عثمان بن عیسی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | عثمان بن عیسی کلابی رواسی کوفی |
محل زندگی | کوفہ |
دینی معلومات | |
وجہ شہرت | ائمہ کے صحابی اور وکیل |
تالیفات | کتاب المیاہ، کتاب القضایا، کتاب الأحکام، کتاب الوصایا، و کتاب الصلوہ |
عثمان بن عیسی رواسی، (حیات قبل از ۲۰۳ ق) امام موسی کاظم علیہ السلام کے ان اصحاب اور وکلاء میں سے ہیں۔ جنہوں نے آپ کی شہادت کے بعد بیت المال کے اموال کو امام علی رضا علیہ السلام کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور دعوی کیا کہ امام کاظم (ع) زندہ ہیں۔ بعض منابع نے ان کے توبہ کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن آیت اللہ خوئی توبہ کے سلسلہ کی روایات کو غیر معتبر مانا ہے۔ عثمان بن عیسی، علی بن ابی حمزہ بطائنی اور زیاد بن مروان قندی یہ تنیوں افراد واقفی مذہب کے اصلی ارکان میں سے تھے جنہوں نے امام کاظم (ع) کی امامت پر توقف کیا اور ان کے بعد کے ائمہ (ع) کا انکار کیا۔
سوانح عمری اور مقام حدیثی
عثمان بن عیسی کلابی رواسی کوفی (حیات تا قبل از ۲۰۳ ق)[1] واقفیہ (واقفی مسلک)[2] کے روساء میں سے تھے اور شیخ طوسی انہیں امام موسی کاظم (ع) اور امام علی رضا (ع) کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔[3]
عثمان بن عیسی امام کاظم (ع) کے ان وکلاء میں سے تھے جو شیعوں سے اموال کو دریافت کرتے تھے اور چونکہ امام (ع) قید میں تھے اس لئے ان وجوہات کا ان کی خدمت میں ارسال کرنے کا امکان فراہم نہیں تھا۔ عثمان بن عیسی نے آپ کی شہادت اور امام رضا (ع) کی طرف سے اموال کی واپسی کا خط موصول ہونے کے بعد ابتداء میں تمام اموال ان کے حوالے کرنے سے پرہیز کیا اور امام رضا (ع) ان پر غضبناک ہوئے۔ منابع تاریخی کے مطابق عثمان بن عیسی بعد میں پشیمان ہوئے اور انہوں نے توبہ کی اور تمام اموال کو امام کی خدمت میں ارسال کیا۔[4]
کشی کے بقول، عثمان بن عیسی کے اوپر کوئی اتہام نہیں تھا۔ اسی طرح سے کشی ایک قول نقل کرتے ہیں جس کے مطابق عثمان بن عیسی کا ذکر اصحاب اجماع کے طور پر ہوا ہے۔[5] شیخ طوسی اور ابن شہر آشوب انہیں ثقہ تسلیم کرتے ہیں اور ان کے ثقہ ہونے کے سلسلہ میں ہونے والے اجماع کی گواہی دیتے ہیں۔[6] ابن شہر آشوب، عثمان بن عیسی کو امام کاظم (ع) کے قابل اعتبار افراد میں شمار کرتے ہیں۔[7]
عثمان بن عیسی، کتاب المیاہ، کتاب القضایا، کتاب الأحکام، کتاب الوصایا، و کتاب الصلوہ جیسی کتابوں کے مولف ہیں۔[8] انہوں نے ابو حمزہ ثمالی، علی بن مہزیار، علی بن سندی اور سہل بن زیاد آدمی سے روایات نقل کی ہیں۔[9] عثمان بن عیسی کا نام اسلامی روایات میں ۷۴۳ بار ذکر ہوا ہے۔[10] الوجیزہ فی عثمان بن عیسی الرواسی، نامی کتاب سن ۱۳۲۱ ق میں عثمان بن عیسی کے سلسلہ میں لکھی گئی ہے جس کے مولف محمد باقر بن محمد جعفر بہاری ہمدانی ہیں۔[11]
نصر بن صباح کے نقل کے مطابق، عثمان بن عیسی سے امام علی رضا علیہ السلام کے ناراض ہو جانے کے بعد انہوں نے توبہ کی اور تمام اموال ان کی خدمت میں ارسال کر دیا۔ اسی طرح نصر بن صباح کے ابی حمزہ کے نقل کے مطابق، عثمان نے خواب میں دیکھا کہ حائر حسینی میں ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ اسی سبب انہوں نے کوفہ سے نکل کر حائر حسینی میں سکونت اختیار کر لی، یہاں تک کہ وہیں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔[12]
امام رضا (ع) کی امامت کا انکار
عثمان بن عیسی رواسی، علی بن ابی حمزه بطائنی و زیاد بن مروان قندی، کے بعد تیسرے انسان تھے جنہوں نے واقفی عقیدہ کو قبول اور اسے ظاہر کیا۔[13] ان کا شمار واقفہ کے موسسین میں تیسرے رکن کے کے طور پر کیا گیا ہے۔[14] علامہ مجلسی و شیخ صدوق نے کوفہ و مصر میں امام موسی کاظم (ع) کے وکلاء کی طرف سے امام علی رضا (ع) کی امامت کے انکار اور امام کاظم (ع) کے اوپر توقف کا مقصد مال دنیا کی لالچ و طمع ذکر کیا ہے۔[15]
