حضرت علیؑ کا تدفین حضرت زہرا(س) کےموقع پر خطبہ

ویکی شیعہ سے

حضرت علیؑ کا تدفین حضرت زہرا(س) کے موقع پر خطبہ، سے مراد حضرت فاطمہ زہرا(س) کی تدفین کے موقع پر حضرت علیؑ کی پیغمبر خداؐ کو مخاطب قرار دے کر کہی گئی وہ غم انگیز گفتگو ہے جس کا ذکر نہج البلاغہ میں ہوا ہے۔ اس گفتگو میں حضرت علیؑ نے حضرت زہرا(س) کی شہادت کو اپنے لیے رنج و الم کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ قرار دیتے ہوئے حضرت زہرا(س) پر آئی ہوئی مصیبتوں کے بارے میں خود رسول خداؐ کو ان سے سوال کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ نہج البلاغہ کے شارحین کا کہنا ہے کہ حضرت علیؑ نے ایک کلی جملہ"فاطمہ سے پوچھو" میں چند واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے جیسے؛ واقعہ غصب فدک، حضرت زہرا(س) کے گھر پر حملہ اور شکم مادر میں حضرت محسن کی شہادت وغیرہ۔ نیز اس گفتگو میں حضرت زہرا(س) کے قبر پیغمبرخداؐ کے نزدیک دفن ہونے جیسے کچھ دیگرواقعات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ حضرت علیؑ کا یہ خطبہ شیعہ حدیثی کتب جیسے؛ الکافی اور امالی شیخ طوسی اسی طرح اہل سنت کی بعض کتب جیسے "تَذکرةُ الخواص" وغیرہ میں بھی آیا ہے۔

خطبے کا پس منظر اور اہمیت

دانشوروں کے مطابق حضرت فاطمہ (س) کی تدفین کے وقت حضرت علیؑ کا پیغمبر خداؐ کو خطاب کرنا اپنی زوجہ مکرمہ کی جدائی پر امام کے غم اور حضرت فاطمہ(س) کی عظمت کے اظہار کی طرف اشارہ کرتا ہے۔[1] شرح نہج البلاغہ "پیام امام امیرالمؤمنین" کے مصنف آیت‌الله مکارم شیرازی کے مطابق حضرت علیؑ کا یہ خطبہ بالواسطہ لیکن واضح اور معنی خیز انداز میں کچھ صدر اسلام کے کچھ اہم واقعات کی عکاسی کرتا ہے.[2] نہج البلاغہ کے شارحین نے اس خطبہ کے تحت واقعہ فدک، غصب خلافت، حضرت فاطمہ(س) کی قبر کے مخفی رہنے کی وجہ، آپ(س) کے وقت،[3]آپ(س) مدت حیات[4] اور القابات[5] جیسے مسائل کو بیان کیا ہے۔

مندرجات

حضرت فاطمہ(س) کی تدفین کے وقت امام علیؑ کی گفتگو آپؑ کا دلی رنج اور فاطمہ(س) کی جدائی پر اپنی تکلیف اور غم و انداہ کا کھلا بیان ہے۔[6] امام علیؑ نے اپنی اس گفتگو میں حضرت فاطمہ(س) کی شہادت پر ایک دائمی رنج و غم کا ایک سلسلہ قائم ہونے کی بات کی ہے اور اس سلسلے میں خدا سے توفیق صبر کی دعا کی ہے۔ امام علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ سے فرمایا کہ خود فاطمہ (س) سے ان کی وفات کے بعد کے واقعات اور جملہ حالات دریافت کریں۔ اس خطبے کے مطابق حضرت علیؑ فاطمہ(س) کو ایک امانت سمجھتے تھے جسے اب پیغمبرؐ کو واپس کررہے ہیں۔[7]

خطبے کی مختلف تشریحات

شارحین نہج البلاغہ نے اس خطبے سے متعدد نکات اخذ کیے ہیں؛ بعض نکات درج ذیل ہیں:

  • حضرت علیؑ و فاطمہ(س) کے مابین بے انتہاء محبت اور جذباتی تعلق: نہج البلاغہ کے بعض شارحین نے اس جملہ: «أَمَّا حُزْنِی فَسَرْمَدٌ وَ أَمَّا لَیلِی فَمُسَهَّدٌ؛ اب میرا رنج و غم دائمی ہے اورمیری راتیں نذر بیداری ہیں» سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضرت فاطمہ(س) کی شہادت پر حضرت علیؑ کا اس حد تک رنج و غم کا اظہار کرنا آپ دونوں کے مابین گہری محبت اور جذباتی تعلق موجود ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ آیت اللہ مکارم کے مطابق ایک شعر حضرت علیؑ سے منسوب ہے اور اسی مذکورہ مطلب کی اشارہ کرتا ہے۔[8]
  • قبر فاطمہ(س) کا جوار قبر پیغمبرؐ میں قرار پانا: بعض شارحین نے اس جملہ: «النَّازِلَةِ فِي جِوَارِكَ؛ آپؐ کی دختر آپؐ کے جوار میں نازل ہو رہی ہے» سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فاطمہ(س) کی تدفین کی جگہ قبر پیغمبر اکرمؐ کے جوار میں ہے۔[9] آیت‌الله مکارم شیرازی کے مطابق یہ جملہ ان لوگوں کی اس رائے کی تائید کرتا ہے جس کے مطابق حضرت فاطمہ(س) اپنے گھر میں ہی مدفون ہوئی ہیں۔[10]
  • حضرت فاطمہ(س) پر ظلم روا رکھا گیا: ابن‌میثم بَحرانی (متوفیٰ: 679یا699ھ) کہتے ہیں: جملہ: «فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ؛ آپؐ اس سے مفصل سوال فرمائیں»، اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت فاطمہ(س) مظلوم واقع ہوئی ہیں اور حضرت علیؑ اس کی شکایت آپؐ سے کررہےہیں۔[11] آیت‌ الله مکارم شیرازی بھی کہتے ہیں کہ یہ ایک کلی جملہ ہے جو ٘مختلف واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے حضرت فاطمہ(س) کے گھر پر حملہ، شکم مادر میں محسن کی شہادت اور ابوبکر کی بیعت کے لیے حضرت علیؑ کو جبری مسجد کی طرف لے جانا۔[12] فیض‌ الاسلام کے ترجمہ میں بھی اس عبارت سے غصب فدک، حق فاطمہ(س) کی عدم معرفت اور آپ(س) کے شکستہ پہلو کی طرف اشاره کیا گیا ہے۔[13]
  • حضرت فاطمہ(س) پر ظلم کرنے میں سارے جمع ہوگئے تھے: یہ جملہ خطبے کے اس حصے سے ماخوذ ہے: «بِتَضَافُرِ أُمَّتِکَ عَلَی هَضْمِهَا؛ کس طرح آپؐ کی امت نے اس پر ظلم ڈھانے کے لئے اتفاق کرلیا تھا» کہتے ہیں کہ لفظ "تضافر" کے معنی ایک دوسرے کی مدد کرنا ہیں، چونکہ امت رسول میں سے اکثریت نے اس پر خاموشی اختیار کی اس لیے اس عمل کو ساری امت کی طرف نسبت دی گئی ہے۔[14]
  • شہادت حضرت فاطمہ(س) اور وفات پیمغبر میں تقارن: نہج البلاغہ کے بعض شارحین نے جملہ: «السَّرِيعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ؛ (آپؐ کی دختر) بہت جلدی آپ سے ملحق ہو رہی ہے» سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ رحلت رسول خداؐ اور حضرت شہادت فاطمہ(س) نزدیک تھیں۔[15] البتہ بعض دانشوروں کی نظر میں اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت فاطمہ(س) پر بکثرت مصیبتیں آئیں جن کی وجہ سے جوانی کے عالم میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئیں۔[16]
نہج‌ البلاغہ کے مختلف نسخوں میں خطبے کا مختلف نمبر شمار
نسخے کا نام خطبے کا شمارہ
المُعْجَم المفهرس لالفاظ نہج‌البلاغہ 202
تصحیح نہج‌البلاغہ: صبحی صالح 202
ترجمہ و شرح نہج البلاغہ: سید علی‌ نقی فیض‌ الاسلام 193
[[مصباح السالکین: ابن‌میثم 193
منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ: حبیب‌ الله خویی 201
شرح نهج البلاغه: ملاصالح قزوینی 201
شرح نہج البلاغہ (ابن‌ابی‌الحدید): ابن‌ابی‌ الحدید 195
شرح نهج‌البلاغه: محمد عبده 195
تنبیہ الغافلین و تذکره العارفین: ملا فتح‌ الله کاشانی 230
[[فی ظلال نهج البلاغہ:محمد جواد مغنیہ 200[17]

