ثقہ

ویکی شیعہ سے
(وثاقت سے رجوع مکرر)

ثِقہ علم رجال کی ایک اصطلاح ہے جو کسی راوی کے مورد اعتبار ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ علم رجال کے بعض ماہرین کے مطابق "ثقہ" اس راوی کو کہا جاتا ہے جو امامی، عادل اور ضابط(فراموش کار نہ ہو) یعنی احادیث کو حفظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس لفظ کا استعمال مورداعتماد راویوں کو جعلی اور جھوٹے راویوں سے تمیز دینے کیلئے ہوتا ہے۔ یہ لفظ معصومین نیز ائمہ معصومین کے معاصر مُحَدِّثین کے کلام میں بھی مورد اعتماد راویوں کیلئے استعمال ہوا ہے۔

راویوں کی وثاقت اور ان کے قابل اعتبار ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کچھ معیار ذکر ہوئے ہیں؛ من جملہ ان میں سے ایک معصومین یا علم رجال کے متقدم یا متاخر علماء میں سے کسی ایک کی زبانی کسی راوی کی وثاقت کی تصریح ہے جس کا اظہار عموما "ثقہ"، "جلیل القدر" اور "ثقۃ عین الصدوق" جیسے الفاظ کے ذریعے ہوتا تھا۔

راویوں کی وثاقت میں چہ بسا کسی ایک راوی کی توثیق کی جاتی ہے جسے علم رجال میں توثیق خاص اور کبھی راویوں کے ایک گروہ کی توثیق کی جاتی ہے جسے توثیق عام کہا جاتا ہے۔ تفسیر قمی میں تمام راویوں کی توثیق، توثیق عام کا ایک نمونہ ہے۔

معانی

لفظ "ثقہ" علم رجال میں بہت زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ میں سے ایک ہے جو معتبر اور مورد اعتماد روایوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔[1] پانچویں صدی ہجری کے شیعہ ماہر علم رجال، ابن غضائری کسی راوری کے مورد اعتماد ہونے کیلئے صرف اس وثاقت کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ ثقہ علم رجال میں اس راوی کو کہا جاتا ہے جو امامی اور سچ بولنے والا اور ضابط یعنی احادیث کو حفظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔[2] ان کے مقابلے میں ان کے اپنے معاصر علم رجال کے ماہرین ابوعلی حائری (1159-1215ھ) اور محمدآصف محسنی اس بات کے معتقد ہیں کہ علم رجال کے ماہرین کے پاس راوی کی وثاقت کے بعض عمومی شرائط ہیں جن میں مسلمان، بالغ، عاقل، عادل اور مؤمن ہونا شامل ہیں اور مورد اعتمار اور سچ بولنے والے ایسے راویوں کو ثقہ کہا جاتا ہے جو احادیث کی شناخت میں کافی مہارت کے حامل ہوں۔[3] بعض دیگر ماہرین علم رجال بھی وثاقت کو صداقت سے بالاتر سمجھتے ہیں اور کسی راوی کو صرف اس صورت میں مورد اعتماد قرار دیتے ہیں کہ اس میں نقل احادیث کے متعدد شرائط موجود ہوں؛ من جملہ ان شرائط میں صداقت، ضابط ہونا، تقیہ سے آگاہی رکھتا ہو اور مذہبی وابستگی وغیرہ رکھتا ہے۔[4]‌ ان تمام باتوں کے باوجود بعض معاصر محققین مختلف قرائن و شواہد کی روشنی میں اس بات کے معتقد ہیں کہ اکثر محدثین اور علم رجال کے ماہرین لفظ ثقہ کو اس کے لغوی معنی یعنی مورد اعتماد فرد میں استعمال کرتے ہیں اور علم رجال میں یہ لفظ اپنے لغوی معنی سے ہت کر کوئی اور مفہوم نہیں رکھتا ہے۔[5]

لفظ ثقہ کا رواج

بعض راویوں سے متعلق ائمہ معصومینؑ کے بیانات اور تقریرات میں لفظ ثقہ کا استعمال پایا جاتا ہے[6] اور مختلف مواقع میں ان ذوات مقدسہ نے اپنے مورد اعتماد راویوں کا تعارف کئے ہیں۔[7] بعض علماء نے انہی احادیث کو مد نظر رکھتے ہوئے ثقہ سے امین اور علوم اہل‌ بیتؑ سے آگاہ شخص مراد لئے ہیں۔[8] امام زمانہؑ سے منسوب ایک خط میں بھی ثقہ ان افراد پر اطلاق ہوا ہے جو ائمہ معصومین کے اسرار و رموز سے واقف اور ان کی باتیں امام زمانہ کے کلام کے موافق ہوں۔[9]

