غزة»
  26. «دوازدهمین روز از عملیات طوفان الاقصی»، شبکه العالم۔
  27. «الهدنة الإنسانية المؤقتة في غزة 2023.. بنودها وتفاصيلها»، الجزیره۔
  28. «واکنش مراجع عظام تقلید به جنایات رژیم صهیونیستی»، خبرگزاری مشرق۔
  29. «دیدار نخبگان و استعدادهای برتر علمی با رهبر انقلاب»، دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت‌الله العظمی خامنه‌ای۔
  30. «نهمین روز از عملیات "طوفان الاقصیٰ"»، شبکه العالم.
  31. «جنبش دانشجویی حمایت از فلسطین از آمریکا به فرانسه رسید»، خبرگزاری ایرنا.
  32. «حدود 100 دانشجوی حامی فلسطین در کالیفرنیا بازداشت شدند»، خبرگزاری ایرنا.
  33. «واکنش سازمان ملل به بازداشت دانشجویان حامی فلسطین در دانشگاه‌های آمریکا»، خبرگزاری ایرنا.
  34. «بازنده اصلی عملیات «طوفان الاقصی» کیست؟»، خبرگزاری دنیای اقتصاد۔
  35. «جنگ غزه شرکت‌های بین‌المللی در سرزمین‌های اشغالی را مجبور به تعطیلی کرد»، خبرگزاری فارس۔
  36. «منبع نزدیک به دولت عربستان: ریاض مذاکرات عادی‌سازی با اسرائیل را تعلیق کرد»، خبرگزاری تسنیم۔
  37. «لحظه به لحظه با دومین روز از عملیات طوفان الاقصی]»، شبکه العالم۔
  38. «لحظه به لحظه با سومین روز از عملیات طوفان الاقصی»، خبرگزاری العالم۔
  39. سفال‌گر، «آینده رژیم صهیونیستی در پرتو عملیات "طوفان اقصی"»،‌ سایت تحلیلی طنین۔
  40. «عملیات طوفان الاقصیٰ مهاجرت به سرزمین‌های اشغالی را متوقف كرد»، وبگاه رادیو گفتگو۔
  41. «ارسال 7 هزار تن سلاح آمریکایی به اسرائیل حملات مقاومت به پایگاه‌های آمریکایی شدت گرفت»، روزنامه کیهان، 20 آبان 1402ہجری شمسی۔
  42. ملاحظہ کیجیے: «واکنش کاربران به جنایات رژیم جعلی صهیونیستی؛»، خبرنامه دانشجویان ایران۔
  43. «امیرعبداللهیان: خواستار تحریم فوری و کامل رژیم صهیونیستی توسط کشورهای اسلامی هستیم»، خبرگزاری ایرنا۔
  44. «کلمبیا سفیر رژیم اسرائیل را اخراج کرد»، العالم۔
  45. «لیبی سفرای تعدادی از کشورهای حامی اسرائیل را اخراج کرد»، خبرگزاری ایرنا۔
  46. «امیرعبداللهیان: خواستار تحریم فوری و کامل رژیم صهیونیستی توسط کشورهای اسلامی هستیم»، خبرگزاری ایرنا۔
  47. «درخواست اخراج سفیر رژیم صهیونیستی از ترکیه»، خبرگزاری تسنیم۔
  48. «Yemen’s Houthi rebels seize cargo ship in Red Sea and call Israeli vessels ‘legitimate targets’»، guardian۔
  49. «القصف الأميركي لليمن.. السعودية تدعو لضبط النفس وعدم التصعيد»، الجزیره۔
  50. «ضربات أميركية وبريطانية على أهداف في صنعاء والحديدة والحوثي يتوعد بالرد»، الجزیره۔
  51. «أميركا وبريطانيا تنفذان 48 غارة شمال اليمن والحوثيون: سنواصل دعم غزة»، الجزیره۔
  52. «حمله گسترده موشکی و پهپادی ایران به اسرائیل آغاز شد»، خبرگزاری تسنیم۔
  53. موشک هایپرسونیک ایران به اهداف اسرائیلی اصابت کرد /سفیر سوئیس به جای وزارتخارجه به سپاه احضار شد /موشک‌های بالستیک ظرف ۱۵ دقیقه به اسرائیل رسیدند»، خبرآنلاین۔
  54. Motamedi, "‘True Promise’: Why and how did Iran launch a historic attack on Israel?», Al Jazeera Media Network.
  55. «سرلشکر باقری: گنبد آهنین نتوانست مقابله قابل‌توجهی با عملیات ما داشته باشد»، شبکه العالم۔
  56. «حمله اسرائیل به کنسولگری ایران در سوریه و شهادت ۷ عضو ارشد سپاه (+فیلم و عکس)»، عصر ایران۔

مآخذ