والدین پر احسان

ویکی شیعہ سے
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

والدین پر احسان کا مطلب والدین کا احترام، ان کی تعظیم اور ان کے ساتھ ہر قسم کی نیکی کرنا ہے۔ قرآن میں والدین کے ساتھ نیک سلوک روا رکھنے کا حکم خدا کی اطاعت کرنے کے حکم کے ساتھ آیا ہے۔ مفسرین قرآن کے اس حکم میں ہر قسم کے والدین کو شامل سمجھتے ہیں چاہے وہ کافر ہوں یا مسلمان، نیکوکار ہوں یا گناہ گار۔

شیعہ اور اہل سنت حدیثی منابع میں والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کو خدا کے یہاں سب سے افضل اور پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ معصومینؑ کی احادیث میں والدین کے ساتھ نیک سلوک روا رکھنے کے مختلف فوائد بیان ہوئے ہیں؛ من جملہ ان میں: رزق و روزی میں اضافہ، طول عمر، سَکرات موت میں آسانی، گناہوں کی مغفرت اور قیامت کے دن بہشت کا مستحق قرار پانا شامل ہیں۔

والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ اور ان کے ساتھ کسی قسم کی سختی سے پیش نہ آنا، محبت بھری نظروں سے دیکھنا اور ان کے سامنے آواز بلند نہ کرنے کو والدین پر احسان کرنے کے مصادیق میں شمار کیا گیا ہے۔

مفہوم‌ شناسی اور اہمیت

{{جعبہ نقل قول | عنوان = ارشاد باری تعالی | نویسنده = سورہ اِسراء | نقل قول = وَقَضَيٰ رَ‌بُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِياهُ وَبِالْوَالِدَينِ إِحْسَانًا إِمَّا يبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ کِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْ‌هُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا کَرِ‌يمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّ‌حْمَة وَقُل رَّ‌بِّ ارْ‌حَمْهُمَا کَمَا رَ‌بَّيانِي صَغِيرً‌ا  (ترجمہ: اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے تک پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو۔ اور ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور ان کے سامنے مہر و مہربانی کے ساتھ انکساری کا پہلو جھکائے رکھو اور کہو اے پروردگار تو ان دونوں پر اسی طرح رحم و کرم فرما جس طرح انہوں نے میرے بچپنے میں مجھے پالا( اور میری پرورش کی)۔) والدین پر احسان کرنا قرآن کے مورد تأئید احکام میں سے ہیں[1] اور قرآن کی آیات میں والدین پر احسان کرنے کے حکم کو خدا کی عبادت کرنے کے حکم کے ساتھ ہم ردیف قرار دیا گیا ہے۔[2] مفسرین اس چیز کو والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی اہمیت[3] اور خدا کے یہاں اس حکم کے مقام و مرتبے کی طرف اشارہ قرار دیتے ہیں۔[4] فقہاء بھی والدین پر احسان کرنے کو ان کے بچوں پر واجب قرار دیتے ہیں۔[5] اسی طرح بعض اخلاقی کتابوں میں والدین پر احسان کرنے کو خدا کی قربت اور سعادت حاصل کرنے کا سب سے اہم سبب قرار دیا گیا ہے۔[6]

تفسیر نمونہ میں سورہ اسراء کی آیت نمبر 23 کے ذیل میں آیا ہے کہ توحید کو والدین پر احسان کرنے کے حکم کے ساتھ قرار دینے کو قرآن کی نظر میں والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی اہمیت کی عکاسی ہے۔[7]
والدین پر احسان کرنے کا مطلب ان کے ساتھ نہایت تعظیم سے پیش آنا[8] اور ہر قسم کی نیکی جو ان دونوں ہستیوں کے شایان شأن ہو اس حکم میں شامل ہیں۔[9] اسی طرح «والدین» کے ساتھ کسی قسم کی کوئی قید یا خصوصیت کا بیان نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں ہر قسم کے والدین شامل ہیں چاہے وہ نیکوکار ہوں یا بدکردار،[10] کافر ہوں یا مسلمان۔[11]

