صحیفہ سجادیہ کی بتیسویں دعا

ویکی شیعہ سے
صحیفہ سجادیہ کی بتیسویں دعا
کوائف
دیگر اسامی:نماز تہجد کی دعا
موضوع:خدا کی توصیف، گناہ کا اعتراف، انسانی خلقت کے مراحل کا بیان، رحمت الہی کی درخواست
مأثور/غیرمأثور:مأثور
صادرہ از:امام سید سجادؑ
راوی:متوکل بن ہارون
شیعہ منابع:صحیفہ سجادیہ
مخصوص وقت:نماز تہجد کے بعد
مشہور دعائیں اور زیارات
دعائے توسلدعائے کمیلدعائے ندبہدعائے سماتدعائے فرجدعائے عہددعائے ابوحمزہ ثمالیزیارت عاشورازیارت جامعہ کبیرہزیارت وارثزیارت امین‌اللہزیارت اربعین


صحیفہ سجادیہ کی بتیسویں دعا، امام سجادؑ کی مأثور دعاؤں میں سے ہے جسے آپ نماز تہجد کے بعد پڑھتے تھے اور اس میں اپنی گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے خدا سے ان گناہوں کی مغفرت کی درخواست کرتے تھے۔ اسی طرح اس دعا میں خدا کے بعض صفات، شیطان کی خصوصیات، انسان میں شیطان کے نفوذ کی راہیں اور جہنم کے عذاب کی خصوصیات بھی بیان کرتے ہوئے ان کے مقابلے میں خدا کی مغفرت، رحمت، خدا کی پناہ مانگنا اور خدا کی شفاعت کو شیطان اور جہنم کے عذاب سے نجات کا راستہ قرار دیا گیا ہے۔

صحیفہ سجادیہ کی شروحات جیسے دیار عاشقان میں حسین انصاریان اور شہود و شناخت میں حسن ممدوحی کرمانشاہی نے فارسی میں جبکہ کتاب ریاض السالکین میں سید علی‌ خان مدنی نے عربی میں اس دعا کی شرح لکھی ہیں۔

دعا و مناجات

مضامین

صحیفہ سجادیہ کی 32ویں دعا امام سجادؑ کی مأثور دعاؤں میں سے ہے جسے آپؑ نماز تہجد سے فارغ ہونے کے بعد پڑھتے تھے۔ اس دعا میں امام علیہ السلام اپنی گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے خدا سے ان کی بخشش اور مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ یہ دعا خدا کے صفات پر مشتمل ہونے نیز خدا کی رحمت کو جلب کرنے کے لئے کی گئی مغذرت خواہی کی بنا پر خاص اہمیت کا حامل ہے۔[1] اس دعا کے مضامین درج ذیل ہیں:

  • خدا کی سلطنت و اقتدار کا ازلی ہونا
  • خدا کی قدرت مطلقہ
  • عزّت خدا کا ازلی ہونا
  • خدا کی ذات اور صفات کا لامتناہی ہونا
  • تعریف کرنے والوں کا خدا کی تعریف سے ناتوان ہونا
  • خدا کی سلطنت کا شکست ناپذیر ہونا
  • تمام مخلوقات پر خدا کی فرمانروائی کی برتری
  • خدا کی کنہ شناخت کا امکان پذیر نہ ہونا
  • خدا کا ازلی اور ابدی ہونا
  • اعمال کی انجام دہی میں انسان کا ناتوان ہونا
  • نامہ عمل میں عبادت کی کمی اور نافرمانی کی زیادتی پر خدا سے معذرت خواہی
  • برے اعمال سے بچنے کے لئے خدا کی پناہ مانگنا
  • انسان کے اعمال پر خدا کے لامحدود علم کا احاطہ
  • خدا کی بارگاہ میں ابلیس کی شکایت، شرّ شیطان سے خدا کی پناہ مانگنا
  • شیطان کی پیروی کا انجام (اہلاکت، معصیت اور خدا کے غضب میں اضافہ)
  • انسانی پستی کا تدریجی ہونا
  • صرف خدا انسان کا پناہ گاہ، شفیع اور نجات‌ دہندہ ہے
  • مغفرت الہی کی درخواست
  • خدا کی بارگاہ میں گناہ کا اعتراف
  • اعمال کی کمی کا اعتراف
  • بندوں کے گناہ اور معصیت کے مقابلے میں خدا کا ان کے عیوب پر پردہ‌ ڈالنا
  • خدا سے خوف و امید (خوف و رجا)
  • اعتماد اور اطمینان کا لائق فقط خدا ہے
  • خدا کی رحمت اور مغفرت بندوں کی امید کا سرچشمہ ہے۔
  • قیامت کے دن خدا سے پردہ پوشی اور ستر عیوب کی درخواست
  • مراحل آفرینش انسان (رحم مادر میں انسان کی حالات کی توصیف)
  • انسانی ترقی اور کمال کے لئے خدا کی مصلحتیں
  • بندوں پر خدا کا فضل و کرم
  • رزق و روزی کی درخواست
  • جہنم کی آگ سے خدا کی پناہ
  • جہنم کے آگ کی خصوصیات
  • جہنم کے عذاب کی اقسام
  • خدا کے فضل و کرم سے جہنم سے نجات کی امید
  • حضرت محمدؐ اور آپ کی آلؑ پر درود و صلوات[2]

