مندرجات کا رخ کریں

"توبہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

1 بائٹ کا ازالہ ،  31 جنوری 2017ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
'''توبہ''' [[قرآن]] اور [[روایات]] میں مکررا استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے جس کا معنی بندے کا [[خدا]] کی طرف لوٹ آنا ہے۔ قرآن میں 69 آیات میں توبہ کے موضوع پر بحث ہوئی ہے جن میں توبہ کرنے والے کے ساتھ خدا کی مہربانی اور رحمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بندوں کو "توبہ نصوح" یعنی سچے دل سے خالص توبہ کرنے کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ احادیث میں بھی توبہ کی اہمیت اور اس کے مقام کو مورد تائید قرار دتے ہوئے توبہ کرنے میں تأخیر سے منع کیا گیا ہے۔ احادیث کے دوسرے حصے میں گناہوں کو [[حق اللہ]] اور [[حق الناس]] میں تقسیم کرتے ہوئے گناہ کے دونوں اقسام سے توبہ کرنے کی راستوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
'''توبہ''' [[قرآن]] اور [[روایات]] میں مکررا استعمال ہونے والی اصطلاحات میں سے ایک ہے جس کے معنی بندے کا [[خدا]] کی طرف لوٹ آنا ہے۔ قرآن میں 69 آیات میں توبہ کے موضوع پر بحث ہوئی ہے جن میں توبہ کرنے والے کے ساتھ خدا کی مہربانی اور رحمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بندوں کو "توبہ نصوح" یعنی سچے دل سے خالص توبہ کرنے کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ احادیث میں بھی توبہ کی اہمیت اور اس کے مقام کو مورد تائید قرار دتے ہوئے توبہ کرنے میں تأخیر سے منع کیا گیا ہے۔ احادیث کے دوسرے حصے میں گناہوں کو [[حق اللہ]] اور [[حق الناس]] میں تقسیم کرتے ہوئے گناہ کے دونوں اقسام سے توبہ کرنے کی راستوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔


توبہ مختلف درجات رکھتی ہے؛ سب سے پہلا درجہ [[گناہ|گناہوں]] سے توبہ کرنا ہے جبکہ غفلت سے توبہ کرنا، غیر خدا پر توکل کرنے سے توبہ کرنا اور خدا کے علاوہ دوسروں کے مشاہدے سے توبہ کرنا وغیرہ اس کے بالاترین درجات میں سے ہیں۔
توبہ مختلف درجات رکھتی ہے؛ سب سے پہلا درجہ [[گناہ|گناہوں]] سے توبہ کرنا ہے جبکہ غفلت سے توبہ کرنا، غیر خدا پر توکل کرنے سے توبہ کرنا اور خدا کے علاوہ دوسروں کے مشاہدے سے توبہ کرنا وغیرہ اس کے بالاترین درجات میں سے ہیں۔
سطر 63: سطر 63:
}}
}}