خطبے کی سند

کتاب "مصادرُ نَهجِ‌ البلاغه و اَسانیدُه" کے جائزے کے مطابق، امام علیؑ نے حضرت فاطمہ(س) کی تدفین کے موقع پر پیغمبر اکرمؐ سے جو گفتگو کی وہ الفاظ میں معمولی اختلاف کے ساتھ دوسری کتابوں میں بھی نقل ہوئی ہے، جیسے محمد بن یعقوب کلینی(موتفیٰ: 329ھ) نے کتاب الکافی میں اس خطبے کو امام حسینؑ سے نقل کیا ہے۔[18]محمد بن جریر طبری صغیر نے اپنی کتاب "دلائل الامامۃ" میں حضرت امام جعفر صادقؑ سے نقل کیا ہے،[19] شیخ طوسی نے اپنی کتاب الامالی شیخ طوسی(تالیف: 458ھ) میں امام حسینؑ سے نقل کیا ہے،[20] اسی طرح سبط بن جوزی حنفی (متوفی: 654ھ) نے اپنی کتاب"تذکرہ الخواصمن الامة فی ذکر خصائص الائمۃ"[21]میں ذکر کیا ہے۔[22]

یہ خطبہ نہج البلاغہ میں ذکر ہوا ہے۔[23] البتہ نہج البلاغہ کے نسخہ جات میں خطبے کا شماره مختلف ہے۔[24]

مونوگراف

کمال الدین عمادی ساروی نے نہج البلاغہ خطبہ202 کی شرح میں "حزن سرمد" کے عنوان پر کتاب لکھی ہے۔ سنہ 2004ء کو "فکرت پبلیشرز" نے اس کتاب کو "فرعی سوگ‌نامہ امیرمؤمنان علیؑ بر مزار حضرت فاطمہ زہرا(س)" کے عنوان سے شائع کیا ہے۔

خطبہ اور اس کا ترجمہ

امام علیؑ کا فاطمہؑ کے غم میں حضرت رسول خداؐ سے خطاب
وَ مِنْ كَلَامٍ لَهُ رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَهُ عِنْدَ دَفْنِ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ فَاطِمَةَ كَالْمُنَاجِي بِهِ رَسُولَ اللَّهِ عِنْدَ قَبْرِهِ:
(یہ وہ گفتگو ہے جسے حضرت علیؑ نے دنیا کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ(س) کو دفن کرتے ہوئے حضرت رسول خداؐ سے کی):
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَنِّي وَ عَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِي جِوَارِكَ وَ السَّرِيعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ. قَلَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَنْ صَفِيَّتِكَ صَبْرِي وَ رَقَ عَنْهَا تَجَلُّدِي، إِلَّا أَنَّ فِي التَّأَسِّي لِي بِعَظِيمِ فُرْقَتِكَ وَ فَادِحِ مُصِيبَتِكَ مَوْضِعَ تَعَزٍّ، فَلَقَدْ وَسَّدْتُكَ فِي مَلْحُودَةِ قَبْرِكَ وَ فَاضَتْ بَيْنَ نَحْرِي وَ صَدْرِي نَفْسُكَ، فَإِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ. فَلَقَدِ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِيعَةُ وَ أُخِذَتِ الرَّهِينَةُ، أَمَّا حُزْنِي فَسَرْمَدٌ وَ أَمَّا لَيْلِي فَمُسَهَّدٌ، إِلَى أَنْ يَخْتَارَ اللَّهُ لِي دَارَكَ الَّتِي أَنْتَ بِهَا مُقِيمٌ. وَ سَتُنَبِّئُكَ ابْنَتُكَ بِتَضَافُرِ أُمَّتِكَ عَلَى هَضْمِهَا، فَأَحْفِهَا السُّؤَالَ وَ اسْتَخْبِرْهَا الْحَالَ، هَذَا وَ لَمْ يَطُلِ الْعَهْدُ وَ لَمْ يَخْلُ مِنْكَ الذِّكْرُ. وَالسَّلَامُ عَلَيْكُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ، لَا قَالٍ وَ لَا سَئِمٍ، فَإِنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ، وَ إِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوءِ ظَنٍّ بِمَا وَعَدَ اللَّهُ الصَّابِرِينَ.

ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول (ص) ! میری طرف سے اور آپ کی اس دختر کی طرف سے جوآپ کے جوار میں نازل ہو رہی ہے اوربہت جلدی آپ سے ملحق ہو رہی ہے۔ یا رسول اللہ (ص) ! میری قوت صبر آپ کی منتخب روز گار دختر کے بارے میں ختم ہوئی جا رہی ہے اور میری ہمت ساتھ چھوڑے دے رہی ہے صرف سہارا یہ ہے کہ میں نے آپ کے فراق کے عظیم صدمہ اورجانکاہ حادثہ پر صبر کرلیا ہے تواب بھی صبر کروں گا کہ میں نے ہی آپ کو قبر میں اتارا تھا اور میرے ہی سینہ پر سر رکھ کر آپ نے انتقال فرمایا تھا بہر حال میں اللہ ہی کے لئے ہوں اور مجھے بھی اس کی بارگاہ میں واپس جانا ہے۔آج امانت واپس چلی گئی اور جوچیز میری تحویل میں تھی وہ مجھ سے چھڑالی گئی۔اب میرا رنج و غم دائمی ہے اورمیرے راتیں نذر بیداری ہیں جب تک مجھے بھی پروردگار اس گھرتک نہ پہنچا دے جہاں آپ کا قیام ہے۔عنقریب آپ کی دختر نیک اختران حالات کی اطالع دے گی کہ کس طرح آپ کی امت نے اس پر ظلم ڈھانے کے لئے اتفاق کرلیا تھا آپ اس سے مفصل سوال فرمائیں اورجملہ حالات دریافت کریں۔ افسوس کہ یہ سب اس وقت ہوا ہے جب آپ کا زمانہ گزرے دیر نہیں ہوئی ہے اور ابھی آپ کاتذکرہ باقی ہے۔ میرا سلام ہو آپ دونوں پر۔اس شخص کا سلام جو رخصت کرنے والا ہے اور دل تنگ و ملول نہیں ہے ۔ میں اگراس قبر سے واپس چلا جائوں تو یہ کسی دل تنگی کا نتیجہ نہیں ہے اور اگر یہیں ٹھہر جائوں تو یہ اس وعدہ کی بے اعتباری نہیں ہے جو پروردگار نے صبرکرنے والوں سے کیا ہے۔[25]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، پیام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، ص32.
  2. مکارم شیرازی، پيام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، ص30.
  3. مکارم شیرازی، پیام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، ص40-56.
  4. خویی، منهاج البراعة، 1358ہجری شمسی، ج13، ص10-11.
  5. خویی، منهاج البراعة، 1358ہجری شمسی، ج13، ص4-8.
  6. مکارم شیرازی، پیام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، ص30.
  7. ملاحظہ کریں: صبحی صالح، نهج‌البلاغه، 1414ھ، ص319.
  8. مکارم شیرازی، پیام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، ص37.
  9. خویی، منهاج البراعة، 1358ہجری شمسی، ج13، ص8-9.
  10. مکارم شیرازی، پیام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، ص32.
  11. ابن‌میثم، اختیار مصباح السالکین، 1366ہجری شمسی، ص393.
  12. مکارم شیرازی، پيام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، 37-38.
  13. فیض‌الاسلام، ترجمه و شرح نهج‌البلاغه، 1371ہجری شمسی، ص653.
  14. مکارم شیرازی، پيام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، ص38.
  15. خویی، منهاج البراعة، 1358ہجری شمسی، ج13، ص9-10.
  16. مکارم شیرازی، پیام امام اميرالمؤمنين، 1386ہجری شمسی، ج8، ص33.
  17. دشتی و محمدی، المعجم المفهرس لألفاظ نهج البلاغه، 1357ہجری شمسی، ص513.
  18. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص458.
  19. طبری، دلائل الامامة، 1413ھ، ص137.
  20. طوسی، الامالی، 1414ق، ص109.
  21. ابن‌جوزی، تذکرة الخواص، 1426ھ، ج2، ص361.
  22. حسینی خطیب، مصادر نهج‌البلاغه و اسانیده، 1985ء، ج3، ص85-87.
  23. صبحی صالح، نهج‌البلاغه، 1414ھ، ص319؛ فیض‌الاسلام، ترجمه و شرح نهج‌البلاغه، 1371ہجری شمسی، ص651؛‌ ابن‌ابی‌الحدید، شرح نهج‌البلاغه، 1404ھ، ج10، ص265؛ عبده، شرح نهج‌البلاغه، مطبعة الاستقامة، ص182.
  24. دشتی و محمدی، المعجم المفهرس لألفاظ نهج البلاغه، 1357ش، ص513.
  25. ترجمہ: ذیشان حیدر جوادی.

