شہربانو

ویکی شیعہ سے
(شہر بانو سے رجوع مکرر)
شہر بانو مادر امام زین العابدینؑ
بی بی شہربانو سے منسوب تہران میں مزار
بی بی شہربانو سے منسوب تہران میں مزار
کوائف
نام:شہر بانو
والد:یزدگرد (شاہ ایران)
اولاد:امام علی بن الحسین
مشہور اقارب:امام حسینؑ (شوہر) و امام زین العابدین (فرزند)
وجہ شہرت:زوجہ امام حسین علیہ السلام
محل زندگی:مدینہ


شہر بانو امام زین العابدینؑ کی والدہ تھیں۔ مورخین و محدثین کے مطابق شہربانو ساسانی دور کے آخری بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھی۔ ایران میں اسلام کے ورود کے بعد وہ امام حسینؑ کی زوجیت میں آئیں اور ان کے بطن سے امام سجادؑ پیدا ہوئے۔ آپ کے نسب، مدینہ آمد، تاریخِ وفات اور امام حسینؑ سے شادی کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔ تیسری صدی ہجری میں لکھی گئی کتاب، دلائل الامامہ سے منقول ایک روایت کے مطابق عمر بن خطاب کے دور میں اسلامی فتوحات کے موقعے پر آپ اسیر ہوئیں اور مدینہ لائی گئیں۔ وہاں پر آزاد ہونے کے بعد امام حسینؑ سے نکاح ہوا۔

تاریخی شواہد کے مطابق امام سجاد علیہ السلام کی ولادت کے وقت آپ وفات پاگئیں تھیں۔ البتہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ واقعۂ کربلا میں حاضر تھیں اور امام حسینؑ کی شہادت کے بعد شہرِ ری چلی گئی اور وہاں ایک پہاڑ میں روپوش ہوگئی۔ اسی لئے شہر ری کے قریب بارگاہ بی بی شہربانو آپ سے منسوب ہے۔ البتہ کربلا سے شہر ری کی طرف کے سفر کو تحریفاتِ عاشورا میں سے گردانا گیا ہے۔ اسی طرح بعض محققین نے ری میں موجود آپ سے منسوب بارگاہ کو بھی رد کیا ہے۔

نسب

شہر بانو کے باپ کے نام کے متعلق مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔[1] اکثر تاریخی روایات میں ساسانی سلسلہ کے آخری بادشاہ یزدگر کو اس کا باپ سمجھتے ہیں، تیسرے قرن میں یعقوبی[2]، نوبختی، اشعری قمی، حسن بن محمد قمی،[3] ابن ابی ثلج بغدادی،[4] ابن حیون[5] اور خلیفہ ابن خیاط[6] اس کے معتقد ہیں جبکہ چوتھی صدی میں کلینی،[7] شیخ مفید[8] اور شیخ صدوق[9] نے بھی اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کے بعد بہت سے مؤرخین اور محدثین نے ان کی پیروی کرتے ہوئے امام سجاد کی والدہ کو یزدگر کی بیٹی شہر بانو کہا ہے۔

شیخ مفید نے اپنی کتاب مقنعہ[10] اور شیخ طوسی نے تہذیب[11] میں بھی اسی کو ذکر کیا ہے۔ لیکن بعض مؤرخین اور محدثین نے امام سجاد کی والدہ کو صرف ایرانی خاتون کہا ہے اور ان کے باپ کا نام یزدگر کے علاوہ کوئی اور ذکر کیا ہے۔

مجمل التواریخ والقصص میں مختلف روایات کے ضمن میں شہر بانو کے باپ کا نام سنجان ملک فارس ذکر ہوا ہے۔[12]

محمد بن علی بن شہر آشوب نے مناقب میں مختلف نظریات بیان کرنے کے بعد سجاد کی والدہ کو نوشجان کی بیٹی کہا ہے۔[13] اربلی نیز ابن خشاب سے نقل کرتا ہے کہ اس کا باپ نوشجان ہے[14]

امام حسینؑ سے ازدواج

جنہوں نے شہر بانو کی شادی امام حسین سے ذکر کی ہے وہ واقعے کے نقل میں بھی اتفاق نظر نہیں رکھتے ہیں۔ وہ اس شادی کا زمانہ شہر بانو کے مدینے آنے کے وقت کو ذکر کرتے ہیں لیکن مدینے آنے کا کون سا زمانہ ہے:

مادر امام سجاد

اکثر قدیم منابع امام سجادؑ کی والدہ کو یزدگرد ساسانی کی بیٹی سمجھتے ہیں لیکن ان کے نام میں اختلاف نظر رکھتے ہیں:

طبری[28]، ابن ‌طاووس[29]، ابن ابی الثلج بغدادی[30]و ابن داود[31] نیز تاریخ قم سے بھی اسی کا استفادہ ہوتا ہے کہ اس کا ابتدائی نام شہر بانو تھا۔[32] اربلی بھی چند اسما کے بعد شہر بانو کے نام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

  • سلامہ: کلینی[33] و ابن کثیر،[34] البتہ تاریخ قم میں سلامہ لکھا ہے۔[35]
  • سلافہ: بلاذری اسے سجستان کے اہالیوں میں سے سمجھتا ہے۔[36]
  • جہانشاه: مسعودی[37] اور مفید مقنعہ[38]
  • شاه زنان: مفید ارشاد[39] اور طبرسی اعلام الوری[40] میں شاه زنان ذکر کرتے ہیں اگرچہ شہر بانو کا اسم احتمال کے طور منقول ہے لیکن فتال نیشابوری ابتدا شاه زنان پھر دیگر احمالات ذکر کرتا ہے۔[41] ثقفی کوفی امام سجاد کی والدہ با نام شاه زنان لکھتا ہے۔[42]
  • شہر ناز: مجمل التواریخ والقصص نے انہیں شہر ناز کہا ہے۔[43]
  • حرار: یعقوبی کہتا ہے: ان کا نام حرار تھا جسے عزالہ میں تبدیل کیا گیا۔[44]

دیگر نے امام سجاد کی والدہ کنیز ذکر کی ہے ۔

نقد و نظر

اگرچہ بہت سے مؤرخین شهر بانو کو امام سجاد کی والدہ اور یزدگر کی بیٹی کے طور پر ذکر کرتے ہیں لیکن دور حاضر کے محققین اس میں تردید کا شکار ہیں۔ مطہری،[45] شریعتی،[46] دہخدا،[47] شہیدی،[48] تقی زاده، سعید نفیسی و کریسٹن سن ان محققین میں سے ہیں جو اس سے اختلاف نظر رکھتے ہیں۔ یوسفی غروی، اگرچہ اس میں تردید رکھتے تھے لیکن بعد میں مشہور (شہربانو) کے موافق ہو گئے۔[49]

سید جعفر شہیدی نے کتاب زندگانی علی بن الحسین میں اس واقعے کی تفصیل سے بحث ذکر کی ہے اور اسے رد کیا ہے ۔خطا در حوالہ: Closing </ref> missing for <ref> tag صرف مسعودی نے یزدگرد کیلئے تین بیٹیوں کے نام آدرک، شاہین و مرد آوند ذکر کی ہیں۔[50]

  • یہ ایرانی شہزاده تیسری صدی میں بنی ہاشم کیلئے جانی پہچانی شخصیت نہیں تھا۔ منصور دوانیقی نے محمد بن عبدالله (نفس زکیہ) کو خط میں لکھا: رسول خدا (ص) کی رحلت کے بعد علی بن الحسینؑ سے زیادہ بزرگ شخصیت تمہارے خاندان میں کوئی پیدا نہیں ہوئی اور ان کی والدہ بھی ام ولد (کنیز) تھیں۔[51]

سید جعفر شہیدی اس کے متعلق لکھتا ہے:

منصور نے ام ولد کا لفظ محمد بن عبد الله نفس زکیہ کی تحقیر کیلئے استعمال کیا ہے۔ یہ خط امام سجاد کی شہادت کے نصف صدی بعد لکھا گیا ہے کہ جس زمانے میں بہت سے ہاشمی زندہ تھے۔ اگر شہر بانو کی داستان درست ہوتی تو وہ ایسی تعبیر استعمال نہ کرتا اور اگر اس نے جھوٹ لکھا ہوتا تو محمد قاطعیت کے ساتھ اسے جواب دیتا کہ ان کی والدہ کنیز نہیں بلکہ شہزادی تھی۔[52]

دہخدا کے مطابق تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ داستان واقعیت نہیں رکھتی ہے اور یزدگر کی شہر بانو نام کی کوئی بیٹی نہیں تھی۔ نیز حقیقت میں شہر بانو کی داستان ربیع الابرار زمخشری اور قابوس نامہ سے لی گئی ہے۔[53]