[[شیعہ]] اور [[اہل سنت|سنّی]] دونوں فریق کی کتابوں میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں توبہ کی حقیق، اس کی اہمیت، خدا کے نزدیک توبہ اور توبہ کرنے والوں کی محبوبیت اور توبہ کرنے والوں کے ساتھ خدا کے عشق واشتیاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔<ref> کلینی‌، ج۲، ص۴۳۵؛ حرّ عاملی‌، ج۱۶، ص۷۳؛ مجلسی‌، ج۶، ص۱۹، ۲۱، ۲۹، ۴۲</ref> مثلا ایک حدیث میں آیا ہے کہ خداوند متعال توبہ کرنے والے کو تین خصوصیات عطا کرتا ہے کہ اگر ان میں سے صرف ایک خصوصیت آسمان اور زمین میں رہنے والے تمام مخلوقات کو کی دی جاتی تو اس کے ذریعے سب کے سب نجات پاتے۔ <ref>کلینی‌، ج۲، ص۴۳۲ـ۴۳۳؛ حرّ عاملی‌، ہمانجا</ref> دوسری اہم نکات جو اس حوالے سے احادیث میں بیان ہوئی ہیں وہ یہ ہیں: توبہ کرنے میں تأخیر سے منع،<ref>بحارالانوار‌، ج۶، ص۳۰</ref> یہ کہ [[گناہ]] پر اصرار کرنا توبہ کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے،<ref>وسائل الشیعہ، حرّ عاملی‌، ج۱۶، ص۷۴</ref> اور توبہ پر ہمیشہ کیلئے قائم رہنا وغیرہ۔ مختلف گناہوں سے توبہ کرنے کے احکام اور شرائط کے بارے میں بھی بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ <ref>بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۲۹؛ ج۲، ص۲۹۷؛، ج۶، ص۲۳</ref>
[[شیعہ]] اور [[اہل سنت|سنّی]] دونوں فریق کی کتابوں میں بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں جن میں توبہ کی حقیقت، اس کی اہمیت، خدا کے نزدیک توبہ اور توبہ کرنے والوں کی محبوبیت اور توبہ کرنے والوں کے ساتھ خدا کے عشق واشتیاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔<ref> کلینی‌، ج۲، ص۴۳۵؛ حرّ عاملی‌، ج۱۶، ص۷۳؛ مجلسی‌، ج۶، ص۱۹، ۲۱، ۲۹، ۴۲</ref> مثلا ایک حدیث میں آیا ہے کہ خداوند متعال توبہ کرنے والے کو تین خصوصیات عطا کرتا ہے کہ اگر ان میں سے صرف ایک خصوصیت آسمان اور زمین میں رہنے والی تمام مخلوقات کو دی جاتیں تو اس کے ذریعے سب کے سب نجات پاتے۔ <ref>کلینی‌، ج۲، ص۴۳۲ـ۴۳۳؛ حرّ عاملی‌، ہمانجا</ref> دوسرے اہم نکات جو اس حوالے سے احادیث میں بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: توبہ کرنے میں تأخیر سے منع،<ref>بحارالانوار‌، ج۶، ص۳۰</ref> یہ کہ [[گناہ]] پر اصرار کرنا توبہ کا مزاق اڑانے کے مترادف ہے،<ref>وسائل الشیعہ، حرّ عاملی‌، ج۱۶، ص۷۴</ref> اور توبہ پر ہمیشہ کیلئے قائم رہنا وغیرہ۔ مختلف گناہوں سے توبہ کرنے کے احکام اور شرائط کے بارے میں بھی بہت ساری احادیث نقل ہوئی ہیں۔ <ref>بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۲۹؛ ج۲، ص۲۹۷؛، ج۶، ص۲۳</ref>


بعض [[احادیث]] کے مطابق خدا کی طرف سے توبہ کی قبولیت کیلئے [[ائمہ]] معصومین علیہم‌السلام کی [[ولایت]] شرط ہے۔<ref> بحارالانوار، ج۲۷، ص۲۰۰، ج۷۵، ص۲۲۵</ref>
بعض [[احادیث]] کے مطابق خدا کی طرف سے توبہ کی قبولیت کیلئے [[ائمہ]] معصومین علیہم‌السلام کی [[ولایت]] شرط ہے۔<ref> بحارالانوار، ج۲۷، ص۲۰۰، ج۷۵، ص۲۲۵</ref>
سطر 76: سطر 76:


===حق اللہ===
===حق اللہ===
اگر کسی ایسی گناہ اور معصیت سے توبہ کر رہا ہو جس میں صرف حق‌اللّہ کا پہلو پایا جاتا ہو یعنی ایسی [[واجب]] [[عبادت|عبادات]] میں سے ہو جسے جبران کیا جا سکتا ہو مثلا [[نماز]] یا [[روزہ‌]] کی قضا، اس صورت میں ندامت اور گناہ کو ترک کرنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ واجب کو جبران کرنا بھی ضروری ہے اور اگر توبہ کے وقت اسے جبران کرنا ممکن نہ ہو تو جب بھی ممکن ہو اسے جبران کرنے کی نیت کرنا ضروری ہے اور اگر موت کے آثار نمایاں ہونے لگے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔<ref>ابوالصلاح حلبی‌، الکافی فی‌الفقہ، ص۲۴۳؛ موسوی بجنوردی‌، ج۷، ص۳۱۹</ref> اگر ترک کرنے والے واجبات کی تعداد معلوم نہ ہو تو اتنی مقدار میں اس واجب کو جبران کرنا ضروری ہے جس مقدار کے بارے میں یقین ہو۔ <ref>امام خمینی‌، تحریرالوسیلہ، ج۱، ص۴۱۱، مسئلہ ۱۰</ref>  
اگر کسی ایسے گناہ اور معصیت سے توبہ کر رہا ہو جس میں صرف حق‌اللّہ کا پہلو پایا جاتا ہو یعنی ایسی [[واجب]] [[عبادت|عبادات]] میں سے ہو جسے جبران کیا جا سکتا ہو مثلا [[نماز]] یا [[روزہ‌]] کی قضا، اس صورت میں ندامت اور گناہ کو ترک کرنے کے ساتھ ساتھ مذکورہ واجب کو جبران کرنا بھی ضروری ہے اور اگر توبہ کے وقت اسے جبران کرنا ممکن نہ ہو تو جب بھی ممکن ہو اسے جبران کرنے کی نیت کرنا ضروری ہے اور اگر موت کے آثار نمایاں ہونے لگے تو اس کی وصیت کرنا واجب ہے۔<ref>ابوالصلاح حلبی‌، الکافی فی‌الفقہ، ص۲۴۳؛ موسوی بجنوردی‌، ج۷، ص۳۱۹</ref> اگر ترک کرنے والے واجبات کی تعداد معلوم نہ ہو تو اتنی مقدار میں اس واجب کو جبران کرنا ضروری ہے جس مقدار کے بارے میں یقین ہو۔ <ref>امام خمینی‌، تحریرالوسیلہ، ج۱، ص۴۱۱، مسئلہ ۱۰</ref>  