والدین پر احسان کرنے کی علت اور توحید کے ساتھ اس کا رابطہ

سانچہ:اصلی بعض مفسرین قرآن مجید میں توحید اور والدین پر احسان کرنے کے حکم کا ایک دوسرے کا ساتھ آنے کو مد نظر رکھتے ہوئے ان دونوں کے درمیان موجود رابطے کو یوں بیان کرتے ہیں کہ خدا انسان کے وجود میں آنے کی حقیقی علت ہیں جبکہ والدین ظاہری اور معیشتی علت ہیں۔[12]جس طرح حقیقی منعم ہونے کے اعتبار سے خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا واجب ہے، اسی طرح بندوں کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا بھی واجب ہے اور والدین کے علاوہ کسی نے بھی انسان کے حق میں تکلیفیں برداشت نہیں کی ہیں تو کیا یہ ہستیاں شکریہ ادا کرنے کے مستحق نہیں ہیں؟[13]
علامہ طباطبایی قرآن میں والدین پر احسان کرنے کی تأکید کی علت کو یوں بیان کرتے ہیں کہ والدین اور ان کے بچوں کے درمیان پایا جانے والا فطری بندھن نسل نو(بچوں) اور نسل قدیم(والدین) کے درمیان ایک مضبوط اور مستحکم رابطہ برقرار کرتا ہے جو خاندان کی استحکام کا سبب قرار پاتا ہے۔ سماجی روابط کے اہم ترین اکائی کی حیثیت سے خاندان کا قِوام انسانی سماج اور معاشرے کے قوام کا موجب بنتا ہے۔[14]

احادیث کی رو سے والدین پر احسان کی اہمیت

معصومینؑ کی احادیث میں والدین کے مقام و مرتبے اور ان پر احسان کرنے کی تأکید کی گئی ہے۔[15] شیعہ اور اہل سنت حدیثی مآخذ مستقل ابواب اس موضوع سے مختص کی گئی ہیں۔[16] احادیث میں والدین کے ساتھ نیک سلوک انجام دینے کو خدا کے یہاں سب سے افضل[17] پیسندیدہ اعمال[18] اور شیعوں کے برجستہ خصوصیات میں شمار کی گئی ہیں۔[19]

اسی طرح احادیث میں آیا ہے کہ والدین کی طرف محبت بھری نظروں کے ساتھ دیکھنا عبادت ہے[20] خدای کی رضایت اور غضب والدین کی خوشی اور ناراضگی پر موقوف ہے[21] اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے میں کوتاہی کے لئے کوئی عذر قابل قبول نہیں ہے۔[22]

پیغمبر اکرمؐ کی سیرت میں آیا ہے کہ آپؐ اپنی رضاعی ماں کا بہت احترام کرتے تھے[23] اور جو لوگ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرتے آپؐ ان کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔[24] احادیث میں مسلمانوں کو والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے اور ان کی دیکھ بھال میں سختیوں کو برداشت کرنے کی تاکید کی گئی ہیں،[25] گرچہ والدین مشرک [26] یا بدکار ہی کیوں نہ ہوں۔[27] اسی طرح اگر والدین بقید حیات نہیں ہیں تو ان کی مغفرت کے لئے دعا کرنے، ان کے قرضوں کو ادا کرنے اور ان کی قضا شدہ عباتوں کو انجام دینے کی بھے سفارش کی گئی ہیں۔[28]

والدہ کے ساتھ احسان کرنے کی زیادہ سفارش

سورہ احقاف کی آیت نمبر 15 میں والدین پر احسان کرنے کے حکم کے بعد اس کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے صرف والدہ کی برداشت کی کوئی زحمات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ مسلمان علماء کے مطابق یہ چیز والدہ کے حقوق کے بارے میں زیادہ خیال رکھنے کی اہمیت اور تاکید کی نشاندہی کرتی ہے۔[29] رسالۃ الحقوق میں امام سجادؑ حمل اور بچپنے کے دوران والدہ کی طرف سے برداشت کی جانے والی سخیتوں کی طرف انسان کی توجہ مبزول کرتے ہوئے بچوں کو خصوصی طور پر والدہ کی قدر دانی کرنے کی سفارش کی ہیں۔[30]
کلینی نے کتاب کافی میں ایک حدیث نقل کی ہیں کہ ایک شخص نے پیغمبر اکرمؐ سے سوال کیا کہ کس پر احسان کیا جائے؟ پیغمبر اکرم نے جواب دیا اپنی والدہ پر احسان کرو۔ اس شخص نے یہ سوال دوسری اور تیسری مرتبہ پھر دھرایا تو پیغمبر اکرم نے پھر یہی جواب دیا کہ اپنی والدہ پر احسان کرو اور جب چوتھی دفعہ یہ سوال کیا تو پیغمبر اکرم نے فرمایا اپنے والد پر احسان کرو۔[31] ایک اور حدیث میں پیغمبر اکرمؐ سے یوں منقول ہے کہ والدہ کے ساتھ نیکی کرنا گذشتہ گناہوں کا کفارہ ہے۔[32]