شرحیں

صحیفہ سجادیہ کی شرحوں جیسے کتاب دیار عاشقان میں حسین انصاریان،[3] شہود و شناخت میں محمد حسن ممدوحی کرمانشاہی[4] اور شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ میں سید احمد فہری[5] نے اس دعا کی فارسی میں شرح لکھی ہیں۔

اس کے علاوہ کتاب ریاض السالکین میں سید علی‌ خان مدنی[6]، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ میں محمد جواد مغنیہ،[7] ریاض العارفین میں محمد بن محمد دارابی[8] اور آفاق الروح میں سید محمد حسین فضل‌ اللہ[9] نے اس دعا کی عربی میں شرح لکھی ہیں۔ اسی طرح تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ میں فیض کاشانی[10] اور شرح الصحیفہ السجادیہ میں عز الدین جزائری[11] نے اس دعا کے مشکل الفاظ کی وضاحت کی ہیں۔

دعا کا متن اور ترجمہ

متن ترجمہ: (مفتی جعفر حسین)
وَ کانَ مِنْ دُعَائِهِ علیه ‌السلام بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنْ صَلَاةِ اللَّیلِ لِنَفْسِهِ فِی الِاعْتِرَافِ بِالذَّنْبِ

(۱) اللَّهُمَّ یا ذَا الْمُلْک الْمُتَأَبِّدِ بِالْخُلُودِ

(۲) وَ السُّلْطَانِ الْمُمْتَنِعِ بِغَیرِ جُنُودٍ وَ لَا أَعْوَانٍ.

(۳) وَ الْعِزِّ الْبَاقِی عَلَی مَرِّ الدُّهُورِ وَ خَوَالِی الْأَعْوَامِ وَ مَوَاضِی الْأَزمَانِ وَ الْأَیامِ

(۴) عَزَّ سُلْطَانُک عِزّاً لَا حَدَّ لَهُ بِأَوَّلِیةٍ، وَ لَا مُنْتَهَی لَهُ بِآخِرِیةٍ

(۵) وَ اسْتَعْلَی مُلْکک عَلُوّاً سَقَطَتِ الْأَشْیاءُ دُونَ بُلُوغِ أَمَدِهِ

(۶) وَ لَا یبْلُغُ أَدْنَی مَا اسْتَأْثَرْتَ بِهِ مِنْ ذَلِک أَقْصَی نَعْتِ النَّاعِتِینَ.

(۷) ضَلَّتْ فِیک الصِّفَاتُ، وَ تَفَسَّخَتْ دُونَک النُّعُوتُ، وَ حَارَتْ فِی کبْرِیائِک لَطَائِفُ الْأَوْهَامِ

(۸) کذَلِک أَنْتَ اللَّهُ الْأَوَّلُ فِی أَوَّلِیتِک، وَ عَلَی ذَلِک أَنْتَ دَائِمٌ لَا تَزُولُ

(۹) وَ أَنَا الْعَبْدُ الضَّعِیفُ عَمَلًا، الْجَسِیمُ أَمَلًا، خَرَجَتْ مِنْ یدِی أَسْبَابُ الْوُصُلَاتِ إِلَّا مَا وَصَلَهُ رَحْمَتُک، وَ تَقَطَّعَتْ عَنِّی عِصَمُ الْآمَالِ إِلَّا مَا أَنَا مُعْتَصِمٌ بِهِ مِنْ عَفْوِک

(۱۰) قَلَّ عِنْدِی مَا أَعْتَدُّ بِهِ مِنْ طَاعَتِک، و کثُرَ عَلَی مَا أَبُوءُ بِهِ مِنْ مَعْصِیتِک وَ لَنْ یضِیقَ عَلَیک عَفْوٌ عَنْ عَبْدِک وَ إِنْ أَسَاءَ، فَاعْفُ عَنِّی.

(۱۱) اللَّهُمَّ وَ قَدْ أَشْرَفَ عَلَی خَفَایا الْأَعْمَالِ عِلْمُک، وَ انْکشَفَ کلُّ مَسْتُورٍ دُونَ خُبْرِک، وَ لَا تَنْطَوِی عَنْک دَقَائِقُ الْأُمُورِ، وَ لَا تَعْزُبُ عَنْک غَیبَاتُ السَّرَائِرِ

(۱۲) وَ قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَی عَدُوُّک الَّذِی اسْتَنْظَرَک لِغَوَایتِی فَأَنْظَرْتَهُ، وَ اسْتَمْهَلَک إِلَی یوْمِ الدِّینِ لِإِضْلَالِی فَأَمْهَلْتَهُ.

(۱۳) فَأَوْقَعَنِی وَ قَدْ هَرَبْتُ إِلَیک مِنْ صَغَائِرِ ذُنُوبٍ مُوبِقَةٍ، وَ کبَائِرِ أَعْمَالٍ مُرْدِیةٍ حَتَّی إِذَا قَارَفْتُ مَعْصِیتَک، وَ اسْتَوْجَبْتُ بِسُوءِ سَعْیی سَخْطَتَک، فَتَلَ عَنِّی عِذَارَ غَدْرِهِ، وَ تَلَقَّانِی بِکلِمَةِ کفْرِهِ، وَ تَوَلَّی الْبَرَاءَةَ مِنِّی، وَ أَدْبَرَ مُوَلِّیاً عَنِّی، فَأَصْحَرَنِی لِغَضَبِک فَرِیداً، وَ أَخْرَجَنِی إِلَی فِنَاءِ نَقِمَتِک طَرِیداً.

