کتاب سلیم بن قیس
مشخصات | |
---|---|
مصنف | سلیم بن قیس ہلالی |
سنہ تصنیف | صدر اسلام |
موضوع | صدر اسلام کی تاریخ |
طرز تحریر | روایی |
زبان | عربی |
تعداد جلد | 1 |
ترجمہ | اردو، فارسی |
طباعت اور اشاعت | |
ناشر | الہادی |
مقام اشاعت | قم |
سنہ اشاعت | 1405ھ |
اردو ترجمہ | |
نام کتاب | کتاب سلیم بن قیس |
مترجم | سید ذیشان حیدر جوادی، شیخ ملک محمد شریف |
کتابُ سُلَیْم بْن قِیْس ہلالی عربی زبان میں لکھی گئی ایک کتاب ہے جسے اسرار آل محمد و کتاب سُلَیم سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ کتاب اہل بیتؑ کے فضائل، امام شناسی اور رحلت پیغمبر اکرمؐ کے بعد کے حوادث کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے سلیم بن قیس کی طرف منسوب ہونے میں شیعہ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ میر حامد حسین ہندی، سُلَیم بن قیس کی کتاب کو شیعہ کتابوں میں سب سے قدیمی اور افضل جانتے ہیں۔ جبکہ شہید ثانی اور ابن غضائری اسے جعلی سمجھتے ہیں اور شیخ مفید نے اس کتاب کی اکثر روایات پر عمل کرنے سے منع کیا ہے۔
یہ کتاب 48 لمبی روایات پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر امام علیؑ، سلمان فارسی، مقداد بن اسود اور ابوذر غفاری سے نقل ہوئی ہیں۔ اس کتاب کے بارے میں اختلاف کے باوجود شیخ مفید، محقق حلی، و علامہ حلی جیسے شیعہ فقہا نے اپنی کتابوں میں اس کتاب میں مذکور روایات سے استفادہ کیا ہے۔
اس کتاب کا تصحیح شدہ نسخہ تین جلدوں میں چھپ گیا ہے جسے محمد باقر انصاری نے 14 نسخوں سے استفادہ کر کے مرتب کیا ہے: اس کی پہلی جلد میں ایک مقدمہ ذکر کیا ہے جس میں کتاب کا معتبر ہونے کو ثابت کیا ہے جبکہ دوسری اور تیسری جلد میں کتاب کی فہرست اور متن ہے۔ یہ کتاب اسرار آل محمدؐ کے نام سے فارسی میں ترجمہ ہوئی ہے اور اس کا اردو ترجمہ سید ذیشان حیدر جوادی نے کتاب سلیم بن قیس کے نام سے کیا ہے۔
اہمیت
نعمانی (متوفی 360ھ) اور ابن ندیم (متوفی پانچویں صدی ہجری کے آغاز میں) نے کتاب سُلیم کو شیعوں کی سب سے پہلی اصل (وہ کتاب جس کی احادیث بلاواسطہ معصوم سے نقل ہوئی ہیں) معرفی کیا ہے۔[1] کتاب میں موجود اعتقادی اور تاریخی مطالب اور مندرجات سے یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ یہ کتاب ہشام بن عبد الملک اموی (حکومت:105-125ھ) کی حکومت کے آخری سالوں میں کوفہ میں لکھی گئی ہے۔[2]
تاریخی اور کلامی بعض اشکالات کے باوجود اس کتاب میں موجود بعض روایات سے مختلف عصر کے شیعہ فقہا نے استناد کیا ہے۔[3] ان میں شیخ مفید، محقق حلی، علامہ حلی، ملا احمد نراقی، آخوند خراسانی اور شیخ مرتضی انصاری قابل ذکر ہیں۔[4]
خیرالدین زرکلی (1310-1396ھ) اپنی کتاب اَعلام میں سُلیم کی کتاب کو «کتابُ السَّقیفة» سے معرفی کیا ہے۔[5] اس کتاب کو «اسرار آل محمدؐ»، «کتاب فِتَن»، «کتاب وفاة النبی(ص)» اور «کتاب امامت» کا نام بھی دیا گیا ہے۔[6] آقابزرگ تہرانی اپنی کتاب الذریعہ میں ایک مرتبہ اسے «اصلُ سُلَیمِ بنِ قیسِ ہلالی» کے نام سے ذکر کیا ہے[7] اور دوسری مرتبہ اسے «کتابُ سُلَیمِ بنِ قیسِ ہلالی» کا نام دیا ہے۔[8]
مؤلف