مآخذ

  • نهج‌البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم، دارالهجره، 1414ھ.
  • دیوان الامام علی، تحقیق عبدالمنعم خفاجی، دیوان الإمام علی، دار ابن‌زیدون، بی‌تا.
  • ابن‌ابی‌الحدید، عزالدین ابوحامد، شرح نهج‌البلاغه، قم، کتابخانه عمومی آیت‌الله مرعشی نجفی، 1404ھ.
  • ابن‌جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص من الأمة بذکر خصائص الأئمة، قم، المجمع العالمی لاهل البیت علیهم السلام، 1426ھ.
  • ابن‌میثم بحرانی، میثم بن علی، اختیار مصباح السالکین؛ شرح نهج‌البلاغه الوسیط، تحقیق محمدهادی امینی، مشهد، بنیاد پژوهش‌های اسلامی آستان قدس رضوی، 1366ہجری شمسی.
  • حسینی خطیب، سید عبدالزهراء، مصادر نهج‌البلاغه و اسانیده، بیروت، دارالاضواء، 1985ء.
  • خویی، ابوالقاسم، منهاج البراعة، تهران، مکتب الاسلامیة، 1358ہجری شمسی.
  • دشتی، محمد، و کاظم محمدی، المعجم المفهرس لألفاظ نهج البلاغة، قم، مؤسسه فرهنگی تحقیقاتی امیرالمومنین، 1375ہجری شمسی.
  • طبری آملی صغیر، محمد بن جریر بن رستم‏، دلائل الامامة، قم، بعثت، 1413ھ.
  • طوسی، محمد بن حسن، الامالی، قم، دارالثقافت، 1414ھ.
  • عبده، محمد، شرح نهج‌البلاغه، قاهره، مطبعة الاستقامه، بی‌تا.
  • فیض‌الاسلام، علی‌نقی، ترجمه و شرح نهج‌البلاغه، تهران، انتشارات فیض‌الاسلام، 1371ہجری شمسی.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، 1407ھ.
  • مکارم شیرازی، ناصر، پیام امام امیرالمومنین، تهران، دارالکتب الاسلامیه، 1386ہجری شمسی.
شیعوں کے پہلے امام
امام علی علیہ السلام
حیات طیبہ
یوم‌ الدارشعب ابی‌ طالبلیلۃ المبیتواقعہ غدیرمختصر زندگی نامہ
علمی میراث
نہج‌البلاغہغرر الحکمخطبہ شقشقیہبغیر الف کا خطبہبغیر نقطہ کا خطبہحرم
فضائل
آیہ ولایتآیہ اہل‌الذکرآیہ شراءآیہ اولی‌الامرآیہ تطہیرآیہ مباہلہآیہ مودتآیہ صادقینحدیث مدینہ‌العلمحدیث رایتحدیث سفینہحدیث کساءخطبہ غدیرحدیث منزلتحدیث یوم‌الدارحدیث ولایتسدالابوابحدیث وصایتصالح المؤمنینحدیث تہنیتبت شکنی کا واقعہ
اصحاب
عمار بن یاسرمالک اشترسلمان فارسیابوذر غفاریمقدادعبید اللہ بن ابی رافعحجر بن عدیمزید