اہل سنت و الجماعت

حوالہ جاتی اصول کی عدم رعایت
غیر مستند
جانبدار
علاقائی تقاضوں سے غیر مماثل
غیر جامع
تلخیص کے محتاج
ویکی شیعہ سے
(اہل سنّت سے رجوع مکرر)

اہل سنت والجماعت

اہل سنت و الجماعت اسلام کے دو بڑے مذاہب میں سے ایک ہے جو مسلمانوں کی اکثریت پر مشتمل ہے۔ اختصار کے ساتھ سنی یا اہل سنت بھی کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر اہل سنت ان فرقوں کو کہا جاتا ہے جو پیغمبر اکرمؐ کے بعد خلافت کے لئے کسی قسم کی نص سے انکار کرتے ہوئے خلیفہ کے انتخاب کو امت کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

ایران، عراق، آذربایجان، بحرین اور لبنان کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک میں اکثریت اہل سنت کی ہے۔ اہل سنت کلامی اور فقہی اعتبار سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔

فقہی لحاظ سے حنفی ابو حنیفہ، مالکی مالک بن انس ، شافعی محمد بن ادریس شافعی اور حنبلی احمد بن حنبل کے پیروکار ہیں۔ اعتقادی اور کلامی لحاظ سے اشاعره ابو الحسن اشعری، اہل حدیث احمد بن حنبل( سلفی اسی کا ایک حصہ ہیں)، معتزلہ واصل بن عطااور ماتریدیہ ابومنصور ماتریدی سمرقندی کے پیروکر ہیں۔

"اہل سنت" کی اصطلاح

لغوی معنی

یہ لفظ عربی زبان کے دو لفظ "اہل" اور "سنت" کا مجموعہ ہے؛ لغوی اعتبار سے اہل کسی خاص چیز میں شریک گروہ کو کہا جاتا ہے جیسے اہل بیت یعنی خاندان کے افراد، اہل اسلام یعنی اسلام کے ماننے والے۔[1]

اسی طرح لفظ سنت لغوی اعتبار سے پسندیدہ طور و طریقوں کو کہا جاتا ہے۔ [2] سنت کا لفظ قرآن میں اکثر مثبت معنی میں استعمال ہوا ہے جیسے فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِيلاً۴۳[؟؟] اور حدیث نبوی مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَه أَجْرُهَا وأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ میں یہ لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے۔[3]

سنت کے اصطلاحی معنی

اصطلاحی لحاظ سے لفظ سنت مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے :

  1. مستحب کے معنی میں جو اس کام کو کہا جاتا ہے جس کے انجام دینے سے ثواب ملتا ہے لیکن ترک کرنا موجب عقاب نہیں ہے۔
  2. بدعت کے مقابلے میں صاحب شریعت کے عمل کی مطابقت کو سنت کہا جاتا ہے۔
  3. پہلی اور دوسری صدی میں سنت ایک وسیع معنی میں استعمال ہوتا تھا جو پیغمبر اکرم، صحابہ اور تابعین کو شامل کرتا تھا۔
  4. اہل سنت کے نزدیک صرف پیغمبر اکرمؐ جبکہ شیعوں کے نزدیک تمام معصومین کے قول، فعل اور تقریر کو سنت کے عنوان سے شرعی احکام کے دلائل میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔[4]