سُلَیم بن قیس ہلالی، ان سے منسوب کتاب کے مقدمہ کے مطابق ہجرت سے دو سال پہلے پیدا ہوا یوں پیغمبر اکرمؑ کی رحلت کے وقت ان کی عمر 12 سال تھی۔ 16 سال کی عمر میں مدینہ چلا گیا اور سنہ 76 ہجری کو ایران کے شہر "نوبندجان" میں 78 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور اسی شہر میں مدفون ہیں.[9]
تیسری صدی ہجری کی علم رجال کی مشہور شیعہ کتاب رجال برقی میں سلیم بن قیس ہلالی کو شیعوں کے پہلے پانچ اماموں کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔[10] اسی طرح رجال برقی میں سلیم کا نام امام علی کے 90 اصحاب کی فہرست میں بھی شامل ہے۔[11] برقی نے امام حسنؑ کے جو گیارہ اصحاب ذکر کیا ہے ان میں سے ایک سلیم بن قیس ہلالی ہیں۔[12]سلیم کا نام امام حسینؑ کے چودہ اصحاب میں[13] امام سجادؑ کے 33 اصحاب میں شامل ہے اسی طرح ابوصادق نامی ایک شخص کا ذکر کیا ہے جسے اس کتاب میں تحقیق کرنے والے حیدر محمد علی بغدادی وہی سلیم بن قیس ہلالی قرار دیتے ہیں جن کی کنیت ابو صادق تھی۔[14]
مندرجات
سلیم بن قیس کی کتاب 48 روایات پر مشتمل ہے۔[15] اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ کی وصال کے بعد کے واقعات، امام علی کی خلافت کا دور اور ان کی فضیلت، فضائل اہل بیتؑ اور پہلی صدی ہجری کے بعض واقعات کی پیشنگوئی کی ہے۔[16]
کہا گیا ہے کہ اس کتاب کی اکثر احادیث امام علیؑ، سلمان فارسی، مقداد بن اسود اور ابوذر غفاری سے نقل ہوئی ہیں۔[17] البتہ امام حسنؑ، امام حسینؑ، امام سجادؑ، عمار بن یاسر، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن جعفر اور محمد بن ابوبکر سے بھی بعض روایات اس کتاب میں ذکر ہوئی ہیں۔[18]
شیعہ فقیہ اور متکلم محمد تقی جعفر سبحانی کے مطابق اس کتاب میں مندرجہ ذیل موضوعات بیان ہوئے ہیں:
- اہل بیتؑ افضل ہونے پر تاکید؛
- پیغمبر اکرمؐ کے بعد امام علی کی ولایت اور وصایت کا اثبات؛
- پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے شیعہ ائمہ کی تعداد پر تصریح اور ان کی معرفی؛
- امام مہدیؑ کا امام حسینؑ کی نویں نسل سے ہونے کی تصریح؛
- واقعہ سقیفہ کے تفصیل اور امام علیؑ اور ان کے اصحاب کا عکس العمل؛
- حضرت علیؑ اور حضرت زہرا کے گھر پر حملہ اور آتش سوزی؛
- پیغمبر اکرمؐ کی وفات کے بعد چار صحابہ (سلمان، ابوذر مقداد و زبیر) کے علاوہ باقی سب کا مرتد ہونا؛
- ابوبکر کے حکم سے خالد بن ولید کی امام علیؑ کے قتل کی سازش؛
- خلیفہ اول اور دوم کا ایمان نہ لانا اور اسلام سے پہلے کے عقیدے پر باقی رہنا؛
- امام علیؑ کا قرآن کی جمع آوری اور عمر و عثمان کی جمع آوری پر آپ کا موقف؛
- پیغمبر اکرمؐ اور امام علیؑ کی طرف سے اموی ظالم حکومت اور شیعوں پر ظلم کی پیشنگوئی۔[19]
مختلف نظریات؛ جعلی سے کامل تائید تک
سلیم بن قیس کی کتاب کے بارے میں مختلف اور متضاد نظریات بیان ہوئے ہیں: محمد بن ابراہیم نعمانی اس کی پوری طرح سے تائید کرتا ہے اور اسے شیعہ احادیث کی معتبر کتاب قرار دیتے ہیں[20] شیخ مفید نے اگرچہ اس کے معتبر ہونے کو نفی نہیں کیا ہے لیکن اس میں تحریف ہونے کا اذعان کیا ہے۔[21] ابنغضائری اور شہید ثانی کتاب سلیم میں اَبان بن ابیعیاش کی ہاتھوں جعل سازی کے قائل ہیں۔[22]