یوسفی غروی نے کہا: یعقوبی کی بات سند کے بغیر ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں نیز یعقوبی کا ذکر کردہ نام حرار ایران کے قدیمی ناموں کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا ہے، کافی کی روایت کو عمرو بن شمر کا نام سند میں ہونے کی وجہ قبول نہیں کرتا کیونکہ نجاشی نے اس کی تضعیف کی ہے، شیخ صدوق کی بات سہل بن قاسم نوشجانی کی وجہ سے درست نہیں چونکہ وہ مجہول ہے لہذا ان اسباب کی وجہ سے یوسفی غروی کی نگاہ میں بھی یہ داستان قابل قبول نہیں تھی؛ لیکن دوبارہ تحقیق میں شہر بانو، یزدگرد کی بیٹی ہونے کو قبول کیا ہے۔[54]

وفات

اکثر مؤرخین کے مطابق امام سجادؑ کی والدہ ان کی ولادت کے وقت فوت ہو گئیں تھیں۔[55]

ابن سعد قائل ہے کہ امام حسینؑ کے بعد شہر بانو زندہ تھیں اور انہوں نے زُیَید (زید کی تصغیر) نے شادی کی جو امام کے غلاموں سے تھا اور اس سے ایک بیٹا عبداللہ پیدا ہوا۔ اسی وجہ سے عبداللہ ماں کی طرف سے امام کا بھائی ہے۔ (طبقات کبری، ج۵، ص۱۶۳) یہ مطلب یہاں سے پیدا ہوا کہ شہر بانو کی وفات کے بعد وشیکہ نام کی ایک دایہ تھی جسے امام سجاد ماں کہہ کر بلاتے تھے۔ (الرجال (لابن داود)، ص 372) مسعودی نیز مطلب کے بیان کرنے کے بعد کہتا ہے: جب امام بڑے ہوگئے تو امام نے اس دایہ کی شادی اپنے ایک غلام سے کر دی۔اسی بنا پر بنی امیہ امام سے مسخرہ کرتے ہوئے کہتے علی بن الحسین نے اپنی ماں کی شادی اپنے ایک غلام سے کر دی۔[56]

بعض نہایت ہی ضعیف نقل کے مطابق شہر بانو واقعہ عاشورا کے بعد کربلا سے بلا فاصلہ ایران کی طرف چلی گئیں اور ری کے نزدیک پہاڑ کے دامن میں ناپدید ہو گئیں۔[57] آج کل شہر ری کے نزدیک ایک مقبرہ ان سے منسوب ہے۔