یہ ائمہ معصومینؑ کی ہم عصر محدثین کے کلام میں بھی روایوں کی معرفی کیلئے استعمال ہوا ہے؛ جیسا کہ کتاب رجال کشی میں 35 مرتبہ، رجال طوسی میں 248 مرتبہ اور رجال نجاشی میں 533 مرتبہ راویوں کی توصیف میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔[10] اس لفظ کے بعض مشتقات جیسے ثقات اور ثقتی وغیرہ بھی علم رجال کے قدیمی منابع میں بہت زیادہ دیکھا جا سکتا ہے۔[11]

ملاک‌

علم رجال کے ماہرین نے حدیثی منابع میں موجود جعلی احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح احادیث کو جعلی احادیث سے تشخیص دینے اور موثق راویوں کو جھوٹے راویوں سے جدا کرنے کیلئے مختلف طریقے وضع کئے ہیں۔[12] شیعہ برجستہ فقیہ اور اصولی، وحید بہبہانی نے اس سلسلے میں راوی کی وثاقت کو ثابت کرنے کیلئے 39 طریقے ذکر کئے ہیں۔[13] جن میں سے اہم ترین یہ ہیں: "معصومین" میں سے کسی ایک کی زبانی کسی راوی کی وثاقت کی تصریح، علم رجال کے "متقدم"[یادداشت 1] یا "متأخر" [یادداشت 2] ماہرین میں سے کسی ایک کی زبانی تصریح، کسی راوی کی وثاقت پر اجماع کا ادعا اور کسی معصوم امام کی وکالت۔[14]

توثیق کا طریقہ کار

توثیق یعنی کسی راوی کو مورد اعتماد سمجھنا، چہ بسا کسی خاص راوی کا نام لے کر اس کی توثیق کی جاتی ہے اور کبھی کسی ایک گروه کی توثیق کی جاتی ہے۔ مثلا تفسیر قمی کے تمام راویوں کی توثیق، توثیق عام کا ایک نمونہ ہے۔ پس علم رجال کے منابع میں اگر کسی حدیث میں کسی ایک راوی کی توثیق کی جائے،[15] دوسرے لفظوں میں اگر توثیق میں کسی خاص راوی کی طرف اشارہ کیا ہو،[16] تو اسے توثیق خاص کہا جاتا ہے۔ رجالی منابع میں موجود اکثر راویوں کی توثیق اسی طرح کی گئی ہیں۔[17] علامہ حلی نے مختلف مبانی سے راویوں کی توثیق اور تضعیف‌ کا عمل انجام دیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کسی خاص راوی کی توثیق خاص کی گئی ہو تو امامیہ نہ ہونے کی وجہ سے موجود ضعف کا جبران ہو گا۔[18]

اگر راویوں کے ایک گروہ کی کسی خاص طریقے سے توثیق کی جائے اور انہیں مورد اعتماد قرار دی جائے،[19] تو اس توثیق کو توثیق عام کہا جاتا ہے۔[20] البتہ علم رجال کے ماہرین کے درمیان توثیق عام کے مصادیق میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[21] توثیق‌ عام کے بعض مصادیق یہ ہیں: تفسیر قمی اور کتاب کامل الزیارات کے تمام روایوں کی توثیق اسی طرح کتاب رجال نجاشی میں مذکور مشایخ کی توثیق یا بنی فضال سے نقل ہونے والی احادیث کی سند میں موجود تمام راویوں کی توثیق۔[22]