کتاب معتبر ہونے کی تائید
چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مفسر و محدث محمد بن ابراہیم نعمانی اپنی کتاب کتاب الغیبہ میں سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعہ علما اور راویوں کے ہاں سب سے معتبر کتاب اور بہت اہم کتاب قرار دیا ہے۔[23]
چوتھی صدی ہجری کے فہرست نگار اور ماہر کتابیات ابن ندیم، سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعوں میں پہلی تدوین شدہ کتاب سمجھتے ہیں۔[24] کتاب عَبَقات الانوار کے مؤلف میر حامد حسین سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعہ کتابوں میں سب سے قدیمی اور افضل سمجھتے ہیں۔ [25]
محمد باقر خوانساری اپنی کتاب روضات الجنات میں سلیم کی کتاب کو مسلمان میں حدیث کی سب سے پہلی مدون کتاب قرار دیتے ہیں۔[26] اسی طرح محدث قمی اسے شیعوں کی پہلی اور محدثین کے مابین مشہور کتاب سمجھتے ہیں۔[27]
کتاب کا جعلی ہونا
پانچویں صدی ہجری کے ماہرِ علم رجال ابن غضائری اپنی رجال کی کتاب میں سلیم سے منسوب کتاب کو جعلی سمجھتے ہیں، اور اس انتساب کو درست نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب اَبان بن ابی عیاش نے جعل کیا ہے اور سلیم کی طرف نسبت دی ہے۔[28] ابن داوود حلی نے بھی اپنی رجال کی کتاب میں سلیم کی کتاب کو جعلی قرار دیا ہے۔[29]
دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ شہید ثانی علامہ حلی کی کتاب خلاصة الاقوال کے حاشیے میں سلیم کی کتاب میں مذکور ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس حدیث کی وجہ سے کتاب کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ محمد بن ابوبکر نے اپنے باپ کی وفات کے دوران اسے نصیحت کی۔ اس روایت کو کتاب جعلی ہونے کی ایک دلیل قرار دیتے ہیں کیونکہ محمد بن ابوبکر حجۃ الوداع کے دوران 10 ہجری کو پیدا ہوئے ہیں اور ابوبکر 13 ہجری کو وفات ہوئے ہیں اس لئے تین سالہ بچے کا نصیحت کرنا ممکن نہیں ہے۔[30] شہید ثانی آخر میں کتاب کی سند میں ابراہیم بن عمر صنعانی اور اَبان بن ابی عیاش ہونے کی وجہ سے ضعیف ہونے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ کتاب میں موجود غیر صحیح مطالب کو جدا کیا جائے اور باقی مطالب کو نہ رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی تائید کی جاسکتی ہے۔[31]
محقق قرآن و حدیث ابو الحسن شعرانی شرح اصول کافی کے حاشیے میں سلیم بن قیس کی کتاب کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں بعض ناصحیح مندرجات پائے جاتے ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے مگر یہ کہ کوئی عقلی یا نقلی شاہد اس کی تائید کے لئے موجود ہو۔[32]
نہ پوری جعلی اور نہ پوری اصلی
پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم شیخ مفید اپنی کتاب تصحیح اعتقادات الامامیہ میں سلیم بن قیس کی کتاب میں موجود اکثر احادیث میں دخل و تصرف کی وجہ سے جائز نہیں سمجھتے ہیں اور دینداروں کو اس پر عمل کرنے سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں[33] آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ و متکلم علامہ حلی اپنی کتاب خلاصة الاقوال میں اگرچہ سلیم بن قیس کو عادل سمجھتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان سے منسوب کتاب میں موجود نادرست مطالب پر عمل کرنے سے اجتناب کیا جائے۔[34]
