ابراہیم بن ادہم

ویکی شیعہ سے
ابراہیم بن ادہم
ذاتی کوائف
نام:ابراہیم بن ادہم
تاریخ پیدائش:80 یا 100 ھ
محل زندگی:بلخ، نیشاپور، مکہ اور شام
وفات:160 ھ
مدفن:شام
صحابی:امام سجادؑ، امام باقرؑ و امام صادقؑ
حدیثی معلومات
نقل حدیث:امام باقرؑ
مشایخ:محمد بن زیاد جمحی، ابی اسحاق، مالک بن دینار، اعمش
شہرت:عرفان و زہد


اِبراہیم بن اَدہَم (80-161 ھ) بزرگ عرفاء اور تین شیعہ ائمہؑ، یعنی امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے معاصرین میں سے تھے۔ ان کا نام متقدم شیعہ کتب رجال میں ذکر نہیں ہوا ہے، لیکن بعض انہیں شیعہ اور صوفی مذہب قرار دیتے ہیں۔

آپ کا تعلق بلخ کے اشراف اور حکمران خاندان سے تھا، لیکن اچانک زہد کی طرف مائل ہو گئے۔ ابراہیم توبہ کرنے کے بعد مکہ چلے گئے اور وہاں پہنچ کر سفیان ثوری اور فضیل عیاض جیسے عرفاء کی ہم نشینی اختیار کی۔ کچھ عرصہ بعد شام چلے گئے اور آخر عمر تک وہیں مقیم رہے۔ انہیں بعض صوفی طریقت‌ جیسے طریقت ادہمیہ اور نقشبندیہ کا سربراہ مانا جاتا ہے۔

آپ کی زندگی، نصایح اور کردار و گفتار کا تذکرہ بہت سارے عرفانی آثار میں ملتا ہے۔ شادی اور صاحب فرزند ہونے کو زہد کے ساتھ ناسازگار مانتے تھے۔ شقیق بلخی آپ کے اہم ترین شاگردوں میں جانا گیا ہے۔

زندگی ‌نامہ

ابراہیم بن ادہم بن سلیمان بن منصور بلخی دوسری صدی ہجری کے زاہد[1] اور عرفاء میں سے تھے۔[2] آپ کی کنیت ابو اسحاق[3] اور آپ کو "العجلی" نیز کہا جاتا تھا۔[4] ابراہیم ادہم 80ھ[5] یا 100ھ[6] کو شہر بلخ کہ اس وقت خراسان کا حصہ تھا میں ایک ایرانی [7] یا عرب خاندان بنی‌ تمیم[8] میں پیدا ہوئے۔[9] کتاب تاریخ اسلام کے مولف ذہبی اس بات کے معتقد ہیں کہ ابراہیم ادہم ان کے والدین کے سفر حج کے دوران مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔[10]

ابراہیم اور ان کے باپ دادا شہر بلخ کے امراء[11] حاکم[12] اور اشراف میں سے تھے،[13] لیکن تاریخی منابع کے مطابق انہوں نے تاج و تخت اور زرق و برق کی زندگی کو خیرباد کہہ کر زہد اور فقر کی زندگی گزارنی شروع کی اور عرفان و سلوک اور صوفی طرز زندگی اپنائی۔[14]

مختلف کتابوں من جملہ عرفانی آثار میں ان کی زندگی‌ نامہ، کردار و گفتار اور نصایح سے متعلق مختلف مطالب ذکر کرتے ہیں۔[15] بعد منابع مانند تذکرۃ الاولیای عطار نیشابوری میں ان کی خضر نبی کے ساتھ ملاقات اور خدا کے اسم اعظم سے ان کی آگاہی کے بارے میں بھی لکھتے ہیں۔[16]