اہل سنت کی ابتداء

دوسری صدی ہجری کے اواسط میں اصحاب رائ جو فقہ میں اجتہاد کو اہمیت دیتے تھے، کے مقابلے میں اہل سنت کی اکثریت "اصحاب اثر" کے نام سے جانے جاتے تھے اور اس زمانے میں "اثر" ایک وسیع معنی میں استعمال ہوتا تھا جس میں پیغمبر اکرمؐ، صحابہ اور تابعین کے اقوال اور افعال شامل ہوتے تھے۔[5] یہاں تک کہ دوسری صدی ہجری میں شافعی نے فقہ میں ایک منظم اور مرتب نظام پیش کرتے ہوئے اس کے مبانی اور اصول کو کتاب "الرسالہ" میں تحریر کیا۔ انہوں نے اس کتاب میں اصحاب اثر کے گذشتہ فقہاء پر اعتراض کرتے ہوئے صحابہ اور تابعین کے اقوال کو سنت کی تعریف سے خارج کر کے اسے حدیث نبوی تک منحصر کیا۔[6] ان کے بعد ان کے شاگرد احمد بن حنبل نے خلق قرآن کے مسئلے میں معتزلہ کا مقابلہ کرتے ہوئے اہل حدیث کی بنیاد ڈالی۔[7] وہ مختصر اختلاف کے ساتھ شافعی کے ہی راستے پر گامزن ہوا اور سنّت کی یوں تعریف کی: سنت ہمارے نزدیک رسول خدا کے آثار تک منحصر ہے اور سنت کے اصول وہ چیزیں ہیں جن پر اصحاب کاربند تھے۔ انہوں نے محدثین کے نظریے کو "اہل سنت" کا نظریہ قرار دیا اور اپنے مخالفین کو اہل بدعت قرار دیتے ہوئے کتاب "اصول السنہ" تحریر کی اور عباسی خلیفہ متوکل کی حمایت اور اپنی علمی صلاحیتوں کی بنیاد پر اہل سنت پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔[8] یہاں تک کہ اہل حدیث یا اہل سنت احمد ابن حنبل کے پیروکاروں میں منحصر ہو گئیں اور متکلمین یا ہر وہ شخص جو اسلامی اعتقادات پر ذرا سی عقلی استدلال پیش کرتا وہ اہل سنت کے دائرے سے خارج ہو جاتا اسی بنا پر اہل سنت کی اصطلاح سے سوائے احمد بن حنبل کے پیروکاروں کے کوئی اور مراد نہیں لئے جاتے۔[9]

چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں ابوالحسن اشعری نے بصرہ کے جامع مسجد میں اعتزال سے توبہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو احمد بن حنبل کا پیروکار قرار دیا اور احمد حنیل سے ارث میں ملنے والے اعتقادات کو مرتب کرنا شروع کیا۔ ان کے ساتھ مشرق سے ابومنصور ماتریدی سمرقندی بھی ابوالحسن اشعری کی مانند ظاہر ہوا اور گزر زمان کے ساتھ یہ دو شخصیات اہل سنت والجماعت کے پیشوا کے طور پر مطرح ہونے لگا۔[10]

اصحاب اثر سے اہل سنت تک

تابعین اپنے جدید اور اختلافی مسائل کے حل کیلئے صحابہ کی رائے کو نہایت اہمیت اور اسے مرجع سمجھتے تھے بلکہ ہر ایک صحابی بعض تابعین کیلئے ایک مرجع کی حیثیت رکھتا تھا جیسے مکہ میں ابن عباس، ابن مسعود کوفہ میں تابعین کیلیئے ایک مستند اور مرجع کی حیثیت رکھتے تھے ۔پہلے تابعین کے اقوال اور صحابہ کے فتاوا آنے والے تابعین کے تابعین اور آنے والی نسلوں کیلئے نہایت اہمیت کے حامل تھے۔ ان اقوال اور فتاوا کو اثر کہا جاتا تھا۔مرتبے کے لحاظ سے انکا درجہ حدیث رسولخدا ص کے بعد آتا تھا۔تابعین کے پیروکاروں کے زمانے میں لفظ اثر سنت کی مانند موضوعیت پیدا کر چکا تھا اور دوسری صدی میں بہت سے محدثین اصحاب اثر یا اصحاب آثار کے نام سے مشہور تھے ۔ [11]

