حلالیت طلب کرنا
حَلالیَّتْ طلب کرنا، معافی تلافی یا اِسْتِحْلال سے مراد انسان کے گردن پر واجب حق الناس کے سلسلے میں دوسروں سے معافی طلب کرنا ہے۔ حق الناس کبھی مال سے متعلق ہوتا ہے؛ جیسے کسی کا مال غصب کیا ہو یا ناپ تول میں کمی کی ہو؛ اور کبھی غیر مالی امور سے متعلق ہوتا ہے؛ جیسے کسی مومن کی غیبت کرنا۔ احادیث میں معافی تلافی میں جلدی کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ حق الناس کے معاملے میں خطا کار انسان اگر حق الناس کے معاملے میں دوسروں سے معافی طلب نہ کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے نیک اعمال کو اس شخص کے نامہ اعمال میں شامل کرے گا جس کا حق اس نے ضائع کیا ہے اور خطاکار کا کوئی نیک عمل نہ ہونے کی صورت میں مظلوم کے گناہ کو ظالم کے گناہ میں شامل کردے گا۔
استحلال اور معافی تلافی کبھی واجب ہے اور کبھی حرام۔
مفہوم شناسی
حلالیت طلبی یا استحلال کے معنی خطاکار انسان کا معافی تلافی کرنا[1] اوراسے بخشے جانے کی درخواست کرنا ہے۔[2] یہ مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب کسی کے اوپر کسی کا حق ادا کرنا واجب ہو۔[3] قرآنی اصطلاح کے مطابق حلالیت طلبی کا مطلب انسان کا اس کے واجب الاداء حق کے قید و بند سے رہا ہونا ہے۔[4]
آثار و نتائج
معافی تلافی کرنے یا نہ کرنے کے انسانی زندگی پر کئی قسم کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔[5] اسلامی روایات میں حلالیت طلب کرنے میں جلدی کرنے کی تاکید کی گئی ہے، کیونکہ معافی تلافی نہ کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے نیک اعمال کو اس شخص کے نامہ اعمال میں شامل کرے گا جس کا حق اس نے ضائع کیا ہے اور اس کا کوئی نیک عمل نہ ہونے کی صورت میں مظلوم کے گناہ کو ظالم کے گناہ میں شامل کردے گا۔[6]
شرعی حکم
معافی تلافی کی درخواست کبھی مالی حقوق میں کی جاتی ہے اور کبھی غیر مالی امور میں۔ مالی حقوق جیسے کسی کا مال غصب کیا ہو یا ناپ تول میں کمی کی ہو؛ اور غیرمالی حقوق مثلا کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی غیبت کی ہو۔[7]
مالی حقوق میں معافی تلافی کرنا واجب ہے۔[8] اور غیر مالی امور میں معافی کی درخواست کرنا کبھی واجب اور بعض اوقات مباح ہے۔[9] معافی تلافی کی درخواست کرنا اگر کسی مفسدے یا نقصان کا باعث ہو تو بعض مجتہدین[10] اسے مکروہ[11] اور بعض مجتہدین اسے حرام[12] سمجھتے ہیں۔
آداب و شرائط
قرآن کی رو سے حُسن نیت، اخلاص، راضی ہونے تک صبر کرنا، معذرت خواہی میں حیلہ بہانہ نہ کرنا، موقع پاتے ہی معافی مانگنا اور قلبی طور پر پشیمان ہونا معافی تلافی کے آداب میں سے ہیں۔[13] معافی تلافی اور معذرت خواہی کے لیے کوئی خاص زمان و مکان مختص نہیں، چونکہ حج جیسے بعض اہم عبادات کی ادائیگی کے موقع پر حق الناس ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے[14] اس لیے عام لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ معافی تلافی صرف انہی مواقع میں ضروری ہے یا مثلا زیارت پر جانے سے پہلے ایسا کرنا ضروری سمجھتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔
حوالہ جات
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، ذیل واژہ حلالی خواستن، ج6، ص9175۔
- ↑ معین، لغتنامہ، 1386شمسی، ذیل واژہ استحلال، ج1، ص137۔
- ↑ انصاری، الموسوعۃ الفقہیۃ المیسرۃ، 1424ھ، ج2، ص279۔
- ↑ کریمیان، «عذرخواہی و حلالیتطلبی آداب و آثار آن»، ص6۔
- ↑ حقی، روح البیان، دارالفکر، ج2، ص167.
- ↑ حقی، روحالبیان، دارالفکر، ج2، ص167۔
- ↑ انصاری، الموسوعہ الفقہیۃ المیسرۃ، 1424ھ، ج2، ص280۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1981ء، ج41، ص112۔
- ↑ امام خمینی، استفتائات، 1392شمسی، ج5، ص595، م6769۔
- ↑ دہخدا، لغتنامہ، ج14، ذیل واژہ مفسدہ،1377شمسی، ص21269۔
- ↑ امام خمینی، استفتائات، 1392شمسی، ج5، ص595، م6770۔
- ↑ خویی، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج1، ص11۔
- ↑ کریمیان، «عذرخواہی و حلالیتطلبی آداب و آثار آن»، ص6۔
- ↑ «آداب سفر حج»، پرتال جامع علوم انسانی۔
مآخذ
- قرآن کریم۔
- امام خمینی، استفتائات، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1392ہجری شمسی۔
- انصاری، محمدعلی(خلیفہ شوشتری)، الموسوعۃ الفقہیۃ المیسّرۃ، قم، موسسہ فکر اسلامی، 1424ھ۔
- حقی، اسماعیل، روحالبیان، بیروت، دارالفکر، بیتا۔
- خویی، ابوالقاسم، منہاج الصالحین، قم، مدینہ العلم، 1410ھ۔
- دہخدا، علیاکبر و دیگران، لغتنامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، چاپ دوم، 1377ہجری شمسی۔
- کریمیان، حسین، «عذرخواہی و حلالیتطلبی آداب و آثار آن»، روزنامہ کیہان، تاریخ1395/7/10۔
- معین، محمد، لغتنامہ، تہران، اَدِنا، چاپ چہارم،1386ہجری شمسی۔
- نجفی جواہری، شیخ محمدحسن، جواہرالکلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ ہفتم،1981ء۔