بتول

ویکی شیعہ سے

بَتول حضرت فاطمہ کے القاب میں سے ہے۔ عربی زبان میں ایسی خاتون کو بتول کہا جاتا ہے جو حیض کی عادت نہ رکھنے کی وجہ سے دوسری خواتین سے ممتاز ہو۔ حضرت فاطمہ کو بتول کہنے کی اور بھی وجوہات ذکر ہوئی ہیں۔ حضرت علیؑ، حضرت فاطمہؑ کے ساتھ شادی کی وجہ سے زوج البتول کے لقب سے ملقب تھے۔

لغوی معنی

بتول لغت میں اس عورت کو کہا جاتا ہے جس نے مادی اور دنیوی خواہشات سے لاتعلقی اختیار کر کے صرف خدا کے ساتھ لو لگائی ہو۔[1] اسی طرح ازدواجی تعلقات کی طرف رجحان نہ رکھنے والی عورت کو بھی بتول کہا جاتا ہے۔[2] حضرت عیسیؑ کی والدہ حضرت مریم کو بھی مردوں سے قطع تعلق یا حیض کی عادت نہ رکھنے کی بنا پر بتول کہتے تھے۔[3] انسان کا خدا کے علاوہ ہر چیز سے قطع تعلق ہو کر اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہونا تبتل ہے۔[4]

حضرت زہراؑ کو بتول کہنے کی وجہ

اس ضمن میں مختلف اقوال ہیں:

  • وہ اپنے اعمال، رفتار اور معرفتِ خدا کے لحاظ سے اپنے زمانے کی دوسری خواتین سے برتر اور ممتاز نیز صرف اور صرف خدا کی طرف متوجہ رہتی تھیں۔ [5]
  • بہت سی روایات کے مطابق حضرت فاطمہؑ کو عورتوں سے مخصوص خون سے پاک ہونے کی وجہ سے بتول کہا جاتا ہے۔[6][7]

زوج البتول

تفصیلی مضمون: زوج البتول

چونکہ حضرت زہراؑ، بتول کے لقب سے ملقب تھیں[8]، اس لیے حضرت علی(ع) کو آپ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی وجہ سے زوج البتول کا لقب دیا گیا۔ جنگ نہروان سے واپسی کے موقع پر خطبہ‌ دیتے ہوئے حضرت علیؑ نے اپنے آپ کو اسی لقب سے یاد کیا ہے۔[9]

حوالہ جات

  1. العین، ج8، ص125
  2. العین، ج8، ص124؛ ابن منظور، لسان العرب، ج11، ص43؛ مجمع البحرین، ج5، ص316
  3. ابن منظور، لسان العرب، ج11، ص43؛ راغب اصفہانی، المفردات، ج1، ص240، علامہ طباطبائی، المیزان، ج3، ص206
  4. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج25، ص179
  5. مازنذرانی، شرح اصول کافی، ج5، ص228؛ مجمع البحرین، ج5، ص316؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ج25، ص179
  6. قندوزی، ینابیع الموده، ج2، ص322؛ مجلسی، بحارالانوار، ج43، ص16
  7. نک: شیخ طوسی، امالی، ص44؛ مجمع البحرین، ج5، ص316؛ طبری، دلائل الامامہ، ص54؛ اربلی، کشف الغمہ، ج1، ص464؛ صدوق، معانی الاخبار، ص64؛ نک: محلاتی، ریاحین الشریعہ، ج1، ص18
  8. قمی، بیت الاحزان، ص23
  9. شیخ صدوق، معانی الاخبار، ص58

منابع

  • إربلی، کشف الغمہ، چاپ مکتبہ بنی ہاشمی تبریز، 1381ھ.
  • راغب اصفہانی، مفردات الفاظ قرآن، ترجمہ: خسروی حسینی سید غلام رضا، انتشارات مرتضوی، تہران، 1375شمسی.
  • شیخ صدوق، علل الشرائع، تحقیق: السید محمد صادق بحر العلوم، منشورات المکتبہ الحیدریہ و مطبعتہا، نجف، 1385ھ/1966ء۔
  • شیخ صدوق، معانی الاخبار، جامعہ مدرسین، قم، 1403ھ.
  • شیخ طوسی، الأمالی، تحقیق: مؤسسہ البعثہ، دارالثقافہ للطباعہ والنشر والتوزیع، قم، 1414ھ.
  • طبری، دلائل الإمامہ،‌ دار الذخائر للمطبوعات، قم.
  • طریحی، فخرالدین، مجمع البحرین، تحقیق: سید احمد حسینی، ناشر: کتاب فروشی مرتضوی، تہران، چ: سوم، 1375شمسی.
  • علامہ طباطبائی، المیزان، ترجمہ: موسوی ہمدانی سید محمد باقر، ناشر: دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزه علمیہ قم، قم، 1374شمسی.
  • علامہ مجلسی، بحار الانوار، تحقیق: محمد باقر بہبودی، مؤسسہ الوفاء، بیروت، 1403ھ/1983ء۔
  • قمی، شیخ عباس، بیت الاحزان، ترجمہ اشتہاردی، قم.
  • قندوزی، ینابیع المودة لذوی القربی، تحقیق: سید علی جمال أشرف الحسینی،‌ دارالأسوة للطباعہ والنشر، 1416ھ.
  • کلینی، الکافی،‌ دار الکتب الإسلامیہ تہران، 1365شمسی.
  • مازندرانی، محمد صالح، شرح أصول الکافی، تحقیق: میرزا أبوالحسن شعرانی، تصحیح: سید علی عاشور،‌ دارإحیاء التراث العربی للطباعہ والنشر والتوزیع، بیروت، 1421ھ/2000ء۔
  • محدث نوری، مستدرک الوسائل، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام قم، 1408ھ.
  • محلاتی، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعہ در ترجمہ بانوان دانشمند شیعہ، دارالکتب الاسلامیه، طہران.
  • مکارم شیرازی ناصر، تفسیر نمونہ، ناشر:‌ دارالکتب الإسلامیہ، تہران، 1374شمسی.