دوسری صدی میں لفظ اثر کا اعتبار کم ہو گیا ۔شافعی نے استنباط کے قوانین ترتیب دیتے ہوئے کتاب الرسالہ لکھا ۔شافعی نے حدیثی رجحان کو پیدا کیا اور اس نظریے کو بیان کیا کہ قرآن کے ظواہر کے مفسر صحابہ اور تابعین کی سنت نہیں بلکہ رسول اللہ کی سنت ہے اور اس سے پیغمبر کا قول، فعل اور تقریر مراد ہے ۔پس اس لحاظ سے شافعی نے پہلے کی نسبت سنت کی تعریف کو محدود کیا ۔ اس نے خلق قرآن کے فتنے کے بعد محدثین کے نظریات کو اہل سنت کے نظریات کا نام دیا اور اس کے مخالفین کو اہل بدعت شمار کیا ۔[12] اہل سنت کا لفظ اصحابِ حدیث کے مترادف تھا شافعی کی جانب سے سنت کے مفہوم کو محدود کرنے کے بعد آہستہ آہستہ اصحابِ اثر کی جگہ اصحاب حدیث اور اہل سنت نے لے لی۔اس سلسلے میں احمد بن حنبل کا زیادہ کردار رہا ۔اس نے اعتقاد نامے کی تالیف کے ذریعے اصولِ سنت کی وضاحت بیان کی ۔نیز اس نے اصحاب حدیث کو حقیقی پیغمبر کی سنت کے پیروکار کہا اور معتزلہ، شیعہ، خوارج، مرجئہ اور جہمیہ اہل بدعت کہا ۔احمد بن حنبل کے پیروکار اپنے لئے اہل سنت کا استعمال کرتے اور یہ دوسرے الفاظ کی نسبت غلبہ حاصل کر گیا۔[13]

صرف اہل سنت کا استعمال

دوسری صدی کے اوائل میں اہل سنت کا لفظ جماعت کے لفظ کے بغیر رائج ہوا عمر بن عبد العزیز نے قدریہ کے خلاف اپنے رسالے میں اہل سنت کو استعمال کیا ہے ۔وہ قدریہ کو خطاب کرتے ہوئے لکھتا ہے:وقد علمتُم انّ أهلَ السنة کانُوا یقولون: الاعتصامُ بالسنةِ نجاةُ وسیقبَض العلمُ قبضاً سَریعاً تم جانتے ہو کہ اہل سنت کہتے ہیں:سنت سے تمسک کرنے میں ہی راہ نجات ہے اور علم و دانش تو جلد ہی ختم ہو جائے گی۔

اہل سنت کا شمول

اہل سنت و جماعت کی اصطلاح میں سنت کی قید کے ساتھ اہل بدعت مذاہب اور جماعت کی قید کے ذریعے خوارج کو شامل نہیں ہے ۔لیکن اس بات کی طرف توجہ رہنی چاہئے کہ یہاں سنت اور بدعت سے مراد وہ تعریف ہے جو اکثریت کے نزدیک اصطلاح رائج ہے۔طول تاریخ میں کسی ایسے گروہ کا نام نہیں لیا جا سکتا جو اپنی نسبت کہیں کہ ہم سنت سے منحرف اور بدعتی ہیں۔

اہل سنت میں شیعہ اور اباضیہ کا شامل نہ ہونا

موجودہ زمانے میں اہل سنت و جماعت کی تعبیر میں مسلمانوں میں سے شیعہ اور اباضیہ اس اصطلاح میں شامل نہیں ہیں۔لیکن تاریخی اعتبار سے یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں میں سے کلامی گروہ جیسے معتزلہ اور مرجئہ اس اکثریت یعنی اہل سنت و جماعت میں شامل نہیں مانے جاتے ہیں۔

خلافت کی بنیاد پر اہل سنت کا تعین

جب ہم اہل سنت و جماعت کے لفظی استعمالات کو تاریخی لحاظ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں بہت سے نکات کی جانب توجہ کرنی چاہئے ۔موجودہ دور میں اہل سنت و جماعت اور دوسرے گروہوں کے درمیان عملی طور پر مذاہب اولین خلفائے کی صورت میں تقسیم ہوتے ہیں ۔ اس طرح سے کہ اہل سنت و جماعت مختلف گروہوں باوجود خلفائے راشدین کی خلافت کی مشروعیت پر اتفاق نظر رکھتے ہیں ۔جبکہ شیعوں میں سے خاص طور پر امامیہ اور اسماعیلیہ حضرت علی علیہ السلام کو [[رسول اللہ]]کا بلا فصل جانشین سمجھتے ہیں اور اباضیہ حضرت علی اور حضرت عثمان کی خلافت پر اعتراضات کرتے ہیں۔شیعوں میں سے زیدیہ مکتب دوسرے شیعہ گرہوں کی نسبت اہل سنے کے زیادہ نزدیک ہیں لیکن اس کے باوجود امامت کے باب ان کے بعض نظریات اہل سنت سے جدا ہیں ۔

