ذوالجناح

ویکی شیعہ سے
ذوالجناح کا مینیاتوری تصویر

ذوالجَناح امام حسینؑ کے گھوڑے کا نام ہے جس نے روز عاشورا اپنی پیشانی کو امام حسینؑ کے بدن کے خون سے رنگین کر کے آپؑ کی شہادت کی خبر خیمگاہ لے آیا۔ زیارت ناحیۀ مقدسہ میں اس گھوڑے کا نام جواد ذکر ہوا ہے۔

شیعوں کے ہاں ذوالجناح کا ایک خاص مقام ہے اور عاشورائی ادبیات میں اس کو یاد کیا جاتا ہے اور ہنرمندوں نے اس کی عکاسی کی ہے۔

نام

ذوالجناح عربی میں پَر والے کے معنی میں ہے اور اصلاح میں پرندوں سے تشبیہ دیتے ہوئے چابک اور تیز گھوڑے کو بھی کہا جاتا ہے۔[1] شیعہ ادبیات میں ذوالجناح، امام حسینؑ کے گھوڑے کو کہا جاتا ہے۔[2] کہا گیا ہے کہ ذوالجناح بہت تیز اور چابک تھے اور میدانِ جنگ میں بہت تیزی سے عکس العمل دکھاتا تھا اور تیزی میں پرندوں کی طرح تھا اسی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔[3]

بعض کا کہنا ہے کہ ذوالجناح پیغمبر اکرمؐ کے گھوڑوں میں سے ایک تھا جو ارث میں سیدالشہداءؑ کو ملا تھا۔[4] اور زیارت ناحیۀ مقدسہ میں اس کو جواد کا نام دیا گیا ہے۔[یادداشت 1][5][یادداشت 2]

وفاداری

ذوالجناح کی وفاداری

جب امام حسینؑ نے چار ہزار کے پہرداروں کو ہٹا کر اپنے آپ کو نہر فرات تک پہنچایا اور ذوالجناح فرات پر پہنچا اور بڑی تیزی سے اپنے منہ کو پانی کے قریب کردیا تاکہ پانی پی سکے امام نے فرمایا تم بھی پیاسے ہو اور میں بھی پیاسا لیکن خدا کی قسم جب تک تم سیراب نہیں ہوجاو گے میں پانی نہیں پیوں گا۔ جب گھوڑے نے امام کی یہ باتیں سنی، اپنا سر اٹھایا اور پانی نہیں پیا۔ امام کی بات کو سمجھ گیا۔ پھر امام نے کہا پانی پیو، میں بھی پیوں گا۔

مآخذ، ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، 1379ھ، ج4، ص58

ارباب مقاتل اور راویوں نے ذوالجناح کی وفاداری اور چابکی کے بارے میں بہت ساری روایات نقل کی ہیں[6] اور اس کو عظمت کے ساتھ اسے یاد کیا ہے بالخصوص جب امام حسینؑ شدت پیاس اور زخموں سے خونریزی کی وجہ سے نڈھال ہوئے تو ذوالجناح نے بڑی پھرتی سے امامؑ کو میدان سے باہر لے آیا تاکہ خیمگاہ پہنچا سکے لیکن پہنچنے سے پہلے امام زین سے زمین پر گر پڑے۔ ابن سعد نے آواز دی اور کہا اس گھوڑے کو پکڑو خدا کی قسم بہت قیمتی اور پیغمبر اکرمؐ کا گھوڑا ہے۔ جب عمرسعد کی فوج اسے پکڑنا چاہی تو ذوالجناح نے ان پر حملہ کیا اور پاؤں سے مار کر کچھ کو ہلاک کیا۔ ابن شہر آشوب نے ذوالجناح کے مارے ہوئے افراد کی تعداد 40 بتائی ہے جبکہ بعض نے اس سے بھی زیادہ ذکر کیا ہے۔ ابن سعد نے اسے چھوڑنے کا کہا ورنہ بہت سارے مارے جانے کا اندیشہ تھا۔[7]