زہد اختیار کرنا

مختلف اسلامی، منابع میں ابراہیم ادہم کی زہد کی طرف مائل ہونے اور ترک دنیا کے مختلف دلائل بیان کئے ہیں؛ من جملہ ان میں شکار کے دوران کسی غیبی آواز کا سننا،[17] یا کسی ہرن کا گویا ہونا،[18] یا کسی مزدور کو دیکھنا جو کم ترین سہولیات زندگی کے ساتھ زندگی سے لطف اندوز ہونا۔[19] چنانچہ خود انہی کی زبانی نقل ہوا ہے کہ زہد کی طرف مائل ہونا اور ترک دنیا کے دلائل کو درج ذیل موراد بیان کرتے ہیں: قبر کی وحشت اور تنہائی سے خوف، قیامت کا طولانی سفر اور زاد راہ کا نہ ہونا، خدا کی جباریت اور کسی غذر کا نہ ہونا۔[20] [یادداشت 1]

ان کے مطابق زہد کی دنیا میں وارد ہونا اور صالحین کے مقام تک پہنچنے کے کچھ شرائط ہیں؛‌ من جملہ یہ کہ: نعمتوں کا دروازہ بند کرنا اور سختیوں کا دروازہ کھولنا، عزت کا دروازہ بند کرنا اور ذلت کا دروازہ کھولنا، آرام و راحت کا دروازہ بند کرنا اور جد و جہد کا دروازہ کھولنا، نیند کا دروازہ بند کرنا اور بیداری کا دروازہ کھولنا، بے نیازی کا دروازہ بند کرنا اور فقر و تندستی کا دروازہ کھولنا، آرزوؤں کا دروازہ بند کرنا اور موت کا دروازہ کھولنا۔[21]

معاصر قلم کار محسن قرائتی ابراہیم ادہم کے مورد نظر زہد کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہیں[22] اور کہتے ہیں کہ اس طرح کی زہد سے پیغمبر اسلامؐ نے منع کیا ہے۔[23] ابراہیم ادہم شادی اور صاحب اولاد ہونے کو زہد کے منافی[24] اور گوشہ نشینی کو ضروری سمجھتے ہیں۔[25]

مکہ اور شام کی طرف ہجرت

ابراہیم ادہم توبہ کرنے کے بعد نیشاپور چلا گئے اور 9 سلا تک "البثراء" نامی پہاڑ کے کسی غار میں زندگی بسر کی[26] اور اس کے بعد انہوں نے مکہ ہجرت کی۔[27] اہل سنت کے مورخ اور محدث ذہبی کے مطابق انہوں نے ابو مسلم خراسانی کے خوف سے بلخ سے باہر جانے کا ارادہ کیا تھا۔[28] ابراہیم ادہم مکہ میں سفیان ثوری اور فضیل بن عیاض جیسے عرفاء سے آشنا ہو گئے[29] اس کے بعد انہوں نے شام کا سفر کیا۔[30] ابراہیم ادہم کو شام میں زہد و عرفان کے رواج کا سبب قرار دیتے ہیں۔[31]

وفات

مختلف تاریخی منابع میں ابراہیم ادہم کی تاریخ وفات مختلف ہے اس بنا پر 160 ھ[32] 161 ھ[33]، 162 ھ[34]، یا 166 ھ[35] کو ان کی تاریخ وفات کے طور پر ذکر کئے ہیں۔ آپ طبیعی موت وفات پا گئے؛[36] اگرچہ بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ آپ رومیوں کے ساتھ لڑی گئی کسی غزوہ یا جنگ میں[37] روم کے شہر "سوقین" میں مارے گئے۔[38] ان کے محل دفن کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور شام کے ساحلی شہر منطقہ صور ان میں سے ایک ہے۔[39]

مقام و منزلت

ابراہیم ادہم حسن بصری (متوفی 110 ھ)، مالک دینار، رابعہ عدویہ، شقیق بلخی اور معروف کرخی (متوفی 200 ھ) کے ساتھ اسلامی عرفان و تصوف کے پہلے طبقے میں شامل ہیں۔[40] [یادداشت 2] بعض معتقد ہیں کہ صوفی کا نام ہی ابراہیم ادہم کے زمانے سے رائج ہوا۔[41]

بلخ کے صوفی من جملہ ابراہیم ادہم مکتب بصرہ سے متأثر تھے اس بنا پر زہد، عبادت، خوف اور فقر میں بہت زیادہ شدت اختیار کرتے تھے۔[42] ابراہیم ادہم اسی طرح تصوف و عرفان کے چیدہ اشخاص من جملہ حسن بصری اور سفیان ثوری سے بھی متأثر تھے۔[43] لیکن شام کا مکتب تصوف کافی حد تک خود ابراہیم ادہم سے متأثر تھے[44] اور زہد اور عبادت‌ نیز صوفیانہ ریاضتوں میں ابراہیم ادہم سے متأثر تھے۔[45]

