حماس

ویکی شیعہ سے
(تحریک مقاومت فلسطین سے رجوع مکرر)
حماس
ناماسلامی مزاحمتی تنظیم
مقامی نامحَرِکَۃ المُقاوِمَۃ الاسلامیۃ
قائدینعبدالعزیز الرنتیسی • خالد مشعل
موجودہ قیادتاسماعیل ہنیہ
بانیشیخ احمد یاسین
اہدافاسرائیل کے خلاف مسلح جد و جہد اور فلسطین کی آزادی
بنیاد1987ء
مذہبسنی اور اخوان‌ المسلمین
ملکفلسطین


حَماس کا پورا نام اسلامی مزاحمتی تحریک (عربی:حَرِکَۃ المُقاوِمَۃ الاسلامیۃ) ہے جو فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی تنظیم اور أخوان‌ المسلمین کی ایک شاخ ہے۔ یہ تنظیم اسرائیل کے خلاف مسلحانہ جد و جہد اور فلسطین کی آزادی کے لئے سنہ 1987ء کو وجود میں آئی۔

اس تنظیم نے سنہ 2005ء کو سیاست میں حصہ لیا اور سنہ 2007ء کو غَزِّہ کی پٹی میں خودمختار فلسطین کے عنوان سے حکومت قائم کی۔ اس تنظیم نے اب تک اسرائیل کے خلاف کئی مسلحانہ جنگیں لڑی ہیں۔ حماس کے حمایتی اسے ایک قانونی مزاحمتی تنظیم کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ ان کے مخالفین جیسے امریکہ اور برطانیہ انہیں ایک دہشت گرد تنظیم کے عنوان سے ہمیشہ اپنی پابندیوں کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔ حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ہونے والے مسلحانہ حملوں میں طوفان الاَقصی سب سے اہم اور بڑا حملہ تصور کیا جاتا ہے جو 7 اکتوبر سن 2023ء کو کیا گیا۔

مزاحمتی بلاک کے رکن کی حیثیت سے

حَماس یا اسلامی مزاحمتی تحریک، فلسطین کی سنی مزاحمتی تنظیم اور اخوان‌ المسلمین کی ایک شاخ ہے۔[1] یہ تنظیم فلسطین میں برسر پیکار مسلم میلشیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے جو اسرائیل کے خلاف مسلحانہ جد و جہد کے لئے بنائی گئی ہے۔[2] حماس کے منشور کے مطابق اس تنظیم کا ایک اہم ہدف اسرائیل کی نابودی اور یہودیوں کے ساتھ ہر قسم کی مصالحت کی ممانعت ہے۔[3]

حماس اپنی سرگرمیوں کو فرد، خاندان اور معاشرہ کے ترتیب سے انجام دیتا ہے تاکہ فلسطین میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کے لئے زمینہ ہموار کیا جا سکے۔ حماس کے پاس شروع میں فلسطین کو آزاد کرانے کے لئے کوئی لائحہ عمل نہیں تھا لیکن بعد میں مسلحانہ جد و جہد کا آغاز کیا۔[4]

حماس کے حامی انہیں فلسطین کی ایک قانونی مزاحمتی تنظیم قرار دیتے ہیں جو مشخص قوانین کے تحت سرگرم ہیں۔[5] لیکن اس کے مقابلے میں بعض ممالک من جملہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین اسے ایک دہشتگرد تنظیم سمجھتے ہیں اسی لئے ان پر پابندی عاید کرتے چلے آ رہے ہیں۔[6]

اسلامی جمہوریہ ایران کا حماس کی حمایت

حماس کے رہنما شیخ احمد یاسین کی ایران کے سپریم لیڈر آیت‌ اللہ خامنہ‌ ای سے ملاقات

حماس کے مخالفین ہمیشہ ایران کو حماس کا سب سے بڑا مالی، عسکری اور تسلیحاتی حامی قرار دیتے ہیں۔[7] ایران سنہ 1991ء سے مشترک اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے حماس کی حمایت کر رہے ہیں۔ تہران میں حماس کے سیاسی دفتر کی افتتاح اور حماس کے رہنماؤں کا ایران کا سفر اسی حمایت کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ اگرچہ شام میں حکومت مخالف دہشتگردوں اور داعش کے ساتھ جنگ میں نظریاتی اختلافات کی بنا پر حماس اور ایران میں کچھ عرصے کے لئے دوری پیدا ہوگئی تھی۔[8] حماس کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ ایک طرف شیعہ احزاب جیسے حزب‌اللہ لبنان اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رہے تو دوسری طرف دوسرے اسلامی ممالک جیسے سعودی عرب وغیرہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار ہو۔[9]

اسرائیل کے خلاف مسلح جد و جہد

حماس نے متعدد بار اسرائیل کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے ہوئے اسرائیل کے مختلف شہروں کو راکٹوں کے حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ اب تک اسرائیل اور حماس کے درمیان مختلف جنگیں وجود میں آئی ہیں اور ہر دفعہ بعض اسلامی ممالک جیسے قطر یا اقوام متحدہ کی ثالثی کے ذریعے جنگ بندی عمل میں آئی ہے۔ حماس فلسطینیوں کے محدود شرعی مالی واجبات من جملہ زکات اور دیگر اسلامی ممالک جیسے سعودی عرب، مصر، اردن، ایران اور سوڈان وغیرہ کے مالی تعاون سے چل رہا ہے۔[10]

طوفان الاقصی فوجی آپریشن

لندن میں اسرائیل کے خلاف اور طوفان الاقصی عسکری حملے کی حمایت میں "آزادی فلسطین" مظاہرہ۔

