مندرجات کا رخ کریں

"حق مہر" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
م Waziri نے صفحہ مہر کو بجانب حق مہر منتقل کیا
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{احکام}}
{{احکام}}
'''مَہر''' سے مراد وہ مال ہے جو مرد [[نکاح]] کے وقت بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ مہر بیوی کا حق ہے اور وہ عقد کے فورا بعد اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ بیوی کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو [[ارث|ورثہ]] میں ملتی ہے اور وہ شوہر سے مطالبہ کر سکتے ہیں۔
'''حق مَہر''' یا مہر سے مراد وہ مال ہے جو مرد [[نکاح]] کے وقت بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ مہر بیوی کا حق ہے اور وہ عقد کے فورا بعد اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ بیوی کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو [[ارث|ورثہ]] میں ملتی ہے اور وہ شوہر سے مطالبہ کر سکتے ہیں۔


[[نکاح موقت]] میں مہر کا تعیین نہ ہونا اکثر مراجع کے [[فتوی|فتوے]] کے مطابق نکاح کے بطلان کا سبب بنتا ہے۔ [[قرآن کریم]] مردوں کو عورتوں کا مہر مکمل طور پر ادا کرنے اور بیوی سے ناراضگی کی صورت میں اسے تنگ کر کے مہر سے ہاتھ اٹھانے  یا اس کا کچھ حصہ واپس کرنے پر مجبور نہ کرنے کی سفارش کرتا ہے۔
[[نکاح موقت]] میں حق مہر کا تعیین نہ ہونا اکثر مراجع کے [[فتوی|فتوے]] کے مطابق نکاح کے بطلان کا سبب بنتا ہے۔ [[قرآن کریم]] مردوں کو عورتوں کا حق مہر مکمل طور پر ادا کرنے اور بیوی سے ناراضگی کی صورت میں اسے تنگ کر کے مہر سے ہاتھ اٹھانے  یا اس کا کچھ حصہ واپس کرنے پر مجبور نہ کرنے کی سفارش کرتا ہے۔


موجودہ دور میں مہر اور شادی کے دیگر اخراجات میں بے تہاشا اضافہ کی وجہ سے مختلف سماجی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ [[حدیث|احادیث]] میں زیادہ مَہر رکھنے کو عورتوں کی بدبخیوں میں سے شمار کرتے ہوئے اس کی مقدار کم رکھنے اور مہر السنۃ (مہر [[حضرت زہرا(س)]]) پر قناعت کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جو تقریبا اس زمانے میں 170 سے 223 گرام سونے کے برابر ہوتا ہے۔
موجودہ دور میں حق مہر اور جہیزیہ میں بے تہاشا اضافہ کی وجہ سے مختلف سماجی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ [[حدیث|احادیث]] میں زیادہ مَہر رکھنے کو عورتوں کی بدبخیوں میں سے شمار کرتے ہوئے اس کی مقدار کم رکھنے اور مہر السنۃ (مہر [[حضرت زہرا(س)]]) پر قناعت کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جو تقریبا اس زمانے میں 170 سے 223 گرام سونے کے برابر ہوتا ہے۔


==مہر تاریخ کے آئینے میں==
==مہر تاریخ کے آئینے میں==
سطر 17: سطر 17:
دائمی نکاح سے پہلے مہر کا تعیین کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ عقد کے بعد بھی مرد اور عورت اس پر توافق کر سکتے ہیں لیکن اگر [[نکاح انقطاعی]] میں مہر معین نہ کیا جائے تو اکثر [[مراجع تقلید]] کے [[فتوی|فتوے]] کے مطابق عقد باطل ہے۔<ref>[http://www.hawzah.net/fa/Question/View/55835/ مجلہ حوزہ] </ref>
دائمی نکاح سے پہلے مہر کا تعیین کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ عقد کے بعد بھی مرد اور عورت اس پر توافق کر سکتے ہیں لیکن اگر [[نکاح انقطاعی]] میں مہر معین نہ کیا جائے تو اکثر [[مراجع تقلید]] کے [[فتوی|فتوے]] کے مطابق عقد باطل ہے۔<ref>[http://www.hawzah.net/fa/Question/View/55835/ مجلہ حوزہ] </ref>