ابراہیم ادہم من جملہ محدثین میں بھی شمار ہوتے ہیں[46] اور اہل سنت کتب رجال میں ان کی بہت زیادہ مدح کی گئی ہے اور انہیں ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔[47] مذہب حنفیہ کے امام ابو حنیفہ [48] اور جنید بغدادی انہیں نہایت قابل احترام القاب کے ساتھ یاد کرتے ہیں؛[49] یہاں تک کہ یہ یالقاب عرفانی اشعار میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔[50] صوفی شاعر اور قلم کار زین العابدین شیروانی (1194-1253 ھ) کے مطابق متقدم شیعہ کتب رجال میں ابراہیم ادہم کا نام ذکر نہیں ہوا ہے۔[51] شیعہ فقیہ سید محسن اعرجی کاظمی (1130-1227 ھ) ابراہیم ادہم کو کمیل بن زیاد، بشر بن حارث مروزی اور بایزید بسطامی کے ساتھ شیعہ صوفیوں میں سے قرار دیتے ہیں۔[52]

آپ کو بعض صوفی طریقت کے سربراہ مانے جاتے ہیں؛[53] اس بنا پر طریقت ادہمیہ[54] اور نقشبندیہ خود کو ابراہیم ادہم کے توسط سے امام سجادؑ سے متصل قرار دیتے ہیں۔[55] [یادداشت 3]

معصومینؑ سے ارتباط

ابراہیم ادہم امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے ہم عصر تھے اور ان ہستیوں کے ساتھ ان کے ارتباط کے بارے میں منابع میں آیا ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ آپ امام سجاد کے ملازم تھے۔[56] ابراہیم ادہم اور امام سجادؑ کی ملاقات اور امام کی طرف سے کئے جانے والے نصایح بھی شیعہ منابع میں ذکر ہوئے ہیں۔[57]

زین العابدین شیروانی ابراہیم ادہم اور امام باقر کی ملاقات کا ذکر کرتے ہیں[58] اور عصر قاجار کے شاعر اور صوفی محمد کاظم اسرار تبریزی (1265-1315 ھ) انہیں امام محمد باقر کے مریدوں میں شمار کرتے ہیں۔[59] ان کے توسط سے امام باقرؑ سے بعض احادیث بھی حدیثی آثار میں ذکر ہوئی ہیں۔[60]

کتاب سفینۃ البحار اور دیگر منابع میں آیا ہے کہ امام صادقؑ کے کوفہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کے موقع پر ابراہیم ادہم بھی آپ کے مشایعت‌ کرنے والوں میں سے تھے[61] اور بعض منابع میں ابراہیم ادہم کو امام صادقؑ کا خادم قرار دیا ہے۔[62]

اساتید اور شاگرد

ابراہیم ادہم نے امام باقرؑ، محمد بن زیاد جمحی، ابی اسحاق، مالک بن دینار، اعمش اور اپنے والد سے احادیث نقل کی ہیں۔[63]

ان کے سب سے معروف‌ شاگرد شقیق بلخی ہیں جو بزرگ عرفاء اور امام کاظمؑ کے شاگردوں میں سے تھے[64] اور مشہور کے مطابق آپ [65] ابراہیم ادہم کے مرید اور تربیت ‌یافتہ[66] یا ساتھی اور ہم صحبت تھے۔[67]

شعر اور ادبیات میں ان کا تذکرہ

ابراہیم ادہم کی شیوہ زندگی، کردار اور نصایح کی عکاسی شعرا کے اشعار خاص کر عارفان میں دیکھا جا سکتا ہے یہاں تک کہ مختلف موضوعات جیسے زندگی ‌نامہ،[68] توبہ کی داستان، زہد کی طرف مائل ہونا،[69] سبب ہجرت،[70] حضرت خضر کے ساتھ ملاقات،[71] مناجات،[72] کرامات‌،[73] اور دیگر مختلف موضوعات میں[74] ان کی حکایات کو شعر کی صورت میں بیان کئے گئے ہیں۔