توثیق کے الفاظ

رجالی منابع میں راویوں کی توثیق اور انہیں مورد اعتماد قرار دینے کیلئے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان میں سے بعض الفاظ کسی راوی کے معتبر ہونے نیز اس روایت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتے ہیں جبکہ ان میں سے بعض الفاظ اس روایت کے ضعیف ہونے نیز اس راوی کے مورد اعتماد نہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔[23] بعض الفاظ اگرچہ صفت ثقہ کے حامل نہیں لیکن انہیں وثاقت سے بالاتر قرار دی گئی ہے اور عموما ان الفاظ کو شیعہ بزرگ علماء اور فقہاء کیلئے استعمال کئے گئے ہیں؛ "کبیر الشأن"، "جلیل القدر"، "عظیم المنزلۃ"، "اوثق الناس عند الخاصہ" اور "فضلہ اشہر من ان یوصف" وغیره جیسے کلمات اور ترکیبیں۔[24] بعض الفاظ وثاقت پر تاکید کیلئے استعمال ہوتے ہیں؛ جیسے "ثقۃ ثقۃ"، "ثقۃ عین صدوق"، "ثقۃ جلیل" اور "ثقۃ معتمد علیہ"۔ بعض الفاظ صرف ثقہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں: جیسے "ثقۃ"، "عدل"، "صدوق"، "صحیح الحدیث" اور "مأمون" وغیرہ۔[25]

بعض الفاظ اگرچہ راوی کی نیک نامی پر دلالت کرتے ہیں لیکن یہ اس کی وثاقت کی دلیل نہیں ہو سکتی؛ اگرچہ یہ چیز اس حدیث کی تقویت کا باعث بن سکتی ہے؛ جیسے "خیر"، "صالح"، "صالح الحدیثگ، "حَسَن"، "معتمد علیہگ اور "من خواص الامام" وغیرہ۔[26] اسی طرح بعض الفاظ راویوں کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور ان راویوں کے ذریعے نقل ہونے والی احادیث کی حجیت کو ختم کرتے ہیں؛ جو چیزیں کسی راویوں کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں اس کے مذہب کا فاسد ہونا اور اس کے کردار و رفتار کا صحیح نہ ہونا وغیره شامل ہیں۔[27]

متعلقہ صفحات

نوٹ

  1. ائمہ معصومین کے زمانے سے چھٹی صدی ہجری تک کے علم رجال کے ماہرین میں سے کسی ایک کا کسی راوی کی توثیق کرنا اس راوی کی وثاقت کی دلیل سمجھی جاتی ہے۔ (ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال حدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۷۹)۔
  2. اس معنا میں کہ اگر علامہ حلی، ابن داود حلی، سید بن طاووس اور محقق حلی جیسے علماء نے کسی نے کسی راوی کی توثیق کو یہ اس راوی کی وثاقت کی دلیل سمجھی جائے گی(ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال حدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۷۷)۔ اس نظریے کے صحیح ہونے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ مزید معلومات کیلئے رجوع کریں: ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، ۱۴۳۱ق، ص۱۱۶-۱۲۲۔