==مہر آیات و روایات کی روشنی میں==<!--
==مہر آیات و روایات کی روشنی میں==
کلمۀ «مہر» در [[قرآن]] بہ کار نرفتہ است<ref> فرہنگ موضوعی قرآن مجید. تالیف کامران فانی و بہاءالدین خرمشاہی، مہریہ </ref> بلکہ عناوین «صَدُقات»<ref> در آیۀ چہارم [[سورہ نساء]] </ref> و «اجور» (بیشتر در مورد [[متعہ]] و ازدواج با کنیزان)<ref> دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، ص۴۷ </ref> و «صداق» و «فریضہ»<ref> و ان طلقتموہن من قبل ان تمسوہن و قد فرضتم لہن فریضۃ فنصف ما فرضتم </ref> بہ جای مہریہ بہ کار رفتہ‌اند.
لفظ "مہر" [[قرآن]] میں استعمال نہیں ہوا ہے <ref> فرہنگ موضوعی قرآن مجید. تالیف کامران فانی و بہاءالدین خرمشاہی، مہریہ </ref> بلکہ مہر کی بجائے "صَدُقات»" <ref> در آیۀ چہارم [[سورہ نساء]] </ref>، "اجور" (اکثر اوقات [[متعہ]] اور کنیزوں کے ساتھ شادی کے موقع پر استعمال کیا گیا ہے)<ref> دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، ص۴۷ </ref>، "صداق" اور  "فریضہ" <ref> و ان طلقتموہن من قبل ان تمسوہن و قد فرضتم لہن فریضۃ فنصف ما فرضتم </ref> استعمال ہوا ہے۔


نپرداختن مہریہ کہ ملک خاص زن است در قرآن ظلم و گناہ آشکار خواندہ شدہ است.<ref> نساء ۲۰ و ۲۱ </ref>
حق مہر کا ادا نہ کرنا جو بیوی کی ملکیت ہے، قرآن میں آشکار ظلم اور گناہ سے تعبیر کیا ہے۔<ref> نساء ۲۰ و ۲۱ </ref>


در آیۀ «و ءاتُوا النِّساءَ صَدُقاتِہنُّ نِحلَۃ...»<ref> نساء، ۴ </ref> از مَہر با عنوان «صَدُقَہ» کہ از مادّہ صِدق است یاد شدہ کہ راستین بودن پیوند زناشویی و علاقہ مرد را نشان می‌دہد.<ref>. مسالک الافہام، ج ۳، ص۱۸۴.</ref> ثانیاً با آوردن ضمیر «ہنّ»، مہریہ را بہ زن متعلّق می‌داند نہ پدر و مادر او تا بخواہند آن را دستمزد بہ شمار آورند. ثالثاً با کلمہ «نِحلَہ» تصریح می‌کند کہ مہریہ پیشکش است و نہ قیمت زن، چنانچہ امروزہ برخی با توہم اینکہ مہریہ قیمت زن است مبالغ بالایی مطالبہ کردہ و مہریہ پیشنہادی اسلام را دور از شأن زن معرفی می‌کنند. مہریہ زن نحلہ و عطای خداوند است کہ بہ او دادہ شدہ است و مرد ہیچ منتی بر او ندارد.
قرآن کی سورہ نساء کی آیت <font color=green>{{حديث| و ءاتُوا النِّساءَ صَدُقاتِهنُّ نِحلَة...}}</font><ref> نساء، ۴ </ref> میں حق مَہر کو "صَدُقَہ" کے عنوان سے یاد کیا ہے جو صدق کے مادے سے ہے، یہ خود علقہ زوجیت کے سچا ہونے اور مرد کی رغبت کی نشانی ہے۔<ref>. مسالک الافہام، ج ۳، ص۱۸۴.</ref> دوسری بات یہ کہ "هنّ" می ضمیر کے ذریعے حق مہر کو عورت کی ملکیت قرار دی گئی ہے نہ بیوی کے ماں باپ کی ملکیت، تاکہ وہ اسے اپنا حق الزحمہ قرار دیں۔ ثالثاً "نِحلَہ" کا لفظ تصریح کر رہا ہے کہ حق مہر ایک پیشکش ہے نہ بیوی کی قیمت۔ جبکہ موجودہ دور میں بعض یہ توہم کرتے ہوئے کہ حق مہر عورت کی قیمت ہے، بے تہاشا مال دو دولت کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسلام کا مقرر کردہ حق مہر کو عورت کی شان و منزلت کے خلاف فرض کرتے ہیں۔ حق مہر خدا کی طرف سے بیوی کیلئے ایک عطیہ اور ہدیہ ہے جس پر مرد کا کوئی احسان نہیں ہے۔