عثمان بن عیسی نے امام علی رضا (ع) کے خط کے جواب میں جو انہوں نے امام کاظم (ع) کے اموال کی واپسی کے لئے تحریر کیا تھا، ساتویں امام کی شہادت کا انکار کیا اور دعوی کیا کہ وہ زندہ ہیں۔ عثمان نے مزید لکھا کہ حتی اگر امام کاظم (ع) کی شہادت کا دعوی صحیح ہو تو چونکہ امام موسی بن جعفر (ع) نے ان سے اموال کی واپسی کے سلسلہ میں کوئی بات نہیں کہی ہے اس لئے وہ اموال کو واپس نہیں کریں گے۔[16] عثمان بن عیسی کے پاس موجود اموال کی مقدار ۳۰ ہزار دینار طلا اور ۵ کنیزیں ذکر ہوئی ہیں۔[17]
عثمان بن عیسی نے امام موسی کاظم (ع) کے دوسرے دو وکلاء کے ساتھ مل کر انہیں امام غایب پیش کیا اور ان کے بعد کے ائمہ کی امامت سے انکار کیا۔[18] آیت اللہ خوئی کا ماننا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عثمان بن عیسی حق سے منحرف اور امام رضا (ع) کے مخالف تھے اور انہیں امام قبول نہیں کرتے تھے اور انہوں نے امام کاظم (ع) کے اموال کو انہیں واپس نہیں کیا۔ اس کے علاوہ آیت اللہ خوئی کے مطابق، عثمان بن عیسی کی توبہ نصر بن صباح سے نقل شدہ روایت کی وجہ سے قابل اثبات نہیں ہے۔[19]
حوالہ جات
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ...، ۱۳۸۸ش، ص ۱۶۶.
- ↑ قرشی، پژوہشی دقیق در زندگانی امام علی بن موسی الرضا، ۱۳۸۲ش، ص ۲۲۷
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ...، ۱۳۸۸ش، ص ۱۶۶
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ...، ۱۳۸۸ش، ص ۱۶۷
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ...، ۱۳۸۸ش، ص ۱۶۷
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ...، ۱۳۸۸ش، ص ۱۶۷
- ↑ قرشی، پژوہشی دقیق در زندگانی امام علی بن موسی الرضا، ۱۳۸۲ش، ص ۲۲۷
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ...، ۱۳۸۸ش، ص ۱۶۸
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ...، ۱۳۸۸ش، ص ۱۶۸
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ...، ۱۳۸۸ش، ص ۱۶۸
- ↑ صدارایی خویی، فہرستگان نسخہ ہای خطی حدیث...، ۱۳۸۲ش، ص ۴۴۸
- ↑ قرشی، پژوہشی دقیق در زندگانی امام علی بن موسی الرضا، ۱۳۸۲ش، ص ۲۲۷
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیعہ...، ۱۳۸۸ش، ص ۳۱۰
- ↑ مظفری، مہدویت در واقفیہ و موضع گیری امام رضا (ع)، در فصلنامہ انتظار موعود، ش ۳۳، ص ۱۶۸
- ↑ مظفری، مہدویت در واقفیہ و موضعگیری امام رضا (ع)، در فصلنامہ انتظار موعود، ش ۳۳، ص ۱۶۸
- ↑ مظفری، مہدویت در واقفیہ و موضع گیری امام رضا (ع)، در فصلنامہ انتظار موعود، ش ۳۳، ص ۱۷۹
- ↑ بہبودی، تحقیقی درباره مذہب وقف و بررسی تاریخ واقفیہ، در فصلنامہ مدرس علوم انسانی، ش ۵ و ۶ و ۷، ص ۵۶
- ↑ عابدینی، استفاده از سایہ و سایبان در حال احرام، در فصلنامہ کاوشی نو در فقہ اسلامی، ش ۱۳، ص ۴۹-۵۰
- ↑ شفیعی، مکتب حدیثی شیع...، ۱۳۸۸ش، ص ۱۶۷
مآخذ
- بہبودی، محمد باقر، تحقیقی درباره مذہب وقف و بررسی تاریخ واقفیہ، در فصلنامہ مدرس علوم انسانی، پاییز و زمستان ۱۳۷۰ ش و بہار ۱۳۷۱، شماره ۵ و ۶ و ۷، ص ۴۹-۶۶
- شفیعی، سعید، مکتب حدیثی شیعہ در کوفہ تا پایان قرن سوم ہجری، قم، سازمان چاپ و نشر دار الحدیث، اول، ۱۳۸۸ ش
- صدرایی خویی، علی، فہرستگان نسخہ ہای خطی حدیث و علوم حدیث شیعہ، قم، سازمان چاپ و نشر موسسه علمی فرہنگی دار الحدیث، ۱۳۸۲ ش
- عابدینی، احمد، استفاده از سایه و سایبان در حال احرام، در فصلنامہ کاوشی نو در فقہ اسلامی، پاییز ۱۳۷۶ش، ش ۱۳، ص ۱۸-۸۵
- مظفری، محمد حیدر، مہدویت در واقفیہ و موضع گیری امام رضا (ع)، در فصلنامہ انتظار موعود، پاییز و زمستان ۱۳۸۹ش، ش ۳۳، ص ۱۶۱-۱۸۶