محمد تقی شوشتری نے بھی اپنی کتاب قاموس الرجال میں سلیم کی کتاب جعلی ہونے کے بارے میں ابن غضائری کی بات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں اصل کتاب جعلی نہیں ہے؛ بلکہ دشمنوں نے اس کتاب میں کچھ چیزیں خود سے اس میں شامل کیا ہے۔[35]
نقد و نظر
محققین نے سلیم کی کتاب کے مندرجات پر نقد کیا ہے۔ قاسم جوادی نے ایک مقالے میں 18 مورد بیان کیا ہے[36] جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- وفات کے بعد حدیث کی روایت کرنا: اس کتاب میں ابراہیم نخعی کی وفات کے دوران کی ایک حدیث نقل ہوئی ہے؛ جبکہ سلیم سنہ 76ھ میں وفات پائے ہیں اور ابراہیم نخعی سنہ 95 یا 96ھ کو وفات پاگئے ہیں۔ محمد باقر انصاری زنجانی جنہوں نے کتاب سلیم کی تحقیق و تصحیح کی ہے اس مشکل کے حل کے لئے اس روایت کی ابان بن ابی عیاش کی طرف نسبت دی ہے جبکہ اس طرح کے اشکال کے لئے یہی جواب دیا جائے کہ یہ کتاب سلیم کی نہیں اور اس حدیث کا انتساب کسی اور کی طرف دینا مشکل کا حل نہیں ہے۔[37]
- پیغمبر اکرمؐ کا امام علیؑ کو بھائی کہہ کر خطاب کرنا: اس کتاب کی ایک حدیث میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے امام علی کو کبھی بھائی کہہ کر نہیں پکارا ہے؛ درحالیکہ اسی کتاب میں ایک اور حدیث نقل ہوئی ہے کہ پیامبر(ص) نے امام علیؑ کو اس طرح کے عنوان سے خطاب کیا ہے۔ اس طرح سے دو قسم کی روایات کا کتاب میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اصل کتاب میں کچھ تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔[38]
- تاریخی مسلمات سے تضاد: سلیم بن قیس کی کتاب میں مذکور بعض روایات تاریخی مسلمات سے سازگار نہیں ہیں؛ جیسے ایک روایت میں کہا گیا ہے کہ عثمان کے بعد معاویہ اور اس کا بیٹا حاکم بنیں گے؛ جبکہ عثمان کے بعد امام علیؑ کی خلافت کا آغاز ہوا ہے۔ ایک اور مورد میں بنی امیہ کے خلفا کی تعداد کو ایک حدیث میں دس افراد قرار دیا ہے جبکہ ان کی تعداد 14 تھی۔[39]
کتاب کے نسخے
سلیم بن قیس کی کتاب کے خطی نسخوں کی تعداد 69 تک بتائی گئی ہے۔[40] دانش نامہ جہان اسلام میں عمادی حائری کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے نسخے چوتھی صدی ہجری سے اختلافات کا شکار ہیں اور مختلف ادوار میں مختلف مطالب اس میں شامل کی گئی ہیں۔[41] کتابِ سلیم بن قیس کا تصحیح شدہ نسخہ محمد باقر انصاری زنجانی کے توسط سنہ 1415ھ میں چھپ گیا۔ یہ نسخہ چودہ خطی نسخوں پر تحقیق کا نتیجہ ہے۔ پہلی جلد میں کتاب معتبر ہونے کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے جبکہ دوسری اور تیسری جلد میں کتاب کا متن اور فہرست شامل ہے۔[42]
ترجمہ
- شیخ ملک محمد شریف بن شیر محمد شاہ رسولوی ملتانی نے سنہ 1375ھ کو اس کتاب کا اردو ترجمہ کیا؛
- سید ذیشان حیدر جوادی نے نجف اشرف میں زمانہ طالب علمی (1955 سے 1965 تک) کے دوران اس کا اردو میں ترجمہ کیا۔[43]