[[امام باقر(ع)]] فرمود: «الصداق ما تراضيا علیہ قل او کثر»<ref> وسائل، ج ۱۴، ص۶۰۴ </ref> یعنی آنچہ طرفین ازدواج بہ آن راضی می‌شوند کم باشد یا زیاد ہمان مہریہ است. در مورد حداکثر مہریہ از نظر شرعی نمی‌توان مقدار معینی تعیین کرد. [[امام صادق(ع)]] یکی از مواردی کہ در [[قیامت]] بخشیدہ نمی‌شود را مہریہ‌ہای پرداخت نشدہ زنان معرفی می‌کنند.<ref> وسائل، ج ۱۴، ص۲۶ </ref>
[[امام باقر(ع)]] فرماتے ہیں: <font color=blue>{{حديث|"الصداق ما تراضيا علیه قل او کثر}}</font><ref> وسائل، ج ۱۴، ص۶۰۴ </ref> یعنی حق مہر وہ چیز ہے جس پر طرفین (مرد اور عورت) راضی ہو چاہے کم ہو یا زیادہ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے حق مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار کو کسی بھی صورت میں معین نہیں کیا جا سکتا۔ [[امام صادق(ع)]] [[قیامت]] کے دن معاف نہ ہونے والی چیزوں میں سے ایک کو عورتوں کا حق مہر قرار دیتے ہیں جنہیں ادا نہ کیا گیا ہو۔


در روایات یکی از نشانہ‌ہای بدقدمی زن، مہریہ بالای او دانستہ شدہ<ref> میزان الحکمہ، ج ۲، ص۱۱۸۲:«أما شُوم المزأۃ فَکثرۃ مَہرِہا و عُقوقُ زَوجِہا» </ref> و آن را موجب کینہ در خانوادہ معرفی می‌کنند.<ref> روی عن النبی(ص): در مہریہ آسان بگیرید، زیرا مرد، کابین (سنگین) زن را می‌دہد، اما در دلش از او کینہ و دشمنی بہ وجود می‌آید. میزان الحکمہ، ج ۲، ص۱۱۸۲ </ref> [[پیامبر اکرم(ص)]] فرمود: سہ گروہ از زنان [[عذاب قبر]] ندارند و در قیامت با [[حضرت زہرا(س)]] محشور می‌شوند: زنی کہ با فقر و تنگدستی ہمسر خود بسازد، زنی کہ با بداخلاقی ہمسر، [[صبر]] خود را از دست ندہد و زنی کہ مہریہ خود را بہ ہمسرش ببخشد.<ref> مواعظ العدیدہ، ص۷۵. </ref>
احادیث میں بیوی کی بد قسمتی کی علامتوں میں سے ایک کو اس کے حق مہر کا زیادہ ہونا قرار دیتے ہیں۔ <ref> میزان الحکمہ، ج ۲، ص۱۱۸۲:<font color=blue>{{حديث|أما شُوم المزأۃ فَکثرۃ مَہرِہا و عُقوقُ زَوجِہا}}<font> </ref> اور اسے خاندان میں کینہ توزی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔<ref> عن النبی(ص): حق مہر میں سخت گیری نہ کی جائے کیونکہ مرد عورت کے اضافی اخراجات تو کسی طور پر بھی دے دیتا ہے لیکن اس کے دل میں بیوی سے متعلق کینہ اور دشمنی ایجاد ہو جاتی ہے۔ میزان الحکمہ، ج ۲، ص۱۱۸۲ </ref> [[پیغمبر اکرم(ص)]] نے فرمایا: عورتوں کے تین گروہ کیلئے [[عذاب قبر]] نہیں ہو گا اور قیامت کے دن [[حضرت زہرا(س)]] کے ساتھ محشور ہونگے: وہ عورت جو اپنے شوہر کے فقر اور تنگ دستی کے ساتھ سازگاری اختیار کرتی ہے، وہ عورت جو شوہر کی بد اخلاقی پر صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتی اور وہ عورت جو اپنا حق مہر شوہر کیلئے بخش دے۔ <ref> مواعظ العدیدہ، ص۷۵. </ref>