حوالہ جات

  1. یوسفی غروی، ص۱۵
  2. تاریخ الیعقوبی،ج۲،ص:۲۴۷
  3. تاریخ قم،ص:۱۹۶
  4. تاریخ أہل البیت نقلا عن الأئمة علیهم السلام، ص: ۱۲۱
  5. شرح الأخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار علیہم السلام، ج۳، ص ۲۶۶
  6. تاریخ خلیفة،ص:۲۴۰
  7. الکافی (ط - الإسلامیہ)، ج۱، ص ۴۶۶؛
  8. کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص ۳۰۷؛
  9. عیون أخبار الرضا علیہ السلام، ج۱، ص ۴۱؛
  10. المقنعۃ، ص: ۴۷۲
  11. تہذیب الأحکام (تحقیق خرسان)، ج۶، ص: ۷۷
  12. مجمل التواریخ والقصص،متن،ص:۴۵۶
  13. مناقب آل أبی طالب علیہم السلام (لابن شہرآشوب)، ج۴، ص: ۱۷۶
  14. کشف الغمہ فی معرفۃ الأئمہ (ط - القدیمہ)، ج۲، ص: ۱۰۵
  15. کافی، ج۱ص ۴۶۷
  16. تاریخ یعقوبی،ج۲ص۳۰۳
  17. اثبات الوصیہ، ص: ۱۷۰
  18. الغارات (ط-الحدیثہ)، ج۲، ص: ۸۲۵
  19. صدوق، عیون اخبار الرضا، جزء دوم، ص۱۲۸، ح ۶
  20. مفید، ارشاد ج۱ص ۱۳۷
  21. روضۃ الواعظین، ص۳۳۲
  22. تاج الموالید. ص۸۹؛اعلام الوری باعلام الہدی، ج۱ص۴۸۰
  23. کشف الغمہ ج۲ص ۸۳
  24. عیون أخبار الرضا علیہ السلام، ج۱، ص: ۴۱؛ کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص: ۳۰۷
  25. تاج الموالید، ص: ۸۸
  26. الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ج۲، ص: ۱۳۷
  27. بصائر الدرجات، ج۱ص ۳۳۵
  28. دلائل الامامہ،ص۱۹۵
  29. التشریف بالمنن، فی التعریف بالفتن، ص۳۷۳
  30. تاریخ ائمہ نقلا علی الائمہ، ۳۲۵
  31. الرجال (لابن داود)، ص: ۳۷۲
  32. تاریخ قم،ص:۱۹۷
  33. الکافی (ط-دارالحدیث)، ج۲، ص: ۵۱۲
  34. البدایہ والنہایہ، ج۹ص۱۰۴
  35. تاریخ قم،ص:۱۹۷
  36. انساب الاشراف، ج۳ص ۱۰۲
  37. اثبات الوصیہ، ص: ۱۷۰
  38. المقنعہ، ص: ۴۷۲
  39. الإرشاد فی معرفۃ حجج الله علی العباد، ج۲، ص: ۱۳۷
  40. طبرسی إعلام الوری بأعلام الہدی (ط-القدیمہ)، النص، ص: ۲۵۶
  41. روضۃ الواعظین و بصیرة المتعظین (ط-القدیمہ)، ج۱، ص: ۲۰۱
  42. الغارات (ط - الحدیثہ)، ج۲، ص: ۸۲۵
  43. مجمل التواریخ والقصص،ص۴۵۶
  44. یعقوبی، ج ۲ص ۲۴۶
  45. مطہری خدمات متقابل اسلام و ایران، صص۱۳۱ -۱۳۳
  46. شریعتی، تشیع علوی و تشیع صفوی، ص۹۱
  47. لغت نامہ دہخدا
  48. زندگانی علی ابن الحسین(ع)، ص۱۲
  49. حول سیده شہر بانو، ص ۲۰ و نیز موسوعۃ التاریخ الاسلامی، ج4، ص357 و 652
  50. مروج الذہب، ج۱،ص:۳۱۴
  51. طبری، تاریخ طبری، ج۶، ص۱۹۸.
  52. شہیدی، زندگانی علی بن الحسین، تہران، دفتر نشر فرہنگ، ۱۳۶۵، ص۲۴
  53. قابوس نامہ باب ۲۷ ص۱۴۴
  54. حول السیده شہر بانو، ص۲۸ و نیز موسوعہ التاریخ الاسلامی، ج4، ص357 و 652
  55. مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۱۴۵؛ الرجال (لابن داود)، ص: ۳۷۲
  56. اثبات الوصیہ، ص: ۱۷۰
  57. شہیدی، زندگی علی بن حسین، ص ۲۷