(۱۴) لَا شَفِیعٌ یشْفَعُ لِی إِلَیک، وَ لَا خَفِیرٌ یؤْمِنُنِی عَلَیک، وَ لَا حِصْنٌ یحْجُبُنِی عَنْک، وَ لَا مَلَاذٌ أَلْجَأُ إِلَیهِ مِنْک.

(۱۵) فَهَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِک، وَ مَحَلُّ الْمُعْتَرِفِ لَک، فَلَا یضِیقَنَّ عَنِّی فَضْلُک، وَ لَا یقْصُرَنَّ دُونِی عَفْوُک، وَ لَا أَکنْ أَخْیبَ عِبَادِک التَّائِبِینَ، وَ لَا أَقْنَطَ وُفُودِک الْآمِلِینَ، وَ اغْفِرْ لِی، إِنَّک خَیرُ الْغَافِرِینَ.

(۱۶) اللَّهُمَّ إِنَّک أَمَرْتَنِی فَتَرَکتُ، وَ نَهَیتَنِی فَرَکبْتُ، وَ سَوَّلَ لِی الْخَطَاءَ خَاطِرُ السُّوءِ فَفَرَّطْتُ.

(۱۷) وَ لَا أَسْتَشْهِدُ عَلَی صِیامِی نَهَاراً، وَ لَا أَسْتَجِیرُ بِتَهَجُّدِی لَیلًا، وَ لَا تُثْنِی عَلَی بِإِحْیائِهَا سُنَّةٌ حَاشَا فُرُوضِک الَّتِی مَنْ ضَیعَهَا هَلَک.

(۱۸) وَ لَسْتُ أَتَوَسَّلُ إِلَیک بِفَضْلِ نَافِلَةٍ مَعَ کثِیرِ مَا أَغْفَلْتُ مِنْ وَظَائِفِ فُرُوضِک، وَ تَعَدَّیتُ عَنْ مَقَامَاتِ حُدُودِک إِلَی حُرُمَاتٍ انْتَهَکتُهَا، وَ کبَائِرِ ذُنُوبٍ اجْتَرَحْتُهَا، کانَتْ عَافِیتُک لِی مِنْ فَضَائِحِهَا سِتْراً.

(۱۹) وَ هَذَا مَقَامُ مَنِ اسْتَحْیا لِنَفْسِهِ مِنْک، وَ سَخِطَ عَلَیهَا، وَ رَضِی عَنْک، فَتَلَقَّاک بِنَفْسٍ خَاشِعَةٍ، وَ رَقَبَةٍ خَاضِعَةٍ، وَ ظَهْرٍ مُثْقَلٍ مِنَ الْخَطَایا وَاقِفاً بَینَ الرَّغْبَةِ إِلَیک وَ الرَّهْبَةِ مِنْک.

(۲۰) وَ أَنْتَ أَوْلَی مَنْ رَجَاهُ، وَ أَحَقُّ مَنْ خَشِیهُ وَ اتَّقَاهُ، فَأَعْطِنِی یا رَبِّ مَا رَجَوْتُ، وَ آمِنِّی مَا حَذِرْتُ، وَ عُدْ عَلَی بِعَائِدَةِ رَحْمَتِک، إِنَّک أَکرَمُ الْمَسْئُولِینَ.

(۲۱) اللَّهُمَّ وَ إِذْ سَتَرْتَنِی بِعَفْوِک، وَ تَغَمَّدْتَنِی بِفَضْلِک فِی‌دار الْفَنَاءِ بِحَضْرَةِ الْأَکفَاءِ، فَأَجِرْنِی مِنْ فَضِیحَاتِ‌دار الْبَقَاءِ عِنْدَ مَوَاقِفِ الْأَشْهَادِ مِنَ الْمَلَائِکةِ الْمُقَرَّبِینَ، وَ الرُّسُلِ الْمُکرَّمِینَ، وَ الشُّهَدَاءِ وَ الصَّالِحِینَ، مِنْ جَارٍ کنْتُ أُکاتِمُهُ سَیئَاتِی، وَ مِنْ ذِی رَحِمٍ کنْتُ أَحْتَشِمُ مِنْهُ فِی سَرِیرَاتِی.

(۲۲) لَمْ أَثِقْ بِهِمْ رَبِّ فِی السِّتْرِ عَلَی، وَ وَثِقْتُ بِک رَبِّ فِی الْمَغْفِرَةِ لِی، وَ أَنْتَ أَوْلَی مَنْ وُثِقَ بِهِ، وَ أَعْطَی مَنْ رُغِبَ إِلَیهِ، وَ أَرْأَفُ مَنِ اسْتُرْحِمَ، فَارْحَمْنِی.