==مہر السنہ==
==مہر السنہ==<!--
در حدیثی از [[امام رضا(ع)]] میزان مہریہ در سنت، کہ بہ مَہرُ السُّنہ مشہور است، پانصد [[درہم]] تعیین شدہ است.<ref> بحار الانوار ج۹۳ ص۱۷۰ روایت ۱۰ </ref> منابع تاریخی میزان مہریہ حضرت زہرا(س) را بین ۴۰۰ تا ۵۰۰ درہم ذکر کردہ‌اند.<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، موسسہ انتشارات علامہ، بی‌تا، ج۳، ص۳۵۰، ۳۵۱، و متقی ہندی، فاضل، کنزالعمال، موسسہ الرسالہ، ج۱۳، ص۶۸۰. </ref> ۵۰۰ [[درہم]] حدود ۱۲۵۰ <ref> [http://www.bahjat.org/index.php/ahkam-2/esteftahat/76-2011-09-06-09-10-59.html سایت آیت اللہ بہجت] </ref> تا ۱۵۰۰گرم<ref>در میزان دقیق وزن درہم اختلاف نظر وجود دارد. </ref> نقرہ است و با توجہ بہ اینکہ در آن زمان ہر دہ درہم نقرہ معادل یک [[دینار]] طلا بودہ، مہر السنہ معادل حدود ۱۷۰ تا ۲۲۳ گرم طلا بودہ است <ref>[http://www.sistani.org/persian/qa/0929/ سایت آیت اللہ سیستانی]</ref>(این مقادیر تقریبی و با توجہ بہ اختلاف نظر در وزن درہم و دینار متفاوت است).<ref> جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۱۷۴- ۱۷۹. توضیح المسائل مراجع، ج ۲، ص۱۲۹، چاپ ہشتم، انتشارات جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۲۴، ہ ق</ref>
در حدیثی از [[امام رضا(ع)]] میزان مہریہ در سنت، کہ بہ مَہرُ السُّنہ مشہور است، پانصد [[درہم]] تعیین شدہ است.<ref> بحار الانوار ج۹۳ ص۱۷۰ روایت ۱۰ </ref> منابع تاریخی میزان مہریہ حضرت زہرا(س) را بین ۴۰۰ تا ۵۰۰ درہم ذکر کردہ‌اند.<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، موسسہ انتشارات علامہ، بی‌تا، ج۳، ص۳۵۰، ۳۵۱، و متقی ہندی، فاضل، کنزالعمال، موسسہ الرسالہ، ج۱۳، ص۶۸۰. </ref> ۵۰۰ [[درہم]] حدود ۱۲۵۰ <ref> [http://www.bahjat.org/index.php/ahkam-2/esteftahat/76-2011-09-06-09-10-59.html سایت آیت اللہ بہجت] </ref> تا ۱۵۰۰گرم<ref>در میزان دقیق وزن درہم اختلاف نظر وجود دارد. </ref> نقرہ است و با توجہ بہ اینکہ در آن زمان ہر دہ درہم نقرہ معادل یک [[دینار]] طلا بودہ، مہر السنہ معادل حدود ۱۷۰ تا ۲۲۳ گرم طلا بودہ است <ref>[http://www.sistani.org/persian/qa/0929/ سایت آیت اللہ سیستانی]</ref>(این مقادیر تقریبی و با توجہ بہ اختلاف نظر در وزن درہم و دینار متفاوت است).<ref> جواہر الکلام، ج ۱۵، ص۱۷۴- ۱۷۹. توضیح المسائل مراجع، ج ۲، ص۱۲۹، چاپ ہشتم، انتشارات جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۲۴، ہ ق</ref>



نسخہ بمطابق 00:18، 6 جنوری 2017ء

حق مَہر یا مہر سے مراد وہ مال ہے جو مرد نکاح کے وقت بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ مہر بیوی کا حق ہے اور وہ عقد کے فورا بعد اس کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ بیوی کی وفات کے بعد اس کے ورثاء کو ورثہ میں ملتی ہے اور وہ شوہر سے مطالبہ کر سکتے ہیں۔

نکاح موقت میں حق مہر کا تعیین نہ ہونا اکثر مراجع کے فتوے کے مطابق نکاح کے بطلان کا سبب بنتا ہے۔ قرآن کریم مردوں کو عورتوں کا حق مہر مکمل طور پر ادا کرنے اور بیوی سے ناراضگی کی صورت میں اسے تنگ کر کے مہر سے ہاتھ اٹھانے یا اس کا کچھ حصہ واپس کرنے پر مجبور نہ کرنے کی سفارش کرتا ہے۔