- فارسی ترجمہ پہلی بار سنہ 1400ھ میں نجف میں چھپ گیا؛
- فارسی ترجمہ اور عربی متن کے ساتھ سنہ 1412ھ میں شیخ محمد باقر کمرہای نے انجام دیا؛
- اسماعیل انصاری زنجانی نے «اسرار آل محمدؑ» کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا؛[44]
- «تاریخ سیاسی صدر اسلام» کے نام سے محمود رضا افتخار زادہ نے ترجمہ کیا۔
تلخیص
علم حدیث کی ماہرین میں سے دو علما نے اس کتاب کا خلاصہ منتخب کتاب سلیم کے نام سے مرتب کیا ہے:
- شیخ عبد الحمید بن عبد اللہ کرہرودی اور سید محمد علی شاہ عبد العظیمی (متوفی 1334 ھ) نے اس کتاب کی بعض احادیث کو انتخاب کر کے منتخب کتاب سلیم کے نام سے اس کا خلاصہ مرتب کیا ہے[45]
- مرزا یوسف حسین لکھنوی نے اس کتاب کو اسرار امامت کے نام سے اردو میں خلاصہ کیا ہے جو معصوم پبلیکیشنز کھرمنگ سکردو بلتستان سے 1425ھ کو چھپ گیا۔[46]
حوالہ جات
- ↑ عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص465.
- ↑ عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص465-466.
- ↑ عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص466.
- ↑ عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص466.
- ↑ زرکلی، الاعلام، ج3، ص119.
- ↑ ہلالی، اسرار آل محمد، 1416ھ، ص47.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعة، 1403ھ، ج2، ص152.
- ↑ آقابزرگ تہرانی، الذریعة، 1403ھ، ج17، ص276.
- ↑ اسرار آل محمد، ص 17 بہ بعد.
- ↑ برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص64.
- ↑ برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص39.
- ↑ برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص58.
- ↑ برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص61.
- ↑ برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص64.
- ↑ عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص465.
- ↑ عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص465.
- ↑ عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص465.
- ↑ عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص465.
- ↑ سبحانی، «گامی دیگر در شناسایی و احیای کتاب سلیم بن قیس ہلالی»، ص21.
- ↑ نعمانی، الغیبہ، 1432ھ، ص103-104.
- ↑ شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، ص149.
- ↑ ابنغضائری، الرجال لابن الغضائری، 1422ھ، ص36؛ شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1380شمسی، ج2، ص992-993.
- ↑ نعمانی، الغیبہ، 1432ھ، ص103-104.
- ↑ ابنندیم، الفہرست، 1417ھ، ص271.
- ↑ کنتوری، عبقات الانوار، 1404ھ، ج2، ص309.
- ↑ خوانساری، روضات الجنات، 1390ھ، ج4، ص67.
- ↑ قمی، الکنی و الالقاب، 1397ھ، ج3، ص293.
- ↑ ابنغضائری، الرجال لابن الغضائری، 1422ھ، ص36.
- ↑ ابنداود، کتاب الرجال، 1392ھ، ص460.
- ↑ شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1380شمسی، ج2، ص992-993.
- ↑ شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1380شمسی، ج2، ص992-993.
- ↑ ملاصالح مازندرانی، شرح اصول کافی، تعلیقہ ابوالحسن شعرانی، ج2، ص373 و 163.