(۲۳) اللَّهُمَّ وَ أَنْتَ حَدَرْتَنِی مَاءً مَهِیناً مِنْ صُلْبٍ مُتَضَایقِ الْعِظَامِ، حَرِجِ الْمَسَالِک إِلَی رَحِمٍ ضَیقَةٍ سَتَرْتَهَا بِالْحُجُبِ، تُصَرِّفُنِی حَالًا عَنْ حَالٍ حَتَّی انْتَهَیتَ بی‌إِلَی تَمَامِ الصُّورَةِ، وَ أَثْبَتَّ فِی الْجَوَارِحَ کمَا نَعَتَّ فِی کتَابِک: نُطْفَةً ثُمَّ عَلَقَةً ثُمَّ مُضْغَةً ثُمَّ عَظْماً ثُمَّ کسَوْتَ الْعِظَامَ لَحْماً، ثُمَّ أَنْشَأْتَنِی «خَلْقاً آخَر»َ کمَا شِئْتَ.

(۲۴) حَتَّی إِذَا احْتَجْتُ إِلَی رِزْقِک، وَ لَمْ أَسْتَغْنِ عَنْ غِیاثِ فَضْلِک، جَعَلْتَ لِی قُوتاً مِنْ فَضْلِ طَعَامٍ وَ شَرَابٍ أَجْرَیتَهُ لِأَمَتِک الَّتِی أَسْکنْتَنِی جَوْفَهَا، وَ أَوْدَعْتَنِی قَرَارَ رَحِمِهَا.

(۲۵) وَ لَوْ تَکلُنِی یا رَبِّ فِی تِلْک الْحَالاتِ إِلَی حَوْلِی، أَوْ تَضْطَرُّنِی إِلَی قُوَّتِی لَکانَ الْحَوْلُ عَنِّی مُعْتَزِلًا، وَ لَکانَتِ الْقُوَّةُ مِنِّی بَعِیدَةً.

(۲۶) فَغَذَوْتَنِی بِفَضْلِک غِذَاءَ الْبَرِّ اللَّطِیفِ، تَفْعَلُ ذَلِک بی‌تَطَوُّلًا عَلَی إِلَی غَایتِی هَذِهِ، لَا أَعْدَمُ بِرَّک، وَ لَا یبْطِئُ بی‌حُسْنُ صَنِیعِک، وَ لَا تَتَأَکدُ مَعَ ذَلِک ثِقَتِی فَأَتَفَرَّغَ لِمَا هُوَ أَحْظَی لِی عِنْدَک.

(۲۷) قَدْ مَلَک الشَّیطَانُ عِنَانِی فِی سُوءِ الظَّنِّ وَ ضَعْفِ الْیقِینِ، فَأَنَا أَشْکو سُوءَ مُجَاوَرَتِهِ لِی، وَ طَاعَةَ نَفْسِی لَهُ، وَ أَسْتَعْصِمُک مِنْ مَلَکتِهِ، وَ أَتَضَرَّعُ إِلَیک فِی صَرْفِ کیدِهِ عَنِّی.

(۲۸) وَ أَسْأَلُک فِی أَنْ تُسَهِّلَ إِلَی رِزْقِی سَبِیلًا، فَلَک الْحَمْدُ عَلَی ابْتِدَائِک بِالنِّعَمِ الْجِسَامِ، وَ إِلْهَامِک الشُّکرَ عَلَی الْإِحْسَانِ وَ الْإِنْعَامِ، فَصَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ سَهِّلْ عَلَی رِزْقِی، وَ أَنْ تُقَنِّعَنِی بِتَقْدِیرِک لِی، وَ أَنْ تُرْضِینِی بِحِصَّتِی فِیمَا قَسَمْتَ لِی، وَ أَنْ تَجْعَلَ مَا ذَهَبَ مِنْ جِسْمِی وَ عُمُرِی فِی سَبِیلِ طَاعَتِک، إِنَّک خَیرُ الرَّازِقِینَ.

(۲۹) اللَّهُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِک مِنْ نَارٍ تَغَلَّظْتَ بِهَا عَلَی مَنْ عَصَاک، وَ تَوَعَّدْتَ بِهَا مَنْ صَدَفَ عَنْ رِضَاک، وَ مِنْ نَارٍ نُورُهَا ظُلْمَةٌ، وَ هَینُهَا أَلِیمٌ، وَ بَعِیدُهَا قَرِیبٌ، وَ مِنْ نَارٍ یأْکلُ بَعْضَهَا بَعْضٌ، وَ یصُولُ بَعْضُهَا عَلَی بَعْضٍ.

(۳۰) وَ مِنْ نَارٍ تَذَرُ الْعِظَامَ رَمِیماً، وَ تَسقِی أَهْلَهَا حَمِیماً، وَ مِنْ نَارٍ لَا تُبْقِی عَلَی مَنْ تَضَرَّعَ إِلَیهَا، وَ لَا تَرْحَمُ مَنِ اسْتَعْطَفَهَا، وَ لَا تَقْدِرُ عَلَی التَّخْفِیفِ عَمَّنْ خَشَعَ لَهَا وَ اسْتَسْلَمَ إِلَیهَا تَلْقَی سُکانَهَا بِأَحَرِّ مَا لَدَیهَا مِنْ أَلِیمِ النَّکالِ وَ شَدِیدِ الْوَبَالِ

(۳۱) وَ أَعُوذُ بِک مِنْ عَقَارِبِهَا الْفَاغِرَةِ أَفْوَاهُهَا، وَ حَیاتِهَا الصَّالِقَةِ بِأَنْیابِهَا، وَ شَرَابِهَا الَّذِی یقَطِّعُ أَمْعَاءَ وَ أَفْئِدَةَ سُکانِهَا، وَ ینْزِعُ قُلُوبَهُمْ، وَ أَسْتَهْدِیک لِمَا بَاعَدَ مِنْهَا، وَ أَخَّرَ عَنْهَا.