امام کی شہادت کی خبر خیمگاہ پہنچانا

جب امام حسینؑ ذوالجناح کی زین سے زمین پر آگئے تو ذوالجناح امام کے بدن پر آیا اور امام کے خستہ بدن کے گرد گھومتا تھا، بدن کو سونگھتا تھا اور بوسے لیتا تھا۔ پھر اپنی پیشانی کو امام کے خون سے آلودہ کیا جبکہ اپنے پاوں کو زمین پر مارتا تھا اور ہنہناتے ہوئے خیمگاہ کو چلا[8] خیمگاہ پہنچ کر ہنہنانے لگا اور اپنے سر کو زمین پر مارنے لگا؛ جب اہل حرم نے ذوالجناح کو اس حالت میں دیکھا تو خیموں سے باہر آئے اور اس کے سر اور بدن پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ ام کلثوم نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے سر پر رکھ کر فرمایا: وامحمداہ واجداہ وانبیاہ..[9] یہ مصائب کا واقعہ خطباء اپنی مجالس میں بیان کرتے ہیں۔[10]

خونی کہ روی یال تو پیداست، ذو الجناحخون ہمیشہ جاری مولاست، ذو الجناح
یک قطرہ آفتاب بہ روی تنت نشستبوی خدا ز یال تو برخاست، ذو الجناح

سرانجام

روزہ عاشورا، ذوالجناح کے انجام کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف رائے پائی جاتی ہے؛

  • بعض کا کہنا ہے کہ سید الشہداء کی شہادت کی خبر خیمگاہ لانے کے بعد ذوالجناح نے اپنے سر کو زمین سے مارا اور خیمگاہ کے سامنے مرگیا۔[11]
  • بعض کا کہنا ہے کہ امامؑ کی شہادت سے پہلے مرگیا اور امامؑ کچھ عرصہ عبیداللہ بن زیاد کی لشکر کے ساتھ پیدل لڑتے رہے اور پھر شہید ہوئے۔[12]
  • جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ ذوالجناح خیمگاہ سے لب فرات کی جانب گیا اور خود کو دریا میں غرق کردیا۔[13]

ہنری آثار

تابلوی عصر عاشورا

صفوی دور کے بعد خاص کر قاجاریہ دور میں ذوالجناح عزاداری کے ادبیات میں شامل ہوا اور نماد یا ماتمی نشانی کے طور پر مشہور ہوا۔[14] عمان سامانی اپنی کتاب گنجینة الاسرار میں زبان حال امام یوں بیان کرتا ہے۔[15]:

ای سبک‌پر، ذوالجناح تیز تک گرد نعلت سرمہ چشم ملک
ای سماوی جلوہ قدسی خرام‌ای ز مبدأ تا معادت نیم گام
‌ای بہ رفتار از تفکر تیزتر وز براق عقل چابک‌خیزتر

عاشورا کے ادبیات میں ذوالجناح کا تذکرہ ہوتا ہے اور عربی، فارسی اور اردو اشعار میں اسے وفاداری سے یاد کیا جاتا ہے۔ روز عاشورا ایک گھوڑے کو شہسوار کے بغیر اور سرخ رنگ سے رنگین، اور ایک تیر لٹکاتے ہوئے عزاداروں کے بیچ امام حسینؑ کی شہادت کی نشانی بناکر لے آے ہیں۔ شیعہ نقاش نے بھی قدیم الایام سے ذوالجناح کی حزین اور دردناک تصویر کشی کی ہے۔[16]

فرشچیان نے عصر عاشورا ذوالجناح کی خیمگاہ واپسی کو اپنے قلم سے نقاشی کی ہے جس میں خواتین اہل حرم ذوالجناح کے گرد جمع ہیں۔ یہ نقاشی حرم رضاء کے عجائب گھر میں رکھی گئی ہے اس کے اب تک لاکھوں نسخے مختلف سائز میں چھپے ہیں۔[17]