حوالہ جات

  1. مرعی، منتہی المقال فی الدرایہ و الرجال، ۱۴۱۷ق، ص۸۳-۹۲؛ الفیروزآبادی، القاموس المحیط، بیروت، ج۳، ص۳۹۰۔
  2. ابن غضائری، الرجال، ۱۴۲۲ق، ص۲۳۔
  3. مرعی، منتہی المقال فی الدرایہ و الرجال، ۱۴۱۷ق، ص۸۳-۹۲؛ محسنی، بحوث فی علم الرجال، ۱۴۳۲ق، ص۱۸۷۔
  4. غلامعلی، سندشناسی: رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، ۱۳۹۵ش، ص۲۶۳۔
  5. غلامعلی، سندشناسی: رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، ۱۳۹۵ش، ص۲۶۳۔
  6. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۳۶۵ش، ج۱، ص۱۹۲ و ۴۹۰۔
  7. صرامی، مبانی حجیت آرای رجالی، ۱۳۹۱ش، ص۳۶۔
  8. کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲۶؛ طوسی، الغیبہ، ۱۴۱۱ق، ص۳۶۰؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۲۷، ص۱۳۸۔
  9. کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۵۳۶؛ شیخ صدوق، کمال الدین، ۱۳۹۵ق، ص۴۸۳، مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۵۰، ص۳۱۸۔
  10. غلامعلی، سندشناسی: رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، ۱۳۹۵ش، ص۲۶۳۔
  11. غلامعلی، سندشناسی: رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، ۱۳۹۵ش، ص۲۶۳۔
  12. ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال حدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۷۷۔
  13. ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، ۱۴۳۱ق، ص۱۰۹۔
  14. ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، ۱۴۳۱ق، ص۱۰۹-۱۶۸؛ ربانی، سبک‌شناسی دانش رجال حدیث، ۱۳۸۵ش، ص۱۸۰-۱۸۸۔
  15. ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، ۱۴۳۱ق، ص۳۳۔
  16. سبحانی، کلیات فی علم الرجال، ۱۴۱۰ق، ص۲۰۵۔
  17. غلامعلی، سندشناسی: رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، ۱۳۹۵ش، ص۲۶۶؛ ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، ۱۴۳۱ق، ص۳۳۔
  18. رحمان ستایش، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، ۱۳۸۵ش، ص۱۵۶۔
  19. سبحانی، کلیات فی علم الرجال، ۱۴۱۰ق، ص۲۰۵۔
  20. ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، ۱۴۳۱ق، ص۳۳ و ۱۷۱۔
  21. ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، ۱۴۳۱ق، ص۳۷۔
  22. ایروانی، دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ، ۱۴۳۱ق، ص۳۳-۳۸۔
  23. مرعی، منتہی المقال فی الدرایہ و الرجال، ۱۴۱۷ق، ص۹۳-۱۰۵؛ سیفی مازندرانی، مقیاس الرواہ، قم، ص۲۱۸۔
  24. غلامعلی، سندشناسی: رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، ۱۳۹۵ش، ص۲۶۸-۲۷۰۔
  25. غلامعلی، سندشناسی، رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، ۱۳۸۵ش، ص۲۷۰-۲۷۲۔
  26. غلامعلی، سندشناسی: رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، ۱۳۹۵ش، ص۲۷۲-۲۷۳۔
  27. غلامعلی، سندشناسی: رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، ۱۳۹۵ش، ص۲۷۶-۲۸۷۔

مآخذ

  • ابن غضائری، احمد بن حسین، الرجال، تحقیق محمدرضا حسینی جلالی، قم، دار الحدیث، ۱۴۲۲ق۔
  • ایروانی، محمدباقر، دروس تمہیدیۃ فی القواعد الرجالیۃ، قم، انتشارات مدین، ۱۴۳۱ق۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، ‏وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسۃ آل‌البيت (ع)، ۱۴۰۹ق۔‏
  • ربانی، محمدحسن، سبک‌شناسی دانش رجال حدیث، قم، مرکز فقہی ائمہ اطہار، ۱۳۸۵ش۔
  • رحمان ستایش، محمدکاظم، آشنایی با کتب رجالی شیعہ، تہران، سمت، ۱۳۸۵ش۔
  • سبحانی، جعفر، کلیات فی علم الرجال، قم، حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۰ق۔
  • سیفی مازندرانی، علی اکبر، مقیاس الرواۃ، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، بی‌تا۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمۃ، تحقیق علی‌اکبر غفاری، تہران، اسلامیہ، ۱۳۹۵ق۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، قم، دار المعارف الإسلاميۃ، ۱۴۱۱ق۔
  • صرامی، سیف‌اللہ، مبانی حجیت آرای رجالی، قم، دار الحدیث، ۱۳۹۱ش۔
  • غلامعلی، مہدی، سندشناسی: رجال کاربردی با شیوہ بررسی اسناد روایات، قم، دارالحدیث، ۱۳۹۵ش۔
  • الفیروزآبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، بی‌تا۔
  • «کتاب توثیقات عام و خاص»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حدیث شیعہ(حدیث نت)، بازدید، ۲ مہر ۱۳۹۷ش۔
  • «کتاب قواعد توثیق راویان»، پایگاہ اطلاع‌رسانی حدیث شیعہ(حدیث نت)، بازدید، ۲ مہر ۱۳۹۷ش۔
  • کشی، محمد بن عمر، رجال کشی، مشہد، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، ۱۴۰۹ق۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دار الحدیث، ۱۴۲۹ق۔
  • علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحياء التراث العربی، ۱۴۰۳ق‏۔
  • محسنی، محمدآصف، بحوث فی علم الرجال، قم، مرکز المصطفی العالمی للترجمۃ و النشر، ۱۴۳۲ق۔
  • مرعی، حسین عبداللہ، منتہی المقال فی الدرایۃ و الرجال، بیروت، العروۃ الوثقی، ۱۴۱۷ق۔
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال نجاشی، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی‏، ۱۳۶۵ش۔