ایک شخص پیغمبر اکرمؐ کے پاس آیا اور کہا کہ کوئی ایسی برائی نہیں جسے میں نے انجام نہ دیا ہو۔ آیا میرے لئے توبہ اور ندامت کا کوئی راستہ ہے؟ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: آیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہیں؟ اس شخص نے کہا ہاں میرے ولد زندہ ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا جاؤ اور جا کر اپنے والد کے ساتھ نیکی کرو۔ جب وہ شخص چلا گیا تو رسول خداؐ نے فرمایا اے کاش اس کی والدہ زندہ ہوتی۔

مجلسی، بحارالانوار، ج84، ص72

احسان کے مصادیق

سورہ اسراء کی آیت نمبر 23 اور 24 میں والدین پر احسان کرنے کے حکم کے بعد اس کے بعض مصادیق کی طرف اشارہ ہوا ہے جن میں «اُف» کہنے اور کمترین تندی سے پیش آنے کی ممانعت کی گئی ہے۔[33] حدیث مآخذ میں نقل ہوا ہے کہ جب امام صادقؑ سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ والد پر احسان کرنے سے کیا مراد ہے؟ تو امام نے جواب دیا والدین پر احسان کا مطلب یہ ہے کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور قبل اس کے تم سے وہ کوئی چیز مانگے تم خود ان کے لئے ہر چیز مہیا کیا جائے اگرچہ وہ خود اسے مہیا کر سکتے ہوں تب بھی۔[34]

اس حدیث کے اگلے حصے میں آیا ہے کہ یہ جو کہا گیا ہے کہ ان کو «اُف» تک نہ کہون، یعنی اگر وہ تمہیں ناراض کرے تو ان کے ساتھ کمترین تندی بھی نہیں کرنی ہے اور یہ جو کہا گیا ہے کہ «ان کے ساتھ باوقار انداز میں بات کرو»، یعنی حتی اگر وہ تمہیں مارے پییٹے تو کہو خدا آپ لوگوں کے گناہوں کی مغفرت فرما اور یہ جو کہا گیا ہے کہ «ان کے سامنے مہربانی کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ»، یعنی ان کو گھور گھور کر مت دیکھو؛ بلکہ محب بھری گاہوں سے ان کی طرف دیکھو اور ان کے سامنے آواز بلند مت کرو۔ اسی طرح ان کو کچھ دیتے وقت اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر نہ لے جائیں اور ا ن کے ساتھ چلتے وقت اور بیٹھتے وقت ان پر سبقت نہ لے جاؤ۔[35]

والدین پر احسان کے فوائد

اگر خدا سے طول عمر چاہتے ہو تو اپنے والدین کو خوش کرو۔

کوفی اہوازی، الزہد، 1402ھ، ص35

حدیث منابع میں والدین پر احسان کے بہت سارے مادی اور معنوی فوائد کا ذکر ہوا ہے؛ من جملہ ان میں: فقر کا خاتمہ،[36] رزق‌ و روز میں برکت،[37] طول عمر،[38] سَکرات موت میں آسانی،[39] خدا کی خشنودی اور گناہوں کی بخشش،[40] اعمال کے حساب میں آسان‌[41] اور قیامت کی دن بہشت میں جگہ پانا وغیره شامل ہیں۔[42]

اسی طرح احادیث میں آیا ہے کہ بچوں کا اپنے والدین کے چہرے کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھنا خدا کی رحمت کے دروازوں کے کھلنے کا سبب بنتا ہے[43] اور اس کے لئے حج مقبول کا ثواب عطا کرتا ہے۔[44] کتاب کافی میں امام صادقؑ سے نقل ہوا ہے کہ انسان والدین پر احسان کرنے اور دنیا سے چلے جانے والے والدین کے حق میں نیک کام جیسے نماز اور صدقہ وغیرہ انجام دینے کے ذریعے مذکورہ اعمال کا ثواب حتی اس سےبھی زیادہ ثواب دریافت کر سکتا ہے۔[45]