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. ابراہیم بن ادہم کا زہد کی طرف مائل ہونے کے مزید دلائل بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ مزید معلومات کے لئے رجوع کریں: عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۶؛ فاطمی، گنجینہ اخلاق؛ جامع الدرر فاطمی، ۱۳۸۴ش، ج۲، ص۱۵۴؛ مستملی بخاریی، شرح التعرف لمذہب التصوف، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۰۲۔
  2. اگرچہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ امام علیؑ کے بعض اصحاب جیسے سلمان فارسی، اویس قرنی، کمیل بن زیاد، رشید ہجری اور میثم تمار عرفان و تصوف کے پہلے طبقے میں ہیں اور عرفاء نے امام علیؑ کے بعد ان کی پیروی کی ہیں؛(طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۱۱۰۔)
  3. بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ ابراہیم ادہم طریقت میں فضیل عیاض کے توسط سے اور وہ عبد الواحد بن زید کے توسط سے اور وہ کمیل بن زیاد کے توسط سے امیرالمومنینؑ سے متصل ہیں۔ (شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸۔) سلسلہ چشتیہ اس سلسلہ کو مانتے ہیں؛(شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۴۰۔) اگرچہ بعض معتقد ہیں کہ ادہمیہ اور چشتیہ ابراہیم ادہم کے توسط سے امام باقرؑ سے متصل ہیں۔ (شیروانی، ریاض السیاحۃ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸؛ شیروانی، بستان السیاحہ، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۷۔) اسی طرح سلسلہ حسینیہ بھی ابراہیم ادہم کے توسط سے امام باقرؑ تک پہنچتے ہیں۔ (شیروانی، بستان السیاحہ، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۶۔)