فقہی مذاہب

دور حاضر میں فقہی لحاظ سے اہل سنت کے معروف ترین مذاہب حنفی،حنبلی،شافعی اورمالکی ہیں۔ جبکہ بعنوان مذہب دیگر فقہی لحاظ سے مذہب اوزاعی، مذہب سفیان ثوری، مذہب ابوثور و مذہب ظاہری بھی تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کا حصہ بن گئے ہیں ۔

موجودہ دور میں مذہب ظاہریہ مسلمانوں کے ایک آٹھویں مذہب کی حیثیت سے محدود لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔نیز اسکے ساتھ ساتھ اس گروہ کی طرف بھی متوجہ رہنا چاہئے کہ جو مستقیم طور پر فقہی احکام کو نصوص شرعیہ اور ادلۂ فقہی سے استنباط کرنے کے قائل ہونے کی وجہ سے اہل سنت کے چار مذاہب سے جدا ہے۔

استنباط کے ذرائع


مالکی

مالک بن انس کے ماننے والوں کو مالکی کہا جاتا ہے ۔مالک بن انس 90 اور 95 ہجری قمری کے درمیان مدینے میں پیدا ہوا اور اسکی وفات 173 اور 179 ہجری قمری کے درمیان فوت ہوا ۔انہیں دار الہجرہ اور امام المدینہ بھی کہتے ہیں۔یہ مکتب مدینہ میں پیدا پیدا ہوا۔مالکی مذہب ایک مکتب حدیثی اور اہل رائے کا نکتۂ مقابل ہے۔

مشہور علما

عبداللہ بن ہرمز اعرج، نافع مولی عبداللہ بن عمر، محمد بن مسلم بن شہاب زہری، ربیعہ بن عبدالرحمن، محمد بن منکدر، ابوالزناد عبداللہ بن زکوان، عبدالرحمن بن قاسم، ایوب سختیانی، محمد بن عبدالرحمن بن نوفل مدنی، یحیی بن سعید انصاری و زید ابن اسلم مالکی مذہب کے بزرگ علما میں سے ہیں.[14] قرآن، سنت نبوی،اہل مدینہ کا عمل ،قول نبی نہ ہونے کی صورت میں قول صحابی ، مصالح مرسلہ، قیاس، سد ذرائع، اجماع، عرف و عادت، استحسان اور استصحاب اس مذہب کے وہ اصول ہیں جن کے ذریعے شرعی احکام حاصل کئے جاتے ہیں .[15]

مشہور کتب

اہم کتب حدیث
شیعہ
اصول کافیمن لایحضرہ الفقیہتہذیب الاحکاماستبصارکمال الدین و تمام النعمہنہج البلاغہصحیفہ سجادیہ
سنی
صحیح بخاریصحیح مسلمسنن ابی داوودسنن ابن ماجہسنن ترمذیسنن نسائی


مالک بن انس کی اہم ترین کتاب الموطا ہے جو احادیث کا مجموعہ ہے۔ اسے مالکیوں کا اہم ترین فقہی مآخذ شمار کیا جاتا ہے ۔ دیگر کتب

  • ابن عبدالبر اندلسی کی تالیف التمہید لما فی الموطأ من المعانی و الاسانید
  • ابن عبدالبر کی الاستذکار الجامع لمذاہب فقہاء الامصار فیما تضمنہ الموطا من معانی الرائ و الآثار
  • ابن الولید باجی کی المنتقی،
  • جلال الدین سیوطی کی تنویر الحوالک علی موطأ مالک،
  • محمد بن عبدالباقی زرقانی کی شرح الزرقانی علی موطأ الامام مالک

اس مسلک کی معروفتین کتابیں ہیں .