7 اکتوبر سنہ 2023ء کو حماس نے مقبوضہ فلسطین پر ایک حیرت انگیز حملہ کیا جو "طوفان‌ الاقصی" کے نام سے مشہور ہوا ہے۔ اس حملے میں اسرائیل کے مختلف شہروں پر راکٹوں سے حملہ کیا گیا اور زمین، ہوا اور دریا کے ذریعے اسرائیل کے مختلف شہروں میں نفوذ کر کے[11] دسیوں اسرائیلیوں کو قیدی بنا کر غزہ پہنچا دیا اور کئی صہیونی شہروں پر موقتی طور پر قبضہ کیا۔[12]

حماس کی طرف سے اسرائیل پر یہ حملہ بے نظیر اور بے مثال حملہ قرار دیا جاتا ہے۔[13] العالَم ٹی وی چینل کے مطابق اسرائیلی میڈیا اسے پوری تاریخ میں حماس کے ہاتھوں اسرائیل کی سب سے بڑی شکست تصور کرتی ہے جس کا اب تک مشاہدہ نہیں کیا گیا تھا۔[14] اس حملے کے دسویں دن تک منتشر ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اب تک تقریبا 1400 اسرائیلی مارے جا جکے ہیں جبکہ 3000 سے بھی زیادہ اسرائیلی اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں۔[15]

اسی طرح اس حملے پر ملا جلا رد عمل بھی سامنے آیا، مختلف اسلامی ممالک من جملہ ایران میں اس پر خوشی کا اظہار کیا گیا[16] اور حماس کی حمایت میں ریلیاں نکالی گئیں۔[17] بعض تجزیہ نگار اس بات کے معتقد ہیں کہ فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اس طرح کے حملات حقیقت میں ان پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کا فطری نتیجہ ہے جو اسرائیل کئی عشروں سے ان پر روا رکھا ہوا ہے۔[18]

حماس کی تشکیل کا تاریخچہ

اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی بنیاد سنہ 1987ء کو فلسطین میں رکھی گئی۔[19] شیخ احمد یاسین کو حماس کے بانیوں میں سے قرار دیا جاتا ہے جو کئی عرصے تک اس تنظیم کا سرپرست رہنے کے بعد سنہ 2004ء میں دہشتگردی کا نشانہ بنا جس کے بعد عبدالعزیز رِنتیسی کو حماس کا رہنما منتخب کیا گیا تھا جنہیں اسی سال قتل کیا گیا۔ اس کے بعد خالد مشعل اور سنہ 2017ء میں اسماعیل ہنیہ حماس کے صدر منتخب ہوئے جسے 31 جولائی سنہ 2024ء کو اسرائیل کی جانب سے تہران میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔[20]

سنہ 2005ء میں حماس نے فلسطین کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور انتخابات جیتنے والی پہلی عرب اسلامی سیاسی تنظیم کے عنوان سے سیاسیت میں قدم رکھا۔ اس کے بعد سنہ 2007ء میں محمود عباس کی قیادت میں کام کرنے والی فتح تنظیم کے ساتھ جنگ کے بعد ان کو شکست دے کر غزہ کی پٹی میں خودمختار فلسطین کے عنوان سے اپنی تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔[21]

حوالہ جات

  1. مالکی، «حماس، جنبش»، ص79۔
  2. «گروہ اسلامگرای حماس چیست؟»، بی‌بی‌سی فارسی۔
  3. «گروہ اسلامگرای حماس چیست؟»، بی‌بی‌سی فارسی۔
  4. رشوان، دلیل الحرکات الاسلامیہ، مرکز الدراسات السیاسیۃ والاستراتیجیۃ، ص147۔
  5. «گروہ اسلامگرای حماس چیست؟»، بی‌بی‌سی فارسی۔
  6. «گروہ اسلامگرای حماس چیست؟»، بی‌بی‌سی فارسی۔
  7. «گزارش واشینگتن‌پست از «نقش تہران» در تأمین نیازہای آموزشی و تسلیحاتی حماس»، رادیو فردا۔
  8. عباسی و تبریزی، «بررسی روابط ایران و جنبش حماس بعد از بیداری اسلامی»، ص55۔
  9. «حماس: روابط ما با ایران دیرینہ و مستمر است»، خبرگزاری فارس۔
  10. مالکی، «حماس، جنبش»، ص82۔
  11. «ابعاد روانی عملیات «طوفان الاقصی» بر ارتش رژیم صہیونیستی»، خبرگزاری مہر۔
  12. Sen, "There is nothing surprising about Hamas’s operation", AlJazeera۔
  13. «واکنش دیپلمات صہیونیست بہ عملیات «بی‌سابقہ» حماس»]، خبرگزاری ایسنا۔
  14. «دہمین روز از عملیات طوفان الاقصی»، شبکہ العالم۔
  15. «دہمین روز از عملیات طوفان الاقصی»، شبکہ العالم۔
  16. «جشن سراسری مردم ایران پس از حملات مقاومت بہ رژیم صہیونیستی»، خبرگزاری فارس۔
  17. «اجتماع بزرگ حوزویان در حمایت از جبہہ مقاومت و فلسطین»، روزنامہ کیہان۔
  18. Sen, "There is nothing surprising about Hamas’s operation", AlJazeera۔
  19. مالکی، «حماس، جنبش»، ص79۔
  20. «گروہ اسلامگرای حماس چیست؟»، بی‌بی‌سی فارسی۔
  21. «گروہ اسلامگرای حماس چیست؟»، بی‌بی‌سی فارسی۔

مآخذ