حوالہ جات

  1. سہرودی، عوارف المعارف، ۱۳۷۵ش، ص۴۔
  2. طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۱۱۰۔
  3. سلمی، طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵؛ ہجویری، کشف المحجوب، ۱۳۷۵ش، ص۱۲۸۔
  4. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷، ج۱۰، ص۱۳۵۔
  5. فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۱۲۹۔
  6. ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۳۸۷-۳۸۸
  7. پیر جمال اردستانی، مرآت الأفراد، ۱۳۷۱ش، ص۳۳۲۔
  8. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱۰، ص۴۴؛ فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۱۲۹۔
  9. سلمی، طبقات الصوفیہ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵۔
  10. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱۰، ص۴۵۔
  11. سلمی، طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵۔
  12. مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ص۴۸۔
  13. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱۰، ص۴۵؛ خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔
  14. سجادی، فرہنگ معارف اسلامی، ۱۳۷۳ش، ج۱، ص۱۲۶؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ص۲۳۷۔
  15. نمونہ کے لئے ملاحظہ کریں: عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۹۴؛ قشیری، رسالہ قشیریہ، ۱۳۷۴ش، ص۳۴۵، ۴۳۰، ۴۵۵؛ ہجویری، کشف المحجوب، ۱۳۷۵ش، ص۱۲۹؛ مستملی بخاریی، شرح التعرف لمذہب التصوف، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۲۶؛ نسفی، راز ربانی اسرار الوحی سبحانی، ۱۳۷۸ش، ص۱۲۷، ۱۶۳؛ سہروردی، عوارف المعارف، ۱۳۷۵ش، ص۳؛ غزالی، ترجمہ احیاء علوم الدین، ۱۳۸۶ش، ج۳، ص۱۸۵؛ سلمی، مجموعۃ آثار السلمی، ۱۳۶۹ش، ج۱، ص۳۶۶؛ غزالی، کیمیای سعادت، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۳۶۳؛ میبدی، کشف الأسرار و عدۃ الأبرار، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۴۵۱؛ سمعانی، روح الأرواح فی شرح أسماء الملک الفتاح، ۱۳۸۴ش، ص۱۶۹، ۵۱۳؛ انصاریان، عرفان اسلامی، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۴۶۲؛ مشکینی، نصایح و سخنان چہاردہ معصوم(ع) و ہزار و یک سخن، ۱۳۸۲ش، ص۱۶۵؛ فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۹۲؛ فیض کاشانی، راہ روشن، ۱۳۷۲ش، ج۵، ص۲۲۰؛ دیلمی، ترجمہ إرشاد القلوب دیلمی، ۱۳۴۹ش، ج۲، ص۲۷۷؛ کراجکی، نزہۃ النواظر در ترجمہ معدن الجواہر، تہران، ص۷۷؛ جامی، نفحات الأنس، ۱۸۵۸م، ص۴
  16. عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۸؛ شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۱؛ ابن خمیس الموصلی، مناقب الأبرار و محاسن الأخیار فی طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۵۱۔
  17. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، ج۱۰، ص۱۳۵؛ سلمی، طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵؛ ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۷؛ مناوی، الکواکب الدریۃ فی تراجم السادۃ الصوفیۃ، ۱۹۹۹م، ج۱، ص۱۹۵؛ زقزوق، موسوعۃ التصوف الاسلامی، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۲؛ ابن خمیس الموصلی، مناقب الأبرار و محاسن الأخیار فی طبقات الصوفیہ، ۱۴۲۷ق، ج۱، ص۵۱۔
  18. ہجویری، کشف المحجوب، ۱۳۷۵ش، ص۱۲۸۔
  19. مظاہری، اخلاق و جوان، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۱۰۳۔
  20. مشکینی، نصایح و سخنان چہاردہ معصوم(ع) و ہزار و یک سخن، ۱۳۸۲ش، ص۱۶۵۔
  21. سہروردی، عوارف المعارف، ۱۳۷۵ش، ص۳۔
  22. قرائتی، گناہ ‌شناسی، ۱۳۸۶ش، ص۱۹۷۔
  23. قرائتی، گناہ ‌شناسی، ۱۳۸۶ش، ص۱۹۷۔
  24. عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۹۳؛ کاشانی، مجموعہ رسائل و مصنفات کاشانی، ۱۳۸۰ش، ص۵۴؛ شہید ثانی، منیۃ المرید، ۱۴۰۹ق، ص۲۲۸؛ فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۹۲۔
  25. فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۹۲۔
  26. زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس، ۱۴۱۴ق، ج۶، ص۴۷۔
  27. عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۷۔
  28. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱۰،ص۴۴۔
  29. سلمی، طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵؛ فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۱۲۹۔
  30. ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۷۔
  31. کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷۔
  32. خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔
  33. سلمی، طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵؛ ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۹؛ روزبہان ثانی، تحفۃ أہل العرفان، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۔
  34. ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۲۸۲؛ پیر جمال اردستانی، مرآت الأفراد، ۱۳۷۱ش، ص۳۳۲۔
  35. خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔
  36. خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷ بہ نقل از تذکرہ الاولیا
  37. روزبہان ثانی، تحفۃ أہل العرفان، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۔
  38. زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس،۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۲۳۲؛ خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔
  39. ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۹؛ مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کریں: زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۳۱۔
  40. احمد پور، کتاب‌ شناخت اخلاق اسلامی، گزارش تحلیلی میراث مکاتب اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۳۷۔
  41. احمد پور، کتاب‌ شناخت اخلاق اسلامی، گزارش تحلیلی میراث مکاتب اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۳۷
  42. سلمی، مجموعۃ آثار أبوعبد الرحمن سلمی، ۱۳۶۹ش، ج۲، ص۳۵۸۔
  43. کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷۔
  44. کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷۔
  45. کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷۔
  46. دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، ذیل واژہ ابراہیم ادہم، ص۴۰۵
  47. شیروانی، ریاض السیاحۃ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۲۔
  48. عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۶۔
  49. عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۵۔
  50. اسیری لاہیجی، أسرار الشہود فی معرفہ الحق المعبود، بی‌تا، ص۱۸۲۔
  51. شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۱۔
  52. اعرجی کاظمی، عدۃ الرجال، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۶۰۔
  53. شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۷؛ میرزا شیرازی، مناہج أنوار المعرفۃ فی شرح مصباح الشریعۃ، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵۔
  54. گولپینارلی، مولانا جلال الدین، ۱۳۶۳ش، ص۲۴۶؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ۱۳۷۲ش، ص۳۰۹۔
  55. میرزا شیرازی، مناہج أنوار المعرفۃ فی شرح مصباح الشریعۃ، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵۔
  56. شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۹۰۔
  57. نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۱۱۸؛ قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۸۹۔
  58. شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۹۰۔
  59. تبریزی، منظر الأولیاء، ۱۳۸۸ش، ص۱۴۰۔
  60. ابن طاووس، مہج الدعوات و منہج العبادات، ۱۴۱۱ق، ص۷۵۔
  61. قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۱، ص۲۸۹؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۴۱۔
  62. جزائری، ریاض الأبرار فی مناقب الأئمۃ الأطہار، ۱۴۲۷ق، ج۲، ص۱۳۶؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل أبی طالب(ع)، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۲۴۸؛ مجلسی، زندگانی حضرت امام جعفر صادق(ع)، ۱۳۹۸ق، ص۲۲۔
  63. ذہبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱۰، ص۴۴۔
  64. سجادی، فرہنگ معارف اسلامی، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۰۶۸
  65. فقیر اصطہباناتی، خرابات، ۱۳۷۷ش، ص۱۲۴۔
  66. صفی علی شاہ، عرفان الحق، ۱۳۷۱ش، ص۱۲۱؛ مطہری، مجموعہ آثار، ۱۳۷۷ش، ص۴۸۔
  67. سلمی، طبقات الصوفیۃ انصاری، ۱۴۲۴ق، ص۱۸۔
  68. شاہ نعمت اللہ ولی، دیوان شاہ نعمت اللہ ولی، ۱۳۸۰ش، ص۹۹۶؛ عطار نیشابوری، الہی ‌نامہ عطار، ۱۳۵۵ق، ص۲۱۹؛ اسیری لاہیجی، أسرار الشہود فی معرفہ الحق المعبود، بی‌تا، ص۱۸۲۔
  69. خلخالی، رسائل فارسی ادہم خلخالی، ۱۳۸۱ش، ص۱۴۱۔
  70. مولوی، مثنوی معنوی، ۱۳۷۳ش، ص۵۲۰۔
  71. عطار نیشابوری، الہی ‌نامہ عطار، ۱۳۵۵ق، ص۲۷۷۔
  72. عطار نیشابوری، الہی ‌نامہ عطار، ۱۳۵۵ق، ص۴۰۲
  73. مولوی، مثنوی معنوی، ۱۳۷۳ش، ص۲۷۹۔
  74. عطار نیشابوری، مصیبت نامہ، ۱۳۵۴ق، ص۲۲۵؛ مولوی، دیوان کبیر شمس، ۱۳۸۴ش، ص۷۱۷؛ عطار نیشابوری، الہی‌ نامہ عطار، ۱۳۵۵ق، ص۶۹، ۳۵۰؛ فیض کاشانی، دیوان فیض کاشانی، ۱۳۸۱ش، ج۴، ص۷۹؛ عطار نیشابوری، مظہر العجائب و مظہر الاسرار، ۱۳۲۳ش، ص۹۸؛ فیض کاشانی، عرفان مثنوی، ۱۳۷۹ش، ص۱۷۸۔