اس مسلک کی تیسری صدی کی دیگر اہم کتب  : عبدالملک بن حبيب کی الواضحه،محمد عتبی کی المستخرجة العتیبة علی الموطأ ، ابن المواز کیالموازنة اس مذہب کی بنیادی کتابیں شمار ہوتی ہیں. رسائل اور مختصر کتابیں جیسے ابن ابی زید القیروانی کی رسالہ، شیخ خلیل کی فقہ میں لکھی گئی مختصر اس پر بہت سی شروحات لکھی گئی ہیں . احمد بن عیسی برزوق کی قیروانی کے رسالے پر لکھی گئی شرح ، سید خلیل کی مختصر پر لکھی گئی شرح بنام الشرح الکبیر اور اسی طرح دسوقی کا الشرح الکبیر لگایا گیا حاشیہ قابل ذکر ہیں ۔[16]

حنفی

اسلامی مذاہب میں سے بزرگترین مذہب ہے۔اس مذہب کے ماننے والے ابو حنیفہ یعنی نعمان بن ثابت کے بتائے ہوئے فتاوا پر عمل کرتے ہیں. ابوحنیفہ نے فقہی احکام قرآن، سنت نبوی، قول صحابی، قیاس، استحسان، اجماع و عرف سے اخذ کئے ہیں ۔ابو حنفیہ کی قیاس پر عمل کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے بعض نے کہا ہے جہاں احادیث نبوی نہیں تھیں وہاں ابو حنفیہ نے قیاس پر عمل کیا ہے ۔[17]

کتب

محمد بن حسن شیبانی (ت۱۸۹ه) کی تصنیفات کو پہلے درجے کے فقہی مآخذ میں سے قرار دیا جاتا ہے۔سرخسی کی المبسوط ابوبکر ، علاء الدین سمرقندی کی تحفہ الفقہاء، کاشانی کی بدایع الصنایع فی ترتیب الشرایع، ابوالحسین قدوری کی مختصر القدوری، محمد بن احمد کی الوقایۃ لبرہان الشریعہ،ابوالفضل موصلی کی المختار ، ابن ساعاتی کی مجمع البحرین، نسفی کی کنز الدقایق فقہ حنفی اہم ماخذ شمار ہوتے ہیں۔[18]

شافعی

ابوعبدالله محمد ادریس شافعی مذہب شافعی کے بانی ہیں۔146 اور 150 ہجری قمری کے درمیان پیدا ہوئے اور 204 ہجری قمری میں فوت ہوئے ۔ مالک بن انس اور ابو حنفیہ کے شاگرد محمد بن حسن شیبانی سے استفادہ کیا ہے . قرآن ، سنت نبوی، اجماع اور قیاس اس مذہب کے فقہی احکام مآخذ ہیں ۔[19] مہب حنفی اور مذہب حنبلی کو اختیار کرنے میں شافعی نے ایک نیا راستہ اختیار کیا . شافعی نے خلافت امین عباسی کے زمانے میں عراق کے اندر کتاب «حجت» کے نام سے لکھی .مصر آجانے کے بعد اپنی جدید آراء کو «قول جدید» میں ذکر کیا اور پھر الامّ تالیف کی. صلاح الدین ایوبی کے مصر پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد مذہب شافعی نے مصر میں رونق حاصل کی ۔[20]

مشہور کتب

مذہب شافعی کی بنیادی ترین کتاب الاُمّ ہے جس میں فقہ کے تمام ابواب مذکور ہیں ۔نیز

  • مختصر مزنی، ابی ابراہیم اسماعیل مزنی
  • ابی اسحاق ابراہیم بن علی شیرازی کی المہذب،
  • نووی کی المجموع شرح المہذب،
  • عبدالملک جوینی کی التنبیہ فی فروع الشافعیہ اور اسکی شروحات نیز نہایہ المطلب فی درایہ المذہب بھی اسی کی ہے،
  • ابو حامد غزالی کی البسیط فی فروع الفقہ اور الوسیط فی فروع المذہب ،
  • الوجیز فی فقہ الامام الشافعی،
  • المحرر
  • شہاب الدین حصفکی کی کشف الدرر فی شرح المحرر،
  • ابی القاسم رافعی کی فتح العزیز فی شرح الوجیز ،
  • نووی کی منہاج الطالبین اور اسکی شروحات،
  • ابن حجر ہیثمی کی تحفۃ المحتاج لشرح المنہاج ،
  • خطیب شربینی کی مغنی المحتاج الی معرفۃ الفاظ المنہاج
  • ابن حمزہ رملی کی نہایۃ المحتاج الی شرح المنہاج