مآخذ

  • ابن داود، الرجال (لابن داود)، محقق/مصحح: بحر العلوم، محمد صادق، دانشگاه تہران، تہران،۱۳۴۲ ش،چاپ اول.
  • ابن سعد، محمد بن سعد بن منیع الہاشمی البصری (م ۲۳۰)، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطا، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، ط الأولی، ۱۴۱۰ق.
  • ابن طاووس، علی بن موسی (۶۶۴ ق)،التشریف بالمنن فی التعریف بالفتن معروف بہ ملاحم و فتن، مؤسسہ صاحب الأمر (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)، قم، ۱۴۱۶ ق، چاپ اول.
  • ابن کثیر، أبو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی (م ۷۷۴) البدایہ و النہایہ، بیروت، ‌دار الفکر، ۱۴۰۷/ ۱۹۸۶.
  • اربلی، علی بن عیسی (۶۹۲ق)، کشف الغمہ فی معرفہ الأئمہ (ط-القدیمہ)، بنی ہاشمی، تبریز، ۱۳۸۱ ق، چاپ اول.
  • بغدادی، ابن ابی الثلج، محمد بن احمد (۳۲۵ ق)، تاریخ أہل البیت نقلا عن الأئمۃ علیہم السلام، آل البیت علیہم السلام، ایران؛ قم، ۱۴۱۰ ق، چاپ اول.
  • بلاذری، أحمد بن یحیی بن جابر (م ۲۷۹)، جمل من انساب الأشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، ‌دار الفکر، ط الأولی، ۱۴۱۷/.
  • ثقفی، ابراہیم بن محمد بن سعید بن ہلال (۲۸۳ ق)، الغارات(ط-الحدیثہ)، انجمن آثار ملی، تہران، ۱۳۹۵ ق، چاپ اول.
  • شہیدی، سید جعفر، زندگانی علی بن الحسین، تہران، دفتر نشر فرہنگ، ۱۳۶۵
  • شریعتی علی، تشیع علوی و تشیع صفوی، تہران: چاپخش، ۱۳۷۷
  • صدوق، عیون اخبار الرضا، تصحیح و تعلیق سید مہدی حسینی لاجوردی، چاپ ۱۳۷۷ ہجری قمری، ناشر میرزا محمد رضا مہتدی.
  • صدوق، محمد بن علی (۳۸۱ ق)، کمال الدین و تمام النعمہ ،سلامیہ، تہران،۱۳۹۵ ق، چاپ دوم.
  • صفار، محمد بن حسن (۲۹۰ ق)، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمّد صلّی اللہ علیہم، مکتبہ آیت اللہ المرعشی النجفی، ایران؛ قم، ۱۴۰۴ ق،چاپ دوم.
  • طبرسی، فضل بن حسن (۵۴۸ ق)، إعلام الوری بأعلام الہدی(ط-القدیمہ)، اسلامیہ، تہران،۱۳۹۰ ق، چاپ سوم.
  • طبرسی، فضل بن حسن ۵۴۸ ق، تاج الموالید، ‌دار القاری، بیروت، ۱۴۲۲ ق، چاپ اول.
  • طبری آملی، محمد بن جریر بن رستم، دلائل الإمامہ(ط-الحدیثہ) تاریخ وفات مؤلف: قرن ۵، بعثت،ایران؛ قم، ۱۴۱۳ ق،چاپ اول.
  • طبری، محمد بن جریر. تاریخ طبری (تاریخ الرسل و الملوک). ترجمۂ ابو القاسم پاینده. انتشارات بنیاد فرہنگ ایران، ۱۳۵۲، چاپ دوم انتشارات اساطیر، ۱۳۶۵
  • عنصر المعالی کیکاووس بن اسکندر وشمگیر، قابوس نامہ، بہ کوشش غلام حسین یوسفی، چاپ سوم، تہران: امیر کبیر، ۱۳۶۸.
  • فتال نیشابوری، محمد بن احمد، روضۃ الواعظین و بصیرة المتعظین (ط-القدیمہ)، انتشارات رضی، قم،۱۳۷۵ ش، چاپ اول.
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الآمال، چاپ ہجرت.
  • قمی، حسن بن محمد بن حسن (نوشتہ در ۳۷۸) تاریخ قم، ترجمہ حسن بن علی بن حسن عبد الملک قمی (در ۸۰۵)، تحقیق سید جلال الدین تہرانی، تہران، توس، ۱۳۶۱ش.
  • کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاق (۳۲۹ ق)، کافی (ط-دارالحدیث)،دار الحدیث، قم، ۱۴۲۹ق، چاپ اول.
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، طبع تہران، ۱۳۰۱.
  • مؤلف مجہول (نوشتہ در ۵۲۰)، مجمل التواریخ و القصص، تحقیق ملک الشعراء بہار، تہران، کلالہ خاور، بی‌تا.
  • مسعودی، اثبات الوصیہ، منشورات الرضی، قم.
  • مسعودی، علی بن حسین بن علی، مروج الذہب و معادن الجوہر (م۳۴۶)، تحقیق اسعد داغر، قم،‌دار الہجرة، چ دوم، ۱۴۰۹.
  • مطہری، مرتضی، خدمات متقابل اسلام و ایران، مرتضی مطہری، تہران: نشر صدرا، ۱۳۸۰
  • مفید، محمد بن محمد،المقنعۃ، کنگره جہانی ہزاره شیخ مفید- رحمۃ اللہ علیہ، قم، ۱۴۱۳ ق،چاپ اول.
  • مفید، ارشاد، کنگره شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ ق،چاپ اول.
  • یعقوبی،احمد بن أبی یعقوب بن جعفر بن وہب واضح الکاتب العباسی (م بعد ۲۹۲)، تاریخ الیعقوبی، احمد بن أبی یعقوب بن جعفر بن وہب واضح الکاتب العباسی المعروف بالیعقوبی (م بعد ۲۹۲)، بیروت، ‌دار صادر، بی‌تا.
  • یوسفی، محمد ہادی، موسوعۃ التاريخ الإسلامی، مجمع اندیشہ اسلامی، ، قم، 1417ق، چاپ اول.
  • یوسفی، محمد ہادی، حول السیدة شہر بانو، نشریہ رسالۃ الحسینؑ، سال اوّل، شماره دوّم، ربیع الاول ۱۴۱۲