(۳۲) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَجِرْنِی مِنْهَا بِفَضْلِ رَحْمَتِک، وَ أَقِلْنِی عَثَرَاتِی بِحُسْنِ إِقَالَتِک، وَ لَا تَخْذُلْنِی یا خَیرَ الْمُجِیرِینَ

(۳۳) اللَّهُمَّ إِنَّک تَقِی الْکرِیهَةَ، وَ تُعْطِی الْحَسَنَةَ، وَ تَفْعَلُ مَا تُرِیدُ، وَ أَنْتَ عَلَی کلِّ شَیءٍ قَدِیرٌ

(۳۴) اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، إِذَا ذُکرَ الْأَبْرَارُ، وَ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، مَا اخْتَلَفَ اللَّیلُ وَ النَّهَارُ، صَلَاةً لَا ینْقَطِعُ مَدَدُهَا، وَ لَا یحْصَی عَدَدُهَا، صَلَاةً تَشْحَنُ الْهَوَاءَ، وَ تَمْلَأُ الْأَرْضَ وَ السَّمَاءَ.

(۳۵) صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ حَتَّی یرْضَی، وَ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ بَعْدَ الرِّضَا، صَلَاةً لَا حَدَّ لَهَا وَ لَا مُنْتَهَی، یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ.

نماز شب کے بعد کی دعا

(۱) اے اللہ! اے دائمی و ابدی بادشاہت والے!

(۲) اور لشکر و اعوان کے بغیر مضبوط فرمانروائی والے!

(۳) اور ایسی عزّت و رفعت والے جو صدیوں، سالوں، زمانوں اور دنوں کے بیتنے گزرنے کے باوجود پائندہ و برقرار ہے۔

(۴) تیری بادشاہی ایسی غالب ہے جس کی ابتدا کی کوئی حد ہے اور نہ انتہا کا کوئی آخری کنارہ ہے۔

(۵) اور تیری جہانداری کا پایہ اتنا بلند ہے کہ تمام چیزیں اس کی بلندی کو چھونے سے قاصر ہیں۔

(۶) اور تعریف کرنے والوں کی انتہائی تعریف تیری اس بلندی کے پست ترین درجہ تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔

(۷) جسے تو نے اپنے لئے مخصوص کیا ہے۔ صفتوں کے کارواں تیرے بارے میں سرگرداں ہیں۔ اور توصیفی الفاظ تیرے لائق حال مدح تک پہنچنے سے عاجز ہیں اور نازک تصوّرات تیرے مقام کبریائی میں ششدر و حیران ہیں۔

(۸) تو وہ خدائے ازلی ہے جو ازل ہی سے ایسا ہے اور ہمیشہ بغیر زوال کے ایسا ہی رہے گا۔

(۹) میں تیرا وہ بندہ ہوں جس کا عمل کمزور اور سرمایۂ امید زیادہ ہے۔ میرے ہاتھ سے تعلق اور وابستگی کے رشتے جاتے رہے ہیں۔ مگر وہ رشتہ جسے تیری رحمت نے جوڑ دیا ہے۔ اور امیدوں کے وسیلے بھی ایک ایک کرکے ٹوٹ گئے ہیں۔ مگر تیرے عفو و درگزر کا وسیلہ جس پر سہارا کئے ہوئے ہوں۔

(۱۰) تیری اطاعت جسے کسی شمار میں لا سکوں، نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ معصیت جس میں گرفتار ہوں بہت زیادہ ہے۔ تجھے اپنے کسی بندے کو معاف کر دینا اگرچہ وہ کتنا ہی برا کیوں نہ ہو دشوار نہیں ہے۔ تو پھر مجھے بھی معاف کر دے۔

(۱۱) اے اللہ! تیرا علم تمام پوشیدہ اعمال پر محیط ہے اور تیرے علم و اطلاع کے آگے ہر مخفی چیز ظاہر و آشکار ہے اور باریک سے باریک چیزیں بھی تیری نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں اور نہ راز ہائے درون پردہ تجھ سے مخفی ہیں۔

(۱۲) تیرا وہ دشمن جس نے میرے بے راہرو ہونے کے سلسلہ میں تجھ سے مہلت مانگی اور تو نے اسے مہلت دی، اور مجھے گمراہ کرنے کے لئے روز قیامت تک فرصت طلب کی اور تو نے اسے فرصت دی۔