اگر کوئی شخص کسی ایسی گناہ کا مرتک ہوا ہو جس پر شریعت میں [[حد]] یا [[تعزیر]] معین ہو (مثلا [[زنا|زناکاری]] یا [[شرب خمر|شراب خواری]]) اور [[حاکم شرع]] کے پاس اس کا گناہ ثابت ہونے سے پہلے اگر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی ہے اور اس پر سے [[حد]] یا [[تعزیر]] ساقط ہو جائے گی۔ <ref> شیخ بہائی‌، جامع عباسی، ص۴۲۲</ref> ایسے مواقع پر گناہ کا اقرار کرنا واجب نہیں بلکہ اس کا اقرار نہ کرنا [[مستحب]] ہے۔<ref> الموسوعہ‌الفقہیہ، ج۱۴، ص۱۲۱ـ۱۲۲</ref> لیکن اگر حاکم کے ہاں اس کا گناہ اپنی اعتراف کی وجہ سے ثابت ہو جائے پھر وہ اس گناہ سے توبہ کرے تو اسے پر حد جاری کرنے یا اسے بخش دینے میں حاکم کو اختیار ہے چنانچہ حاکم شرع کے ہاں اس کا گناہ دو عادل گواہ کی گواہی سے ثابت ہو گئی ہو پھر اس کے بعد وہ توبہ کرے تو اس پر سے حد یا تعزیر ساقط نہیں ہوگی۔<ref> شیخ بہائی‌، جامع عباسی، ص۴۲۱ـ۴۲۲</ref>  
اگر کوئی شخص کسی ایسی گناہ کا مرتک ہوا ہو جس پر شریعت میں [[حد]] یا [[تعزیر]] معین ہو (مثلا [[زنا|زناکاری]] یا [[شرب خمر|شراب خواری]]) اور [[حاکم شرع]] کے پاس اس کا گناہ ثابت ہونے سے پہلے اگر وہ توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی ہے اور اس پر سے [[حد]] یا [[تعزیر]] ساقط ہو جائے گی۔ <ref> شیخ بہائی‌، جامع عباسی، ص۴۲۲</ref> ایسے مواقع پر گناہ کا اقرار کرنا واجب نہیں بلکہ اس کا اقرار نہ کرنا [[مستحب]] ہے۔<ref> الموسوعہ‌الفقہیہ، ج۱۴، ص۱۲۱ـ۱۲۲</ref> لیکن اگر حاکم کے ہاں اس کا گناہ اپنی اعتراف کی وجہ سے ثابت ہو جائے پھر وہ اس گناہ سے توبہ کرے تو اسے پر حد جاری کرنے یا اسے بخش دینے میں حاکم کو اختیار ہے چنانچہ حاکم شرع کے ہاں اس کا گناہ دو عادل گواہ کی گواہی سے ثابت ہو گئی ہو پھر اس کے بعد وہ توبہ کرے تو اس پر سے حد یا تعزیر ساقط نہیں ہوگی۔<ref> شیخ بہائی‌، جامع عباسی، ص۴۲۱ـ۴۲۲</ref>  
گمنام صارف