موجودہ دور میں حق مہر اور جہیزیہ میں بے تہاشا اضافہ کی وجہ سے مختلف سماجی مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ احادیث میں زیادہ مَہر رکھنے کو عورتوں کی بدبخیوں میں سے شمار کرتے ہوئے اس کی مقدار کم رکھنے اور مہر السنۃ (مہر حضرت زہرا(س)) پر قناعت کرنے کی ہدایت کرتے ہیں جو تقریبا اس زمانے میں 170 سے 223 گرام سونے کے برابر ہوتا ہے۔

مہر تاریخ کے آئینے میں

"مہر" لغت میں اس جنس کو کہا جاتا ہے جسے نکاح کے وقت شوہر بیوی کو دینے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔ اصطلاح میں بھی مہر سے یہی مراد لیا جاتا ہے۔ نکاح کے ساتھ ہی یہ مال بیوی کی ملکیت میں آتی ہے اور وہ شوہر سے ہر وقت مطالبہ کر سکتی ہے۔

اسلام قبل حمورابیوں، زرتشتیوں، ایران باستان، اعراب اور یونانیوں میں بھی مہر کی مختلف اقسام رائج تھیں لیکن مسیحیوں میں ایسی کوئی رسم موجود نہیں تھی۔[1]

پرانے زمانے میں والدین "مہر" کو اپنا حق الزحمہ اور دودھ کی قیمت سمجھتے تھے اسی وجہ سے نکاح شغار کی رسم زمانہ جاہلیت میں رائج تھا۔ بیٹی اور بہن کے تبادلہ کو "مہر" شمار کیا جاتا تھا بغیر اس کی کہ بیوی کو کوئی فائدہ ہو۔ اسلام نے ان تمام رسومات کو منسوخ کر دیا۔

عقد نکاح منعقد ہونے کے بعد مرد اور عورت کے درمیان علقہ زوجیت وجود میں آجاتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی مختلف احکامات اور وظائف ایک دوسرے کی گردن پر آجاتے ہیں منجملہ یہ کہ نفقہ، مہریہ، اجرت المثل، نحلہ اور عقد کے وقت اگر شرط رکھی جائے کہ مرد کے اموال کا نصف حصہ بیوی کا ہو گا تو اس شرط پر عمل کرنا وغیرہ ہیں ان میں سے بعض صرف نکاح کی وجہ سے شوہر کے ذمہ آجاتی ہیں جیسے نفقہ اور مہر جبکہ بعض طلاق اور جدایی کی صورت میں مرد کی گردن پر آجاتی ہیں جیسے اجرت المثل، اور شوہر کے اموال کی تنصیف وغیرہ۔

دائمی نکاح سے پہلے مہر کا تعیین کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ عقد کے بعد بھی مرد اور عورت اس پر توافق کر سکتے ہیں لیکن اگر نکاح انقطاعی میں مہر معین نہ کیا جائے تو اکثر مراجع تقلید کے فتوے کے مطابق عقد باطل ہے۔[2]

مہر آیات و روایات کی روشنی میں

لفظ "مہر" قرآن میں استعمال نہیں ہوا ہے [3] بلکہ مہر کی بجائے "صَدُقات»" [4]، "اجور" (اکثر اوقات متعہ اور کنیزوں کے ساتھ شادی کے موقع پر استعمال کیا گیا ہے)[5]، "صداق" اور "فریضہ" [6] استعمال ہوا ہے۔

حق مہر کا ادا نہ کرنا جو بیوی کی ملکیت ہے، قرآن میں آشکار ظلم اور گناہ سے تعبیر کیا ہے۔[7]

قرآن کی سورہ نساء کی آیت سانچہ:حديث[8] میں حق مَہر کو "صَدُقَہ" کے عنوان سے یاد کیا ہے جو صدق کے مادے سے ہے، یہ خود علقہ زوجیت کے سچا ہونے اور مرد کی رغبت کی نشانی ہے۔[9] دوسری بات یہ کہ "هنّ" می ضمیر کے ذریعے حق مہر کو عورت کی ملکیت قرار دی گئی ہے نہ بیوی کے ماں باپ کی ملکیت، تاکہ وہ اسے اپنا حق الزحمہ قرار دیں۔ ثالثاً "نِحلَہ" کا لفظ تصریح کر رہا ہے کہ حق مہر ایک پیشکش ہے نہ بیوی کی قیمت۔ جبکہ موجودہ دور میں بعض یہ توہم کرتے ہوئے کہ حق مہر عورت کی قیمت ہے، بے تہاشا مال دو دولت کا مطالبہ کرتے ہیں اور اسلام کا مقرر کردہ حق مہر کو عورت کی شان و منزلت کے خلاف فرض کرتے ہیں۔ حق مہر خدا کی طرف سے بیوی کیلئے ایک عطیہ اور ہدیہ ہے جس پر مرد کا کوئی احسان نہیں ہے۔