(۱۳) مجھ پر غالب آ گیا ہے۔ اور جبکہ میں ہلاک کرنے والے صغیرہ گناہوں سے تیرے دامن میں پناہ لینے کے لئے بڑھ رہا تھا اس نے مجھے آ گرایا۔ اور جب میں گناہ کا مرتکب ہوا اور اپنی بداعمالی کی وجہ سے تیری ناراضی کا مستحق بنا تو اس نے اپنے حیلہ و فریب کی باگ مجھ سے موڑ لی۔ اور اپنے کلمۂ کفر کے ساتھ میرے سامنے آ گیا۔ اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کیا اور میری جانب سے پیٹھ پھیرا کر چل دیا اور مجھے کھلے میدان میں تیرے غضب کے سامنے اکیلا چھوڑ دیا۔ اور تیرے انتقام کی منزل میں مجھے کھینچ تان کر لے آیا۔

(۱۴) اس حالت میں کہ نہ کوئی سفارش کرنے والا تھا جو تجھ سے میری سفارش کرے اور نہ کوئی پناہ دینے والا تھا، جو مجھے عذاب سے ڈھارس دے اور نہ کوئی چاردیواری تھی جو مجھے تیری نگاہوں سے چھپا سکے، اور نہ کوئی پناہ گاہ تھی جہاں تیرے خوف سے پناہ لے سکوں۔

(۱۵) اب یہ منزل میرے پناہ مانگنے اور یہ مقام میرے گناہوں کے اعتراف کرنے کا۔ لہذا ایسا نہ ہوکہ تیرے دامن فضل (کی وسعتیں) میرے لئے تنگ ہوجائیں اور عفو و درگذر مجھ تک پہنچنے ہی نہ پائے اور نہ توبہ گزار بندوں میں سب سے زیادہ ناکام ثابت ہوں اور نہ تیرے پاس امیدیں لے کر آنے والوں میں سب سے زیادہ ناامید رہوں (بار الہا!) مجھے بخش دے اس لئے کہ تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

(۱۶) اے اللہ! تو نے مجھے (اطاعت کا) حکم دیا مگر میں اسے بجا نہ لایا اور (برے اعمال سے) مجھے روکا مگر ان کا مرتکب ہوتا رہا۔ اور برے خیالات نے جب گناہ کو خوشنما کرکے دکھایا تو (تیرے احکام میں) کوتاہی کی۔

(۱۷) میں نہ روزہ رکھنے کی وجہ سے دن کو گواہ بنا سکتا ہوں اور نہ نماز شب کی وجہ سے رات کو اپنی سپر بنا سکتا ہوں اور نہ کسی سنت کو میں نے زندہ کیا ہے کہ اس سے تحسین و ثنا کی توقع کروں سوائے واجبات کے کہ جو انہیں ضائع کرے وہ بہرحال ہلاک و تباہ ہوگا

(۱۸) اور نوافل و شرف کی وجہ سے جو تجھ سے توسّل نہیں کر سکتا درصورتی کہ تیرے واجبات کے بہت سے شرائط سے غفلت کرتا رہا اور تیرے احکام کے حدود سے تجاوز کرتا ہوا محارم شریعت کا دامن چاک کرتا رہا، اور کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہوتا رہا جن کی رسوائیوں سے صرف تیرا دامن عفو و رحمت پردہ پوش رہا۔

(۱۹) یہ (میرا موقف) اس شخص کا موقف ہے جو تجھ سے شرم سے و حیا کرتے ہوئے اپنے نفس کو برائیوں سے روکتا ہو، اور اس پر ناراض ہو اور تجھ سے راضی ہو، اور تیرے سامنے خوفزدہ دل، خمیدہ گردن اور گناہوں سے بوجھل پیٹھ کے ساتھ امید و بیم کی حالت میں ایستادہ ہو۔

(۲۰) اور تو ان سب سے زیادہ سزاوار ہے۔ جن سے اس نے اس لگائی اور ان سب سے زیادہ حقدار ہے جن سے وہ ہراساں و خائف ہوا۔ اے میرے پروردگار! جب یہی حالت میری ہے تو مجھے بھی وہ چیز مرحمت فرما، جس کا میں امیدوار ہوں۔ اور اس چیز سے مصمئن کو جس سے خائف ہوں اور اپنی رحمت کے انعام سے مجھ پر احسان فرما۔ اس لئے کہ تو ان تمام لوگوں سے جن سے سوال کیا جاتا ہے زیادہ سخی و کریم ہے۔

(۲۱) اے اللہ! جب کہ تو نے مجھے اپنے دامن عفو میں چھپا لیا ہے اور ہمسروں کے سامنے اس دار فنا میں فضل و کرم کا جامہ پہنایا ہے۔ تو دار بقا کی رسوائیوں سے بھی پناہ دے۔ اس مقام پر کہ جہاں مقرب فرشتے، معزّز و باوقار پیغمبر، شہید و صالح افراد سب حاضر ہوں گے۔ کچھ تو ہمسائے ہوں گے جن سے میں اپنی برائیوں کو چھپاتا ریا ہوں، اور کچھ خویش و اقارب ہوں گے جن سے میں اپنے پوشیدہ کاموں میں شرم و حیا کرتا رہا ہوں۔