اسی طرح دوسری احادیث کے مطابق والدین پر احسان نہ کرنا، خدا کی اطاعت سے منحرف ہونے، شکر خدا کے باطل ہونے، نسل منقطع ہونے[46] اور بہشت سے محروم ہونے[47] کا سبب بنتا ہے۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1373ہجری شمسی، ج12، ص74۔
  2. ملاحظہ کریں: سورہ نساء، آیہ 36؛ سورہ انعام، آیہ 151؛ سورہ اسراء، آیہ 23۔
  3. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج3، ص586؛ قاسمی، محاسن التأویل، 1418ھ، ج6، ص453۔
  4. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج20، ص323؛ سید قطب، فی ظلال القرآن، 1412ھ، ج4، ص2222۔
  5. نجفی، محمد حسن، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص24؛ مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، موسوعۃ الفقہ الإسلامی، ج3، ص85۔
  6. نراقی، جامع السعادات، اعلمی، ج2، ص273؛ نراقی، معراج السعادۃ، 1377ہجری شمسی، ص533؛ قمی، اخلاق و آداب، 1389ہجری شمسی، ص152۔
  7. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1373ہجری شمسی، ج12، ص74۔
  8. گنابادی، تفسیر بیان السعادۃ، 1408ھ، ج2 ص438۔
  9. ثقفی تہرانی، تفسیر روان جاوید، 1398ھ، ج3، ص351۔
  10. ابن‌شعبہ حرّانی، تحف العقول، 1404ھ، ص367۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1373ہجری شمسی، ج12، ص74؛ میرزای قمّی، جامع الشتات، 1413ھ، ج1، ص241۔
  12. بیضاوی، أنوار التنزیل، 1418ھ، ج3، ص252؛ قمی مشہدی، کنز الدقائق، 1368ہجری شمسی، ج7، ص381؛ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، 1415ھ، ج3، ص185۔
  13. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج20، ص321۔
  14. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج7، ص374 و ج13، ص80۔
  15. تجلیل تبریزی، معجم المحاسن و المساوی، 1417ھ، ج1، ص389۔
  16. نمونہ کے لئے ملاظہ کریں: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص157؛ مجلسی، بحار الانوار، ج71، ص22؛ بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج 8، ص2؛ ابوالحسین، صحیح مسلم، دارالفکر، ج8، ص1۔
  17. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص158۔
  18. بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج 8، ص2۔
  19. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص74۔
  20. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج4، ص240۔
  21. ترمذی، سنن الترمذی، 1403ھ، ج3، ص 207؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص428۔
  22. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص162۔
  23. ابوداوود، سنن ابوداوود، 1410ھ، ج2، ص507-508۔
  24. رجوع کنید کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص161۔
  25. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص162؛ شیخ صدوھ، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413، ج4، ص407 و 408۔
  26. بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج8، ص4۔
  27. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص162۔
  28. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص158؛ مازندرانی، شرح الکافی‏، 1382ھ، ج9، ص19۔
  29. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1373ہجری شمسی، ج17، ص40؛ ابن‌مفلح، الآداب الشرعیۃ و المنح المرعیۃ، 1424ھ، ج1، ص338۔
  30. شیخ صدوق، مَن لا یَحضُرُہ الفقیہ، 1413، ج2، ص621۔
  31. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص159؛ بخاری، صحیح بخاری، 1422ھ، ج8، ص2۔
  32. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص162۔
  33. فخر رازی، مفاتیح الغیب، 1420ھ، ج20، ص324۔
  34. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص157۔
  35. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص158؛ مازندرانی، شرح الکافی، 1382ھ، ج9، ص19۔
  36. شیخ صدوق، الامالی، 1376ہجری شمسی، ص389۔
  37. طبرسی، مشکاۃ الأنوار، 1385ھ، ص166۔
  38. طبرسی، مشکاۃ الأنوار، 1385ھ، ص166۔
  39. شیخ صدوق، الامالی، 1376ہجری شمسی، ص389۔
  40. کوفی اہوازی، الزہد، 1402ھ، ص35۔
  41. قطب الدین راوندی، الدعوات (سلوۃ الحزین)، 1407ھ، ص126۔
  42. شعیری، جامع الاخبار، مطبعۃ حیدریۃ، ص106۔
  43. شعیری، جامع الاخبار، مطبعۃ حیدریۃ، ص101۔
  44. ابن‌ابی الدنیا، مکارم الاخلاھ، 2004م، ص74۔
  45. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص159۔
  46. فیض کاشانی، الوافی، 1406ھ، ج5، ص1059۔