امام باقر(ع) فرماتے ہیں: سانچہ:حديث[10] یعنی حق مہر وہ چیز ہے جس پر طرفین (مرد اور عورت) راضی ہو چاہے کم ہو یا زیادہ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے حق مہر کی زیادہ سے زیادہ مقدار کو کسی بھی صورت میں معین نہیں کیا جا سکتا۔ امام صادق(ع) قیامت کے دن معاف نہ ہونے والی چیزوں میں سے ایک کو عورتوں کا حق مہر قرار دیتے ہیں جنہیں ادا نہ کیا گیا ہو۔

احادیث میں بیوی کی بد قسمتی کی علامتوں میں سے ایک کو اس کے حق مہر کا زیادہ ہونا قرار دیتے ہیں۔ [11] اور اسے خاندان میں کینہ توزی کا سبب قرار دیا گیا ہے۔[12] پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: عورتوں کے تین گروہ کیلئے عذاب قبر نہیں ہو گا اور قیامت کے دن حضرت زہرا(س) کے ساتھ محشور ہونگے: وہ عورت جو اپنے شوہر کے فقر اور تنگ دستی کے ساتھ سازگاری اختیار کرتی ہے، وہ عورت جو شوہر کی بد اخلاقی پر صبر کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتی اور وہ عورت جو اپنا حق مہر شوہر کیلئے بخش دے۔ [13]

مہر السنہ

حوالہ جات

  1. سایٹ دختیران
  2. مجلہ حوزہ
  3. فرہنگ موضوعی قرآن مجید. تالیف کامران فانی و بہاءالدین خرمشاہی، مہریہ
  4. در آیۀ چہارم سورہ نساء
  5. دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، ص۴۷
  6. و ان طلقتموہن من قبل ان تمسوہن و قد فرضتم لہن فریضۃ فنصف ما فرضتم
  7. نساء ۲۰ و ۲۱
  8. نساء، ۴
  9. . مسالک الافہام، ج ۳، ص۱۸۴.
  10. وسائل، ج ۱۴، ص۶۰۴
  11. میزان الحکمہ، ج ۲، ص۱۱۸۲:سانچہ:حديث
  12. عن النبی(ص): حق مہر میں سخت گیری نہ کی جائے کیونکہ مرد عورت کے اضافی اخراجات تو کسی طور پر بھی دے دیتا ہے لیکن اس کے دل میں بیوی سے متعلق کینہ اور دشمنی ایجاد ہو جاتی ہے۔ میزان الحکمہ، ج ۲، ص۱۱۸۲
  13. مواعظ العدیدہ، ص۷۵.

منابع

  • فرہنگ موضوعی قرآن مجید: الفہرس الموضوعی للقرآن الکریم. کامران فانی؛ بہاء‌الدین خرمشاہی، انتشارات ہدی، ۱۳۶۹ش.
  • دکتر محمد خزائلی، احکام قرآن، انتشارات جاویدان.
  • مسالک الافہام، زین الدین بن علی العاملی الشہید الثانی، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، قم، ۱۴۱۴ق.
  • شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ق.
  • محمدی ری شہری، میزان الحکمہ، انتشارات دارالحدیث.
  • مشکینی، علی، مواعظ العددیہ، نشر الہادی.
  • ابن شہر آشوب، مناقب، موسسہ انتشارات علامہ، بی‌تا.
  • متقی ہندی، فاضل، کنزالعمال، موسسہ الرسالہ.
  • علامہ مجلسی محمد باقر، بحار الانوار، دارالکتب اسلامیۃ، تہران، ۱۳۶۲ش.
  • نجفی، محمد حسن، جواہرالکلام، انتشارات دایرۃ المعارف فقہ اسلامی.
  • توضیح المسائل مراجع، انتشارات جامعہ مدرسین، قم.