ام ابیہا

ویکی شیعہ سے

اُمّ اَبیہا، حضرت فاطمہ زہرا(س) کی کنیت ہے۔ جس کے معنی اپنے باپ کی ماں کے ہیں۔ روایات کے مطابق، پیغمبر اکرم (ص) اپنی بیٹی کو ام ابیھا کہا کرتے تھے۔[1] امام صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ ام ابیھا حضرت فاطمہ کی کنیت تھی۔[2]

وجہ تسمیہ

حضرت فاطمہ زہرا (س) کو ام ابیھا کا لقب دینے کے سلسلہ میں یہاں بعض نظریات ذکر کئے جا رہے ہیں:

  • نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) کا سلوک حضرت فاطمہ کے ساتھ ایسا تھا جیسا فرزند کا سلوک ماں کے ساتھ ہوتا ہے اور اسی طرح سے حضرت فاطمہ کا سلوک بھی آنحضرت کے ساتھ ایسا تھا جیسا ایک ماں کا مشفقانہ سلوک اپنے فرزند کے ساتھ ہوتا ہے۔ فاطمہ (س) کو ام ابیھا کہا گیا ہے۔ جیسا کہ نقل ہوا ہے کہ آنحضرت (ص) فاطمہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے تھے۔ سفر سے پہلے فاطمہ سے سب سے آخر میں خدا حافظی کرتے تھے اور سفر سے واپسی میں فقط فاطمہ کے دیدار کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔ اس کے مقابل میں فاطمہ بھی آپ (ص) کے ساتھ مادرانہ شفقت کے ساتھ پیش آتی تھیں، آپ کا خیال کرتی تھیں اور آپ کے زخموں، درد و رنج کا مداوا کرتی تھیں۔[4]
  • مادر تمام اشیاء اس کی اصل و ریشہ ہوتی ہے۔ جیسے ام الکتاب (قرآن کریم) و ام القری (مکہ)۔ ممکن ہے کہ رسول خدا (ص) کی مراد اس کنیت سے یہ ہو کہ فاطمہ درخت نبوت کی اصل و اساس ہیں۔ ان کے بیٹے اس درخت کے میوہ اور ان کے شیعہ اس کے شاخ و برگ ہیں۔[5]
  • جیسا کہ ازواج پیغمبر اکرم کی ام المومنین کے لقب سے تکریم کی گئی ہے۔ لہذا کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ وہ سب سے افضل ہیں۔ آنحضرت نے فاطمہ (س) کو ام ابیھا کا لقب دیا تا کہ بات واضح ہو جائے کہ اگر ازواج پیغمبر مومنین کی مائیں ہیں تو فاطمہ زہرا (س) پیغمبر اکرم (ص) کی ماں ہیں۔[6]

حضرت فاطمہ کے بعد بعض خواتین کا نام ام ابیھا تھا جیسے عبداللہ بن جعفر بن ابیطالب کی ایک بیٹی کا نام بھی "ام ابیہا" تھا۔[7] محمد بن جریر طبری کی روایت کے مطابق حضرت امام کاظمؑ نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام "ام ابیہا" رکھا تھا۔[8]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. اربلی، کشف الغمہ، منشورات الرضی، ج۱، ص۴۳۸.
  2. ابن أیوب الباجی المالکی، التعدیل والتجریح، مراکش، ج۳، ص۱۴۹۸-۱۴۹۹؛ أبو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ۱۳۸۵ق، ص۲۹؛ ابن مغازلی، مناقب علی بن أبی طالب(ع)، ۱۴۲۶ق، ص۲۶۷؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۳، ص۱۹.
  3. مظاهری، فاطمہ دختری از آسمان، ۱۳۸۶ش، ص۲۸.
  4. رحمانی همدانی، فاطمة الزهرا (س) بضعة قلب مصطفی (ص)، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۰۴.
  5. رحمانی همدانی، فاطمة الزهرا (س) بضعة قلب مصطفی (ص)، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۰۴ و ۲۰۵.
  6. رحمانی همدانی، فاطمة الزهرا (س) بضعة قلب مصطفی (ص)، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۰۴.
  7. تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج 2، ص 292.
  8. تاریخ طبری، ترجمہ پایندہ، ج 14، ص 5986.

مآخذ

  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1403 ہجری۔
  • ابن أیوب الباجی المالكی، سلیمان بن خلف بن سعد، التعدیل والتجریح، ج 3، تحقیق: الأستاذ أحمد البزار ناشر: وزارۃ الأوقاف والشؤون الإسلامیۃ۔مراكش
  • ابن المغازلی، مناقب علی بن أبی طالب ؑ، انتشارات سبط النبی (ص)، 1426ھ/ 1384 ہجری شمسی۔
  • أبو الفرج الأصفہانی، مقاتل الطالبیین، تحقیق، تقدیم و إشراف: كاظم المظفر، النجف الأشرف: منشورات المكتبۃ الحیدریۃ و مطبعتہا، 1385 ھ/1965 عیسوی۔
  • یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران: بنگاہ ترجمہ و نشر کتاب، 2536 پہلوی (نسخہ موجود در لوح فشردہ مکتبہ اہل بیتؑ نسخہ دوم)۔
  • الطبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری، ترجمہ ابو القاسم پایندہ، ناشر: اساطیر، 1369 شمسی ہجری (نسخہ موجود در لوح فشردہ مکتبہ اہل بیتؑ نسخہ دوم)۔