  47. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص349۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ محمد حسین نجفی۔
  • ابن‌ابی‌الدنیا، عبداللہ، مکارم الاخلاق، محقق: مجدی، سید ابراہیم، قاہرہ، چاپ مکتبۃ القرآن، 2004ء۔
  • ابن‌شعبہ حرّانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول، محقق و مصحح: غفاری، علی‌اکبر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1404ھ۔
  • ابن‌مفلح، محمد بن مفلح، الآداب الشرعیۃ و المنح المرعیۃ، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، چاپ دوم، 1424ھ۔
  • ابوالحسین، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • ابوداوود، سلیمان بن اشعث، سنن ابوداوود، چاپ سعید محمد لحام، بیروت، 1410ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، محقق: محمد زہیر، دمشھ، دار طوق النجاۃ، چاپ اول، 1422ھ۔
  • بیضاوی، عبداللہ بن عمر، أنوار التنزیل و أسرار التأویل، بیروت،دار إحیاء التراث العربی، 1418ھ۔
  • تجلیل تبریزی، ابوطالب، معجم المحاسن و المساوی، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، چاپ اول، 1417ھ۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن الترمذی، بیروت، چاپ عبدالوہاب عبداللطیف، 1403ھ۔
  • ثقفی تہرانی، محمد، تفسیر روان جاوید، تہران، انتشارات برہان، چاپ سوم، 1398ھ۔
  • سید قطب، سید بن قطب بن ابراہیم، فی ظلال القرآن، بیروت، قاہرہ، دارالشروھ، چاپ ہفدہم، 1425ھ۔
  • شعیری، محمد بن محمد، جامع الاخبار، نجف، مطبعۃ حیدریۃ، چاپ اول، بی‌تا۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی بن بابویہ، الامالی، تہران، انتشارات کتابچی، چاپ ششم، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوھ، محمد بن علی بن بابویہ، من لا یحضرہ الفقیہ، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
  • طباطبائی، سید محمدحسین‏، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامی‏، چاپ پنجم‏، 1417ھ۔
  • طبرسی، علی بن حسن، مشکاۃ الأنوار فی غرر الأخبار، نجف اشرف، المکتبۃ الحیدریۃ، چاپ دوم، 1385ھ۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر)، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فیض کاشانی، محمد بن شاہ مرتضی، تفسیر الصافی، تہران، مکتبۃ الصدر، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • فیض کاشانی، محمدمحسن بن شاہ مرتضی، الوافی، اصفہان، کتابخانہ امام أمیر المؤمنین علیؑ، 1406ھ۔
  • قاسمی، محمدجمال الدین، محاسن التأویل، تحقیق: عیون السود، محمد باسل، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ اول، 1418ھ۔
  • قطب الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، الدعوات (سلوۃ الحزین)، قم، انتشارات مدرسہ امام مہدی(عج)، چاپ اول، 1407ھ۔
  • قمی، عباس،‏ اخلاق و آداب (مقامات العلیۃ فی موجبات السعادۃ الأبدیۃ)، قم، ‏نور مطاف‏، چاپ اول، 1389ہجری شمسی۔
  • قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تحقیق حسین درگاہی، تہران، سازمان چاپ وانتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
  • کوفی اہوازی، حسین بن سعید، الزہد، قم، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ دوم، 1402ھ۔
  • گنابادی، سلطان محمد، تفسیر بیان السعادۃ فی مقامات العبادۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1408ھ۔
  • مازندرانی، محمد صالح، شرح الکافی (الاصول و الروضۃ)، محقق و مصحح: ابوالحسن شعرانی، المکتبۃ الإسلامیۃ، تہران، چاپ اول، 1382ھ۔
  • مازندرانی، محمد صالح، شرح الکافی‏، تہران، المکتبۃ الإسلامیۃ، چاپ اول، 1382ھ۔
  • مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، موسوعۃ الفقہ الإسلامی طبقا لمذہب، زیر نظر سید محمود شاہرودی، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی، چاپ اول، 1423ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، 1373ہجری شمسی۔
  • میرزای قمّی، ابوالقاسم بن محمدحسن، جامع الشتات فی أجوبۃ السؤالات، محقق و مصحح: رضوی، مرتضی، تہران، مؤسسہ کیہان، چاپ اول، 1413ھ۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، محقق و مصحح: قوچانی، عباس، آخوندی، علی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔
  • نراقی، ملا احمد، معراج السعادۃ، ہجرت، قم، چاپ پنجم، 1377ہجری شمسی۔
  • نراقی، ملا محمدمہدی، جامع السعادات، بیروت، اعلمی، چاپ چہارم، بی‌تا۔