مآخذ

  • ابن الملقن، عمر بن علی المصری، طبقات الأولیاء، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، چاپ دوم، ۱۴۲۷ق۔
  • ابن خمیس الموصلی، حسین بن نصر بن محمد، مناقب الأبرار و محاسن الأخیار فی طبقات الصوفیۃ، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۷ق۔
  • ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، قم، علامہ، ۱۳۷۹ق۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی، مہج الدعوات و منہج العبادات، قم،‌ دار الذخایر، ۱۴۱۱ق۔
  • ابن عماد حنبلی دمشقی، شہاب الدین ابو الفلاح، شذرات الذہب فی اخبار من ذہب، تحقیق الأرناؤوط، بیروت، دار ابن کثیر، ۱۴۰۶ق۔
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت،‌ دار الفکر، ۱۴۰۷ق۔
  • احمد پور، مہدی، کتاب ‌شناخت اخلاق اسلامی، قم، پژوہشگاہ علوم و فرہنگ اسلامی، ۱۳۸۵ش۔
  • اسیری لاہیجی، محمد، أسرار الشہود فی معرفہ الحق المعبود، بی‌جا، بی‌تا۔
  • اعرجی کاظمی، محسن بن حسن، عدۃ الرجال، قم، اسماعیلیان، ۱۴۱۵ق۔
  • انصاریان، حسین، عرفان اسلامی: شرح مصباح الشریعۃ، قم،‌ دار العرفان، ۱۳۸۶ش۔
  • پیر جمال اردستانی، مرآت الأفراد، تہران، انتشارات زوار، چاپ اول، ۱۳۷۱ش۔
  • تبریزی، محمد کاظم بن محمد، منظر الأولیاء، تہران، کتابخانہ و مرکز اسناد مجلس شواری اسلامی، ۱۳۸۸ش۔
  • جامی، عبد الرحمن، نفحات الأنس، کلکتہ، مطبعہ لیسی، ۱۸۵۸م۔
  • جزائری، نعمت اللہ بن عبداللہ، ریاض الأبرار فی مناقب الأئمۃ الأطہار، بیروت، مؤسسۃ التاریخ العربی، ۱۴۲۷ق۔
  • خوارزمی، کمال الدین حسین، ینبوع الأسرار فی نصائح الأبرار، تہران، انجمن آثار و مفاخر فرہنگی، ۱۳۸۴ش۔
  • دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، تہران، مرکز دائرہ المعارف اسلامی، ۱۳۷۴ش۔
  • دیلمی، حسن بن محمد، إرشاد القلوب دیلمی، ترجمہ مسترحمی، تہران، کتاب‌ فروشی بوذرجمہری، چاپ سوم، ۱۳۴۹ش۔
  • ذہبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت،‌ دار الکتاب العربی، ۱۴۱۳ق۔
  • میرزا شیرازی، ابو القاسم، مناہج أنوار المعرفۃ فی شرح مصباح الشریعۃ، تہران، خانقاہ احمدی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش۔
  • روزبہان ثانی، ابراہیم بن صدر الدین، تحفۃ أہل العرفان، تہران، یلدا قلم، چاپ دوم، ۱۳۸۲ش۔
  • زبیدی، محمد مرتضی، تاج العروس من جواہر القاموس، بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۴ق۔
  • زرکلی، خیر الدین، الأعلام، بیروت، ‌دار العلم للملایین، چاپ ہشتم، ۱۹۸۹م۔
  • زقزوق، محمود حمدی، موسوعۃ التصوف الاسلامی، قاہرہ، وزارۃ الاوقاف المجلس الاعلی للشئون الاسلامیہ، ۱۴۳۰ق۔
  • سجادی، سید جعفر، فرہنگ معارف اسلامی، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، چاپ سوم، ۱۳۷۳ش۔
  • سلمی، محمد بن الحسین، طبقات الصوفیۃ، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، چاپ دوم، ۱۴۲۴ق۔
  • سلمی، محمد بن حسین، مجموعہ آثار ابو عبد الرحمن سلمی، تہران، مرکز نشر دانشگاہی، ۱۳۶۹ش۔
  • سمعانی، احمد، روح الأرواح فی شرح أسماء الملک الفتاح، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ دوم، ۱۳۸۴ش۔