(۲۲) اے میرے پروردگار! میں نے اپنی پردہ پوشی میں ان پر بھروسہ نہیں کیا اور مغفرت کے بارے میں پروردگارا تجھ پر اعتماد کیا ہے اور تو ان تمام لوگوں سے جن پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ زیادہ سزاوار اعتماد اور ان سب سے زیادہ عطا کرنے والا ہے جن کی طرف رجوع ہوا جاتا ہے اور ان سب سے زیادہ مہربان ہے جن سےرحم کی التجا کی جاتی ہے، لہذا مجھ پر رحم فرما۔

(۲۳) اے اللہ! تو نے مجھے باھم پیوستہ ہڈیوں اور تنگ راہوں والی صلب سے تنگ نائے رحم میں کہ جسے تو نے پردوں میں چھپا رکھا ہے ایک ذلیل پانی (نطفہ) کی صورت میں اتارا جہاں تو مجھے ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل کرتا رہا یہاں تک کہ تو نے مجھے اس حد تک پہنچا دیا۔ جہاں میری صورت کی تکمیل ہو گئی۔ پھر مجھ میں اعضاء و جوارح ودیعت کئے۔ جیسا کہ تو نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ (میں) پہلے نطفہ تھا۔ پھر منجمد خون ہوا پھر گوشت کا ایک لوتھڑا، پھر ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ پھر ان ہڈیوں پر گوشت کی تہیں چڑھا دیں۔ پھر جیسا تو نے چاہا ایک دوسری طرح کی مخلوق بنا دیا۔

(۲۴) اور میں تیری روزی کا محتاج ہوا اور لطیف و احسان کی دستگیری سے بے نیاز نہ رہ سکا۔ تو تو نے اس بچے ہوئے کھانے پانی میں سے جسے تو نے اس کنیز کے لئے جاری کیا تھا جس کے شکم میں تو نے مجھے ٹھہرا دیا اور جس کے رحم میں مجھے ودیعت کیا تھا۔ میری روزی کا سر و سامان کر دیا۔

(۲۵) اے میرے پروردگار! ان حالات میں اگر تو خود میری تدبیر پر مجھے چھوڑ دیتا یا میری ہی قوت کے حوالے کر دیتا تو تدبر مجھ سے کنارہ کش اور قوت مجھ سے دور رہتی؛

(۲۶) مگر تو نے اپنے مضل و احسان سے ایک شفیق و مہربان کی طرح میری پرورش کا اہتمام کیا جس کا تیرے مضل بے پایاں کی بدولت اے وقت تک سلسلہ جاری ہے کہ نہ تیرے حسن سلوک سے کبھی محروم رہا اور نہ تیرے احسانات میں کبھی تاخیر ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود یقین و اعتماد قوی نہ ہوا کہ میں صرف اسی کام کے لئے وقف ہو جاتا جو تیرے نزدیک میرے لئے زیادہ سودمند ہے۔

(۲۷) (اس بے یقینی کا سبب یہ ہے کہ) بدگمانی اور کمزوری یقین کے سلسلہ میں میری باگ شیطان کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے میں اس کی بد ہمسائیگی اور اپنے نفس کی فرمانبرداری کا شکوہ کرتا ہوں اور اس کے تسلّط سے تیرے دامن میں تحفّظ و نگہداشت کا طالب ہوں۔

(۲۸) اور تجھ سے عاجزی کے ساتھ التجا کرتا ہوں کہ اس کے مکر و فریب کا رخ مجھ سے موڑ دے۔ اور تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ میری روزی کی آسان سبیل پیدا کر دے۔ تیرے ہی لئے حمد و ستائش ہے کہ تو نے ازخود بلند پایہ نعمتیں عطا کیں اور احسان و انعام پر (دل میں) شکر کا القا کیا۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور میرے لئے روزی کو سہل و آسان کر دے اور جو اندازہ میرے لئے مقرر کیا ہے۔ اس پر قناعت کی توفیق دے اور جو حصّہ میرے لئے معین کیا ہے، اس پر مجھے راضی کر دے اور جو جسم کام میں آ چکا ہے اور عمر گزر چکی ہے۔ اسے اپنی اطاعت کی راہ میں محسوب فرما۔ بلاشبہ تو اسباب رزق مہیّا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

(۲۹) بار الہا! میں اس آگ سے پناہ مانگتا ہوں جس کے ذریعے تو نے اپنے نافرمانوں کی سخت گرفت کی ہے۔ اور جس سے تو نے ان لوگوں کو جنہوں نے تیری رضا و خوشنودی سے رخ موڑ لیا، ڈرایا اور دھمکایا ہے اور اس آتش جہنّم سے پناہ مانگتا ہوں جس میں روشنی کے بجائے اندھیرا جس کا خفیف لپکا بھی انتہائی تکلیف دہ اور جو کوسوں دور ہونے کے باوجود (گرمی و تپش کے لحاظ سے) قریب ہے اور اس آگ سے پناہ مانگتا ہوں جو آپس میں ایک دوسرے کو کھا لیتی ہے اور ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی ہے۔