- ↑ شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، ص149.
- ↑ علامہ حلی، خلاصة الاقوال، 1417ھ، ص163.
- ↑ شوشتری، قاموس الرجال، 1414ھ، ج5، ص239.
- ↑ جوادی، «کتاب سلیم بن قیس ہلالی»، ص166-179.
- ↑ جوادی، «کتاب سلیم بن قیس ہلالی»، ص166.
- ↑ جوادی، «کتاب سلیم بن قیس ہلالی»، ص167.
- ↑ جوادی، «کتاب سلیم بن قیس ہلالی»، ص170.
- ↑ جلالی، «پژوہشی دربارہ سلیم بن قیس ہلالی»، ص90.
- ↑ عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص466.
- ↑ ملکی معاف، «مؤلف کتاب اسرار آل محمد(ص) بر ترازوی نقد»، ص150.
- ↑ https://library.tebyan.net/fa/Viewer/Text/86193/1
- ↑ ہلالی، اسرار آل محمد، 1416ھ، ص154-155.
- ↑ اسرار آل محمد، ص 154.
- ↑ اسرارِ امامت (تلخیص کتاب سُلَیْم بن قیس ہلالی)، ویب سائٹ:مرکز احیاء آثار برصغیر
مآخذ
- آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة إلی تصانیف الشیعہ، مقدمہ محمدحسن آلکاشفالغطاء، بیروت، دارالأضواء، 1403ق/1983م.
- ابنغضائری، احمد بن حسین، الرجال لابن الغضائری، تحقیق سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، دارالحدیث، 1422ق/1380ہجری شمسی۔
- ابنندیم، الفہرست، تحقیق ابراہیم رمضان، بیروت، دار المعرفہ، 1417ق/1997م.
- برقی، احمد بن عبداللہ، رجال البرقی، تحقیق و تعلیق حیدر محمدعلی البغدادی، با اشراف جعفر سبحانی، قم، مؤسسة الإمام الصادق، 1433ق/1391ہجری شمسی۔
- جلالی، عبدالمہدی، «پژوہشی دربارہ سلیم بن قیس ہلالی»، فصلنامہ مطالعات اسلامی، شمارہ 60، تابستان 1382ہجری شمسی۔
- جوادی، قاسم، «کتاب سلیم بن قیس ہلالی»، در فصلنامہ علوم حدیث، بہار و تابستان 1384شمسی، شمارہ 35 و 36.
- ابنداوود حلی، حسن، کتاب الرجال، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، نجف، مطبعة الحیدریة، 1392ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصة الاقوال، مؤسسة نشر الفقاہة، 1417ھ۔
- خوانساری، محمدباقر، روضات الجنات، قم، اسماعیلیان، 1390ھ۔
- زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم.
- شوشتری، محمدتقی، قاموس الرجال، قم، جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1414ھ۔
- شہید ثانی، زینالدین بن علی، رسائل الشہید الثانی، تحقیق رضا مختاری، ج2، قم، بوستان کتاب قم، 1422ق/1380ہجری شمسی۔
- شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الإمامیہ، تصحیح حسین درگاہی.
- عمادی حائری، سید محمد، «سلیم بن قیس ہلالی»، در دانشنامہ جہان اسلام، زیرنظر غلامعلی حدادعادل، ج24، تہران، بنیاد دائرةالمعارف اسلامی، 1375ہجری شمسی۔
- کنتوری، میر حامد حسین، عبقات الانوار، تحقیق غلامرضا مولانا بروجردی، قم، غلامرضا مولانا بروجردی، 1404ھ۔
- ملکی معاف، اسلام، «مؤلف کتاب اسرار آل محمد(ص) بر ترازوی نقد»، در مجلہ مطالعات قرآن و حدیث، سال اول، شمارہ دوم، بہار و تابستان 1387ہجری شمسی۔
- نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تحقیق فارس حسون کریم، بیروت، دارالجوادین، 1432ق/2011م.
- ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم، قم، ہادی، 1405ھ۔