فقہ شافعی کے اہم تریں آثار سمجھے جاتے ہیں[21]


حنبلی

احمد بن محمد بن حنبل (۱۶۴-۲۴۱ق) مذہب حنبلی کے بانی ہیں۔اہل سنت کے بزرگترین محدث مانے جاتے ہیں ۔اس میں تردید ہے کہ وہ خود فتوا دیتے تھے یا خود فتوا دینے سے اجتناب کرتے تھے اور انکے شاگردوں نے انکے فتاوا منتشر کئے ہیں۔[22]

احمد بن حنبل کے مرید ابن قیم جوزیہ نے فقہ حنبلی کے اصول مذہب اور مآخذوں کو پانچ اصلوں میں خلاصہ کیا ہے :1: نصوص، 2:فتاوائے صحابہ،3:اختلاف فتوا کی صورت میں قران و سنت کے نزددیک ترین فتوا کو لینا،4:مسند اور صحیح حدیث نہ ہونے کی صورت میں مرسل اور ضعیف حدیث پر عمل کرنا،5:کوئی حدیچ یا صحابہ کا فتوا نہ ہونے کی صورت میں قیاس پر عمل کرنا.فقہی احکام اخذ کرتے ہوئے اسی ترتیب کو لحاظ کیا جائے گا ۔[23] بعض معاصرین نے ادعا کیا ہے کہ احمد بن حنبل نے فقہ میں استصحاب، مصالح مرسلہ اور سد ذرائع کو بھی استعمال کیا ہے.[24]

مشہور کتب

کتاب المسند احمد بن حنبل کی مہمترین کتاب ہے۔اس کی فقہ میں کوئی مستقل تالیف نہیں ہے ۔اسکے شاگردوں و حنبلی فقہا نے اسکی آراء کو استخراج اور تدوین کیا ہے ۔ ابو القاسیم عمر خرقی کی کتاب المختصر پہلی فقہی کتاب ہے ۔اس پر متعدد شروح لکھی گئ ہیں جن میں سے ابن قدامہ کی المغنی سب سے اہم ہے. ابو الوفاء بغدادی کی التذکره، ابو الخطاب کلوذانی کی الہدایہ، محمد بن عبدالله سامری کی المستوعی، مجدالدین ابو البرکات بن تیمیہ کی المحرر اور اسکی شروحات ،ابن تیمیہ کی الفتاوی ، ابن مفلح کی الفروع ، موسی بن احمد مقدسی کی الاقناع فی فقہ الامام احمد بن حنبل، ابن النجار کی منتهی الارادات فقہ حنبلی اہم تریں آثا مانے جاتے ہیں ۔[25]

کلامی مذاہب

اہل سنت والجماعت کلامی ابحاث کے لحاظ سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں۔ کلامی اور اعتقادی ابحاث میں استدلال اور عقل کے راستے طے کرنا،عقلی ابحاث سے اجتناب اور الفاظ احدیث اور اقوال صحابہ پر اتقا کرناان بڑے عوامل میں سے ہیں جن کی وجہ سے یہ مکتب مختلف گروہوں میں تقسیم ہوا ہے ۔ان مختلف گروہوں کی جانب مختصر توضیح کے ساتھ اشارہ کرتے ہیں۔