(۳۰) اور اس آگ سے پناہ مانگتا ہو ںجو ہڈیوں کو خاکستر کر دے گی اور دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی پلائے گی۔ اور اس آگ سے کہ جو اس کے آگے گڑگڑائے گا۔ اس پر ترس نہیں کھائے گی اور جو اس سے رحم کی التجا کرے گا۔ اس پر رحم نہیں کرے گی اور جو اس کے سامنے فروتنی کرے گا۔ اور خود کو اس کے حوالے کر دے گا۔ اس پر کسی طرح کی تخفیف کا اسے اختیار نہیں ہو گا۔ وہ درد ناک عذاب اور شدید عقاب کی شعلہ سامانیوں کے ساتھ اپنے رہنے والوں کا سامان کرے گی۔

(۳۱) (بار الہا!) میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں جہنم کے بچھوؤں سے جن کے منہ کھلے ہوئے ہوں گے اور ان سانپوں سے جو دانتوں کو پیس پیس کر پھنکار رہے ہوں گے اور اس کے کھولتے ہوئے پانی سے جو انتڑیوں اور دلوں کو ٹکرے ٹکرے کر دے گا اور (سینوں کو چیر کر) دلوں کو نکال لے گا۔ خدایا ! میں تجھ سے توفیق مانگتا ہوں ان باتوں کی جو اس آگ سے دور کریں، اور اسے پیچھے ہٹا دیں۔

(۳۲) خداوندا! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور مجھے اپنی رحمت فراواں کے ذریعہ اس آگ سے پناہ دے اور حسن درگزر سے کام لیتے ہوئے میری لغزشوں کو معاف کر دے اور مجھے محروم و ناکام نہ کر۔

(۳۳) اے پناہ دینے والوں میں سب سے بہتر پناہ دینے والے خدایا تو سختی و مصیبت سے بچاتا اور اچھی نعمتیں عطا کرتا اور جو چاہے وہ کرتا ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

(۳۴) اے اللہ! جب بھی نیکوکاروں کا ذکر آئے تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور جب تک شب و روز کے آنے جانے کا سلسلہ قائم رہے تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما۔ ایسی رحمت جس کا ذخیرہ ختم نہ ہو اور جس کی گنتی شمار نہ ہو سکے۔ ایسی رحمت جو فضائے عالم کو پر کر دے اور زمین وآسمان کو بھر دے۔

(۳۵) خدا ان پر رحمت نازل کرے اس حد تک کہ وہ خوشنود ہو جائے اور خوشنودی کے بعد بھی ان پر اور ان کی آل پر رحمت نازل کرتا رہے۔ ایسی رحمت جس کی کوئی حد نہ ہو اور نہ کوئی انتہا۔ اے تمام رحم کرنے والوں میں سے سب سے زیادہ رحم کرنے والے!


حوالہ جات

  1. ممدوحی کرمانشاہی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۳۵۔
  2. ممدوحی، شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۸۶-۱۵۷؛ شرح فرازہای دعای سی و دوم از سایت عرفان۔
  3. انصاریان، دیار عاشقان، ۱۳۷۳ش، ج۷، ص۱۹۷-۲۲۶۔
  4. ممدوحی، کتاب شہود و شناخت، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۷۷-۱۵۷۔
  5. فہری، شرح و تفسیر صحیفہ سجادیہ، ۱۳۸۸ش، ج۳، ص۱۹-۶۳۔
  6. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ۱۴۳۵ق، ج۵، ص۵-۱۲۲۔
  7. مغنیہ، فی ظلال الصحیفہ، ۱۴۲۸ق، ص۴۰۱-۴۱۸۔
  8. دارابی، ریاض العارفین، ۱۳۷۹ش، ص۴۱۷-۴۴۱۔
  9. فضل‌ اللہ، آفاق الروح، ۱۴۲۰ق، ج۲، ص۱۶۱-۱۸۸۔
  10. فیض کاشانی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۷ق، ص۶۸۔
  11. جزایری، شرح الصحیفہ السجادیہ، ۱۴۰۲، ص۱۷۰-۱۷۹۔

مآخذ

  • انصاریان، حسین، دیار عاشقان: تفسیر جامع صحیفہ سجادیہ، تہران، پیام آزادی، ۱۳۷۲ ہجری شمسی۔
  • جزایری، عزالدین، شرح الصحیفۃ السجادیۃ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، ۱۴۰۲ھ۔
  • دارابی، محمد بن محمد، ریاض العارفین فی شرح الصحیفہ السجادیہ، تحقیق حسین درگاہی، تہران، نشر اسوہ، ۱۳۷۹ ہجری شمسی۔
  • فضل‌ اللہ، سید محمد حسین، آفاق الروح، بیروت، دارالمالک، ۱۴۲۰ھ۔
  • فہری، سید احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، اسوہ، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔
  • فیض کاشانی، محمد بن مرتضی، تعلیقات علی الصحیفہ السجادیہ، تہران، مؤسسہ البحوث و التحقیقات الثقافیہ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مدنی شیرازی، سید علی‌ خان، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین، قم، مؤسسہ النشر الاسلامی، ۱۴۳۵ھ۔
  • مغنیہ، محمد جواد، فی ظلال الصحیفہ السجادیہ، قم، دار الکتاب الاسلامی، ۱۴۲۸ھ۔
  • ممدوحی کرمانشاہی، حسن، شہود و شناخت، ترجمہ و شرح صحیفہ سجادیہ، مقدمہ آیت ‌اللہ جوادی آملی، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۸ ہجری شمسی۔

بیرونی روابط