ذوالجناح عزاداری میں

بعض ممالک میں عاشورا کے دن بغیر سوار کے ایک گھوڑے کو ذوالجناح کی شبیہ کے طور پر جلوس میں لایا جاتا ہے جس کے بدن کو سرخ رنگ سے مزین کیا جاتا ہے۔ اور اس پر مختلف تیر بھی لٹکائے جاتے ہیں۔[18] ذوالجناح جنوبی ایشاء اور مشرقی ایشاء کے ممالک (ہند، پاکستان، اندونزی) میں خاص اہمیت کے حامل ہے اور عزاداری کے آئین میں سے ایک ہے۔[19] ان ممالک میں تاسوعا اور عاشورا کے دن ایک گھوڑے کو سجا کر ذوالجناح کی شبیہ کے طور پر لایا جاتا ہے اور عزاداری کے دستوں میں اسے پھیرایا جاتا ہے اور لوگ اس سے تبرک کرتے ہیں۔[20]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، 1395، ص233.
  2. مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، 1395، ص233.
  3. اخلاقی، تحقیق و پژوہش در تاریخ زندگانی امام حسین، 1377شمسی، ص680،647.
  4. المقرم، مقتل الحسین علیہ‌السلام، 1426ھ، ص297.
  5. قمی، مفاتیح الجنان، ذیل «زیارت ناحیہ مقدسہ».
  6. ملاحظہ کریں: اخلاقی، تحقیق و پژوہش در تاریخ زندگانی امام حسین، 1377شمسی، ص680،647.
  7. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌طالب، 1379ھ، ج4، ص58؛ مقرم، مقتل الحسین علیہ‌السلام، 1426ھ، ص297.
  8. مجلسی، بحارالانوار، 1404ھ، ج44، ص321.
  9. قمی، منتہی‌الآمال، 1379شمسی، ج2، ص910؛ مجلسی، بحارالانوار، 1404ھ، ج44، ص321.
  10. مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، 1395، ص234.
  11. قمی، منتہی‌الآمال، 1379شمسی، ج2، ص909.
  12. ملاحظہ ہو: اخلاقی، تحقیق و پژوہش در تاریخ زندگانی امام حسین، 1377شمسی، ص684.
  13. محدّثی، فرہنگ عاشورا، 1417ھ، ص 180.
  14. مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، 1395، ص235.
  15. عمان سامانی، گنجینة الاسرار، 1371شمسی، ص127.
  16. شہیدی صالحی، «ذوالجناح»، ج8، ص46.
  17. شہیدی صالحی، «ذوالجناح»، ج8، ص46.
  18. مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص235.
  19. مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص235.
  20. مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، 1395شمسی، ص235.

نوٹ

  1. حَتّی نَکسُوک عَنْ جَوادِک... فَلَمّا رَأَینَ النِّسآءُ جَوادَک َ مَخْزِیاً
  2. جواد عربی میں گھوڑوں کے القاب میں سے ہے جو نجیب نسل اور تیز و چابک گھوڑے کو کہا جاتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ زیارت ناحیہ میں جواد سے مراد امام کے گھوڑے کا نام نہیں بلکہ گھوڑوں کی ایک قسم ہے جس کی صفت جواد ہے؛ کیونکہ اس زیارت میں امام کے نام کو «فرس» سے بھی یاد کیا گیا ہے۔ (وَ أَسْرَعَ فَرَسُک َ شارِداً إِلی خِیامِک) عربی ضرب المثل میں ہے («الجواد» یکبُو) یعنی تیز گھوڑا بھی کبھی گرتا ہے۔ یا "قَدْ یعْثُرُ الجَوَاد". المیدانی، أبوالفضل، مجمع الامثال، ج1، ص72 و 301

مآخذ

  • ابن شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، قم، مؤسسہ انتشارات علامہ، 1379ھ۔
  • اخلاقی، محمد اسحاق، تحقیق و پژوہش در تاریخ زندگانی امام حسین(ع)، قم، موسسہ فرہنگی ثقلین، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
  • المقرّم، عبد الرزاق، مقتل الحسین علیہ‌السلام، بیروت، مؤسسة الخرسان للمطبوعات، 1426ھ۔
  • سامانی، عمان، گنجینة الاسرار، تہران، اسوہ، 1371ہجری شمسی۔
  • شہیدی صالحی، عبدالحسین، «ذوالجناح»، در دایرة المعارف تشیع، ج8، تہران، نشر شہید سعید محبی، 1379ہجری شمسی۔
  • قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان.
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال فی تواریخ النبی و الآل، قم، دلیل ما، چاپ اول، 1379ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، 1404ھ۔
  • محدثی،‌ جواد، فرہنگ عاشورا، قم، نشر معروف، چاپ دوم، 1417ھ۔
  • مظاہری، محسن‌حسام، فرہنگ سوگ شیعی، تہران، خیمہ، 1395ہجری شمسی۔

بیرونی روابط