ماتریدیہ

مفصل مضمون :ماتریدیہ

ابو منصور ماتریدی کے ماننے والوں کو ماتریدیہ کہا جاتا ہے ۔ یہ فقہی اعتبار سے حنفی مسلک پر کار بند ہیں ۔ماتریدیہ کلامی ابحاث میں زیادہ تر ابو حنفیہ سے متاثر ہیں۔حقیقت میں ماتریدیہ معتزلہ اور اہل حدیث کی آراء اور اعتقاد کے ایک جگہ اکٹھا کرنے کا نام ہے۔یہ اپنی استدلالی ابحاث میں عقل اور حدیث دونوں کو اہمیت دیتے ہیں۔الٰہیات کی ابحاث میں ان کی روش تنزیہی ہے۔لیکن بعض اشعریہ اور ماتریدیہ میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہیں۔اکثر محققین مختلف کلامی ابحاث میں اشعریہ سے جدا قرار دیتے ہیں۔ابو زہرہ لکھتا ہے :ماتریدیہ کی روش میں عقل کا بہت بڑا حصہ ہے جبکہ اشاعرہ منقولات کی روش کے پائبند نظر آتے ہیں اور اسکی تائید میں عقل کو لے کر آتے ہیں۔اشاعرہ اہل حدیث اور اعتزال کے درمیان اور ماتریدیہ اشاعرہ اور اعتزال کے درمیان ہیں۔

اشعری

مفصل مضمون:اشاعرہ

اہل سنت میں سے ایک گروہ امام کو قبول نہیں کرتے اور کوشش کرتے ہیں کہ اہل حدیث کے ظاہری معنی کی طرف رجحان اور معزلہ کے عقل کی طرف رجحان کا درمیانی راستہ اختیار کریں لیکن احادیث کے ظاہری معنی کی طرف رجحان کی طرف زیادہ میلان رکھتے ہیں اور خدا کی صفات کو کو اسکی ذات سے جدا اور قرآن کو بھی قدیم مانتے ہیں۔

اہل حدیث

مفصل مضمون: اہل حدیث

اہل حدیث فقہی اور اعتقادات مسائل کو احادیث سے اخذ کرتے ہیں۔علم کلام،منطق،قیاس اور عام طور پر عقلی ابحاث سے اجتناب کرتے ہیں۔[26] فقہائے حجاز جیسے مالک بن انس، وغیرہ اور دوسرے شہروں کے فقہای جیسے مثل سفیان ثوری، احمد بن حنبل، بخاری و.. یہ تمام اصحاب حدیث کے نمایاں چہرے ہیں۔ احمد بن حنبلنے ابحاث اعتقاد میں اصول کو بیان کیا ہے۔

معتزلی

مفصل مضمون: معتزلہ معتزلہ اہل سنت کے درمیان کلامی مسلک کا نام ہے ۔کثیر تعداد میں جعلی اور موضوعی احادیث کو مورد توجہ قرار دینے والے اہل حدیث کے برخلاف صرف عقل و خرد کو اسلام کی پیروی کرنے کیلئے کافی سمجھتے ہیں۔کبھی فلاسفہ کی آراء کو دین کے ساتھ مخلوط کر دیتے۔ان کے بعد اشاعرہ اٹھے اور انہوں نے اہل حدیث کی جگہ لے لی۔اشاعرہ کو معتزلہ اور اہل حدیث کا ایک درمیانی راستہ کہہ سکتے ہیں لیکن اشاعرہ معتزلہ کے اعتقادات کو مردود سمجھتے ہیں۔

احادیث کو مطلق سمجھنے والے فقہا کے برخلاف معتزلہ عقل پر اس قدر زور دیتے کہ اگر عقل اور حدیث میں تعاض دیکھتے تو وہ عقل کو مقدم قرار دینے کے قائل تھے۔ بہت سے فقہا اور علما کے برعکس اعمال اور صحابہ کی احادیث کو مطلق اور لازم الاجرا نہیں سمجھتے تھے ۔معتزلہ کی اساسی ترین اور جنجالی ترین بحث قرآن کے مخلوق یا غیر مخلوق ہونے کی رہی۔

وہابیت

مفصل مضمون: وہابیت

یہ مکتبہ فکر محمد بن عبد الوہاب کا طرفدار ہے جس نے 12ویں صدی کے آخر میں ابن تیمیہ کے افکار کو ترویج کرنا شروع کیا۔اس مکتبۂ فکر کے اہم عقائد کے اصول:

  • خالق اور مخلوق کے درمیان کسی قسم کاواسطہ الوہیت کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔
  • رسول خدا کے دور کے مشرکین کے اعمال کے مشابہ اعمال جیسے غیر خدا سے استغاثہ اور استعانت طلب کرنا، غیر خدا سے شفاعت طلب کرنا،شرک ہیں۔
  • شیعہ کافر ہیں۔
  • مسلمانوں کا شرک عہد رسالت کے مشرکین کے شرک سے عظیم تر ہے۔

حوالہ جات

  1. مفردات راغب، ماده اہل
  2. لسان العرب، ج۱۳، ماده سنّ
  3. کلینی، كافی، ج۵، ص۱۰
  4. فرمانیان، فرق تسنن، ۱۳۸۶ش، ص۱۸؛ رک: دایرۃ المعارف فارسی، مصاحب، ذیل مدخل سنت؛
  5. پاکتچی، «اصحاب حدیث»، ص۱۱۴
  6. پاکتچی، «اصحاب حدیث»، ص۱۱۸
  7. سبحانی، جعفر، «اہل سنت»،۵۸۱
  8. فرمانیان، فرق تسنن، ۱۳۸۶ش، ص۱۹
  9. سبحانی، جعفر، «اہل سنت»،۵۸۱
  10. سبحانی، جعفر، «اهل سنت»، ص۵۸۱و۵۸۲
  11. آشنایی با فرق تسنن، ج ۳۶
  12. آشنایی با فرق تسنن، ج ۳۶-۳۷
  13. آشنایی با فرق تسنن، ج ۳۸
  14. المذاہب الاسلامیة الخمسه، ص ۳۷۶
  15. مناہج الاجتهاد فی الاسلام، ص ۶۱۳-۶۱۶
  16. آشنایی با فرق تسنن، ص ۱۹۶؛ترویج مذہب مذہب مالکی کیلئے دیکھیں : ابوزہره، مالک حیاتہ و عصره، آراءه و فقہہ، ص ۳۶۴ کے بعد۔
  17. تاریخ بغداد، ج۱۳، ص ۳۶۸
  18. آشنایی با فرق تسنن، ص ۱۹۴
  19. ر ک: عبدالسلام، الامام شافعی، ص ۲۰۷-۲۴۲
  20. مقدمہ ابن خلدون، ص ۴۱۵
  21. نحراوی، الامام شافعی فی مذہبیہ القدیم و الجدید، ص ۶۲۱۷-۷۰۳؛ نیز رک: کتاب‌شناسی تفصیلی مذاہب اسلامی، ص ۸۹-۱۱۳
  22. رک: ابوحبیب، احمد بن حنبل السیرة و المذهب، ص ۵۷-۶۹؛ آشنای با فرق تسنن، ص ۱۹۹
  23. اعلام الموقعین، ج۱، ص ۳۳؛ آشنایی با فرق تسنن، ص ۲۰۰
  24. احمد فراج حسین، تاریخ الفقہ الاسلامی، ص ۳۸
  25. رک: مناہج الاجتہاد فی الاسلام، ص ۷۸۷؛ کتاب‌شناسی تفصیلی مذاہب اسلامی، ص ۱۱۳-۱۳۷
  26. آشنایی با فرق تسنن، ص ۹۱

مآخذ

  • کاظم مدیر شانہ چی، تاریخ فقہ مذاہب اسلامی، بوستان کتاب، قم، ۱۳۸۹ش.
  • شناخت مذاہب اسلامی، واحد تدوین کتب درسی مدارس علمیہ خارج از کشور، ۱۳۷۸ش.
  • مدخل اہل سنت و جماعت، دائرة المعارف بزرگ اسلامی، ج۱۰.
  • ابن اسحاق، محمد، الکافی، دار الكتب الإسلاميہ، بہار ۱۳۶۷ش.
  • رضا برنجکار، آشنایی با فرق و مذاہب اسلامی، کتاب طہ، قم.
  • محمد سلام مدکور، مناہج الاجتہاد فی الاسلام فی الاحکام الفقہیہ و العقائدیہ، جامعہ الکویت، کویت، ۱۹۷۷م.