  • سہروردی، شہاب الدین ابو حفص، عوارف المعارف، ترجمہ ابو منصور اصفہانی، تہران، انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ دوم، ۱۳۷۵ش۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن علی، منیۃ المرید، قم، مکتب الإعلام الإسلامی، ۱۴۰۹ق۔
  • شیروانی، زین العابدین، ریاض السیاحۃ، تہران، انتشارات سعدی، ۱۳۶۱ش۔
  • صفی علی شاہ، محمد حسن بن محمد باقر، عرفان الحق، تہران، صفی علی شاہ، چاپ دوم، ۱۳۷۱ش۔
  • طباطبایی، محمد حسین، شیعہ در اسلام، قم، دفتر نشر اسلامی، چاپ سیزدہم، ۱۳۷۸ش۔
  • عطار نیشابوری، فرید الدین، تذکرۃ الأولیاء، لیدن، مطبعہ لیدن، چاپ اول، ۱۹۰۵م۔
  • غزالی، ابو حامد محمد، کیمیای سعادت، تہران، شرکت انتشارات علمی و فرہنگی، چاپ یازدہم، ۱۳۸۳ش۔
  • غزالی، ابو حامد محمد، احیاء علوم الدین، ترجمہ مؤید الدین خوارزمی، تہران، نشر علمی و فرہنگی، چاپ ششم، ۱۳۸۶ش۔
  • فقیر اصطہباناتی، علی، خرابات در بیان حکمت، شجاعت، عفت و عدالت، تہران، آینہ میراث، ۱۳۷۷ش۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، راہ روشن، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۲ش۔
  • قرائتی، محسن، گناہ ‌شناسی، تہران، مرکز فرہنگی درسہایی از قرآن، چاپ ہشتم، ۱۳۸۶ش۔
  • قشیری، ابو القاسم عبد الکریم، رسالہ قشیریہ (ترجمہ)، تہران، نشر علمی و فرہنگی، چاپ چہارم، ۱۳۷۴ش۔
  • قمی، عباس، سفینۃ البحار، قم، اسوہ، ۱۴۱۴ق۔
  • کاشانی، عبد الرزاق، مجموعہ رسائل و مصنفات کاشانی، تہران، میراث مکتوب، چاپ دوم، ۱۳۸۰ش۔
  • کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، قم، صحیفہ خرد، ۱۳۸۹ش۔
  • کراجکی، محمد بن علی، نزہۃ النواظر در ترجمہ معدن الجواہر، تہران، اسلامیہ، بی‌تا۔
  • گولپینارلی، عبدالباقی، م‍ولان‍ا ج‍لال‌ال‍دی‍ن‌: زن‍دگ‍ان‍ی‌، ف‍ل‍س‍ف‍ہ‌، آث‍ار و گ‍زی‍دہ‌ای‌ از آن‍ہ‍ا، ت‍رج‍م‍ہ‌ و ت‍وض‍ی‍ح‍ات‌ ت‍وف‍ی‍ق‌ س‍ب‍ح‍ان‍ی، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، چاپ سوم، ۱۳۶۳ش۔
  • مجلسی، محمد باقر، زندگانی حضرت امام جعفر صادق(ع)، ترجمہ موسی خسروی، تہران، اسلامیہ، چاپ دوم، ۱۳۹۸ق۔
  • مستملی بخاری، اسماعیل، شرح التعرف لمذہب التصوف، تہران، انتشارات اساطیر، ۱۳۶۳ش۔
  • مشکور، محمد جواد، فرہنگ فرق اسلامی، مشہد، آستان قدس رضوی، چاپ دوم، ۱۳۷۲ش۔
  • مشکینی اردبیلی، علی، نصایح و سخنان چہاردہ معصوم(ع) و ہزار و یک سخن، قم، نشر الہادی، چاپ بیست و چہارم، ۱۳۸۲ش۔
  • مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار شہید مطہری، تہران، صدرا، چاپ ہشتم، ۱۳۷۷ش۔
  • مظاہری، حسین، اخلاق و جوان، قم، شفق، چاپ چہارم، ۱۳۸۷ش۔
  • مناوی، محمد عبد الرؤوف، الکواکب الدریۃ فی تراجم السادۃ الصوفیۃ، بیروت،‌ دار الصادر، ۱۹۹۹م۔
  • میبدی، ابو الفضل رشید الدین، کشف الأسرار و عدۃ الأبرار، تہران، انتشارات امیر کبیر، چاپ پنجم، ۱۳۷۱ش۔
  • نسفی، عزیز الدین، راز ربانی (اسرار الوحی سبحانی)، تہران، انتشارات امیر کبیر، ۱۳۷۸ش۔
  • نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، تہران، فرزند مولف، ۱۴۱۴ق۔
  • ہجویری، ابو الحسن علی، کشف المحجوب، تہران، طہوری، چاپ چہارم، ۱۳۷۵ش۔